Monday, 14 October 2024
Reporter SS

Reporter SS

 

ایمز ٹی وی(کراچی) کراچی میں چلنے والے سی این جی رکشہ بھی شہریوں کے لیے چلتا پھرتا بم بن گئے ،اس بات کا انکشاف اس وقت ہو اجب شہر میں چلنے والے رکشہ مالکان یا ڈرائیورز نے سی این جی بند ہونے کے باعث کولڈ ڈرنک یا پھر منرل واٹر کی بوتلوں میں پیٹرول بھر کر اس میں پائپ لگا کر رکشے چلانے شروع کیے اور اسی بے احتیاطی کے باعث ایسے رکشوں میں آگ لگنے کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ۔
سروے کے مطابق سی این جی کی بندش کے ایام میں رکشہ ڈرائیورزپٹرول ٹینک میں بھروانے کے بجائے بوتلوں میں پٹرول ڈلوانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں چند رکشہ ڈرائیورز کا کہنا تھا کہ پٹرول کے ٹینک میں زنگ ہونے کے باعث وہ بوتل میں پٹرول ڈالتے ہیں جبکہ چند دیگر ڈرائیوروں کا کہنا تھا کہ رکشوں میں پٹرول کے مقدار کے جانچنے کے لیے کوئی میٹر یا لائٹ نہیں دی گئی ہے جس سے یہ پتا چل سکے کہ ٹینک میں کتنا پٹرول موجود ہے تاہم بوتل میں پٹرول سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،ایک رکشہ مالک مہتاب عرف گڈوکا کہنا تھا کہ اس وقت شہر میں چلنے والے دو قسم کے سی این جی رکشے ہیں جن میں سے ایک رکشہ کے ٹینک میں 6لٹر جبکہ دوسرے میں 4لٹر پٹرول آتا ہے جسے چیک کرنے کے لیے پٹرول ٹینک کا ڈھکن کھول کر دیکھنا پڑتا ہے بصورت دیگر اسے چیک کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ موجود نہیں ۔
پنجاب چورنگی پر موجود ایک رکشہ ڈرائیور امداد عرف کیپٹن کا کہنا تھا کہ رکشہ بنانے والی کمپنی کو چاہیے تھا کہ وہ پٹرول کو چیک کرنے کے لیے کم از کم ایک لائٹ یا پھر الارم لگا دیتے جس سے اس بات کی نشاندہی ہو جاتی کہ پٹرول ختم ہونے والا ہے ، اس قسم کا کوئی بھی اشارہ ان رکشوں میں موجود نہیں ہے جس کے باعث یہ رکشہ ڈرائیورز اس قسم کا رسک لے رہے ہیں اور اس سے فوری آگ لگنے کا خدشہ بھی ہر وقت موجود رہتا ہے ۔
 

 

 

ایمز ٹی وی(کراچی) کراچی کے علاقے ملیرمیں ایک ایسا قبرستان موجود ہے جو ’’بلوچوں کے مقبرے‘‘ کے نام سے اپنی شناخت رکھتاہے ۔ 100 ایکڑ اراضی پر محیط یہ تاریخی قبرستان میمن گوٹھ کے قریب ہا شم جوکھیو گوٹھ میں واقع ہے ۔یہاں تقر یباََ 600 سے زائد پکی اور سینکڑوں کی تعداد میں کچی قبریں 700 برس سے موجودہیں ۔
اس علاقے میں قدیم بلوچ گھرانوں کی 18 فٹ اونچی قبریں دور سے ہی اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ تین منزلہ اور چار منزلہ یہ قبریں تاریخ کے اوراق کا نہ صرف ایک گمشدہ باب ہیں بلکہ بلوچی تہذیب کی عکاس بھی ہیں ۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بلوچ قبرستان میں صرف بلوچ کلمتی قبیلے کے سردار وں ، اِنکے غلاموں سمیت قبیلے کے دیگر لوگ دفن ہوئے اس لئے یہاں سرداروں اور امراء کی قبریں جیومیٹریکل طریقے سے اہرامی طرز پر بنوائی گئی ہیں۔ قبروں پر بنے نقش و نگار سے ان کی شناخت کو یقینی بنایا گیا۔ یہاں خواتین کی قبروں پر زیورات کے اور بچوں کی قبروں پر پالنے کے نقوش بنائے گئے ہیں۔ سرداروں کی قبروں کی شناخت تاج کے نشان سے کی گئی ہے ۔ ہر قبر پر مدفون شخص کا نام عربی خط میں نقش کیا گیا ہے ۔ ان میں سے بعض قبروں پر میناکاری کاعمدہ کام بھی کیا گیا ہے اور بعض پر قرآنی آیات لکھی گئی ہیں ۔یہ متناسب قبریں قطار در قطار پٹی کے طرز پرعمدہ نقش ونگاری اور ماہرانہ سنگ تراشی سے مزین ہیں ۔

صدیوں پرانی اس فنی تخلیق میں ان قبروں پر کاریگروں کاخوبصورت اور متوازن کام واضح ہے ۔ سماجی اور معاشی طور پر خوشحال کلمتی سرداروں کی قبروں کا احاطہ پیلے ، سر خی مائل پتھر میں تراشا گیا ہے ۔ ایک جانب ارد گرد بکھرے ہوئے ستون ، شہتیر اور چبوترے کے پتھرسر دار ملک طوطہ خان کی چوکنڈی کے ہیں جو بد قسمتی سے کھنڈر بن چکی ہے دوسری جانب یہاں موجود مسجد بھی منہدم ہو چکی ہے ۔ کئی مقبروں کے احا طے گر چکے ہیں اور باقی ماندہ قبریں بڑی بے در دی سے ٹوٹی اور کھدی ہوئی نظر آتی ہیں۔مہراﷲ نامی شخص پچھلے کئی برسوں سے بلوچ قبرستان میں چوکیداری کے فرائض انجام دے رہے ہیں ان قبروں کی اچھی اور بری حالت زار کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’’وہ بے بس ہیں‘‘۔
 

 

 

ایمز ٹی وی(کراچی) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے 8 اےٹی سی کورٹس کلفٹن سے سینٹرل جیل منتقل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
کراچی میں وزیراعلیٰ سندھ کی زیر صدارت اے ٹی سی کورٹس کلفٹن سے سینٹرل جیل منتقل کرنے پراجلاس ہواجس میں چیف سیکریٹری،ایڈووکیٹ جنرل سمیت دیگر افسران شریک ہوئے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ جیل سےمجرموں کواےٹی سی لانااورلےجاناخطرناک ہے، موجودہ حالات کےباعث انسداددہشت گردی عدالتیں کلفٹن میں نہیں رکھ سکتے۔
وزیراعلیٰ کو بریفنگ بھی دی گئی جس میں بتایا گیا کہ سینٹرل جیل میں پہلے سے 2 انسداد دہشت گردی عدالتیں کام کر رہی ہیں جبکہ کلفٹن میں 8 انسداد دہشت گردی عدالتیں کام کررہی ہیں۔
 

 

 

ایمز ٹی وی(کراچی) نیو کراچی کے مکان سے متحدہ لندن کے اسلحہ کی کھیپ پکڑی گئی، پولیس اہلکار سمیت تین ملزم گرفتار نیو کراچی کے علاقے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک کارروائی کے دوران اسلحے کا بڑا ذخیرہ پکڑ لیا۔
ذرائع کے مطابق، کارروائی کے دوران 1 پولیس اہلکار سمیت 3 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا پولیس اہلکار عاطف معراج کو ایم کیو ایم لندن کے عمران شیخ نے اسلحہ چھپانے کے لئے دیا تھا۔ عاطف معراج نے کرایہ پر مکان لیکر اس میں اسلحہ چھپایا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے نے مالک مکان سہولت کار جاوید اور پولیس اہلکار عاطف معراج کو گرفتار کر لیا ہے ۔
 

 

 

ایمز ٹی وی(مانیٹرنگ ڈیسک) سائنسدانوں کی ٹیم نے حال ہی میں ایک نیا روبوٹ تیار کیا ہے جو اپنے پائوں پر چلتے ہوئے شتر مرغ سے ملتا جلتا دکھائی دیتا ہے۔ منفرد انداز سے ڈیزائن کیے گئے اس روبوٹ کا نام Cassie کیسی ہے۔ اس کی پنڈلی جو کہ کسی بڑے پرندے کی پنڈلی سے مماثلت رکھتی ہے۔برطانوی اخبار کے مطابق محققین کا کہنا ہے کہ کیسی کا ڈیزائن ایسے روبوٹوں کی تیاری میں استعمال کیا جائے گا جو پارسل کی تقسیم یا امدادی کارروائیوں میں معاونت انجام دے سکیں۔
کیسی روبوٹ کو امریکا کی دو ریاستوں اوریگون اور پینسلوینیا میں قائم کمپنی ایجیلیٹی روبوٹکس کی ٹیم نے ڈیزائن کیا ہے۔ روبوٹ کا ڈیزائن اس کو کھڑے ہونے، چلنے اور یہاں تک کہ ایسے نازک انداز سے گرنے میں مدد دیتا ہے جس سے ٹوٹنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔کیسی کا وزن اوریگون یونیورسٹی میں اس سے قبل تیار کیے جانے والے روبوٹوں کے مقابلے میں آدھا ہے تاہم اس کی صلاحیت سابقہ روبوٹوں سے کہیں زیادہ ہے۔

 

 

ایمز ٹی وی(کراچی) شہر کی سڑکوں پر چلنے والی پرانی اور خستہ حال بسوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، فٹنس کی خلاف ورزی کرنے والی بسوں اور منی بسوں سمیت تمام پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں کو شہر میں چلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ضلعی انتظامیہ ٹریفک پولیس سے مل کر اس پابندی پر 20 مارچ سے عملدرآمد کرائے گی تاہم بس مالکان کو تنبیہ کی گئی کہ وہ اس دوران اپنی وہ گاڑیاں مرمت کراکر ٹھیک اور قانونی تقاضوں کے مطابق بنالیں20 مارچ سے تمام ڈپٹی کمشنرز خستہ حال بسوں کے خلاف ٹریفک پولیس کے تعاون سے مہم شروع کریں گے۔
یہ فیصلہ گزشتہ روز کمشنر کراچی اعجاز احمد خان کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیا جس میں ڈی آئی جی ٹریفک آصف اعجاز شیخ، ڈی آئی جی ایڈمنسٹریشن غلام سرور جمالی، ایڈیشنل کمشنر کراچی ۔II فرحان غنی ، ڈپٹی کمشنرز تمام اضلاع کے ایس ایس پیزٹریفک پولیس ،ڈائریکٹر ترقیات و منصوبہ بندی کمشنر کراچی سید محمد شکیب کراچی،ڈائریکڑ ٹریفک انجینئرنگ بیورو قاضی عبدالقادر ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر ارشاد بخاری کی قیادت میں وفد نے شرکت کی۔

 

 

 

ایمز ٹی وی(تجارت) فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے آزاد جموں وکشمیر کونسل میں ڈیپوٹیشن پر تعینات افسران نے واپس آنے سے انکار کر دیا۔
افسران نے ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز واپسی کیخلاف آزاد جموں و کشمیر ہائیکورٹ سے حکم امتناع حاصل کر لیا جبکہ ایف بی آر نے افسران کو واپس لانے کیلیے تجربہ کار وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دستاویز کےمطابق ایف بی آر نے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے حکم پر ڈیپوٹیشن پر کونسل میں تعینات افسران واپس بلا کر ان کیخلاف تحقیقات مکمل کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور کمیٹی کو آگاہ کیا تھا کہ تحقیقات کے دوران افسران پر کونسل میں تعیناتی کے دوران کرپشن میں ملوث ہونے کے شواہد ملنے پر انضباطی کارروائی کی جائیگی۔
ادھر ایف بی آر کا کہنا ہے ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ کونسل میں تعینات 2 افسران کرپشن و بدعنوانی میں ملوث ہیں لیکن ان میں ایک ایف بی آر کا افسر ہے جو ڈیپوٹیشن پر تعینات ہے۔
 

 

 

 

 ایمز ٹی وی(تجارت) 19 ہزار نیٹو کنٹینرز چوری اسکینڈل کی تفتیش سردخانے کی نذرہوگئی ہے۔ ایف آئی اے سابق وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ بابر غوری کے دور میں سامنے آنے والے اسکینڈل میں ان کے خلاف کوئی بھی ٹھوس شواہد سامنے لانے میں ناکام رہا ہے، سابقہ دور حکومت میں سندھ رینجرز نے انکشاف کیا تھا کہ کراچی پورٹ پر آنے والے نیٹو کے 19 ہزار کنٹینرز چوری ہوگئے ہیں جبکہ ایف آئی اے کراچی زون کے متعلقہ افسران نے سابق وفاقی وزیر بابر غوری سے رابطہ کر کے ان کا بیان بھی قلمبند کیا تھا۔
سابق وفاقی وزیر بابر غوری نے واضح طور پر کہا تھا کہ کراچی پورٹ پر پورٹ انتظامیہ کا کام صرف سہولتیں فراہم کرنا ہے، باقی ان کی ڈاکومنٹیشن سے لے کر تمام امور پاکستان کسٹمز سر انجام دیتا ہے لہٰذا ان سے پوچھا جائے،2011 میں پورٹ قاسم پر تعینات 3 اپریزرز سمیت 12 کسٹمز اہلکاروں کو معطل کر کے 3 اہلکاروں کو حراست میں بھی لیا گیا تھا لیکن بعد میں یہ کیس ٹھپ ہوگیا۔

 

 

ایمز ٹی وی(تجارت) پاکستان نے شمالی کوریا (جمہوری عوامی جمہوریہ کوریا) سے تعلق رکھنے والے اداروں، باشندوں اور ان کے پارٹنرزکے پاکستان میں موجود تمام اثاثہ جات و فنڈز فوری طور پر منجمد کرنے اور سفری پابندی عائدکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دستیاب دستاویز کے مطابق 28 فروری2017 کو ڈیڑھ بجے اسٹرٹیجک ایکسپورٹ کنٹرول ڈویژن وزارت خارجہ میں بُلائے جانے والے بین الوزارتی اجلاس میں وزارت داخلہ، وزارت پورٹس اینڈ شپننگ، وزارت صنعت و پیداوار، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، وزارت خزانہ، وزارت تجارت، وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل سمیت دیگر متعلقہ وزارتوں کے اعلیٰ حکام شریک ہوں گے۔
اجلاس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے شمالی کوریا و دیگر ممالک پر عائد پابندیوں کی قرارداد پر عملدرآمدکے بارے میں تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔ اجلاس میں سلامتی کونسل کے ماہرین کے پینلزکی رپورٹس پر بھی غور ہوگا۔ شمالی کوریا پر سلامتی کونسل کی پابندیوں کی قرارداد پر عملدرآمدکی رپورٹ بھی تیار کرکے سلامتی کونسل کو پیش کی جائے گی۔
دستیاب دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے شمالی کوریا سے تعلق رکھنے والے اداروں، باشندوں اور ان کے پارٹنرزکے یاشمالی کوریا کی حکومت و اداروں یا لوگوں کی ایماء پر بالواسطہ یا بلا واسطہ پاکستان میں کسی بھی قسم کا کوئی کاروبار، بینک اکاؤنٹ یا کوئی اثاثہ موجود ہوگا وہ سب منجمد کیا جائے گا تاہم اس حوالے سے شیڈول ایک کی فہرست میں شامل تمام اداروں اور لوگوں کے پاکستان میں پائے جانیوالے کسی بھی قسم کے اثاثہ جات کو استثنیٰ نہیں ہوگا اور سب منجمد کردیے جائیں گے۔ اسی طرح شیڈول ون کے پارٹ اے میں شامل تمام افراد کا پاکستان کے راستے راہداری پر بھی پابندی عائدکرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔کوئی پاکستانی یا غیر ملکی ان لوگوں کے ایما پر پاکستان میں کسی قسم کی کوئی سرگرمی جاری نہیں رکھ سکے گا۔
واضح رہے کہ خصوصی ٹیچنگ اینڈ ٹریننگ، کوئلہ و معدنیات کے ساتھ ساتھ ایندھن کی نقل و حمل پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے۔ وزارت خارجہ نے 28 فروری کو اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کا بین الوزارتی اجلاس طلب کرلیا ہے۔

 

 

 

ایمزٹی وی(مانیٹرنگ ڈیسک) نیوزی لینڈ کے ماہرینِ ارضیات نے مطالبہ کیا ہے کہ سمندر کے نیچے واقع زمین کے ایک وسیع ٹکڑے کو آٹھویں براعظم یعنی ’’زی لینڈیا‘‘ کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے۔
یہ مطالبہ انہوں نے جیولوجیکل سوسائٹی آف امریکہ کے ریسرچ جرنل میں شائع ہونے والی ایک تازہ رپورٹ میں کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ’زی لینڈیا‘ 50 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ہے جو پڑوسی براعظم آسٹریلیا کے رقبے کا دو تہائی ہے۔ البتہ زی لینڈیا کا تقریباً 94 فیصد حصہ سطح سمندر کے نیچے ہے جبکہ اس کا صرف 6 فیصد حصہ ہی سطح سمندر سے اوپر ہے جو کچھ چھوٹے جزیروں کے علاوہ جنوبی اور شمالی نیوزی لینڈ اور نیو کیلیڈونیا کی صورت میں خشکی کے بڑے ٹکڑوں کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اس خطہ زمین کو علیحدہ براعظم قرار دلوانے کی یہ کوئی نئی کوشش نہیں بلکہ نیوزی لینڈ کے ارضیات داں نک مورٹائمر پچھلے 20 سال سے اس پر تحقیق کررہے تھے اور اعداد و شمار جمع کرنے میں مصروف تھے کیونکہ انہیں اس نئے براعظم کی موجودگی کا پورا یقین تھا۔
عام طور پر خشکی کے بڑے ٹکڑوں ہی کو براعظم شمار کیا جاتا ہے جن کی تعداد اب تک 7 ہے جن میں انٹارکٹیکا، آسٹریلیا، ایشیا، یورپ، افریقہ، شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ شامل ہیں۔ نیوزی لینڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آسٹریلوی ارضیاتی پلیٹ (ٹیکٹونک پلیٹ) کا حصہ ہے اس لیے اسے علیحدہ براعظم کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔
اس مقبول رائے سے اختلاف کرتے ہوئے مورٹائمر اور ان کے ساتھیوں نے نیوزی لینڈ اور اس کے گرد و نواح میں واقع زیرآب ارضیاتی ساختوں کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اب ان کا کہنا ہے کہ ان کے مجوزہ ’’زی لینڈیا‘‘ میں وہ تمام خصوصیات ہیں جو کسی بھی جداگانہ براعظم میں ہونی چاہئیں یعنی یہ ارد گرد کی ارضیاتی ساختوں سے نسبتاً اونچا ہے، اس کی ارضیاتی خصوصیات منفرد ہیں، اس کا رقبہ بھی بالکل واضح اور قابلِ پیمائش ہے جب کہ اس کا قشر (کرسٹ) سمندری فرش کی معمول کی موٹائی سے کہیں زیادہ موٹا بھی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان تمام باتوں کی بنیاد پر ’زی لینڈیا‘ کو صرف علیحدہ نام ہی نہیں دیا جائے بلکہ اسے بین الاقوامی طور پر دنیا کا آٹھواں براعظم بھی تسلیم کیا جائے۔ مگر یہ فیصلہ اتنا آسان اور سیدھا سادا نہیں ہوگا کیونکہ فی الحال ماہرینِ ارضیات کی ایسی کوئی عالمی تنظیم موجود ہی نہیں جو ایسے کسی بھی دعوے کا تفصیل سے جائزہ لے سکے اور دنیا میں آٹھویں براعظم کے موجود ہونے یا نہ ہونے کا باضابطہ (آفیشل) اعلان ہی جاری کرسکے۔
واضح رہے کہ طبیعیات، کیمیا، حیاتیات اور فلکیات وغیرہ کی ایسی عالمی تنظیمیں موجود ہیں جو درجہ بندیوں کا جائزہ لیتی رہتی ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان میں تبدیلیاں بھی کرتی رہتی ہیں۔ اس کی مشہور مثال 2006 کا واقعہ ہے جب فلکیات دانوں کی عالمی تنظیم (آئی اے یو) نے طویل بحث و مباحثے کے بعد نظامِ شمسی میں سیاروں کی نئی تعریف مقرر کی تھی اور جس کے تحت پلوٹو کو سیاروں کی فہرست سے خارج کرتے ہوئے اسے ’’بونا سیارہ‘‘ (Dwarf Planet) قرار دیا گیا تھا۔
اس کے بعد سے دنیا بھر کی نصابی کتابوں میں بھی سیاروں کی تعریف بدل دی گئی اور آج بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ نظامِ شمسی میں 8 بڑے سیارے (Major Planets) ہیں جن میں ہماری زمین بھی شامل ہے جبکہ ابھی ہم صرف پانچ بونے سیاروں یعنی پلوٹو، سیرس، ایرس، ہاؤمیا اور ’’ماکے ماکے‘‘ سے واقف ہیں۔

اسی طرز پر ’زی لینڈیا‘ کےلیے دنیا کے آٹھویں براعظم کا درجہ پانا بہت مشکل ہوگا لیکن بہت ممکن ہے کہ ماہرینِ ارضیات کی عالمی تنظیم اس حوالے سے اپنے مینڈیٹ پر نظرِ ثانی کرلے اور ہمیں جلد ہی اس مسئلے کا کوئی حل میسر آجائےبتاتے چلیں کہ ویلنگٹن، نیوزی لینڈ میں جنگلی حیات کی ایک محفوظ پناہ گاہ ’’کروری وائلڈ لائف سینکچوئری‘‘ کا نیا نام بھی ’’زی لینڈیا‘‘ ہے اور اسی سے متاثر ہوکر ماہرینِ ارضیات نے مجوزہ آٹھویں براعظم کےلیے یہ نام منتخب کیا ہے۔