Tuesday, 15 October 2024
Reporter SS

Reporter SS

 
 
 
نیویارک: ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جسم میں وٹامن ڈی کی سطح جتنی کم ہوگی اتنا ہی کرونا وائرس کا خطرہ زیادہ ہوگا۔
 
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے کرونا وائرس لگنے اور کو وِڈ نائنٹین انفیکشن سے مرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
 
ابتدائی تحقیق میں یہ عارضی ثبوت سامنے آیا ہے کہ حیاتین ڈی کی کم سطح کی وجہ سے زیادہ امکان ہے کہ کرونا وائرس لگنے کے بعد مریض مر جائے گا۔
 
اس تحقیق میں 20 یورپی ممالک میں اوسطاً وٹامن ڈی کی سطح کا موازنہ کیا گیا ہے جہاں کو وِڈ نائنٹین کے انفیکشن اور اس سے اموات کا ریکارڈ موجود تھا، اس سے یہ معقول انکشاف ہوا کہ جن ممالک میں حیاتین ڈی کی سطح کم تھی وہاں کو وِڈ نائنٹین انفیکشن کی شرح کے ساتھ اموات کی شرح بھی زیادہ تھی۔
 
اس تحقیقی مطالعے کا ابھی دیگر سائنس دانوں نے جائزہ (peer-review) نہیں لیا ہے، جس سے مذکورہ ثبوت کی مزید توثیق نہیں ہوئی ہے، تاہم کوئین الزیبتھ اسپتال فاؤنڈیشن ٹرسٹ اور یونی ورسٹی آف ایسٹ انجلیا کے سائنس دانوں نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ ‘ہم یقین کے ساتھ سارس کو وِڈ 2 انفیکشن کے خلاف تحفظ کے لیے وٹامن ڈی سپلیمنٹ کی تجویز دے سکتے ہیں۔’
 
اس تحقیق کو اس سے قبل ہونے والی ایک اور تحقیق بھی سہارا دیتی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ وٹامن ڈی کے استعمال سے کرونا وائرس لگنے کے بعد مریض کی صحت یابی کا امکان بڑھ جاتا ہے، اس سلسلے میں یونی ورسٹی آف گریناڈا کی 10 ہفتوں پر مشتمل ٹرائل ابھی جاری ہے، جو کہ ٹرینٹی کالج ڈبلن کی ایک حالیہ تحقیق کے بعد شروع کیا گیا ہے، جس میں دیکھا گیا کہ جن افراد نے وٹامن ڈی سپلیمنٹ لیا ان میں چیسٹ انفیکشن 50 فی صد کم ہوا۔
 
حالیہ تحقیق نے اس سے قبل کی تحقیقاتی اسٹڈیز کی مدد سے یہ بھی دیکھا ہے کہ جن معمر افراد میں وٹامن ڈی کی سطح کم تھی، ان میں کرونا وائرس لگنے سے اموات کا خطرہ زیادہ پایا گیا۔
 
تحقیق کے مطابق جن یورپی ممالک سے سیرم سیمپلز لیے گئے ان میں وٹامن ڈی کی اوسطاً مقدار 56nmol/l پائی گئی، جب کہ 30nmol/l سے کم سطح شدید کمی کا اشارہ کرتی ہے۔ تحقیق میں دیکھا گیا کہ اسپین میں وٹامن ڈی کی سطح 26nmol/L تھی، اٹلی میں 28nmol/L، سوئٹزرلینڈ کے نرسنگ ہومز میں 23nmol/L، اٹلی میں 70 سالہ عورتوں کے 76 فی صد میں 30nmol/L سے کم سطح تھی۔ خیال رہے کہ ان ممالک میں کرونا کیسز اور اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔
 
واضح رہے کہ وٹامن ڈی مچھلی اور مشروم جیسی غذاؤں کے ذریعے انسانی جسم میں اپنا راستہ بناتا ہے یا سورج کی روشنی میں جلد میں موجود خلیات کے ذریعے پیدا ہو سکتا ہے۔

 کورونا وائرس کی ویکسین کی انسانوں پر طبی آزمایش شروع ہوگئی ہے اور 2020 کے آخر تک یہ ممکنہ ویکسین دستیاب ہوجائے گی۔

امریکی کمپنی کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے والے جرمن کمپنی نے انسانوں پر اس کی طبی آزمائش شروع کردی ہے اور ممکنہ طور پر اس سال کے آخر تک لاکھوں افراد کو یہ ویکسین فراہم کردی جائے گی۔
امریکی جریدے میں شایع ہونے والی خبر کے مطابق امریکی دوا ساز کمپنی فائزر کا کہنا ہے کہ امریکا میں ویکسین کی طبی آزمائش آئندہ ہفتے سے شروع ہوجائی گی اور کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اس کا استعمال بھی جلد کیا جاسکے گا۔
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق 23 اپریل کو طبی آزمائش کے شرکا کو ویکسین کی پہلی ڈوز دے دی گئی ہے اور جرمنی میں ابتدائی طور پر اس آزمایش میں 12 افراد شریک ہوئے ہیں۔ تاہم ابھی تک ویکسین کے نتائج کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہے۔
جرمنی کے وفاقی ادارہ برائے ویکسین اور بائیومیڈیکل ادویہ نے 22 اپریل کو جرمن کمپنی بائیون ٹیک اور فائزرکو کورونا وائرس ویکسین کی طبی آزمائش کرنے کی منظور دی تھی۔ دونوں کمپنیاں مشترکہ طور پر پہلے یورپ اور پھر امریکا میں ویکسین کی آزمائش کریں گی۔ آزمایش کے نتائج اور متعلقہ اداروں کی منظوری کے بعد 2021 تک کرورڑوں کی تعداد میں ویکسین تیار کی جائے گی۔

 اس وقت دنیا میں کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کے لیے 6 پروگرام کی طبی آزمائش شروع ہوچکی ہے اور 80 پروگرام ابتدائی مراحل میں ہیں۔

چینی سائنسدانوں نے انسانی جسم میں کورونا وائرس کی تشخیص اور اس کے خلاف مؤثر اینٹی باڈیز کی موجودگی کا بیک وقت سراغ لگانے کےلیے ایک نیا ٹیسٹ ایجاد کرلیا ہے جو صرف 10 منٹ میں انتہائی درست نتائج دیتا ہے۔

امریکن کیمیکل سوسائٹی کے ایک نمائندہ تحقیقی مجلے ’’اینالیٹیکل کیمسٹری‘‘ کی تازہ ترین آن لائن اشاعت میں شائع شدہ مقالے کے مطابق، چینی ماہرین نے جس تکنیک سے استفادہ کیا ہے وہ ’’لیٹرل فلو امیونوایسے‘‘ (ایل ایف اے) کہلاتی ہے اور عملاً وہی تکنیک ہے جو حمل (پریگنینسی) کا پتا چلانے والے گھریلو ٹیسٹ میں عام استعمال ہوتی ہے۔
معمولی سی تبدیلی اور بہتری کے ساتھ ایل ایف اے تکنیک پر مبنی یہ ٹیسٹ نہ صرف خون میں ناول کورونا وائرس کی موجودگی یا غیر موجودگی کا پوری درستی سے پتا چلا سکتا ہے بلکہ اس وائرس سے دفاع کرنے والی اینٹی باڈیز کا بھی پتا دے سکتا ہے۔

ابتدائی تجربات کے دوران کورونا وائرس سے متاثرہ 7 افراد سے لیے گئے خون کے نمونوں کی جانچ میں استعمال آزمایا گیا، جس میں اس نے تمام نمونوں میں کورونا وائرس کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کی۔

یہ طریقہ مزید 12 ایسے نمونوں پر بھی آزمایا گیا جنہیں اس سے پہلے کورونا وائرس کی تشخیص کرنے والی عمومی تکنیک ’’آر ٹی پی سی آر‘‘ سے جانچا گیا تھا مگر ان میں سے کسی نمونے میں بھی کورونا وائرس نہیں ملا تھا۔ نئے طریقے سے جانچنے پر ان میں سے ایک نمونے میں کورونا وائرس مل گیا، جبکہ متعلقہ شخص میں کورونا وائرس کی تمام علامات موجود تھیں مگر عمومی تکنیک سے وائرس نہیں مل پایا تھا۔
ابتدائی آزمائشوں سے ’’ایل ایف اے‘‘ پر مبنی تکنیک نہ صرف ناول کورونا وائرس بلکہ مستقبل میں کسی بھی دوسرے وائرس کی فوری اور کم خرچ تشخیص میں بھی ہمارے کام آسکے گی۔ تاہم یہ معلوم نہیں کہ اس ٹیسٹ کو مارکیٹ تک پہنچنے میں کتنا وقت لگ جائے گا۔

پیرنٹس ایکشن کمیٹی کےچیئرمین محمد کاشف صابرانی کا کہنا ہے کہ 20 % بچوں کی اسکول  کی فیسوں میں کمی والدین سے مذاق ہے  جس طرح یوٹیلیٹی بلس میں تین مہینے کا ریلیف دیا گیا اس طرح اسکول کی فیسوں میں بھی تین مہینے کا ریلیف دیا جائے۔

انکا کہنا تھا کہ والدین سے تین مہینے کی اسکول  کی فیس سے نہ لی جائیں۔ اینول چارجز اور ایگزیمنیشن چارجیز بھی کہیں اسکول وصول کر رہے ہیں انہیں بھی روکا جائے۔

سارک کے آٹھ ممالک کے اشتراک سے نئی دہلی میں قائم ساؤتھ ایشین یونیورسٹی (ایس اے یو) میں مالی بے قاعدگیاں اوربے ضابطگیاں عروج پر ہیں اور بھارت یونیورسٹی کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کررہا ہے۔

کروڑوں روپے پاکستان کی جانب سے فراہم کرنے کے باوجود پاکستانی طلبہ کی تعداد انتہائی کم جبکہ فیکلٹی میں ایک استاد بھی پاکستانی نہیں، صرف ایک غیرتدریسی ملازم پاکستانی ہے جسے مستقل ملازم ہونے کے باوجود 24 گھنٹے میں واپس پاکستان بھیج دیا گیا تھا۔

بھارت میں جاری ہندواتوا لہر کے باعث بھارتی جنتا پارٹی کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی نے یونیورسٹی میں اپنی شاخ کھول لی ہے جس کی وجہ سے مسلمان بالخصوص پاکستانی طلبہ کو شدید مشکلات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے اور بعض اوقات تو ان کو نماز کی ادائیگی سے بھی روک دیا جاتا ہے۔

گزشتہ 10 برسوں کے دوران صرف 45 پاکستانی طلبہ گریجویٹ ہوسکے۔ 2017ء میں یونیورسٹی میں پاکستانی طلبہ کو داخلے دینے کے باوجود ان کو ویزے نہیں دیئے گئے جس کی وجہ سے پاکستانی طلبہ کی تعداد صرف 11 رہ گئی ہے۔

طلباء نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے باعث پچھلے مہینے سے یونیورسٹی انتظامیہ انہیں اپنے اپنے ملکوں کو واپس جانے پر مجبور کررہی ہے اور ان کی صحت کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی نے ان سے کہا ہے کہ وہ اپنا انتظام خود کریں ، ریٹرن ٹکٹ خریدیں جو عام قیمت سے کم سے کم چار یا پانچ گنا زیادہ قیمت پر دستیاب ہیں۔

ہوائی اڈے جانے تک سواری کا انتظام خود کریں جبکہ اس وقت کیمپس میں 22 کے قریب نیپالی ،11 پاکستانی، 9 سری لنکن ، 75 افغانی اور 60 بنگلہ دیشی طلباء موجود ہیں اور ان میں سے بیشتر نے اس صورتحال کو قابو میں کرنے تک قیام کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ اور (قائم مقام) صدر ، اے وی ایس ایس سے اپیل بھی کی ہے مگر انھیں کوئی جواب نہیں ملا ہے۔

پاکستان کی طرف سے وزیر خارجہ خورشید قصوری نے دستخط کئے جس میں بھارت نے یقین دلایا تھا کہ اس میں کام کرنے والے اسٹاف اور طلبہ کی ضرورت کے مطابق بلاامتیاز ویزوں کا اجراء کرے گا لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے ۔

پاکستانی طلبہ اور اسٹاف کے لئے ویزوں کا خیال نہیں رکھا جاتا، 10 فیصد کوٹا جو 21 طالبعلم بنتا ہے وہ کوٹا بھی بنگلہ دیش، افغانسان اور بھوٹان کے طلبہ کو مل جاتا ہے جن کا کوٹا بالترتیب دس چار چار فیصد ہے۔

قوائد کے تحت یونیورسٹی کے صدر اور ایگزیکٹو بورڈ کے سربراہ کو باری باری ہرملک میں تبدیل ہونا ہے مگر گزشتہ 10 سال سے بھارت کا قبضہ ہے۔

ڈھاکا میں 2004ء میں 13 ویں سارک کانفرنس کے دوران اس یونیورسٹی کی منظوری دی گئی تھی۔

قوائد کے تحت صدر، نائب صدر، رجسٹرار، ڈائریکٹر فنانس اور رجسٹرار ایک ملک کے نہیں ہوسکتے لیکن ساؤتھ ایشین یونیورسٹی میں یہ سارے عہدے بھارتیوں کے پاس ہیں۔

کراچی کی ایک مشہور یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس بھی امیدوار تھے انہیں انٹرویو کے لیے دو بار دہلی بلایا اور انٹرویو بھی اچھا اور طویل ہوا مگر انھیں پاکستانی ہونے کی وجہ سے بھرتی نہیں کیا۔

پاکستان ساؤتھ ایشیاء یونیورسٹی کو اب تک 8 لاکھ ڈالر دے چکا ہے اور51 لاکھ ڈالر فراہم کرنے ہیں جبکہ 2019ء میں صرف 6 پاکستانی طلبہ کو داخلہ ملا تھا۔ 

پاکستانی طلبہ کا کہنا تھا کہ اگر سارک یونیورسٹی کو سری لنکا یا مالدیپ نہ منتقل کیا گیا تو آئندہ چند برسوں میں ایک بھی پاکستانی طلبہ داخل نہیں ہوسکے گا۔ سری لنکا میں ہونے والی صحت کانفرنس میں سری لنکا نے میڈیکل یونیورسٹی کولمبو میں قائم کرنے کی تجویز دی تھی چنانچہ اس سارک یونیورسٹی کو سری لنکا منتقل کردیا جائے اور وہاں میڈیکل کا شعبہ قائم کردیا جائے تو بہتر ہوجائے گا کیوں کہ سری لنکا کے کوئی سیاسی عزائم نہیں۔

 

وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت نے سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سے سپریم کورٹ میں زیر التواء کیس نذر حسین بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان پر کمپلائنس رپورٹ مانگ لی ہے۔

اس سلسلے میں وزارت تعلیم کے سیکشن افسر محمد مسلم شیخ نے ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو مراسلہ بھی لکھا دیا ہے یہ کیس چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کی تعیناتی سے متعلق ہے جو13 مارچ 2020 کو لاہور میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت آیا تھا۔

خط میں پٹیشن کی کاپی بھی منسلک کی گئی ہے جس میں دہری شہریت، عمر اور تعلیمی اسناد کو چلینج کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ چیئرمین ایچ ای سی نے زیادہ تر وقت ملک سے باہر گزارا ہے اور ان کا تقرر محض سی وی پر کردیا گیا جبکہ انہوں نے پاکستان میں اپنے تحقیقی تجربے کے بارے میں کوئی دستاویزی ثبوت فراہم نہیں کیا اور محض سی وی کمیٹی کو مطمئن نہیں کرتی بلکہ کسی سیاسی اثر و رسوخ کے تحت بننے والی کمیٹی نے اس عہدے پر بھرتی کے لئے طے شدہ شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کی بھرتی کی تھی۔

 

سماجی رابطوں کی مقبول مائیکرو بلاگنگ سائٹ ٹوئٹر نے ٹوئٹر ایس ایم ایس سروس بند رکھتے ہوئے خاموشی سے لاکھوں اکاؤنٹس بند کردیے۔

ٹوئٹر کمپنی نے اپنے ٹوئٹر سپورٹ پیج سے گزشتہ برس ستمبر میں اعلان کیا تھا کہ صرف چند مقامات کے علاوہ پوری دنیا میں ٹوئٹر ایس ایم ایس سروس یعنی موبائل پیغامات سے ٹوئٹ کرنا بند کردیے گئے ہیں۔

اسی ضمن میں ٹوئٹر نے گزشتہ روز یعنی 6 ماہ بعد ایک اور ٹوئٹ شیئرکی جس میں بتایا گیا کہ صارفین کے اکاؤنٹس کی حفاظت کے لیےاس عمل کو ہم جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

کمپنی کے مطابق یہ دیکھا گیا ہے کہ ایس ایم ایس کے ذریعے ٹوئٹر اکاؤنٹس پرحملہ ہونے کا خطرہ ہے یہی وجہ ہے کہ ٹوئٹر شیئر ایس ایم ایس سروس پر پابندی برقرار رکھی ہے۔
اگرچہ ٹوئٹر ایس ایم ایس سروس بند کردی گئی ہے لیکن اس دوران صارفین کو اہم پیغامات جیسے اکاؤنٹ لاگ ان اور انہیں مینیج کرنے والے پیغامات تک رسائی ہوگی۔

ٹوئٹر کی جانب سے یہ قدم اس وقت اٹھایا گیا تھا جب گزشتہ برس ٹوئٹر کے شریک بانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) جیک ڈورسی کا اکاؤنٹ ہیک کیا گیا تھا تاہم پیغامات کی سروس میں تبدیلی کے حوالے سے ٹوئٹر نے اپنے شراکت داروں کو آگاہ کردیا تھا۔
ماضی میں دیکھا جائے تو جب ٹوئٹر کی ایس ایم ایس سروس عروج پر تھی تو متعدد صارفین اس کے ذریعے ٹوئٹ شیئر بھی کرتے تھے، اکاؤنٹ بھی بناتے تھے اور اکاؤنٹس بھی فالو کر لیا کرتے تھے۔

پیغامات کی سروس میں تبدیلی کے ساتھ ٹوئٹر نے خاموشی سے اب ان لاکھوں اکاؤنٹس کو بند کردیا ہے جو مذکورہ سروس کے تحت بنائے گئے تھے۔

اس سے متعلق ٹوئٹر ترجمان نے میش ایبل سائٹ کو بتایا کہ ٹوئٹر ایس ایم ایس سروس سے بنائے گئے اکاؤنٹس کو اس لیے ڈیلیٹ کیا گیا ہے کیونکہ ان کی تفصیلات دستیاب نہیں تھی جیسے فون نمبر، یا ای میل ایڈریس وغیرہ۔

ٹوئٹر ترجمان کا کہنا تھا کہ ان اکاؤنٹس کو ڈیلیٹ کیا گیا ہے جن سے خطرہ لاحق ہے اور اب وہ ٹیکنالوجی کو سپورٹ نہیں کرتے ہیں البتہ اس کے نتیجے میں کچھ اکاؤنٹس کے فالوورز کم ہوسکتے ہیں, ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں میں اعتماد ہو کہ ان کے پاس مصدقہ اور فعال اکاؤنٹس والے فالوورز ہیں اور اس بات یو یقینی بنانے کے لیے ہم اقدامات کرتے رہیں گے۔

چینی شہری نے اُڑ کر دفتر پہنچنے کا خواب سچ کردکھایا ٹریفک کا رش ہو اور دفتر سے دیر ہورہی ہو تو ہر شخص کا دل چاہتا کہ اُڑ کر منزل پر پہنچ جائے، ایسی ہی خواہش کو ایک چینی شہری نے عملی جامہ پہنا دیا۔ چینی صوبے ہُنان کے ایک شہری ژہاؤ دیلی نے گھر میں ہی اپنی مدد آپ کے تحت اور اپنی طویل عرصے کی جدوجہد کے بعد دفتر اڑ کر پہنچنے کے خواب کو سچ کردکھایا۔

فضا میں اڑنے والی کار 2019 میں مارکیٹ کرنے کا اعلان چینی شہری نے اپنی موٹر سائیل پر بیٹھ کر پرواز کا مظاہرہ بھی کیا ہے جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے۔ ی

اد رہے کہ ژہاؤ کی اڑنے والی موٹر سائیکل کی فوٹیج اس سے قبل بھی سامنے آئی تھی تاہم اب اس میں مزید تبدیلیاں کی گئی ہیں اور یہ 30 فٹ کی بلندی تک اڑ سکتی ہے۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس پھیلنے سے جہاں جمےجمائے کاروبار ختم ہوئے ہیں وہیں اب یوٹیوبر اور سوشل میڈیا انفلوئنسر بھی شدید مشکلات کےشکار ہیں۔ اس سے قبل وہ گھر بیٹھے لاکھوں بلکہ کروڑوں میں کھیل رہے تھے۔
سفر کی ویڈیو بنانے والی ایلیکس اوتھویٹ اس سال کے ابتدائی چھ ماہ فن لینڈ، مالدیپ، ایتھوپیا اور دیگر ممالک میں گزارنے تھے لیکن اب وہ گھر پر بیٹھی ہیں۔ ہرماہ میں وہ ایک خطیر رقم کماتی تھی اور اب مشکل سےماہانہ 100 پونڈ ہی کماچکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ پوری دنیا میں سفر بند ہے اور کوئی ان کا چینل نہیں دیکھ رہا۔ ایلیکس کے مطابق اس وقت وہ اپنی بچائی ہوئی رقم سے خرچ پورا کررہی ہیں۔
ایلیکس کی طرح مئی ٹریولرز بلاگ کی مصنفہ کیرن بیڈو کی آمدنی اس سال جنوری کے مقابلے میں 95 فیصد تک کم ہوچکی ہے اور اس ماہ انہیں مشکل سے 350 پونڈ ہی مل سکے ہیں۔ کیرن 4 سال قبل وکیل کی ملازمت چھوڑ چکی تھیں اور اب صرف اپنی بچتوں اور سرمایہ کاری کے منافع سے ہی گزربسر کررہی ہیں۔
اسرائیل کیسول انسٹاگرام پر بِرکن بوائے کے نام سےمشہورہیں۔ وہ ہربرانڈ کی تشہیر کرتے ہیں اور ان کے پاس پونے دوکروڑ کے قیمتی ہینڈ بیگز بھی ہیں۔ اب یہ حال ہے کہ انہیں اپنے والد سے پیسے لینے پڑرہے ہیں۔ اس سے قبل وہ ہر تقریب میں شرکت کے سینکڑوں ڈالر معاوضہ لیتے تھے لیکن اب ان کی پوسٹ کوئی نہیں دیکھتا اور کوئی اسے خرید نہیں رہا کیونکہ پوری دنیا بند پڑی ہے۔
کئی کمپنیوں کی مصنوعات کی تشہیر کرنے والی مینڈی روز جونز کہتی ہیں کہ اب وہ کچھ نہیں کرپارہیں تاہم انہیں امید ہے کہ موسمِ گرما کے عروج پر وہ اپنے گھر سے کچھ برانڈز کے کپڑوں کی تشہیر کرسکیں گی۔

سندھ کے 330 سرکاری کالجوں کو گزشتہ 2 برس سے فنڈز نہ جاری ہونے کی وجہ سے کالجز مالی بحران کا شکار ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے کالجوں میں کوآپریٹو اساتذہ کو فارغ کردیا گیا ہے، بجلی اور گیس کے کنکشن منقطع ہونے شروع ہوگئے ہیں اور مرمت کے سارے کام التواء کا شکار ہوگئے ہیں۔

حکومت سندھ نے تعلیمی سیشن 2017-18ء میں سندھ بھر کے گورنمنٹ کالجز میں گیارہویں اور بارہویں جماعت میں داخلہ لینے والے طلبہ و طالبات کی داخلہ فیس ، انرولمنٹ اور امتحانی فیس معاف کردی تھیں اور یہ فیصلہ کیا تھا کہ سندھ بھر کے گورنمنٹ کالجز کو فنڈز سندھ گورنمنٹ جاری کرے گی اور یہ رقم کالجز کے اکاؤنٹ میں گیارہویں اور بارہویں جماعت میں داخلوں کی تعداد کے حساب سے ہر کالج کو براہ راست منتقل کی جائے گی۔

طلباء و طالبات کی گیارہویں اور بارہویں جماعت کی داخلہ فیس 550روپے تھی جس میں سے 340روپے حکومت سندھ کے اکاؤنٹ میں کالج انتظامیہ کی جانب سے جمع کروا دیئے جاتے تھے جبکہ 210روپے کالج اکاؤنٹ میں جمع ہوتے تھے لیکن صرف ایک سال میں یہ رقم کالجز کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی مگر گزشتہ دو برس سے کالجز کو اس مد میں کوئی رقم ادا نہیں کی جا سکی ہے ۔

اس وقت کراچی کے تیس سے زائد کالجز ایسے ہیں جن کی بجلی عدم ادائیگی کی باعث منقطع ہے۔ گزشتہ برسوں میں جب کالجز میں داخلہ فیس وصول کی جاتی تھی تو کالجز اس فنڈز سے کالجز کی تعمیر و مرمت، کو آپریٹو اساتذہ کی بھرتی، یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی ، ہفتہ طلباء اور اسپور ٹس کا انعقاد کیا جاتا تھا ۔ کالجز کے مالی بحران کے باعث کالجز کی حالت بھی اب گورنمنٹ اسکولوں کی طرح ہوتی جارہی ہے۔

2010ء میں گیارہویں اور بارہویں جماعت سائنس گروپ کی فیس 950 روپے جبکہ کامرس اور آرٹس کی فیس 770روپے تھی جس میں سے 330 روپے حکومت کی اکاؤنٹ میں جمع کروا دیئے جاتے تھے باقی ماندہ فنڈ کالج کے پاس موجود رہتا تھا لیکن حکومت سندھ نے 2010ء میں سی ایم سی فنڈ کو 100روپے سے پچاس روپے، یوٹیلیٹی فنڈ، 50 روپے سے صفر، بلڈنگ فنڈ 50، روپے سے صفر، لائبریری فنڈ 30روپے سے صفر، اسٹوڈینٹس ویلفیئر فنڈ 40، روپے سے صفر کر دیا اور باقی ماندہ فنڈ بھی 2017ء میں ختم کرکے کالجز کو مالی پریشانی سے دوچار کردیا تھا۔