ایمز ٹی وی(کراچی) جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر نے کہا کہ دنیا کے ماہرین نباتات اور سائنسداں سمندری کائی اور بحری نباتات کو وسیع پیمانے پر اس کی افادیت کے پیش نظر مختلف النوع مصنوعات میں کمرشل بنیادوں پر استعمال کررہے ہیں جس کی افادیت کے باعث خاص وعام میں بہت مقبول ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سمندری کائی اور بحری نباتات ہمارے ساحل سمندرمیںکثرت سے پائی جاتی ہے ۔ سائنسدانوں نے اس کو بہت نافع پایا ہے اوراب بڑے پیمانے پر استعمال کیاجارہا ہے مگر وطن عزیز میں اس کو تجارتی استعمال میں نہیں لایا گیا ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے آفس آف ریسرچ اینویشن اینڈکمرشلائزیشن کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار بعنوان: ” سمندری کائی اور بحری نباتات اور پاکستان میں مارکیٹنگ کے امکانات“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔مذکورہ سیمینار ملک کے ممتاز ماہر نباتات پروفیسر ڈاکٹر مصطفٰی شمیل مرحوم کی دوسری برسی کے موقع پر منعقد کیا گیاتھا۔اس موقع پر ڈائریکٹر آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈ کمرشلائزیشن پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمن،رئیس کلیہ علوم پروفیسر ڈاکٹر شمیم اے شیخ،چیئرمین شعبہ نباتات ڈاکٹر احتشام الحق،ڈاکٹر لیلیٰ شہناز،ڈاکٹر عثمان غنی ،ڈاکٹر وقار احمد،ڈاکٹر شاہنواز اور ڈاکٹر سیف اللہ بھی موجودتھے۔شیخ الجامعہ نے مزید کہا کہ بنیادی طور پر پاکستان کی معیشت زراعت پر مبنی ہے اور بہترین آب پاشی کا نظام موجود ہے لہذا ”ایکواکلچر“ کا شعور نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ یہ ایک منافع بخش صنعت ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر عالیہ رحمن نے کہا کہ ہم جس طرح ہربل سے استفادہ نہیں کررہے ہیں یہی صورتحال بحری کائی (Sea weed ) کے ساتھ عدم توجہی کے باعث ہورہاہے جبکہ دنیا بھر میںآرٹیفشل مصنوعات کے مقابلے میں اس پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔سمندری نباتات کو دنیا بھر کے اہم مصنوعات میں استعمال کیا جارہاہے ،اس کے علاوہ کاسمیٹکس ،خوراک ،ادویہ سازی اور بہت سے دوسرے طریقوں میں کمرشل بنیادوں پر استعمال کیا جارہاہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جاپان میں طویل العمر افراد اپنی غذا میں چکنائی آمیز غذاکے استعمال کو ترجیحی بنیادوں پر استعمال کرتے ہیں اس کے علاوہ سمندری کائی بھی ان کی غذا کا حصہ ہوتی ہے،کیونکہ بحری کائی میں قدرتی طور پر اینٹی آکسیڈینٹ اجزاءپائے جاتے ہیں جوکہ انسانی جسم کی مختلف بیماریوں کے لئے بہت نافع اور قوت بخش ہیںاور یہ جسم کر فربہ ہونے سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر احتشام نے کہا کہ پاکستان میں ایکواکلچر متعارف کرانے میں پیش رفت ہونا چاہیئے ،جبکہ پڑوسی ممالک میں یہ ایک ابھرتی ہوئی انڈسٹری خیال کی جارہی ہے۔انہوںنے مزید کہا کہ آٹھ ایشیائی ممالک اس صنعت پر کام کررہے ہیں۔
ایمز ٹی وی(ایجوکیشن)فیض گنج میں گورنمنٹ ڈگری کالج کرونڈی کے انٹر کے امتحانی مرکز پر جعلی ٹیم نے چھاپہ مار کر دو سو طلبہ سے کاپیاں چھین کر ان کو دھوپ میں کھڑا کر دیا۔بتایا گیا ہے کہ 10 افراد پر مشتمل ٹیم خود کو انٹر میڈیٹ بورڑ سکھر کی چھاپہ مار ٹیم ظاہر کر کے کالج میں داخل ہوئی ٹیم کے ارکان نے کالج مٰں داخل ہونے کے بعد امتحان دینے والے دو سو طلبہ سے کاپیاں چھین لیں اور ان کو کالج سے باہر نکال کر رھوپ میں کھڑا کردیا۔بعد ازاں کالج اتظامیہ نے پولیس کے ساتھ رابطہ کیا جس پر پولیس فورس نے کالج پہنچ کر جعلی ٹیم کو امتحانی مرکز پر چھاپہ مارنے کی اتھارٹی دکھانے کیلیے کہا لیکن ان کے پاس کوئی لیڑیا اتھارتٰٰی نہیں تھی جس پر پولیس نے ان جعلی ٹیم کے ارکان کو حراست میں لے لیا،بعد ازاں با اثر شخصیات کی مداخلت پر ان کو چھوڈ دیا گیا۔