ایمز ٹی وی(ایجوکیشن)شاہ عبداللطیف یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کا اجلاس پرافیسر ڈاکڑ غلام سرور مرکھنڑ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں یونیورسٹی کے اساتزہ کے پروموشن میرٹ کی بنیاد پر کرنے پر خوشی کا اظہار کیا گیا اور تدریسی عمل میں مزید بہتری لانے کا اعلان کیا گیا۔پروفیسر غلام سرور مرکھنڈ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی پاکستان کی مثالی یونیورسٹی بن چکی ہے۔ہم کوشش کر کے اس یونیورسٹی کو دنیا کی صف اول یونیورسٹیوں کی فہرست میں لائیں گے انہوں نے کہا کہ لطیف یونیورسٹی کے 35 اساتزہ دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں یونیورسٹی کے ملازمین کے لیے 50 ایکڑ پر ہاؤسنگ سوسائٹی بن رہی ہے جس سے یونیورسٹی ملازمین کو رہائش کی سہولیات مہیا ہوں گی انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی مثالی ترقی میں یونیورسٹی کی موجودہ وائس چانسلر ڈاکڑ پروین شاہ کا اہم کردار ہے انیوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی مزید ترقی میں یونیورسٹی ڑیچرز ایسوسی ایشن وائس چانسلر کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی۔
ایمز ٹی وی(ایجوکیشن)شاہ عبداللطیف یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کا اجلاس پرافیسر ڈاکڑ غلام سرور مرکھنڑ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں یونیورسٹی کے اساتزہ کے پروموشن میرٹ کی بنیاد پر کرنے پر خوشی کا اظہار کیا گیا اور تدریسی عمل میں مزید بہتری لانے کا اعلان کیا گیا۔پروفیسر غلام سرور مرکھنڈ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی پاکستان کی مثالی یونیورسٹی بن چکی ہے۔ہم کوشش کر کے اس یونیورسٹی کو دنیا کی صف اول یونیورسٹیوں کی فہرست میں لائیں گے انہوں نے کہا کہ لطیف یونیورسٹی کے 35 اساتزہ دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں یونیورسٹی کے ملازمین کے لیے 50 ایکڑ پر ہاؤسنگ سوسائٹی بن رہی ہے جس سے یونیورسٹی ملازمین کو رہائش کی سہولیات مہیا ہوں گی انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی مثالی ترقی میں یونیورسٹی کی موجودہ وائس چانسلر ڈاکڑ پروین شاہ کا اہم کردار ہے انیوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی مزید ترقی میں یونیورسٹی ڑیچرز ایسوسی ایشن وائس چانسلر کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی۔
ایمز ٹی وی(ایجوکیشن)شاہ عبداللطیف یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کا اجلاس پرافیسر ڈاکڑ غلام سرور مرکھنڑ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں یونیورسٹی کے اساتزہ کے پروموشن میرٹ کی بنیاد پر کرنے پر خوشی کا اظہار کیا گیا اور تدریسی عمل میں مزید بہتری لانے کا اعلان کیا گیا۔پروفیسر غلام سرور مرکھنڈ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی پاکستان کی مثالی یونیورسٹی بن چکی ہے۔ہم کوشش کر کے اس یونیورسٹی کو دنیا کی صف اول یونیورسٹیوں کی فہرست میں لائیں گے انہوں نے کہا کہ لطیف یونیورسٹی کے 35 اساتزہ دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں یونیورسٹی کے ملازمین کے لیے 50 ایکڑ پر ہاؤسنگ سوسائٹی بن رہی ہے جس سے یونیورسٹی ملازمین کو رہائش کی سہولیات مہیا ہوں گی انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی مثالی ترقی میں یونیورسٹی کی موجودہ وائس چانسلر ڈاکڑ پروین شاہ کا اہم کردار ہے انیوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی مزید ترقی میں یونیورسٹی ڑیچرز ایسوسی ایشن وائس چانسلر کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی۔
ایمز ٹی وی (فارن ڈیسک) دنیا میں لاوارث اور یتیم بچوں کو سہارا دینے والوں کی کمی نہیں مگر کیا کبھی آپ نے کسی ایسے شخص کے بارے میں سنا ہے جو مردہ بچے گود لیتا ہو؟ لیکن چلی کی ایک عورت یہ منفرد کام کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ مردہ بچوں کی تدفین ہی کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ برنارڈا گیلارڈو ان کی آخری رسومات بڑے اہتمام سے انجام دیتی ہے۔ مردہ بچے گود لینے سے برنارڈا کا مقصد بھی انھیں سفر آخرت پر احسن طریقے سے روانہ کرنا ہے۔
برنارڈا نے مردہ بچے گود لینے کا آغاز 12 برس قبل کیا تھا جب اس نے ایک اخبار میں خبر پڑھی کہ پوٹرٹو مونٹ (چلی کا ایک شہر) میں کچرے کے ڈھیر سے ایک نوزائیدہ بچے کی لاش ملی تھی۔ ان دنوں بے اولاد برنارڈا بچہ گود لینے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اسے یہ خبر پڑھ کر از حد افسوس ہوا۔ اس نے سوچا اگر یہ بچہ زندہ ہوتا تو شاید اس کے حصے میں آجاتا۔ چناں چہ اس نے مردہ بچے کی تدفین کرنے کا فیصلہ کیا۔
برنارڈا نے ڈاکٹر سے لاش کا معائنہ کروانے کے بعد یہ سرٹیفکیٹ حاصل کیا کہ بچہ مردہ پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ اس کی موت پیدائش کے بعد واقع ہوئی تھی۔ یہ ثابت ہوجانے کے بعد بچے کی لاش حاصل کرنے کے لیے برنارڈا کو بچہ باقاعدہ گود لینا تھا۔ یہ کوئی آسان مرحلہ نہیں تھا۔ جج کا خیال تھا کہ برنارڈا بچے کی حقیقی ماں تھی، اب اسے بچے کو کچرے کے ڈھیر پر پھینک دینے کے بعد پچھتاوا ہورہاتھا اسی لیے وہ اس کی لاش حاصل کرنا چاہتی تھی۔ خاصی جدوجہد کے بعد نارڈا جج کو قائل کرنے میں کام یاب ہوگئی اور اسے سرکاری طور پر بچہ گود دے دیاگیا۔ یہ چلی اور شاید دنیا کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا کہ مردہ بچہ گود لیا گیا ہو۔
چند ماہ کے دوران اس نے مزید کئی مُردہ بچے گود لیے۔ ان دنوں بھی وہ ایک مردہ بچی کی لاش حاصل کرنے کے لیے قانونی کارروائی سے گزررہی ہے۔ برنارڈا کا کہنا ہے کہ وہ آخری سانس تک ان معصوم مرجھائے ہوئے پھولوں کی آخری رسومات عزت و احترام سے ادا کرتی رہے گی۔ برنارڈا اپنے ’’لے پالک‘‘ بچوں کی قبروں پر باقاعدگی سے جاتی ہے۔
ایمز ٹی وی (سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) پاکستان کی یونیورسٹیاں تحقیق خصوصاً جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی یافتہ ملکوں کی درسگاہوں سے بہت پیچھے قرار دی جاتی ہیں لیکن نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طلبہ کی تیار کردہ روبوٹ فٹبال ٹیم نے ٹیکنالوجی کی دنیا کے سب سے بڑے مقابلے روبوکپ کے لیے کوالیفائی کرکے ثابت کردیا ہے کہ مواقع اور وسائل ملنے پر وہ کِسی سے کم نہیں ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے اپنے طلبہ کو 6 روبوٹ فراہم کئے گئے جو جسمانی لحاظ سے اسٹینڈرڈ پلیٹ فارم لیگ کے معیار پر پورے اُترتے تھے۔ مقابلوں میں کوالیفائی کرنے کے لیے طلبہ نے روبوٹس کو مصنوعی ذہانت سے آراستہ کیا جس کی مدد سے ان روبوٹس نے میگا ایونٹ تک رسائی حاصل کی۔
نسٹ کے شعبہ برائے روباٹِکس اینڈ آرٹیفِشل انٹیلی جنس کے سربراہ ڈاکٹر یاسر ایاز کا کہنا ہے کہ روبو کپ کو اسٹینڈرڈ پلیٹ فارم لیگ بھی کہا جاتا ہے، جس کا ہدف 2050 تک فٹبال کی روبوٹ ٹیم کو انسانوں کی عالمی چمپیئن ٹیم کے خلاف میدان میں اتارنا ہے۔ روبو کپ میں بین الاقوامی یونیورسٹیوں کی بنائی ہوئی روبوٹ ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ ہمیں اِس نوعیت کے مقابلے میں شرکت کرنے والی جنوبی ایشیا کی پہلی ٹیم کا اعزاز حاصل ہوگیا ہے۔
پاکستانی ٹیم کو کوالیفائی کرنے کے قابل بنانے والے طلباء ان دنوں روبوٹ کو فٹبال کے مختلف گُر سکھانے میں مصروف ہیں۔ کوئی گول کیپر تیار کر رہا ہے تو کوئی اُنھیں اپنے ساتھیوں اور مخالف کھلاڑیوں کو پہچاننے کی صلاحیت سے آراستہ کررہا ہے۔ روبوٹ کو سکھانے والے طلبہ کی ٹیم میں شامل ماہم تنویر کا کہنا ہے کہ کسی بھی انسان کے لئے فٹبال کو کِک لگانا مشکل نہیں لیکن روبوٹ کا فٹبال کو کِک لگانا طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔ روبوٹ کو پتہ ہونا چاہیے کہ بال کے لحاظ سے میں کہاں ہوں تاکہ وہ بال کے سامنے جا کر صحیح کھڑا ہو سکے پھر اُسے اپنی ایک ٹانگ پر توازن قائم کرنا ہوتا ہے۔
ماہم تنویر کا کہنا ہے کہ اُن کی ٹیم کے روبوٹ کھلاڑی نہ صرف کِک لگانے کےقابل ہیں بلکہ وہ اپنا بھی توازن برقرار رکھ سکتے ہیں۔ قومی ٹیم کے یہ روبوٹس میدان میں اپنی پوزیشن کی نشاندہی بھی کرلیتے ہیں البتہ عالمی مقابلہ کھیلنے سے پہلے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اُن کے کھلاڑی کو پتہ ہو کہ اُسے کتنی رفتار یا طاقت سے کِک لگانی ہے کیونکہ روبوٹ میں ان کی مقررہ طاقت اور رفتار کا اندازہ لگانے کی صلاحیت پیدا کرنے پر بہت کم کام ہوا ہے۔
ایمز ٹی وی(ایجوکیشن)مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو کے ریگویلر امتحانات شروع ہوگئے ہیں۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکڑ محمد اسلم عقیلی،دجسڑار پروفیسر ڈاکڑ طحہ حسین علی،ڈین فیکلٹی آف آرکیکیچر اینڈ سول انجینئرنگ پروفیسر ڈاکڑ غوث خاصخیلی،ڈین فکیلٹی آف الیکڑیکل الیکرونکس اینڈ کمپوٹر سسٹم انجینئرنگ پرافیسر ڈاکڑ بھوانی شنکر چوہدری اور مختلف شعبوں کے سربراہوں پر مشتمل امتحانی کمیٹی نے امتحانی سینڑ کا دورہ کیا۔اور امتحآنات کیلیے کیے گیے انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔
ایمز ٹی وی (کراچی) پاکستان سمیت دنیا بھر میں نرسوں کا عالمی دن آج منایا جارہاہے یہ دن نرسنگ کے شعبے کی بانی فلورنس نائٹ اینگل کی یاد میں دنیا بھر میں منایاجاتا ہے جب کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ایک کروڑ 80 لاکھ 28 ہزار917 نرسیں خدمت انسانی کے جذبے کے تحت دنیا کے مختلف اسپتالوں میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں اوروطن عزیز میں313 مریضوں کے لئے ایک نرس کام کررہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 69 لاکھ 41 ہزار698 نرسوں کے ساتھ یورپ سرفہرست جب کہ 40 لاکھ 95 ہزار 757کے ساتھ براعظم امریکا دوسرے، 34 لاکھ 66 ہزار 342 کے ساتھ مغربی بحرالکاہل تیسرے‘19 لاکھ 55 ہزار 190 کے ساتھ جنوب مشرقی ایشیا چوتھے، 7 لاکھ 92 ہزار 853 کے ساتھ افریقہ پانچویں نمبر پر ہے، عالمی ادارہ برائے صحت کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ نرسیں امریکا میں ہیں جہاں 26لاکھ 69ہزار 603 نرسیں مختلف اسپتالوں میں موجود ہیں، اکنامک سروے آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 62 ہزار 651 نرسیں ہیں۔
پاکستان نرسنگ کونسل کے مطابق ملک میں نرسنگ کی بنیادی تربیت کے لیے چاروں صوبوں میں162 ادارے قائم ہیں، ان میں سے پنجاب میں 72، سندھ میں 59، بلوچستان میں12 جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں نرسنگ کے19 ادارے قائم ہیں، اداروں سے سالانہ 1800 سے 2000 رجسٹرڈ خواتین نرسز، 1200 مڈ وائف نرسیں اور تقریباً 300 لیڈی ہیلتھ وزٹر میدان عمل میں آتی ہیں،نرسنگ کے شعبے میں ڈپلومہ اور ڈگری پروگرام پیش کرنے والے اداروں کی تعداد صرف5 ہے۔
ماہرین طب کے مطابق پاکستان میں نرسنگ کا شعبہ بے پناہ مسائل کا شکار ہے،نرسوں کے لیے ڈاکٹروں کی طرح ڈیوٹی کی تین شفٹیں رکھی گئی ہیں جن کا دورانیہ کم و بیش سولہ گھنٹے ہوتا ہے اور حادثاتی صورت حال کے پیش نظر نرسوں کو اکثر و بیشتر اووَر ٹائم بھی لگانا پڑتا ہے مگر ان کو اس کی کوئی اْجرت نہیں دی جاتی ۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران نرسوں کے ساتھ ہونے والے زیادتی کے واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ نرسوں کے ساتھ نہ صرف مرد ڈاکٹر اور بعض اوقات مریض بدسلوکی کرتے ہیں بلکہ ساتھی خواتین نرسیں بھی کسی سے پیچھے نہیں،گزشتہ نصف دہائی کے دوران سالانہ اوسطاً 13 نرسوں کی عصمت دری کی گئی، واضح رہے کہ یہ ایسے واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے اور ان کے حوالے سے کچھ کارروائی بھی کی گئی، متعدد ایسے واقعات ہیں جن میں متاثرہ نرسوں کواپنی نوکری بچانے کے لیے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔