ویب ڈیسک : ویسےتوبچپن سےہم سب نے سنا ہے دنیا میں سات براعظم ہیں ، افریقہ، ایشیا، انٹارکٹیکا، آسٹریلیا، یورپ، شمالی امریکا اور جنوبی امریکا لیکن سائنسدانوں دنیا میں آٹھویں براعظم ہونےکاانکشاف کیا ہے۔
یہ براعظم بحرالکاہل میں نیوزی لینڈ اور نیو کیلیڈونیا سے منسلک ہے، اس کا بیشتر حصہ زیرآب ہے اور صرف چھ فیصد سمندر سے اوپر ہے اور اس کا بھی بیشتر حصہ نیوزی لینڈ پر مشتمل ہے۔
جنوبی بحرالکاہل میں ساڑھے 3 ہزار فٹ گہرائی میں چھپے اس براعظم کے مکمل نقشے 3 سال بعد مکمل کرکے جاری کیا گیا ہے۔
رواں ہفتےنیوزی لینڈ کے جی این ایس سائنس کے ائنسدانوں نےعلان کیا کہ انہوں نے اس گمشدہ براعظم کاحجم اورساخت کے نقشے مکمل تفصیلات کے ساتھ تیار کرلیے ہیں۔
ان نقشہ جات کو ایک انٹرایکٹیو ویب سائٹ پر لوڈ کیا گیا ہے تاکہ صارفین کہیں سے بھی اس براعظم کی سیر کرسکیں۔
سائنسدانوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم ان نقشوں کے ذریعے مستند، مکمل اور نیوزی لینڈ اور جنوب مغربی بحرالکاہل کی اپ ٹو ڈیٹ جغرافیاتی تصویر فراہم کررہے ہیں، جو پہلے سے زیادہ بہتر ہے۔
ان نقشوں سے انکشاف ہوتا ہے کہ یہ براعظم کیسے وجود میں آیا اور لاکھوں برس پہلے سمندر میں ڈوب گیا۔
سائنسدانوں نے زی لینڈیا کے ارگرد، اس کی ساخت اور سمندر کی تہہ میں اس کی گہرائی کے نقشہ جات تیار کیے ہیں جبکہ براعظمی پلیٹس کی سرحدوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
زی لینڈیا کا رقبہ 20 لاکھ اسکوائر میل کے قریب ہے ، یعنی آسٹریلیا کے رقبے کے نصف کے برابر۔
اس کا جو 6 فیصد حصہ خشکی پر ہے وہ نیوزی لینڈ کے شمال اور جنوبی جزائر اور آئی لینڈ آف نیو کیلیڈونیا پر مشتمل ہے، جبکہ باقی زیرآب ہے۔
اس زیرآب براعظم کو سمجھنے کے لیے سائندانوں نے زی لینڈیا اور سمندری تہہ کے نقشے تیار کیے، جس میں دکھایا گیا کہ اس براعظم کی پہاڑیاں کتنی بلند اور پانی کی سطح پر ابھری ہوئی ہیں۔
اس کے خطے کی حد ، ساحلوں، اور دیگر نمایاں جغرافیائی خصوصیات کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
ایک اور نقشے میں زیرآب براعظم کے قطر کی قسم کا انکشاف کیا گیا ہے اور دیگر تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
2017 میں سائنسدانوں نے بتایا تھا کہ زی لینڈیا کے زیرآب حصے بھی لاکھوں، کروڑوں سال پہلے زمین کی سطح پر ہی موجود تھے اور اس زمانے میں سمندری درجہ حرارت بہت زیادہ تھا۔
ان کا اندازہ ہے کہ یہ براعظم 80 ملین سال پہلے آسٹریلیا اور انٹار کٹیکا سے الگ ہونے کے بعد مکمل طور پر زیرآب چلا گیا تھا۔
لگ بھگ تیس سے چالیس ملین سال پہلے پیسیفک رنگ آف فائر تشکیل پایا اور زیرلینڈیا کی سمندری تہہ ابھری۔
اب بھی اس براعظم کے دیگر رازوں کو جاننے کے لیے سائنسدانوں کی کوششیں جاری ہیں اور اسے مکمل طور پر کھوجنے کے لیے کافی وقت درکار ہوگا۔
کراچی: وزیراعظم پاکستان کی قائم کردہ ٹاسک فورس برائے سائنس اور ٹیکنالوجی کے چیئرمین پروفیسرڈاکٹرعطا الرحمن27 جون کو سری لنکا کی آرگنائزیشن آف پروفیشنل ایسو سی ایشن آف سری لنکا (او پی اے) کی33ویں سالانہ کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے آن لائن خطاب کریں گے، اس تقریب میں سری لنکا کے وزیرِ اعظم بھی خطاب کریں گے۔
بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کے ترجمان کے مطابق اس آن لائن کانفرنس میں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان صاحب کی شرکت بھی مہمانِ اعزازی کی حیثیت سے متوقع ہے۔ آئی سی سی بی ایس جامعہ کراچی کے ترجمان نے کہا ہے اس سال کانفرنس کی تھیم ”دوبارہ اُبھرنے کے لیے آفات مواقع ہیں“
ہے جو ان ممالک کے لیے بہت اہم ہے جو کویڈ19 سے متاثرہ ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کے معروف سائنسدان اور تعلیم دان پروفیسرڈاکٹر عطا الرحمن کو اُن کے علمِ کیمیاء کے شعبے میں گراں قدر قومی خدمات کے اعتراف میں چینی صدر ژی جنپنگ نے حال ہی میں چین کا سب سے ’اعلیٰ سائنٹیفک ایوارڈ‘ عطا کیا ہے۔ چین اور ملائیشیاء میں پروفیسرڈاکٹر عطا الرحمن کے نام سے متعدد تحقیقی ادارے قائم کیے جاچکے ہیں۔پروفیسر عطا الرحمن کو نہ صرف بین الاقوامی ایوارڈ حاصل ہوئے ہیں بلکہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں تمغہء امتیاز، ستارہ امتیاز، ہلالِ امتیاز اور نشانِ امتیاز بھی عطا کیا جاچکا ہے۔
یاد رہےاو پی اے دراصل سری لنکا کے پروفینشلز کی انتہائی با اثر تنظیم ہے۔
کراچی: وفاقی اردو یونیورسٹی کلیہ فارمیسی کے تحت داخلہ انٹری ٹیسٹ مجلس دوم (شام)2020کے متبادل آن لائن انٹرویوکاانعقادکیا جارہا ہے۔
فارم ڈی میں داخلے کے امیدواروں کے انٹرویوبروز جمعہ 26 جون2020 کوصبح11بجے سے دوپہر1بجے تک بذریعہ واٹس اپ ویڈیو کال یا متبادل ذرائع سے لئے جائیں گے۔
فارم ڈی کے امیدوار مقررہ تاریخ اور وقت کی پابندی کا خاص خیال رکھیں۔رابطہ نہ ہونے کی صورت امیدوار This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it. / This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it. پر ای میل کریں۔
سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسو سی ایشن کے مرکزی رہنماؤں پروفیسر سید علی مرتضیٰ، پروفیسر شاہجہاں پنھور، پروفیسر کریم ناریجو، پروفیسر اصغر شاہ، پروفیسر منور عباس، پروفیسر الطاف حسین میمن،پروفیسر مشتاق پھلپوٹہ،پروفیسر امیر لاشاری، پروفیسر نازیہ سولنگی،پروفیسرعبدالمنان بروہی، پروفیسر یوسف قائم خانی، پروفیسر محمد عامر الحق، پروفیسر عبدالرشید ٹالانی، پروفیسر سید صفدر رضا، پروفیسرلیاقت جعفری، پروفیسرغفران بلوچ، پروفیسرسعید ابڑو، پروفیسر عدیل، پروفیسر عبدالمجید ٹانوری و دیگرنے اپنے مشترکہ بیان میں سندھ کے چار سو دس میل فیمیل لیکچرارز کو اگلے گریڈ اسسٹنٹ پروفیسرمیں ترقی ملنے پر مبارک باد پیش کییں۔
ان کا کہناتھا کہ اس کا تمام تر سہرا وزیرِ تعلیم سندھ سعید غنی اور سیکریٹری کالج ایجوکیشن باقر عباس نقوی کو جاتا ہے جنہوں نے ان ترقیوں میں حائل تعطل کو ختم کیا۔ سپلا کے رہنماؤں نے مزید کہا کہ کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ پر آج تک کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی جس کے سبب کالج اساتذہ ذہنی اذیت کا شکار رہتے ہیں اس لیے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے موجودہ سیکریٹری باقر عباس نقوی کافی سنجیدہ اقدامات کر رہے ہیں جس سے سندھ کے کالج اساتذہ کو ایک امید نظر آرہی ہے۔
سپلا کے رہنماؤں نے و زیرِ تعلیم سندھ سعید غنی اور سیکریٹری کالج ایجوکیشن باقر عباس نقوی کی توجہ سندھ کے کالجز میں تعینات ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن کی جانب دلاتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ان کے ساتھ ناروا سلوک رو اکھا گیا ہے 25سال سے ایک ہی گریڈ میں کا م کرتے ہوئے بہت سے افراد رٹائرڈ ہوگئے ہیں اس لیے فوری طور پر ڈی پیز کی حتمی سینیارٹی لسٹ جاری کر کے ان کو بھی سترہ سے اٹھارہ گریڈ میں ترقی دیکر ان کی بے چینی کا خاتمہ کیا جائے۔
جارجیا: گھنے جنگلات میں انتہائی سستی سے حرکت کرنے والا ایک جاندار سلاتھ بھی ہے۔ اب اس سے متاثر ہوکر سائنسدانوں نے ایک سلاتھ روبوٹ بنایا ہے جو عین اسی جانور کی طرح الٹا لٹک کر دھیرے دھیرے حرکت کرتے ہوئے فطرت، ماحول اور جنگلی حیات کا احوال لیتا رہتا ہے۔
سلاتھ نما روبوٹ کی لمبائی تین فٹ ہے اور اس کا غالب حصہ تھری ڈی پرنٹر سے چھاپا گیا ہے۔ اس میں کئی اقسام کے سینسر اور موٹریں لگائی گئی ہیں۔ جارجیاانسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں نے اسے ایک نباتاتی (بوٹانیکل) باغ کے لیے بنایا ہے۔
اپنے نام کی طرح یہ بہت سست رفتار سے آگے بڑھتا ہے اور بیٹری کفایت سے خرچ کرتا ہے۔ روبوٹ جنگل کے تحفظ، ماحول کی بقا، جانوروں اور پرندوں پر نظر رکھنے کے لیے بطورِ خاص ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس پر خاص قسم کے سولر پینل لگائے گئے ہیں جو سورج کی روشنی سے پورے برقی نظام کو چلاتے ہیں۔
دو درختوں پر ایک موٹا تار باندھ کر اس پر روبوٹ چلایا جاتا ہے۔ اپنے سینسر سے یہ درجہ حرارت، کاربن ڈائی آکسائیڈ، موسم اور دیگر کیفیات کو نوٹ کرتا رہتا ہے لیکن روبوٹ ساری تبدیلیوں کو بہت طویل عرصے تک نوٹ کرتا رہتا ہے اور ایک مرتبہ ماحول کا حصہ بن جانے کے بعد کئی ماہ اور سال تک کا ڈیٹا جمع کرسکتا ہے۔
روبوٹ کو ایک سومیٹر طویل تار پر لگایا گیا ہے اور یہ صرف ضرورت کے وقت ہی آگے بڑھتا ہے ورنہ ایک ہی جگہ رک کر معلومات جمع کرتا رہتا ہے۔ توقع ہے کہ اپنی اسی صلاحیت کی وجہ سے یہ ایک ماحول دوست روبوٹ ثابت ہوگا کیونکہ یہ بہت طویل عرصے تک ایک ماحول کا حصہ بن سکتا ہے۔
کیو: چند روز قبل یوکرین میں دکھائی دینے والے ایک عجیب و غریب بادل کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جسے اکثر لوگوں نے ایٹمی دھماکے کی وجہ سے بننے والا ’کھمبی جیسا دیوقامت بادل‘ (مشروم کلاؤڈ) قرار دیا لیکن ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔
یہ بادل یوکرین کے دارالحکومت کیو میں دیکھا گیا جو 1986 میں ایٹمی بجلی گھر کی تباہی سے مشہور ہونے والے مقام ’چرنوبل‘ سے صرف 60 میل دور ہے۔
چرنوبل سے قربت اور ماضی کی یادوں نے یوکرین میں سوشل میڈیا صارفین کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا اور وہ اس بے ضرر سے قدرتی بادل کو روس کی جانب سے ’نیا ایٹمی دھماکہ‘ قرار دینے لگے۔
کچھ ہی دیر بعد موسمیاتی ماہرین نے وضاحت کی کہ ایسا کچھ بھی نہیں بلکہ یہ بارش برسانے والا ایک خاص طرح کا بادل ہے جسے ’’اینوِل کلاؤڈ‘‘ بھی کہا جاتا ہے جو اوپر سے چپٹا اور پھیلا ہوتا ہے جبکہ اس کا نچلا حصہ بتدریج پتلا ہوتا چلا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ بادل اس طرح کی شکل میں بہت کم آتے ہیں لیکن ہر سال ایسے کچھ نہ کچھ واقعات ضرور ہوتے رہتے ہیں، لہذا ڈرنے کی کوئی بات نہیں کیونکہ یہ مکمل طور پر قدرتی عمل ہے۔
اس وضاحت کے باوجود بھی سازشی نظریات کے حامیوں نے اس بادل کی تصاویر کو ایٹمی دھماکے کے ’ثبوت‘ کے طور پر پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھا۔
لاہور: محکمہ اسکول ایجوکیشن نے اسکول کھولنے کے لئے ایس او پیز اور تجاویز پر کام شروع کر دیا۔ پہلے مرحلے میں نویں، دسویں جماعت کو اسکول بلانے کی تجویز دی جائے گئی۔
ذرائع کے مطابق دوسرے مرحلے میں آٹھویں اور پانچویں جماعت کے طلبہ کو اسکول بلانے کی تجویز پر غور کیا جائے گا، اسکولوں کے اوقات کار 3 گھنٹے کرنے کی تجویز ہے، اسکول کھلتے ہی آغاز میں صرف لازمی مضامین کو پڑھنے کی تجویز ہے۔
محکمہ اسکول ایجوکیشن نے نجی اسکولوں سے بھی تجاویز مانگ لیں، نجی اسکولوں کو 2 کیٹگریز میں تقسیم کر دیا گیا، 4 ہزار سے کم اور 4 ہزار سے زائد فیس لینے والے اسکولوں کو 2 کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا، 2 کیٹگریز کے اسکولوں کو کل تک ایس اوپیز جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے عالمی ادارہ صحت نے سختی سے 20 سیکنڈ تک ہاتھ دھونے کی تاکید کی ہے جس میں اب سے ایپل واچ بھی مددگار ثابت ہوگی۔
مقبول ٹیکنالوجی کمپنی ایپل نے گزشتہ روز ورلڈ وائڈ ڈویلپرز کانفرنس میں ایپ واچ آپریٹنگ سسٹم (او ایس) 7 متعارف کروائی جس میں پہلے کے مقابلے میں کچھ نئے فیچرز شامل کیے گئے۔
ٹیکنالوجی ویب سائٹ میش ایبل کی رپورٹ کے مطابق ایپل واچ او ایس 7 کے نئے فیچرز میں عالمگیر وبا کورونا کے باعث ایک آٹومیٹک ہینڈ واشنگ ڈیٹیکشن فیچر شامل کیا گیا ہے جو 20 سیکنڈ تک ہاتھ دھونے کو یقینی بنائے گا۔
یعنی جب بھی صارف ہاتھ دھوئے گا تو ایپل واچ میں مذکورہ فیچر کی مدد سے 20 سیکنڈ کا دورانیہ شروع ہوجائے گا اور 20 سیکنڈ مکمل ہونے کے بعد یہ نشاندہی کردے گی کہ ہاتھ دھونے کا دورانیہ پورا ہوچکا ہے۔ اس فیچر کے حوالے سے ایپل کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کی مدد سے لوگوں کو بار بار ہاتھ دھونے کا خیال رہے گا جس سے ان کی صحت کی حفاظت ہوگی۔
یہ فیچر ایپل ہیلتھ ایپ میں ہاتھ دھونے کا ریکارڈ بھی برقرار رکھے گی جس میں فریکوئنسی اور ڈیوریشن واضح ہوگا۔
اس کے علاوہ ایپل واچ او ایس 7 میں سلیپنگ ٹریک اور ورک آؤٹ کے لیے ڈانسنگ فیچر بھی شامل کیا گیا ہے۔
کراچی: جامعہ کراچی اور اس سے الحاق شدہ کالجز میں سیمسٹر پروگرام کے تحت جاری آن لائن کلاسز 15 جولائی 2020 ءتک جاری رہیں گی
جامعہ کراچی کے رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر سلیم شہزاد کے مطابق اکیڈمک کونسل کے فیصلے اور شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی کی ہدایت کے مطابق جامعہ کراچی اور اس سے الحاق شدہ کالجز میں سیمسٹر پروگرام کے تحت جاری آن لائن کلاسز 15 جولائی 2020 ءتک جاری رہیں گی،البتہ اسسمنٹ پالیسی کا اعلان جلد کردیا جائے گا۔
تمام کالجزاور انسٹی ٹیوٹس فائنل سیمسٹر امتحانات کے فیصلے کے لئے اپنے متعلقہ صدورشعبہ جات سے رابطے میں رہیں
کراچی: سر سیّد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نے مختلف شعبہ جات میں داخلوں کا اعلان کردیا ہے ۔ بی ایس پروگرام میں داخلے کے لیے آن لائن رجحان ٹیسٹ22 جولائی سے 26 جولائی 2020ء تک ہو گا اور ایم ایس اور پی ایچ ڈی کا آن لائن رجحان ٹیسٹ 8/ اگست اور9 / اگست 2020ء کو ہوگا، جبکہ بی ایس انجینئرنگ ٹیکنالوجی کا آن لائن رجحان ٹیسٹ 15 اور16 اگست2020ء کو لیا جائے گا.
داخلوں کے خواہشمند امیدوار 6 انجینئرنگ پروگرام الیکڑانک، کمپیوٹر، سول، بایومیڈیکل، ٹیلی کمیونیکیشن اور الیکٹریکل انجینئرنگ میں داخلے کے لیے درخواست دے سکتے ہیں ۔ اسی طرح امیدواروں کو بی ایس پروگرام کے شعبوں میں داخلے کے مواقع حاصل ہیں جن میں آرکیٹیکچر، بزنس ایڈمنسٹریشن، سول انجینئرنگ ٹیکنالوجی، الیکٹرانک انجینئرنگ ٹیکنالوجی، الیکٹریکل انجینئرنگ ٹیکنالوجی، بائیوانفارمیٹکس، بائیومیڈیکل سائنس، کمپویٹر سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، موبائل کمیونیکیشن اینڈ سیکوریٹی، میتھمیٹکس اور سافٹ ویئر انجینئرنگ شامل ہیں ۔
اسی طرح سر سیّد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے پوسٹ گریجویٹ پرگرام کے حوالے سے امیدوار بائیومیڈیکل انجینئرنگ، سول انجینئرنگ، کمپیوٹر انجینئرنگ، الیکٹرانک انجینئرنگ، میتھمیٹکس اور ٹیلی کمیونیکیشن انجینئرنگ کے شعبوں میں ماسٹرز پروگرام میں داخلے کے لیے درخواست دے سکتے ہیں جبکہ پی ایچ ڈی پروگرام کے لئے بائیومیڈیکل انجینئرنگ، کمپیوٹر انجینئرنگ اور الیکٹرانک انجینئرنگ کے شعبوں میں داخلے کے لئے درخواستیں دی جاسکتی ہیں ۔
امیدواروں کی سہولت کے لیے سرسید یونیورسٹی کا آن لائن ایڈمیشن پورٹل پوری طرح فعال ہے ۔ آن لائن داخلہ فارم بھرنے کے لیے ایڈمیشن پورٹل پر رہنمائی کے لیے درج ہدایات پر عمل کریں ۔ سرسید یونیورسٹی کی ویب سائٹ www.ssuet.edu.pk اور admissions.ssuet.edu.pk پرسے داخلہ فارم ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے ۔
داخلے اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر دیے جائیں گے جس میں میٹرک، انٹر میڈیٹ اور رجحان ٹیسٹ میں حاصل کردہ نمبروں کو اہمیت دی جائے گی ۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں اور سیلف فنانس کے امیدواروں کے اہلیت کی بنیاد پر محدود نشیستیں موجود ہیں ۔
داخلوں کے لیے درخواستیں جمع کرا نے کی آخری تاریخ 20 جولائی 2020ء ہے ۔