Monday, 18 November 2024

مانیٹرنگ ڈیسک : دنیا بھر میں کیڑے مکوڑوں سے متاثر ہو کر روبوٹ بنانے کی دوڑ جاری ہے اب فرانس کے ماہرین نے روبوٹ مکھی بنائی ہے جس کا وزن صرف ایک گرام ہے اور یہ اپنے وزن سے پانچ گنا زائد وزن اٹھاسکتی ہے۔

اب اگر اسے آپ مکھی مارنے والی چھڑی سے کئی دفعہ پچکانے کی کوشش کریں تب بھی یہ دب کر دوبارہ کھڑی ہوجاتی ہے اور چلنے لگتی ہے۔ اسے ڈینسیکٹ DEAnsect کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں مصنوعی پٹھوں کی مدد سے تین ٹانگیں بنائی گئی ہیں جو ایک سیکنڈ میں 400 مرتبہ حرکت کرتی ہیں۔

DE-Ansect درحقیقت ’ڈائی الیکٹرک ایلاسٹومر ایکچوایٹرز‘ کا مخفف ہے جس پر بال سے باریک مصنوعی پٹھے لگے ہوئے ہیں جو ارتعاش سے مکھی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ روبوٹ مکھی اڑتی نہیں بلکہ یہ اونچے نیچے راستوں پر چلتی رہتی ہے۔ حیرت انگیز روبوٹ مکھی کا وزن ایک گرام سے بھی کم ہے لیکن یہ اپنے وزن سے پانچ گنا زائد بوجھ اٹھاسکتی ہے۔

کراچی: کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں سورج گرہن کا آغازہوگیا۔ کراچی میں سورج گرہن کے موقع پر شہر کی مساجد میں نماز کسوف کا اہتمام کیا گیا ہے، نماز کسوف کے دوران استغفار اورخصوصی دعائیں بھی کی جارہی ہیں۔

ملک بھرکی طرح راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی سورج گرہن کا آغاز ہوچکا ہے، اسلام آباد میں سورج کو 49 فیصد گرہن لگے گا۔ سورج گرہن 10 بج کر43 منٹ تک دیکھا جاسکے گا۔ اسلام آباد میں دھند کی وجہ سے شہری سورج گرہن کو دیکھ نہیں سکتے۔

اسلام آباد کے اکثرعلاقے شدید دھند کی لپیٹ میں ہیں دھند کی وجہ سے حدنگاہ متاثر ہورہی ہے جبکہ سردی کی شدت میں بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ پڈعیدن اور گردونواح میں بھی سورج گرہن کا اغاز ہوگیا جو ایک بجے تک جاری رہے گا۔

کراچی:جامعہ کراچی نے ایوننگ پروگرام میں داخلوں کے لئے فارم جمع کرانے کی تاریخ میں ایک دن کی توسیع کردی۔
 
انچارج ڈائریکٹوریٹ آف ایڈمیشنز جامعہ کراچی ڈاکٹر صائمہ اختر کے مطابق ایوننگ پروگرام میں بیچلرز/ ماسٹرز/ پوسٹ گریجویٹ پروگرامز، سرٹیفیکیٹ کورسز اورڈپلومہ پروگرام کے داخلے برائے سال 2020 ءکے لئے داخلہ فارم جمع کرانے کی تاریخ میں ایک دن کی توسیع کردی گئی ہے۔
 
خواہشمند طلبہ بروزجمعرات 26 دسمبر 2019 ءکواپنے داخلہ جمع کراسکتے ہیں۔ طلبہ تمام معلومات بمعہ آن لائن داخلہ فارم اور پراسپیکٹس کے حصول کے لئے www.uokadmission.edu.pk  پررابطہ کرسکتے ہیں،جہاں تمام معلومات موجودہیں

اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی عظیم شاعرہ پروین شاکر 14 نومبر1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔آپ نے انگلش لٹریچر اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1991 میں ہاورڈ یونیوسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی-

پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔انھوں نے بہت چھوٹی سی عمر میں شعر وشاعری کا آغاز کیا۔ بینا کے نام سے پہچانی جانی والی شاعرہ کی۔ محبت، درد، تنہائی اور فراق و وصال سے لبریز جذبات  کی حامل پہلی کتاب خوشبو  1976  میں جب منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔–اور صرف چھ ماہ کے اندراس کا پہلاایڈیشن ختم ہوگیا، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں پروین شاکر کو ادب میں بہترین خدمات پر پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈسے بھی نوازا گیا

پروین  شاکر سے پہلے کسی شاعرہ نے نسوانی جذبات کو اتنی نزاکت سے بیان نہیں کیا۔ ان کی شاعری میں روایت سے انکار اور بغاوت بھی نظر آتی ہے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نویسی بھی کی ان کا کالم گوشہ چشم کے نام سے شائع ہوتا تھا۔، ۔پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، کف آئینہ، ماہ تمام کو بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔ ان کی زندگی میں ہی ان کی شاعری کے انگلش، جاپانی و سنسکرت زبانوں میں ترجمے شروع ہوچکے تھے

اردو زبان کی یہ عظیم شاعرہ 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد کے نزدیک ایک ٹریفک حادثے میں صرف  42 برس کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں، پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ان کو ہم سے بچھڑے متعدد برس ہوچکے ہیں، مگر آج بھی ان کا نام دنیاے ادب و شعرمیں روشن و تاب ناک ہے خودپروین کوبھی اس کا ادراک ہوگا، سوانھوں نے پہلے ہی کہہ دیاتھاکہ:

مربھی جاؤں توکہاں لوگ بھلا ہی دیں گے

لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

اسلام آباد: پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس سال کا اخری سورج گرہن 26 دسمبر کو دیکھا گیا، کئی ممالک میں یہ آتشیں حلقے کی صورت دکھائی دی

پاکستان سمیت آسٹریلیا، افریقا اور ایشیا کے کئی ممالک میں اس سال کا آخری سورج گرہن 26 دسمبر بروز جمعرات کو رونما ہورہا ہے جس پاکستانیوں نے خوبصورت آتشیں حلقہ یعنی رنگ آف فائر بنتے دیکھے،
اس قسم کے سورج گرہن کو ’اینولر ایکلپس‘ کہا جاتا ہے اس کی وجہ ہمارا ننھا منا چاند ہے جو اس وقت زمین سے طویل ترین فاصلے پر موجود ہوگا اور اس سے آتشیں رنگ تشکیل پائے گا یعنی ٹوٹی ہوئی چوڑی جیسا ایک آتشیں حلقہ دکھائی دے گا۔ یعنی سورج گرہن عین اسی طرح دکھائی دے گا جس طرح کی تصویر نیچے موجود ہے اور یہ تصویر جنوری 2011ء میں ناسا نے جاری کی تھی۔

اگرچہ یہ مکمل سورج گرہن نہیں ہوگا لیکن پھر پر چاند اور سورج مکمل طور ایک ہی لائن میں ہوں گے اور اگر چاند بہت دوری پر نہ ہوتا تو سورج کو مکمل طور پر چھپالیتا اور یوں سورج گرہن بنتا، 26 دسمبر کو چاند کی جسامت سورج کی ٹکیہ سے تین فیصد چھوٹی دکھائی دی،

کراچی : کراچی میں گزشتہ ہفتے سے شروع ہونے والی سی این جی کی بندش ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب  سے تاریخ پر تاریخ دی جارہی ہے جس سے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔

سوئی سدرن گیس کمپنی کے گزشتہ اعلامیے کے مطابق سی این جی اسٹیشن بدھ کی شب 8 بجے کھلنے تھے تاہم حکام نے ڈیڑھ گھنٹہ قبل بندش کا دورانیہ مزید 24 گھنٹے بڑھاکر صارفین کی امیدوں پر پانی پھیردیا، سی این جی کے لیے ترستے ہوئے صارفین نے کئی گھنٹہ قبل ہی سی این جی اسٹیشنوں پر گاڑیوں کی قطاریں لگالی تھیں، ساڑھے 6 بجے شام سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے بندش کا دورانیہ بڑھائے جانے کے اعلان سے قطاروں میں لگے شہری مایوس ہوگئ

صارفین کا کہنا تھا کہ ایک ہفتے سے سی این جی نہ ملنے کی وجہ سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہورہے ہیں، سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے واضح شیڈول جاری نہیں کیا جارہا ہے، ایک روز کرکے ایک ہفتے کی بندش کی گئی اور اب بھی نہیں معلوم کہ آئندہ سی این جی کب ملے گی۔

ادھر سوئی سدرن گیس کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سسٹم میں گیس پریشر میں بہتری آنا شروع ہوگئی ہے مگر کم پریشر کا سامنا اب بھی موجود ہے، گھریلو اور کمرشل صارفین کو گیس پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پریشر کی کمی کے باعث سی این جی اسٹیشنز مزید 24 گھنٹے بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ایس ایس جی سی مینجمنٹ پریشر کا جائزہ لے رہی ہے، جیسے ہی گیس پریشر میں بہتری آئی، سی این جی اسٹیشنز کھول دیے جائیں گے، پریشر میں کمی کے باعث سی این جی اسٹیشزکی بندش مزید 24 گھنٹے رہے گی، حکومت پاکستان کے لوڈ مینجمنٹ کے حوالے سے سب سے پہلے گھریلو اورکمرشل صارفین کو گیس پہنچانا اولین ترجیح ہے۔

لاہور: آج ا نڈس ہائی وے پر ہونے والا حادثہ دھند کے باعث پیش آیا۔ دھند کی وجہ سے ڈرائیور  کو راستہ نظر نہ آسکا  جس کے نتیجےمیں مسافروں سے بھری کوچ الٹ گئی -

مسافر کوچ الٹنے سے 10 مسافر  زخمی ہوگئے جن میں سے 3 کی حالت تشویش ناک ہے اور انھیں اسپتال منتقل کردیا گیا۔ یاد رہے کہ مسافر کوچ بی ایس ایم 786 کراچی سے کشمور جارہی تھی

کل پاکستان سمیت دنیا  بھر میں مسیحی برادری پورے جوش وخروش کے ساتھ کرسمس کاتہوارمنائےگی۔

کرسمسس کا تہوار آتے  ہی  کرسمس ٹریز کے ساتھ ساتھ گلی محلوں، گرجا گھروں اور رہائش گاہوں کو برقی قمقموں اور دیدہ زیب سجاوٹی سامان سے سجادیا گیاہےجبکہ چرچ اور گرجاگھروں میں بھی عبادات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مسیحی اس دن کو بڑی عید کے طور پر بھی مناتے ہیں

 مسیحیعقیدے کے مطابق یسوع مسیح کا دنیا میں آنا انسان کو نجات کی راہ دکھاتا ہے۔ 24اور 25 دسمبر کی درمیانی رات  مسیحی برادری کے افراد اپنی عبادت گاہوں میں جمع ہوتے ہیں جہاں اس دن کی یاد تازہ کی جاتی ہے اور مختلف تاریخی واقعات کو چھوٹے چھوٹے ڈراموں کی صورت میں پیش کرکے دہرایا جاتا ہے۔

اس موقع پر دنیا بھر کے حکمرانوں اور عوام کی خیر و عافیت کیلئے خصوصی دعائیں مانگی جاتی ہیں تاکہ دنیا سے جنگ- نفرت -دہشت گردی  اور جھگڑے ختم ہوں اور تمام انسان خلوص پیار و محبت سے آپس میں مل جل کر رہتے ہوئے امن قائم کریںہے اس دن کو یسوع مسیح کی دنیا میں آمد کو امن و خوشی کے دن کی بشارت کی یاد تازہ کرنے کیلئے منایا جاتا ہے -

دوسری جانب بچے بھی بڑوں سے پیچھے نہیں اور اپنا مذہبی تہوار بھرپورانداز میں منانے کے لیے پرعزم ہیں اور اسی سلسلے میں کچھ بچےٹیبلوز پیش کرنے کی پریکٹس میں مگن ہیں تو کوئی ڈانس کی ریہرسل میں مصروف دکھائی ہے۔کچھ مسیحی برادری کی خواتین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو یہ درس دیتے ہیں کہ کرسمس کا تہوار خوشیوں کا تہوار ہے اور اس کا مقصد خوشیاں بانٹنا ہیں۔اس موقع پر نا صرف چراغاں کی جاتا ہے بلکہ عیسائی اپنی روایات کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔

کرسمس میں بچوں سمیت سب کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے تحائف تقسیم کرنے والا ‘سانتا کلاز’ جس کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں۔کہ کرسمس کے دن لال اور سفید گرم کپڑوں میں ملبوس ایک شخص آسمان سے گھوڑوں کی بگھی میں آئے گا اور تحائف لائے گا۔ جو دیکھنے میں عمر رسیدہ ہوگا اور اس کی سفید ڈارھی ہوگی۔اس کے پاس بچوں کے لیے تحائف ہوتے ہیں اور وہ تحفے بچوں میں تقسیم کرتا ہےاور آج تک ہر کرسمس پر یہ ہی روایت چلی آرہی ہے۔واضح رہے سانتا کلاز کے بارے میں ابھی تک کوئی حتمی روایت نہیں جس پر سب کا اتفاق ہو۔

مسیحی برادری کے ساتھ ساتھ ھندو اور سکھ برادری  کے افراد بھی کرسمس کی تقاریب میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتےہیں اورمسیحی بھائیوں کی خوشی میں شریک ہوتے ہیں -

 

کراچی : قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش کےحوالے سےسندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں دوسرے روز بھی تقریب ہوئی
 
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی میئر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ مخیر حضرات اپنے مالی وسائل سے شہر کے اداروں کی مدد کرکے قائدا عظم محمد علی جناح کی اس راہ کو اپنائیں جس کے تحت قائد اعظم نے اپنی ذاتی ملکیت کا تیسرا حصہ سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کو دیا
 
انہوں نے مزید کہا کہ سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں خطاب کرنا جہا ں پر قائد اعظم نے تعلیم حاصل کی کسی اعزاز سے کم نہیں ہے، جس طرح سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی قائداعظم محمد علی جناح کا جنم دن منا رہی ہے اس طرح پورے پاکستان میں کوئی بھی بانی پاکستان کے دن کو نہیں منا رہا ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ ایسے پروگرامز کو زیادہ سے زیادہ کور کریں اور نشر کریں۔۔ میئر کراچی نے مزید کہا کہ ہم اپنی نئی نسل کو مواقع فراہم کرنے کے بجائے ابھی تک سیاسی الجھن میں الجھے ہوئے ہیں۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی اور غیر ضروری چیزوں پر دھیان مرکوز کرنے کے بجائے تعلیم پر توجہ دیں۔۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نوجوان نسل کو قائداعظم کا ماڈل دکھائیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم بانی پاکستان کا جنم دن بہت بڑے دھودہام طریقے سے منائیں جس طرح نئے سال کا دن ہم مناتے ہیں۔
 
سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شیخ نے کہا کہ میئر کے عہدوں کا سندھ مدرستہ الاسلام سے گہرا تعلق ہے کیونکہ کراچی کے پہلے مسلم میئر قاضی خدا بخش ، حکیم محمد احسن اور عبدالستار افغانی بھی اس ادارے کے طالبعلم تھے۔ اس ادارے کو ایک خاص مقصدکے تحت قائم کیا گیا تھا۔ جس سے سرسید خان کی خاص انسیت بھی تھی۔ سرسید خان جب یہاں پر آئے تھے تو انہوں نے حسن علی آفندی کو یہ مشورہ دیا تھا کہ آجاا اسکول بنا رہے ہیں اگر اسکول بنارہے ہو تواس مقصد کو بھی ذہن میں رکھنا کہ آج جو تم اسکول قائم کررہے ہو اسکو آگے چل کر یونیورسٹی ضرور بنانا ۔
 
گیسٹ اسپیکر کے دوسرے سیشن میں مہتاب اکبر راشدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم خواتین کو بااختیار نہیں بنائیں گے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوگا۔ عورتوں کیساتھ امتیازی سلوک صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی ہےانہوں نے کہا کہ جب تک ذہن اور سوچ نہیں بدلتی اس وقت تک تعلیم انسان کو بدل نہیں سکتی۔
 
گیسٹ اسپیکر سیشن میں خطاب کرتے ہوئے تعلیم دان سلیم میمن نے کہا قائد اعظم کی زندگی اور جدوجہد پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انکی زندگی ہم سب کے لیئے ایک مثالی زندگی ہے، ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ کس طرح سے جناح نے مشکل حالات میں تعلیم جاری رکھی اور قانون کی ڈگری حاصل کی ۔ اتنی سخت جدوجہد کے بعد شہرت کی اس بلندی پر پہنچنا کوئی آسان کام نہیں ہے جہاں پر کم ہی لوگ پہنچ سکتے ہیں۔
 
ایک اور مہمان مقرر نشست کے دوران خطاب کرتے ہوئے حاجی حنیف طیب نے کہا کہ قائد اعظم ہمارے محسن ہیں اور ہم قائد کے احسان کا پھل کھانے کو تو تیار ہیں لیکن ملک کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں، یقین، اتحاد اور محکم قائد کا پیغام ہے لیکن بدقستی سے ہمارے پاس نہ تو اتحاد ہے نہ ہی یقین و محکم۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر ہمارے اندر اتحاد ہوتا تو پاکستان دو لخت جگر نہ ہوتا۔
 
پروگرام میں شرکت کرنے والے مہمانوں کو وائس چانسلر سندھ مدرستہ السلام یونیورسٹی ڈاکٹر محمد علی شیخ نے شیلڈ پیش کی۔
تقریب کے دوسرے روز قائد اعظم کی زندگی کے حوالے سے طالبعلموں نے تھیٹر پیش کیا جبکہ اسکے علاوہ پینل ڈسکشنز، تقریری مقابلوں اور موسیقی کے مقابلے بھی منعقد کیے گئے۔