بدھ, 30 اکتوبر 2024


ایشیائی ترقیاتی بینک کافنڈنگ سےانکار

 

ایمز ٹی وی ( تجارت) ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے 14 ارب ڈالر کے دیامر بھاشا ڈیم پروجیکٹ کی فنڈنگ سے انکار کرتے ہوئے گورننس کی بہتری کے لیے اصلاحات کا مطالبہ کردیا تاکہ نجی شعبے کی جانب سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہو اور تمام پاکستانیوں کو ترقی کے یکساں مواقع مل سکیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اے ڈی بی کے صدر تکیہیکو نکاؤ نے کہا کہ ’یہ بہت بڑا پروجیکٹ ہے لہٰذا ہم نے اس سلسلے میں کوئی وعدہ نہیں کیا‘۔

یہ بات انہوں نے سینٹرل ایشیا ریجنل اکنامک کو آپریشن پروگرام کے 15 ہویں سالانہ وزراء سطح کے اجلاس کے اختتام پر مشترکہ پریس کانفرنس میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) دیامر بھاشا ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کررہی تھی اور چونکہ یہ پاکستان کی توانائی کی ضرورتوں اور آبپاشی کے لیے انتہائی اہم منصوبہ ہے لہٰذا اس پروجیکٹ کی فنڈنگ کے لیے مزید شراکت داروں کو اکھٹا کیا جانا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے ابھی تک اس پروجیکٹ کی فنڈنگ کے حوالے سے فیصلہ نہیں کیا کیوں کہ اس کے لیے بہت زیادہ رقم درکار ہے تاہم ممکن ہے کہ اے ڈی بی پروجیکٹ کے اگلے مراحل میں اس کی فنڈنگ پر غور کرے‘۔

واضح رہے کہ 60 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کی گنجائش اور 4 ہزار 500 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل اس منصوبے کی فنڈنگ کے لیے پہلے ایشیائی ترقیاتی بینک پر پاکستان کی نگاہیں تھیں۔

اس منصوبے پر سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کی جانب سے ورلڈ بینک کو رضامند کرنے کی کوششیں بھی دو برس قبل ناکام ہوگئی تھیں جب حکومت نے اس منصوبے کے لیے بھارت سے این او سی لینے سے انکار کردیا تھا۔

اس کے برعکس وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لیے عالمی بینک کی فنڈنگ کو قبول کرلیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت دونوں منصوبوں کو ساتھ لے کر چلے گی۔

اے ڈی بی حکومت پاکستان کو مسلسل یہ مشورہ دے رہا تھا کہ اتنے بڑے پیمانے کے ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے پیشہ وارانہ طرز عمل اپنایا جائے کیوں کہ اس کے لیے جتنی رقم درکار ہے اور کو خطرات ہیں اس تناظر میں کوئی بھی ایک ملک یا ادارہ اس کی مکمل فنڈنگ نہیں کرسکتا۔

اس مقصد کے لیے اے ڈی بی نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ دیامر بھاشا ڈیم کے پاور جنریشن، اراضی کے حصول اور ڈیم کے اسٹرکچر کو علیحدہ کریں اور ان میں سرمایہ کاری کے حصول کے لیے کوشش کریں۔

حکومت نے پروجیکٹ کی فزیبلٹی اسٹڈی کے لیے یوایس ایڈ سے رابطہ کیا اور اسے انڈیپنڈنٹ پاور پروجیکٹ (آئی پی پی) کے طور پر تعمیر کرنے کے لیے امریکی سرمایہ کاروں سے سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی۔

حکومت اس پروجیکٹ کے لیے اراضی کے حصول کی فنڈنگ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام فنڈز سے کررہی ہے۔

اے ڈی بی کے صدر نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کے پروگرام کی کامیابی سے تکمیل حوصلہ افزا ہے تاہم اسے اب بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں سخت ساختیاتی اصلاحات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے جن میں اسمارٹ میٹرنگ بھی شامل ہے جبکہ سرکاری کمپنیوں کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی اور بیرونی نجی سرمایہ کار کا اعتماد بحال ہو اور وہ آگے بڑھ کر سرمایہ کاری کرسکیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کرپشن، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے خلاف جنگ جاری رکھنا پاکستان کے لیے انتہائی ضروری ہے اور حکومت کو ان خطرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ٹیکس بچانے سے متعلق آرگنائزیشن آف اکنامک کو آپریشن کے معاہدے پر دستخط کرنا پاکستان کے لیے معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں اے ڈی بی کے صدر کا کہنا تھا کہ لوگوں کے تحفظ اور معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے گڈ گورننس ناگزیر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اے ڈی بی اس وقت سالانہ 1.5 ارب ڈالر پاکستان کو دے رہا ہے تاہم اس سلسلے میں رقم کی جلد از جلد تقسیم اور منصوبوں کی بروقت تکمیل بھی ضروری ہے تاکہ ان پروجیکٹس کے فوائد عوام تک پہنچ سکیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پروجیکٹس پر بھی عقلمندی کے ساتھ عمل درآمد کرے اور فنڈز کا بہتر طریقے سے استعمال کرے تاکہ قرض اور رقم کی واپسی میں مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

انہوں نے کہا کہ اے ڈی بی سی پیک کی طرح کے علاقائی منصوبوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کیوں کہ ان سے مشترکہ طور پر ترقی ہوتی ہے۔

علاوہ ازیں وزیر خزانہ اور اے ڈی بی کے صدر نے ’ریجنل امپرومنٹ آف بارڈر سروسز‘ کے لیے 25 کروڑ ڈالر قرض کے معاہدے پر بھی دستخط کیے۔

اس معاہدے کے تحت طورخم، چمن اور واہگہ کی سرحد پر انتظام کاری کی سہولتوں کو بہتر بنایا جائے گا۔

ان پروجیکٹس کا مقصد سرحدی کراسنگ پوائنٹس پر انفرا اسٹرکچر کو جدید بنانا، اسکینرز، پیمائشی پل، آئی ٹی ہارڈویئر اینڈ سافٹ ویئر سپورٹ، لین دین کے لیے ون ونڈو سسٹم وغیرہ کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔

اس موقع پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ سینٹرل ایشیا ریجنل اکنامک کو آپریشن کے اجلاس میں جارجیا کو باضابطہ طور پر 11 واں رکن ملک تسلیم کرلیا گیا۔

اس اتحاد میں افغانستان، آذربائیجان، چین، قازقستان، جمہوریہ کرغیز، منگولیا، تاجسکتان، ترکمانستان، ازبکستان اور پاکستان شامل ہیں۔

اجلاس میں بین الاقوامی ترقیاتی ایجنسیوں عالمی مالیاتی فنڈ، ورلڈ بینک، اسلامی ترقیاتی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، جاپانی انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی، یو ایس ایڈ، برطانیہ کے ڈی ایف آئی ڈی، یورپین بینک برائے ری کنسٹرکشن اینڈ دویلپمنٹ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے نمائندے بھی شامل تھے۔

 
 

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment