ایمز ٹی وی (اسپیشل رپورٹ) بھارتی شہر حیدرآباد میں سینکڑوں مشتعل طلبہ نے نعرے لگاتے ہوئے اور پلے کارڈز لہراتے ہوئے اس بھارتی طالبعلم کی ہلاکت پر احتجاج کیا، جسے چار دیگر طلبہ کے ہمراہ حیدرآباد یونیورسٹی کے چند شعبوں میں جانے سے روک دیا گیا تھا۔
مشتعل طلبہ نے حیدرآباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ایک وفاقی وزیر پر الزام عائد کیا کہ اُنہوں نے تب نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ان ہندو طلبہ کے لیے سزا کا مطالبہ کرتے ہوئے غیر منصفانہ رویے کا مظاہرہ کیا تھا، جب ان کا گزشتہ سال حکمران ہندو قوم پرست جماعت کے حامی طلبہ کے ایک گروپ کے ساتھ تصادم ہوا تھا۔
پولیس ابھی اس امر کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا اس چھبیس سالہ طالبعلم کی موت کی وجہ حکام کا طرزِ عمل بنا۔ پولیس روہیت ومولا نام کے اس دلیت ذات کے طالبعلم کی موت کو خود کُشی قرار دے رہی ہے۔ روہیت ومولا اُس گروپ کا رکن تھا، جو بھارت میں ذات پات کے نظام میں سب سے نچلی ذات تصور کیے جانے والیے دلیتوں کی نمائندگی کرتا تھا۔
حیدرآباد میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر پورے ملک کی توجہ مرکوز ہے اور منگل کی صبح سے مختلف ٹی وی چینلز ان مظاہروں کے بارے میں تازہ ترین خبریں دے رہے ہیں۔ طلبہ نے اپنی کلاسوں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور یونیورسٹی میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ پولیس کے درجنوں سپاہیوں کی موجودگی میں یہ طلبہ نعرے لگا رہے تھے، ’ہمیں انصاف چاہیے‘۔ پیر کو بھی دن بھر ہونے والے مظاہروں کے بعد پولیس نے آٹھ طلبہ کو حراست میں لے لیا تھا۔ اُدھر ممبئی یونیورسٹی میں بھی طلبہ نے احتجاج کیا اور حیدر آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ہٹائے جانے کا مطالبہ کیا۔
روہیت ومولا کی لاش ہوسٹل کے ایک کمرے میں چھت سے لٹکتی ملی تھی۔ اس سے کئی ہفتے پہلے یونیورسٹی نےان پانچ طلبہ کو سٹوڈنٹس ہوسٹل میں قیام کرنے یالائبریری اور دیگر سہولتوں سے استفادہ کرنے سے منع کر دیا تھا۔ ان پانچوں کو اکیس دسمبر کو معطل کر دیا گیا تھا اور تب سے وہ یونیورسٹی کے گیٹ کے باہر ایک خیمے میں رہ رہے تھے۔ ابتدائی تحقیقات میں یونیورسٹی حکام نے ان طلبہ کو تصادم کے سلسلے میں بے قصور قرار دے دیا تھا لیکن دسمبر میں یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا اور ان کی معطلی کے احکامات جاری کر دیے گئے۔
احتجاج کرنے والے طلبہ کا موقف یہ ہے کہ ان طالب علموں کی معطلی کا فیصلہ وفاقی وزیر بندارُو دتا تریا کے دباؤ کی وجہ سے کیا گیا، جنہوں نے انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت کو لکھے گئے ایک خط میں ان دلیت طلبہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ بھارت میں ذات پات کی بناء پر امتیازی سلوک کو 1947ء میں برطانیہ سے آزادی ملنے کے فوراً بعد سے خلافِ قانون قرار دیا جا چکا ہے تاہم بھارتی معاشرے میں اب بھی اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
اس امتیازی سلوک کے آگے بند باندھنے کے لیے حکومت نے ملازمتوں اور یونیورسٹیوں وغیرہ میں نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے کوٹے مخصوص کر رکھے ہیں۔