ھفتہ, 23 نومبر 2024
×

Warning

JUser: :_load: Unable to load user with ID: 46


برلن کی صدیوں پرانی یادگاروں پر سے پردہ اٹھاتی انوکھی نمائش

ایمز ٹی وی (رپورٹ) ایسا تو پیرس، لندن یا نیویارک میں بھی پہلے کبھی نہیں ہوا کہ ایسی یادگاروں کو عوام کے سامنے لایا جائے، جن کے دروازے مختلف وجوہات کی بناء پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عوام پر بند کر دیے گئے ہوں۔ یہ نمائش جرمن دارالحکومت کی ایک قلعہ نما عمارت ’سِٹاڈیلے‘ میں قائم عجائب گھر میں دکھائی جا رہی ہے۔ اس میوزیم کی خاتون انچارج آندریا تھیسن کے مطابق یہ برلن کی وہ سیاسی یادگاریں ہیں، جو اٹھارویں صدی سے لے کر دورِ حاضر تک کی تاریخ کے مختلف اَدوار کی شاہد ہیں۔

یہ یادگار پہلی عالمی جنگ میں جان قربان کرنے والے فوجیوں اور فوج کے لیے ریل کی پٹڑی بچھانے کے دوران مرنے والے مزدوروں کی یاد میں تعمیر کی گئی تھی

اب تک یہ تمام یادگاریں یا تو مختلف ڈپوؤں میں بند پڑی تھیں یا پھر زمین میں بہت یادہ گہرائی میں دفن تھیں۔ اس نمائش کے اہتمام کے دوران تحقیقی معاونت فراہم کرنے والے ٹوپوگرافی آف ٹیرر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر آندریاز ناخاما کہتے ہیں کہ ان میں سے ہر یادگار اپنی جگہ پر ایک سیاسی بیان بھی ہے۔ اس نمائش سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی اہمیت کی حامل یادگاریں کیسے جرمن عوام کو مشکل میں ڈال دیتی ہیں اور وہ الجھن میں پڑ جاتے ہیں کہ وہ اُن کی جانب مثبت رویہ اختیار کریں یا منفی۔

یہ یادگاریں جرمنی کی سیاسی تاریخ بھی ہیں، پرشیا کی سلطنت اور وائیمار ری پبلک سے لے کر نازی سوشلسٹوں کے دورِ اقتدار تک اور پھر جرمنی کی تقسیم سے لے کر اس کے دوبارہ اتحاد تک

یہ یادگاریں جرمنی کی سیاسی تاریخ بھی ہیں، پرشیا کی سلطنت اور وائیمار ری پبلک سے لے کر نازی سوشلسٹوں کے دورِ اقتدار تک اور پھر جرمنی کی تقسیم سے لے کر اس کے دوبارہ اتحاد تک۔ جہاں پیرس میں ایک ایک تاریخی یادگار کو فرانسیسیوں نے بچا بچا کر رکھا ہوا ہے، وہاں برلن میں ان یادگاروں کو تسلسل کے ساتھ منظر سے ہٹایا جاتا رہا۔

لینن کی یادگار کا یہ دیو ہیکل سر بیس سال تک زمین میں دفن رہا، اب پندرہ ملین یورو کی لاگت سے برلن میں سجنے والی ایک نمائش کا حصہ ہے، باقی مجسمہ بدستور دفن ہے

اس کی ایک نمایاں مثال نکولائی تومسکی کی ’یادگارِ لینن‘ ہے، جس کی نقاب کُشائی اُنیس اپریل 1970ء کو دو لاکھ سے زیادہ انسانوں کی موجودگی میں ایک بڑے اجتماع کے دوران ہوئی تھی۔ دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد دیگر کئی یادگاروں کے ساتھ ساتھ لینن کے اس مجسمے کو بھی زمین میں دفن کر دیا گیا۔

ب تک یہ تمام یادگاریں یا تو مختلف ڈپوؤں میں بند پڑی تھیں یا پھر زمین میں بہت یادہ گہرائی میں دفن تھیں

تب یہ فیصلہ کافی زیادہ متنازعہ تھا۔ میوزیم کی انچارج آندریا تھیسن کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کی سوچ میں کافی تبدیلی آ چکی ہے اور آج کے حالات میں اس طرح کے کسی فیصلے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس نمائش میں لینن کے اس مجسمے کا سر دیکھا جا سکتا ہے، جسے زمین سے نکال کر باہر لایا گیا ہے۔

نازی آمر اڈولف ہٹلر نے جو چھیانوے یادگاریں جرمن قوم کی عظمت اور شان و شوکت کے اظہار کے لیے بنوائی تھیں، اُن میں سے بھی ستر سے زائد عمارتیں اس نمائش میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Media

Leave a comment