کراچی: ضیاءالدین یونیورسٹی اور ہسپتال کی جانب سے ہیپاٹائیٹس کے عالمی دن کےموقع پرورچوئل سیمینار ”فائند دا مسنگ ملینز“ کاانعقادکیاگیا۔ سیمینار میں ضیاءالدین یونیورسٹی کی پرو چانسلر اور فزیشن انٹرنل میڈیسن ڈاکٹر ندا حسین نےاپنےخیالات کااظہارکرتےہوئے کہناتھاکہ ”جگر کے مرض میں مبتلا افراد کو کورونا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ چونکہ ایسے مریضوں کے جگر پہلے سے ہی متاثر ہوچکے ہوتے ہیں اس لیے کورونا ان پر جلد حملہ آور ہوجاتا ہے۔ لہذا ایسے مریضوں کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے
ان کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائیٹس بی حاملہ خواتین سے بچے میں بھی منتقل ہوسکتا ہے جبکہ ہیپاٹائیٹس سی کے منتقل ہونے امکانات کم ہوتے ہیں، لیکن کوئی خاتون اگر ایچ آئی وی کے ساتھ ہیپاٹائیٹس کا شکار ہے تو پھر بچے میں منتقل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اس موقع پر ضیا ءالدین ہسپتال کے ماہر امراض جگر پاکستانی سوسائٹی فار اسٹڈی آف لیور ڈیزیز (PSSLD) کے صدر ڈاکٹر ضیغم عباس کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں ہیپاٹایٹس اے، بی، سی، ڈی اور ای تمام اقسام پائی جاتی ہیں ان کی اہم وجوہات میں، نشہ، شراب، وائرل انفکشنز وغیرہ شامل ہیں۔ ہیپا ٹائٹس کی اہم علامات میں پیلیا، قے، دل گھبرانا، چکر آنا، جگر کے امراض شامل ہیں۔ ہیپاٹائٹس خون کی منتقلی، غیر محفوظ جسمانی تعلقات اور استعمال شدہ ریزر سے منتقل ہو سکتا ہے۔ صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھنا بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کی بنیادی وجوہات ہیں۔
پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے بڑھتے ہوئے کیسز کو روکنے کے لیے حفاظتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے دیگر مقررین جن میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ایم ایس ڈاکٹر زاہد اعظم اور ڈاکٹر ضیاءالدین ہسپتال کے ماہر امراض جگر ڈاکٹر قمر العارفین اور ڈاکٹر سہیل حسین کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا مرض ہے جس کے بارے میں مریضوں کو پتہ نہیں چلتا اور جسم میں سرایت کر جاتا ہے۔ یہ مرض انتہائی خاموشی سے اپنے پنجے گاڑے رہتا ہے اسی لیے اس کو خاموش قاتل کہا جاتا ہے ۔ لوگوں میں ہیپاٹائٹس کے متعلق آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اس انفیکشن کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔