کراچی: سندھ یونیورسٹی جامشورو کی انتظامیہ نے جامعہ کو مالی خسارے سے نکالنے کے لیے اس کا بوجھ طلبا پر منتقل کردیا ہے۔
سندھ یونیورسٹی جامشورو کی انتظامیہ نے جامعہ کو درپیش بدترین مالی خسارے اور قرضوں سے نکالنے کے لیے اس کا بوجھ طلبا پر منتقل کردیا ہے اور مارک شیٹ، سرٹیفکیٹ، ڈگری و دیگر دستاویز کی فیسوں میں اچانک 40 سے 400 فیصد سے زائد تک اضافہ کردیا گیا ہے۔ اضافے کا اطلاق جامعہ سندھ سے الحاق شدہ سرکاری و نجی کالجوں کے ہزاروں طلبہ پر بھی ہوگا۔
یہ اضافہ یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر صدیق کلہوڑو کی جانب سے محض فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کی سفارشات پر کیا گیا ہے تاہم فیصلہ کی منظوری سی سینڈیکیٹ سے نہیں لی گئی اور فیصلے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیا اس جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق فیسوں میں اضافے کا اطلاق 12 جنوری سے ہوگا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق بعض دستاویز کے اجرا کے لیے مختص چند سو روپے کی فیس میں 200 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے جبکہ کچھ دستاویز کی 4 ہندسوں digits میں مختص چند ہزار روپے فیس کئی ہزار روپے اضافے کے ساتھ 5 digit میں چلی گئی ہے جس سے طلبا وطالبات پر بدترین مالی بوجھ پڑے گا۔
ذرائع کےمطابق سینڈیکیٹ کی منظوری کے بغیر فیسوں میں اچانک 400 فیصد تک اضافے پر جب یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف جاننے کے لیے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر صدیق کلہوڑو سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ سندھ یونیورسٹی نے 2014 کے بعد اب 6 سال بعد فیسوں میں اضافہ کیا ہے تاہم اب بھی ہماری فیسیں جامعہ کراچی، شاہ عبدالطیف یونیورسٹی اور حیدرآباد ایجوکیشن بورڈ سے کم ہیں یونیورسٹی پر بینکوں کا واجب الادا کروڑوں روپے قرضہ ہے جبکہ مختلف دنوں میں 70 کروڑ روپے کے واجبات علیحدہ ہیں اسی طرح رواں مالی سال میں اب تک کا خسارہ 45 کروڑ روپے ہے 2019 اور 2020 میں ایوننگ پروگرام کے تدریسی واجبات اساتذہ کو نہیں دیے جاسکے ہیں۔
قائم مقام وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ ہمارے 1800 پینشنرز اور 3ہزار سے زائد ملازمین ہیں صرف 30 کروڑ روپے pay and pension کی مد میں ہر ماہ خرچ ہوتے ہیں ایچ ای سی کی گرانٹ 1770 ملین روپے ہے جبکہ 2 ہزار روپے فیس کی مد میں موصول ہوتے ہیں۔