ھفتہ, 23 نومبر 2024


وٹامن اے سے بھرپور سنہرے کیلے کی کاشت

 

ایمز ٹی وی ( صحت ) دنیا بھر میں کیلا ایک عام اور رغبت سے کھایا جانے والا پھل ہے۔ لیکن دنیا کے ایک مقام پر وٹامن اے سے بھرپور کیلے کے خاص جین لے کر ان سے عام کیلے کو بھی وٹامن اے سے بھرپور بنایا گیا ہے جس سے ہر سال لاکھوں بچوں کی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ کیلا اتنا عام کھایا جاتا ہے کہ بعض افریقی ممالک میں اسے روزمرہ پکوان کا درجہ حاصل ہے۔ یوگینڈا اور دیگر مشرقی افریقی ممالک میں کچے کیلوں کو بھاپ دے کر پکایا اور انہیں روزانہ کھانے میں کھایا جاتا ہے جس سے اس میں وٹامن کی مقدار کم ہو جاتی ہے لیکن اب ماہرین نے وٹامن اے سے بھرپور ایسا سنہرا کیلا تیار کرلیا ہے جو لاتعداد انسانی زندگیاں بچا سکتا ہے۔ اگرچہ کچے کیلے پکا کر کھانے سے ان میں نشاستے کی مقدار بھرپور ہو جاتی ہے لیکن دیگرخرد غذائی اجزا (مائیکرونیوٹرینٹس) مثلاً وٹامن اے کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ اب سوئزرلینڈ کے زرعی بایوٹیکنالوجسٹ جیمز ڈیل نے کم ازکم 10 برس کی محنت کے بعد ایک ایسا کیلا تیار کیا ہے جو وٹامن اے سے مالامال ہے اور اس کی رنگت کی بنا پر اسے ’’سنہرے کیلے‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پروفیسر ڈیل کے مطابق دنیا بھر میں 6 سے 7 لاکھ بچے صرف وٹامن اے کی کمی سے ہرسال لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ غربت کی وجہ سے یہ بچے وٹامن کی سپلیمنٹ یا گولی لینے سے بھی محروم ہیں۔ ان میں سے تین لاکھ بچے وٹامن کی کمی کے باعث بینائی سے بھی محروم ہو رہے ہیں لیکن امید ہے کہ سنہرے کیلے کی کاشت سے اس مسئلے پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکے گا۔ پروفیسر جیمز کے مطابق انہوں نے پاپوا نیوگنی میں پائے جانے والے ایک کیلے کا انتخاب کیا جو وٹامن اے سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس کا وٹامن بنانے والا جین انہوں نے عام کیلے میں داخل کرکے اس کی کاشت شروع کی اور کئی برسوں کے محنت کے بعد اب وہ ایسا کیلا تیار کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں جو پرو وٹامن اے سے بھرپور ہے اور دنیا کے باقی علاقوں میں اگایا جا سکتا ہے۔ وٹامن اے سے مالا مال کیلا رنگت میں قدرے نارنجی مائل سنہرا ہے اس لئے اسے سنہرے کیلے کا نام دیا گیا ہے۔ پروفیسر جیمز اب تک اسے پاپوا نیوگنی سے نکال کر کوینزلینڈ میں کامیابی سے اگاچکے ہیں۔ اب اس کے جین یوگینڈا میں بھیجے گئے ہیں جہاں تجربات جاری ہیں۔ کھیتوں کی آزمائش کے بعد توقع ہے کہ 2021 تک اس کی باقاعدہ کاشت شروع کی جا سکے گی۔ واضح رہے کہ ماضی میں وٹامن اے سے بھرپور چاولوں کی تیاری بھی اسی مقصد کے تحت کی جاچکی ہے تاہم وہ بڑی سست روی سے فروغ پا رہا ہے۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment