لندن: اگر آپ چاہتے ہیں کہ گٹھیا سے محفوظ رہیں تو دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اینٹی بایوٹکس سے بھی ہر ممکن حد تک پرہیز کیجیے۔
ایک لاکھ سے زائد افراد کی صحت سے متعلق دس سالہ اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد برطانوی طبی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ اینٹی بایوٹکس کا زیادہ استعمال کرنے والوں میں جوڑوں کی بیماری یعنی ’’گٹھیا‘‘ کا خطرہ، اینٹی بایوٹکس نہ لینے والے لوگوں کی نسبت 60 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ شعبہ طب میں ضد حیوی دواؤں (اینٹی بایوٹکس) کو کسی بیماری کے خلاف انتہائی اقدام کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ قانونی طور پر انہیں صرف سند یافتہ ڈاکٹر کے تحریری نسخے کے مطابق ہی خریدا جاسکتا ہے لیکن پاکستان سمیت، دنیا کے بیشتر ترقی پذیر ممالک میں اس طرح کی احتیاطی تدابیر کا کوئی بندوبست نہیں۔
اگر ایک طرف ڈاکٹر صاحبان چھوٹی موٹی تکالیف کےلیے اینٹی بایوٹکس لکھ دیتے ہیں تو دوسری جانب میڈیکل اسٹور والے بھی صرف اپنی صوابدید پر ہی مریضوں کو اینٹی بایوٹکس فروخت کرتے رہتے ہیں۔ اس مسئلے کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اینٹی بایوٹکس تجویز کرتے یا فروخت کرتے وقت بالعموم مریض کو مکمل کورس کے دورانیے، پرہیز اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا جاتا جس کے نتیجے میں بیماری کی وجہ بننے والے جراثیم اور بھی زیادہ سخت جان ہوجاتے ہیں۔
برطانیہ میں کِیل یونیورسٹی اور کواڈریم انسٹی ٹیوٹ آف بایوسائنسز کے اشتراک سے کیے گئے اس مطالعے میں یہ بات خاص طور پر نوٹ کی گئی کہ جو لوگ سال میں دو مرتبہ اینٹی بایوٹکس کا مکمل کورس کرتے ہیں، ان میں اینٹی بایوٹکس استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں گٹھیا کا خطرہ 66 فیصد تک زیادہ ہوتا ہے۔ ویسے تو کم و بیش تمام اقسام کی اینٹی بایوٹکس ہی گٹھیا کے خطرات میں اضافہ کرتی دیکھی گئیں لیکن اس ضمن میں گلے کی خرابی میں استعمال کی جانے والی اینٹی بایوٹکس سب سے زیادہ خطرناک رہیں۔