جمعہ, 22 نومبر 2024


پاکستان میں 34 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار کیوں ہے

 
 
 
کراچی: ملک میں ڈپریشن کی بیماری وبا کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے، پاکستان میں 34 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔
 
اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ڈپریشن کے حوالے سے عالمی ادارے صحت کی رپورٹ شیئر کی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 34 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔
 
ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر و بیشتر افراد کی جانب سے اسٹریس سمجھ کر ڈپریشن کا علاج نہیں کرایا جاتا ہے، ماہرین کہنا ہے کہ دنیا میں 4.4 فیصد یعنی 30 کروڑ افراد ڈپریشن کا شکار ہیں، ڈپریشن کی علامات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
 
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کی علامات میں جسمانی درد، چڑچڑا پن، معمول کے کام میں دل نہ لگنا، وزن میں نمایاں کمی، توجہ اور فیصلہ سازی میں کمی ہیں۔
 
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کو اسٹریس سمجھ کر اس کا علاج نہ کرانا اس بیماری میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔
 
ڈاکٹر مہرین زمان نے باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈپریشن کو پہلے تصور ہی نہیں کیا جاتا تھا، ڈپریشن کو اگر آسان لفظوں میں بیان کیا جائے تو اداسی ہے، نارمل بارڈر لائن سے نیچے محسوس کرنا، بستر سے نہ اٹھنا، بھوک کا نہ لگنا ڈپریشن کہلاتا ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ روزمرہ کے کاموں میں دل نہ لگنا، جو چیزیں ہمیں خوشی دیتی ہیں ان سے بھی اداس ہوجانا ڈپریشن کی علامات ہیں۔
 
ڈاکٹر مہرین زمان نے کہا کہ تاریخ اگر آپ دیکھیں تو ڈپریشن کا سب سے زیادہ شکار نوجوان ہوتے ہیں، یہ بیماری ایک خاص عمر میں نہیں ہوتی ہے، ڈپریشن بچپن میں بھی ہوسکتا ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ ڈپریشن کا لفظ اب فیشن کے طور پر بھی استعمال ہونے لگا ہے کہ مثال کے طور پر لوگ کہتے ہیں کہ میں بہت ڈپریسڈ ہوں، ڈپریشن سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ اس کا علاج فوری طور پر کرایا جائے۔
 
ڈاکٹر مہرین زمان نے کہا کہ ڈپریشن کے علاج کے لیے ایسی دوائیاں موجود ہیں جو آپ کو نارمل زندگی کی جانب راغب کرتی ہیں تاکہ آپ اپنے روزمرہ کے معمولات کو صحیح طریقے سے انجام دے سکیں۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment