ایمز ٹی وی (انٹرنیشنل) مقبوضہ کشمیر کی خاتون وزیرِ اعلی محبوبہ مفتی نے اعتراف کیا ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج چھوٹے بچوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔ گزشتہ روز جموں کے قریب ایک کالج کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کا وزیرِ اعلی بننا آسان ہے لیکن اس کے بعد وہاں کے معاملات سنبھالنا بہت مشکل ہے؛ جبکہ انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کی کارروائیاں مسلح حریت پسندوں کے نہیں بلکہ ان ’’چھوٹے بچوں‘‘ کے خلاف جاری ہیں جو احتجاج کررہے ہیں۔
اس کے باوجود، جب ان سے پوچھا گیا کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال میں اس سے بہتر حکمتِ عملی کیا ہوسکتی تھی، تو جواب میں انہوں نے بڑی ڈھٹائی سے جواب دیا کہ کوئی بھی حکومت اپنا فرض پورا کرنے کےلئے ان حالات میں اس سے بہتر کارکردگی نہیں دکھاسکتی تھی۔ رائے عامّہ کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج مقبوضہ کشمیر میں ڈائلیسس کےلئے جانے والے کسی بزرگ کو یا کسی حاملہ خاتون کو ڈاکٹر کے پاس جاتے ہوئے بھارتی پولیس یا بھارتی فوجیوں سے نہیں بلکہ ہاتھوں میں پتھر اٹھائے ہوئے 14 یا 16 سال کے بچوں سے خوف آتا ہے۔
محبوبہ مفتی، مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کی اتحادی ’’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ (پی ڈی پی) کے سربراہ اور مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیرِ اعلی مفتی محمد سعید مرحوم کی بیٹی ہیں جنہیں کچھ عرصہ پہلے اپنے والد کی وفات کے بعد مقبوضہ کشمیر کا اقتدار تھالی میں سجا کر پیش کیا گیا۔
بی جے پی کی نمک حلالی کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے مقبوضہ کشمیر میں خراب حالات کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے سارا ملبہ پاکستان پر گرادیا لیکن یہ تسلیم کئے بغیر بھی نہ رہ سکیں کہ بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کے زمانے میں مقبوضہ کشمیر کے حالات پُرامن تھے اور پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات جاری تھے لیکن 2004ء کے انتخابات میں یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس (یو پی اے) کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ عمل رک گیا۔
واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نیا سلسلہ 8 جولائی 2016ء کے روز حریت پسند نوجوان برہان وانی کی شہادت کے بعد سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے جس دوران وہاں 90 سے زائد شہری شہید کئے جاچکے ہیں جبکہ پیلٹ گن کی فائرنگ سے معذور ہوجانے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔