بھارتی ریاست آسام کے ایک گاؤں کے بازار میں تازہ چوہے ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہر خاص و عام کا من پسند کھاجا ہیں۔
کچے اورپکے ہوئے تازہ چوہے یہاں مرغی سے زیادہ مہنگے فروخت ہوتے ہیں اورلوگ بڑی تعداد میں کھیتوں سے پکڑے گئے چوہے فروخت کرنے آتے ہیں۔ بعض لوگ چوہوں کو ابال کرکھانا پسند کرتے ہیں ، کچھ کھال اتار کر باربی کیو یا سالن کی صورت میں چوہے پکاتے ہیں۔
کماری کاٹا گاؤں گواہٹی سے 90 کلومیٹر دور بھارت بھوٹان سرحد پر واقع ہے جسے اب چوہا بازار بھی کہا جاسکتا ہے، یہاں چوہے ایک عرصے سے فصلوں کو نقصان پہنچارہے تھے اوراسی بنا پر لوگوں نے ان کا شکار شروع کردیا ۔ دھیرے دھیرے چوہوں کی دکان غریبوں کی آمدنی کی بڑی وجہ بن گئی اور زیادہ تر’ادی واسی‘ قبیلے کے افراد انہیں پکڑ کر فروخت کررہے ہیں بصورتِ دیگر ان کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں ہوتا اور وہ یہاں غریب ترین تصور کئے جاتےہیں۔
یہ علاقہ چائے کی کاشت کی وجہ سے مشہور ہے تاہم عام انسان کی آمدنی بہت ہی کم ہے۔ بعض دیہاتی بھنے ہوئے چوہے بھی فروخت کرتے ہیں۔ کسان تازہ چوہے دکانداروں سے ہاتھ ہاتھ خریدتے ہیں اور اپنے گاہکوں کو بیچتےہیں۔ چوہے کا ایک کلو گوشت پاکستانی 200 روپے میں فروخت ہوتا ہے جو مرغی اور خنزیر کےگوشت سےقدرے مہنگا ہے۔ اب یہ علاقہ چوہوں کی فروخت کی وجہ سے غیرمعمولی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔
رات کے وقت خاص شکنجے لگا کر چوہوں کو پکڑا جاتا ہے جو بانسوں کے ٹکڑوں سے بنائے جاتے ہیں۔ ایک عام شخص ایک رات میں 10 سے 20 کلوگرام وزن کےبرابر چوہےپکڑلیتا ہے۔