ھفتہ, 23 نومبر 2024

سندھ ہائی کورٹ میں میڈیکل میں داخلوں کے لیے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں ہونے والی بے قاعدگیوں کےخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران سیکرٹری صحت اور چیف سیکرٹری کی الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کی تجویزدی۔

عدالت نے کمیٹی تشکیل بنانے کاحکم دیتے ہوئے کمیٹی میں ڈاکٹر شیریں ناریجو ،سی ایم آئی ٹی ،ڈائریکٹر سائبر کرائم ایف آئی اے کراچی شامل کرنے کی ہدایت کی۔عدالت کامزید کہنا تھاکہ مرید علی راہموں سابق سیکرٹری بورڈ بھی کمیٹی کے ممبر ہوں گےکمیٹی کے تیسرے ممبر کا نام بتائیں ۔

عدالت نے کمیٹی کو تمام الزامات کی تحقیقات 15دن میں مکمل کرنے کے احکامات جاری کئےکمیٹی کسی بھی ادارے سے معاونت حاصل کرسکتی ہے ،کمیٹی ٹیسٹ لینے والی یونیورسٹیزاور پی ایم ڈی سی سے ریکارڈ طلب کرسکتی ہے ۔

عدالت نے تحقیقات مکمل ہونے تک میرٹ لسٹ شائع کرنے اور داخلےسے روک دیا ہے

سندھ ہائیکورٹ نے اردو فیڈرل یونیورسٹی کی فیس بڑھانے کیخلاف طلبہ کی درخواست پر تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

ہائیکورٹ میں اردو فیڈرل یونیورسٹی کی فیس بڑھانے کے خلاف طلبہ کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔

دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ عدالت نے حکم دیا کہ شعبہ قانون کی فیس اب 5 سالوں کیلئے صرف 15 ہزار بڑھائی جائے گی۔

سندھ : سندھ ہائیکورٹ نے وفاقی اردو یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کی سیمسٹر فیسوں میں اضافے کے خلاف درخواست پر یونیورسٹی کو حکم امتناع جاری کردیا۔

وفاقی اردو یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں سمیسٹر فیسوں میں اضافے کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست کی سماعت ہوئی۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ شعبہ قانون اور بی اے سمیت مختلف شعبوں کی سیمسٹر فیس میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، ہم غریب طلبہ اتنی فیس کہاں سے ادا کریں گے۔

دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں مقف اختیار کیا کہ قانون کے مطابق یونیورسٹی سالانہ 10 فیصد سے زائد فیس میں اضافہ نہیں کرسکتی۔ایڈووکیٹ عمران عزیز نے فیسوں کے اضافی سے متعلق فیصلے پر حکم امتناع جاری کیا ہے، وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اب طلبہ پہلی والی فیس جمع کرا سکتے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے فیسوں کے اضافے سے متعلق فیصلے پر یونیورسٹی کو حکم امتناع جاری کردیا۔

واضح رہے کہ وفاقی اردو یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں سیمسٹر فیسوں میں اضافے کے خلاف درخواست طلبہ کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔

کراچی: جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کےوائس چانسلرکی تقرری کےخلاف دراخوست پر دورکنی بینچ نےفیصلہ سنادیا

عدالت نے وائس چانسلر ڈاکٹر امجد سراج میمن کی تقرری نوٹیفکیشن معطل کردیا۔

جس کے بعد ہائیکورٹ میں دائر سول سوٹ کے فیصلے تک امجد سراج میمن کی تقرری کا نوٹفکیشن معطل رہے گا۔


ہائیکورٹ سنگل بینچ نے امجد سراج میمن کی تقرری کا نوٹفیکشن معطل کرنے بجائے صرف نوٹس جاری کئے تھے۔

سنگل بینچ نے امجد سراج میمن کی تقرری کا نوٹفیکشن معطل نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کام جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی عدالت نے ایک رکنی بینچ کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دیےدیاہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ کا سنگل بینچ کو دائر دعوے کی سماعت آزدانہ طور پر جاری رکھنے کا حکم دیا۔

واضح رہےپروفیسر ڈاکٹر لبنی انصاری نے نئے وائس چانسلر کی تقرری پر ہائیکورٹ کی ایک بینچ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا درخواست میں کہاگیا تھاکہ امجد سراج میمن کی بطور وائس چانسلر تقرری میرٹ کے خلاف ہے

کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے 5 جی ٹیکنالوجی پرپابندی لگانے کی درخواست پر ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیئے۔

جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس امجد علی سہتو پرمشتمل دورکنی بینچ کے روبرو 5 جی ٹیکنالوجی پرپابندی لگانے کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزارکے وکیل نے موقف دیا کہ 5 جی ٹیکنالوجی انسانی صحت کے لیے مضرہے۔ جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے ہمیں بتائیں، 5 جی آخرکیوں مضرصحت ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے موقف اپنایا کہ 5 جی کے تجربات سے اس کے خطرناک ہونے کے شواہد ملے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے عدالت کیسے 5 جی بند کرسکتی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں، کن احتیاطوں کی ضرورت ہے۔ درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ 5 جی ماحول اور اب و ہوا کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ 4 جی کے بھی نقصان تھے مگر وہ اتنا خطرناک نہیں۔ 5 جی پر پابندی لگائی جائے۔

جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے عدالت اس طرح پابندی عائد نہیں کرسکتی۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے صوبائی و وفاقی افسران قانون کو جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس صلاح الدین پنہور پر مشتمل سنگل بینچ نے غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ نے اساتذہ کی بھرتیوں، صوبے میں ای لائبریری اور کمپیوٹر لیب کے قیام سے متعلق دائر درخواست پر صوبائی حکومت کو تعلیمی اداروں کی مینجمنٹ میں نان پروفیشنل افراد کی تعیناتی سے روک دیا۔

عدالت کا کہنا ہے کہ سندھ میں 37 ہزار اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں لیکن کسی کو فکر نہیں، ایک ماہ میں اساتذہ کی بھرتیوں کے حوالے سے اقدامات نہ کیے گئے تو پھر سیکریٹری خزانہ کو طلب کریں گے۔ فاضل عدالت نے صوبائی حکومت کو اساتذہ میں سے ڈپٹی سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری مقرر کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔سماعت کے موقع پر عدالت کا کہنا تھا کہ محکمہ تعلیم میں ٹیچنگ کمیونٹی سے ایڈمنسٹریٹر لگائے جائیں، ایک سال میں کئی سیکریٹریز تعلیم کا تبادلہ کیا گیا ، متعلقہ ایجوکیشن آفیسر کے حوالے سے جلد ہی پالیسی بنائی جائے۔

سیکریٹری تعلیم احمد بخش ناریجو نے عدالت کو بتایا کہ جب تک رول بنتے ہیں تب تک کیڈر آفیسرز کو پوسٹنگ پر رہنے دیں۔ اس موقع پر عدالت نے حکم دیا کہ 6 ماہ میں ٹیچرز کو ان پوسٹوں پر مقرر کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔

جسٹس صلاح الدین پنہور کا کہنا تھا کہ سندھ ایسا صوبہ ہے جہاں تعلیم کے حالات بدترین ہیں، کالجز کی کمی ہے، دیہی علاقوں میں بچے 15،15 کلومیٹر پیدل پڑھنے جاتے ہیں، محکمہ تعلیم دیہی علاقوں کے بچوں کو ٹرانسپورٹ فراہمی کے انتظامات کرے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ 1996ء سے اب تک بی ایس کے نام پر طلبا سے فراڈ کیا جارہا ہے، بی ایس ڈگری ہولڈرز کیلئے ملک میں کوئی نوکری نہیں، دنیا تو دور کی بات ہے،آپ اخبارات میں اشتہار اور کالجز میں پینا فلیکس لگادیں کہ بی ایس اصل بی ایس ہے ہی نہیں۔ درخواست گزار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حیدرآباد کے ایک ہی اسکول میں 10 اساتذہ کی جگہ 30 کو تعینات کیاگیا ہے۔ جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ اضافی اساتذہ کی تعیناتی تو جرم ہے۔

 
 
 
 
 
 
سندھ ہائیکورٹ نے حکومت سندھ کی اسکول فیسوں میں 20 فیصد رعایت کا معاملہ پر دائر درخواست منظور کرلی، عدالت نے اسکول ملکان کو لاک ڈاؤن کے دوران فیس ادا نہ کرنے والے بچوں کو اسکول سے نکالنے سے بھی روک دیا۔
 
اسکول فیسوں میں 20 فیصد رعایت کا معاملہ پر سندھ حکومت نے بھی کراچی سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا، درخواست میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ ڈی جی پرائیویٹ اسکولز کو بچوں اور والدین کی طرف شکایت موصول ہورہی ہیں کہ جو بچے مکمل اسکول فیس ادا نہیں کریں گے انہیں اسکول سے نکال دیا جائے گا۔
 
سندھ حکومت کی جانب سے قانون کے مطابق 20 فیصد رعایت دی گئی ہے جبکہ اسکول مالکان نے عدالت کے سامنے مکمل حقائق بھی پیش نہیں کیے۔
 
 
ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا مزید کہنا تھا کے کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ جو بچے مکمل فیس ادا نہیں کرسکتے لہذا انہیں اسکولوں سے نہ نکالا جائے جب تک اسکول مالکان کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہوجاتا تب تک اسکول ملکان کو بچوں کے خلاف کارروائی سے روکا جائے، جس پر عدالت نے سندھ حکومت کی متفرق درخواست منظور کرتے ہوئےحکم دیا کے لاک ڈاؤن کے دوران جو بچے اسکول فیس ادا نہیں کرسکے گے انہیں اسکول سے نہیں نکالا جائے گا۔
 
عدالت نے اسکول مالکان اور سندھ حکومت کی درخواستیں یکجا کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ہے۔
 
یاد رہے کہ اسکول مالکان نے سندھ حکومت کی جانب سے 20 فیصد فیس میں رعایت کے نوٹیفکیشن کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا، سندھ ہائیکورٹ نے سندھ حکومت کے 28 اپریل کو نوٹیفکیشن کو معطل کررکھا ہے۔
 
خیلا رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے فیصؒہ کیا گیا ہے کہ ملک بھر کے تمام تر اسکول 15 جولائی تک کے لئے بند رکھے جائیگے اور ساتھ ہی ساتھ تمام بورڈ کے امتحانات بھی منسوخ کردیئے گئے ہیں۔

پرائویٹ اسکولز اور کالجز کی فیس میں دو ماہ اپریل اور مئی کے لیے 20 فیصد کمی کے ڈی جی پرائویٹ انسٹیٹیوشنز کے سرکلر کو معزز عدالت عالیہ سندھ نے معطل کر تے ہو ئے 22 اپریل کےلئے نوٹس جاری کیا ہے۔

ایسوسی ایشن نے 08 اپریل کو جاری کردہ اپنے اعلامیے میں ڈائریکٹوریٹ کے سرکلر کے قانونی اور اخلاقی پہلوؤں کو وضاحت سے بیان کرتے ہوئے دو ٹوک موقف اختیار کیا تھا۔ بعد ازاں دیگر ایسوسی ایشنز کی مشاورت سے اور وزیر تعلیم سندھ محترم سعید غنی سے بات چیت کی روشنی میں پرائویٹ اسکولز اور کالجز کے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے دو ماہ کی فیس میں اسی ماہ میں ادائیگی کی پابندی کے ساتھ مشکل حالات میں والدین کے لیے فیس میں دو ماہ ہی کے لیے 20 فیصد کمی کا فیصلہ کیا گیا۔

جس کی دو وجوہات تھیں اول یہ کہ والدین کے ساتھ احساس شراکت کیا جائے اور دوسری اسکولز اور کالجز کے لیے کیش فلوکی صورتحال پیدا کرنا۔

معزز سندھ ہائیکورٹ کے فیس میں کمی کے سرکلر کو معطل اور 22 اپریل کےلئے ڈائریکٹوریٹ پرائویٹ انسٹیٹیوشنز سندھ اور ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرنے کے بعد اسکولز منتظمین کی وضاحت کے لیے یہ اعلان کیا جارہاہے کہ

چونکہ ایسوسی ایشن نے قانونی نکات سے زیادہ انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر فیس میں کمی پر اتفاق کیا تھا لہذا اب بھی ہمارے سامنے ہمدردی کا پہلو ہی ہونا چاہیے۔

 
اسلام آباد کی خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کے حکم پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سابق صدر کے پاس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اختیار ہے۔
 
سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج محمود عالم رضوی اور متعدد وکلا کے مطابق پرویز مشرف سنگین غداری کیس میں سنائے گئے سزائے موت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر سکتے ہیں۔
 
سزا کے خلاف اپیل کیلئے پرویز مشرف کو پاکستان واپس آنا ہوگا، سابق جج
سابق جج محمود عالم رضوی نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پرویز مشرف کے پاس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اختیار ہے لیکن انہیں اپیل دائر کرنے کے لیے واپس ملک آنا پڑے گا۔
 
 
 
محمود عالم رضوی کے مطابق ایسے کیسز میں سپریم کورٹ کا حکم موجود ہے جس کے تحت اگر کسی مفرور ملزم کو سزا سنائی جاتی ہے تو اسے واپس آکر اپیل دائر کرنی پڑے گی۔
 
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں مختصر فیصلہ سنایا ہے اور تفصیلی فیصلہ آنے سے قبل اس پر مکمل رائے نہیں دی جا سکتی۔
 
 
 
سابق جج کا کہنا تھا کہ ماضی میں اس کیس میں دائر کی جانے والی درخواستوں میں کہا گیا کہ سنگین غداری کا کیس صرف ایک شخص کے خلاف نہیں بلکہ 2007 کی پوری حکومتی کابینہ پر چلنا چاہیے۔
 
ایک سوال کے جواب میں سابق جج نے واضح کیا کہ اگر پرویز مشرف خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کرتے تو یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ خصوصی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کروائے۔
 
پرویز مشرف سزا کے خلاف 30 دن میں عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں، وکلا
اسی حوالے سے وکیل اور نجی ٹی وی کے رپورٹر عبدالقیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ متعدد وکلا کا ماننا ہے کہ قانون کے مطابق سزا حاصل کرنے والا شخص 30 دن کے اندر فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کر سکتا ہے۔
 
عبدالقیوم صدیقی کے مطابق وکلا و قانونی ماہرین کے مطابق اپیل دائر کرنے کے لیے ملزم کو عدالتی حدود میں جسمانی طور پر رہنا ہوگا اور خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں 30 دن کے اندر درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔
کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے گٹکا، ماوا کی فروخت کیخلاف کریک ڈاؤن جاری رکھنے کا حکم دیدیا۔
 
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس آغا فیصل پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو ٹھٹہ، سجاول میں گٹکا، ماوا کی فروخت سے متعلق سماعت ہوئی، ڈی ایس پی سجاول نے بتایا کہ ٹھٹہ اور سجاول میں گٹکا، ماوا کی فروخت مکمل بند ہوچکی ہے، گٹکا بنانے اور فروخت کرنے والوں کیخلاف کارروائی جاری ہے۔
 
پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ 2 ماہ میں ٹھٹہ اور سجاول میں 93 مقدمات درج ہوئے اور 2 فیکٹریاں بند کیں، پولیس افسر نے کہا کہ درخواست گزار کا مدعا علیہ کے ساتھ پلاٹ کا تنازع ہے، سیاسی جھگڑے کو گٹکا کا مسئلہ بنایا جارہا ہے۔
 
عدالت نے گٹکا، ماوا کی تیاری اور فروخت کیخلاف کریک ڈاؤن جاری رکھنے کا حکم دیدیا،عدالت نے پولیس رپورٹ پر وکیل درخواست گزار کو جواب الجواب دینے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 14 جنوری تک ملتوی کردیا۔
Page 1 of 15