اسلام آباد: فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے منی لانڈرنگ سے نمٹنے کے لیے نیب کے اختیارات مانگ لئے۔
اسلام آباد میں راجہ خرم نواز کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی داخلہ کا اجلاس ہوا جس میں ایف آئی اے نے بریفنگ دی اور اینٹی منی لانڈرنگ قوانین سے متعلق نیب کے اختیارات مانگ لئے۔
ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈی جی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اینٹی منی لانڈرنگ قانون میں بہت خامیاں ہیں جس کی وجہ سے نتائج نہیں مل پاتے، ایف آئی اے کو سرکاری ریکارڈ تک رسائی کا وہی اختیار ملنا چاہیے جو نیب کے پاس ہے، اس حوالے سے اینٹی منی لانڈرنگ قانون میں ترامیم ضروری ہیں، بینک سے رکارڈ لینے کے لیے سیشن جج کی اجازت درکار ہوتی ہے جس میں ں کئی کئی مہینے لگ جاتے ہیں اور بسا اوقات سیشن جج اجازت ہی نہیں دیتا، جو رکارڈ 6 ماہ بعد ملتا ہے وہ 6 روزمیں مل جائے توتحقیقات تیزہو سکتی ہیں۔
ایف آئی اے حکام نے بے نامی و جعلی بینک اکاؤنٹس کی تشریح پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ حقیقت میں کوئی اکاؤنٹ بے نامی نہیں ہوتا، کوئی نہ کوئی نام تو ہوتا ہے، اس حوالے سے دو طرح کے اکاؤنٹس ہیں، ایک جعلی اور دوسرا بے نامی اکاؤنٹ، فیک اکاؤنٹ یہ ہے کہ بندہ فوت ہو گیا اور اکاؤنٹ چل رہا ہے، دوسرا بے نامی اکاؤنٹ ہے، اس اکاؤنٹ ہولڈر کی ٹرانزیکشنز سے آمدنی مطابقت نہیں رکھتی۔
ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ بے نامی اکاؤنٹ میں جس کے نام اکاؤنٹ ہے وہ نہ اس کا بینی فشری ہوتا ہے نہ خود آپریٹ کرتا ہے، ایسے اکاؤنٹ کھولنے میں بینکر کا ملوث ہونا یقینی ہے، ہر ٹرانزیکشن میں دو بینکرز کا کم از کم کردار ہوتا ہے، ہم نے تو کئی مرتبہ بینک کے صدر کو بھی ملوث پایا ہے۔
سوشل میڈیا پر جرائم کے بارے میں ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ موجودہ دور میں سائبر کرائمز کا طوفان ہے، بد اخلاقی وغیرہ کی سوشل میڈیا کی بہت شکایات آ رہی جس کے نتیجے میں کام کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔
مریم اورنگزیب نے ایف آئی اے کی کارکردگی اور بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایف آئی اے استعداد اور صلاحیت پر توجہ دے تو نیب کی ضرورت نہیں۔
قائمہ کمیٹی داخلہ نے ایف آئی اے سے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف تحقیقات کی رپورٹ طلب کرلی۔ چیئرمین کمیٹی راجہ خرم نواز نے کہا کہ بتایا جائے کتنی سوسائٹیوں کے خلاف تحقیقات جاری اور کتنے لوگ گرفتار ہوئے، غریب عوام نے جمع پونجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں لگا رکھی ہے۔