ایمز ٹی وی(لاہور) پاکستانیوں کو غیرمعیاری اور غلاظت سے بھرپور کھانے کھلانے والوں کو نکیل ڈالنے والی پنجاب فوڈ اتھارٹی کی سابق ڈائریکٹر عائشہ ممتاز کیخلاف کرپشن کے الزامات پر تفتیش کا امکان ہے جبکہ ان کے ڈرائیور کیخلاف تحقیقات شروع کردی گئی ہیں اور یہ انکوائری موجودہ عہدیدارکی درخواست پر کی جارہی ہے، نورالامین مینگل اور عائشہ ممتاز کے درمیان ایک فیکٹری کو سیل کرنے کے معاملے پر اختلافات بھی تھے۔
رواں ماہ کے آغاز میں سپیشل برانچ نے پنجاب فوڈ اتھارٹی کو لکھے گئے خط میں بدعنوانی میں ملوث افسران کے نام مانگے تھے جبکہ یہ انکوائری نچلی سطح سے شروع ہوگئی ہے جس نے مبینہ طورپر مختصر وقت میں پچاس لاکھ روپے کی جائیداد بنائی۔پنجاب فوڈاتھارٹی کے حکام کے مطابق مشتبہ ملزم بدعنوانی میں اتھارٹی کی سابق ڈائریکٹرآپریشنز عائشہ ممتازکا فرنٹ مین تھا ۔
انکوائری پنجاب فوڈ اتھارٹی کے موجودہ ڈی جی نورالامین مینگل کی درخواست پر شروع کی گئی جس نے عہدہ سنبھالنے کے ایک ماہ بعد نومبر میں سپیشل برانچ اور اینٹی کرپشن کے ہرمحکمے کو ایک خط لکھا جس پر سپیشل برانچ نے کام شروع کردیا۔
پی ایف اے کی طرف سے لکھے گئے خط میں موقف اپنایاگیاکہ ڈرائیور محمد ارشد نے حالیہ عرصے میں پتوکی میں تیس لاکھ روپے کا گھر بنایا اور کرائے پر دی جانیوالی ایک ویگن سمیت دو گاڑیاں خریدیںجبکہ اس کے پاس ستر سے اسی ہزار روپے مالیت کا موبائل فون ہے ، محمد ارشد نہ صرف سابق ڈی جی اسد اسلام ماہانی کیساتھ کام کرتارہابلکہ عائشہ ممتاز کا بھی ڈرائیور رہاجبکہ تاحال دونوں سابق سربراہان کیساتھ رابطے میں ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اتھارٹی کی طرف سے ضبط کیے گئے مہنگے دودھ کے 500بیگز میں سے 100بیگ چرانے کا بھی مور دالزام ٹھہرایاگیا۔
ذرائع کے مطابق ایک میڈیا اینکر کے بھی عائشہ ممتاز کے فرنٹ مین ہونے کا شبہ ہے جن سے چھاپہ مارکارروائی کے بعد سیل کی گئی اشیاءکھلوانے کے لیے رابطہ کیاگیاتھا۔
صوبائی حکومت کے ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ عائشہ ممتاز کے 104دن کی چھٹی پر جاتے ہی نورالامین مینگل نے ڈی جی کا چارج سنبھال لیاتھا اور دونوں کے درمیان بنیاد اختلاف ایک فیکٹری کو کھولنے پر تھا، عائشہ ممتاز مزید سخت اقدامات چاہتی تھیں لیکن نورالامین نے ان کے خیالات کی مخالفت کی ، اسی طرح دونوں میں عدالتی کیسز پر بھی اختلاف تھا، یہ بھی درست ہے کہ کئی سرکاری حکام بھی عائشہ ممتاز کی نڈر کارروائیوں پر خوش نہیں تھے ، ایسی بھی کئی فیکٹریاں عائشہ ممتاز نے سیل کردیں جہاں کسی کوداخلے کی ہمت نہیں ہوتی تھی