Sunday, 13 October 2024
Reporter SS

Reporter SS

ایمزٹی وی(سہیون)مزار حضرت لعل شہباز قلندر کے گدی نشین شاہ ولی نے خودکش دھماکے کی تمام ذمہ داری محکمہ اوقاف پر ڈال دی۔
میڈیا ذرائع کے مطابق سیہون شریف درگاہ پر دھماکے کے بعد گدی نشین نے کہا کہ درگاہ پر جو کچھ ہوا ذمہ دار محکمہ اوقاف ہے اور درگاہ کا تمام انتظام محکمہ اوقاف چلاتا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ شب مزار حضرت لعل شہباز قلندر میں دھمال کے وقت خودکش دھماکہ ہونے سے 76 زائرین جاں بحق جبکہ 300 زخمی ہوگئے ۔

 

ایمز ٹی وی(تعلیم /کراچی) ڈپٹی میئر کراچی ڈاکٹر ارشد عبداللہ وہرہ نے کہا ہے کہ ضلع وسطی میں مختلف اسکولوں کو ایک ہی اسکول میں ضم کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوگیا ہے ۔ ایک ہی عمارت میں مختلف شفٹوں میں چلائے جانے والے اسکولوں کو باہم ضم کرنے سے ان اسکولوں میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے میں مدد ملنے کے ساتھ انتظامی امور میں بھی سہولت ہوگی ۔

یہ بات انہوں نے بلدیہ وسطی کراچی کے دفتر میں منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی جس میں بلدیہ وسطی کے چیئرمین ریحان ہاشمی، ایجوکیشن کمیٹی کے چیئرمین اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن ضلع وسطی فیض احمد اور دیگر افسران بھی موجود تھے اس موقع پر چیئرمین بلدیہ وسطی کے مشیر برائے ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن نے سر آغا خان اسکول کریم آباد میں واقع 5اسکولوں کو ایک اسکول میں ضم کرنے کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی، انہوں نے بتایا کہ ضلع وسطی میںکل149اسکول57عمارتوں میں واقع ہیں جبکہ ٹیچرز کی تعداد 1875ہے اور ان میں تقریباً 16 ہزار طلبا و طالبات زیرتعلیم ہیںجہاں جگہ کی کمی اور دیگر مسائل کی وجہ سے مختلف شفٹوں میں تعلیم دی جاتی ہے ، ماڈل پروجیکٹ کے طور پر لئے جانے والے آغا خان اسکول میں کل 674طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں، صبح کی شفٹ میں 4اسکولوں میں 548جبکہ دوپہر کی انگلش میڈیم شفٹ کے ایک اسکول میں 126طالبعلم موجود ہیں۔
ڈپٹی میئر کراچی ڈاکٹر ارشد عبداللہ وہرہ نے کہا کہ پہلے مرحلے میں موجودہ اسکول انفرااسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے اور ایک اسکول کو ماڈل پروجیکٹ کے طور پر لینے کے بعد اسی طرز پر ڈسٹرکٹ میں واقع دیگر اسکولوں کو بھی باہم ضم کرکے انہیں بہتر اور جدید سہولیات سے آراستہ تعلیمی ادارے کی شکل دی جائے، انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے قبل طالبعلموں کے والدین اور اساتذہ سے بھی مشاورت کی جائے تاکہ ان کی ضروریات کا بھی خیال رکھا جاسکے،انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اسکولوں کی عمارتیں موجود ہیں، صرف انہیں بہتر خطوط پر استوار کرنا ہے۔

 

 

ایمزٹی وی (سیہون)وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ زخمیوں کی عیادت کیلئے تعلقہ ہسپتال سیہون پہنچ گئےجہاں انہوں نے انتظامیہ کو زخمیوں کے علاج معالجے میں کسی قسم کی کسر اٹھا نہ رکھنے کی ہدایت کی ۔ ادھر سندھ حکومت نے سانحے پر تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا ہے
سیہون پہنچ کر میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھاکہ زخمیوں کا علاج معالجہ ہماری اول ترجیح ہے۔” اولیا کے مزارات پر حملہ کرنیوالے وحشی، کافر اور درندے ہیں تاہم قوم دہشتگردوں کو نیست و نابود کرنے کیلئے ایک ہوجائے“۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی ون تھرٹی طیارے تیار ہیں اوروقت پڑنے پر انہیں استعمال کیا جائےگا۔وزیراعلیٰ سندھ نے افسوس ناک واقعے پر صوبے میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔
 

 

 

ایمز ٹی وی(تجارت) بیرونی قرضوں اور دیگر ادائیگیوں کی مد میں 22 کروڑ 40 لاکھ ڈالر ادا ہوگئے ۔مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر گھٹ کے 21 ارب 82 کروڑ ڈالر رہ گئے ۔ساڑھے چار ماہ میں ذخائر میں 2 ارب 20 کروڑ ڈالر کمی ریکارڈ کی گئی ۔
اسٹیٹ بینک کے جاری اعداوشمار کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے میں زرمبادلہ کے ذخائر میں بیرونی قرضوں اور دیگر ادائیگیوں کی مد میں 22 کروڑ 40 لاکھ ڈالر ادا ہونے پر مرکزی بینک کے ذخائر گھٹ کر سترہ ارب ڈالر سے نیچے آگئے ہیں جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس 4 ارب 83 کروڑ ڈالر کے ذخائر موجود ہیں ۔
اعدادوشمار کے مطابق اکتوبر 2016 میں زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب 2 کروڑ ڈالر کی بلند سطح پر تھے ۔ جس میں ساڑے چار ماہ میں 2 ارب 20 کروڑ ڈالر کمی ہوچکی ہے۔
 

 

 

ایمزٹی وی(راولپنڈی)ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہورہی ہے لیکن ہم ملک کا تحفظ کرتے ہوئے ان حملوں کا بھرپور جواب دیں گے ۔
درگاہ لعل شہباز قلندر پر خودکش حملے کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہورہی ہے اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی ہدایات بھی افغانستان سے آرہی ہیں لیکن ہم ملک کا تحفظ کرتے ہوئے ان حملوں کا بھرپور جواب دیں گے۔
 
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے عوام سے پرسکون رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک فوج قوم کے ساتھ ہے اور دشمن طاقتوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔واضح رہے کہ پاکستان میں گزشتہ 4 روز کے دوران 6 خودکش حملوں میں درجنوں افراد شہید اورسیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔

 

افغان بارڈر غیر معینہ مدت کے لئے بند

 

ایمز ٹی وی(تجارت) عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمتوں میں اضافے کے بعد مقامی صرافہ بازار میں فی تولہ سونا سو روپے مہنگا ہوکر 50 ہزار چھ سو روپے کا ہوگیا ۔
آل سندھ صرافہ بازار ایسوسی ایشن کے مطابق عالمی مارکیٹ میں سونا 11 ڈالر اضافے سے 1237 ڈالر فی اونس پر پہنچ گیا۔
اس اضافے کا اثر مقامی صرافہ بازار میں بھی ہوا جس سے فی تولہ سونا سو روپے مہنگاہوکر 50 ہزار چھ سو روپے اور دس گرام سونا 86 روپے بڑھ کر 43 ہزار 371 روپے پر پہنچ گیا ہے ۔
 

 

 

ایمز ٹی وی(تجارت) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں قائم ڈویژن بنچ نے ریور ایج ہاﺅسنگ سوسائٹی میں درجنوں پلاٹوں کی ملکیت کی منتقلی پر نیب کی پابندی کے خلاف وژن ڈویلپرز کے عبدالعلیم خان کی درخواست خارج کر دی۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ عبدالعلیم خان نے قانونی معاہدے کے تحت سابق جج ہائیکورٹ ملک قیوم، حماد ٹکہ اور دیگر افراد سے ریور ایج سوسائٹی میں پلاٹ خریدے ہیں لیکن نیب نے پلاٹوں کی ملکیت منتقلی پر پابندی عائد کر رکھی ہے ،پابندی کالعدم کی جائے، نیب کی طرف سے سپیشل پراسکیوٹر زاہد منہاس نے ریکارڈ پیش کیا اور موقف اختیار کیا کہ سابق جج ہائیکورٹ ملک قیوم، حماد ٹکہ اور دیگر افراد قصرذوق کرپشن سکینڈل میں ملزم تھے اور ان ملزموں نے کرپشن کی نو کروڑ کی رقم کے عوض یہ پلاٹ نیب کو رضامندی سے واپس کر دیئے۔

اگر ملزم کرپشن کی رقم سے بنائی گئی جائیداد کو رضامندی سے نیب کو واپس کر دے گاتو یہ جائیداد نیب کی ملکیت ہو گی اور اس حوالے قانون بالکل واضح ہے، عدالت نے تفصیلی دلائل سننے کے بعد وژن ڈویلپرز کے عبدالعلیم خان کی درخواست خارج کر دی۔
 

 

 

ایمز ٹی وی (مانیٹرنگ ڈیسک) بچوں کو بتایا جاتا ہے بلکہ آپ کو بھی یہی علم ہے کہ دنیا میں سات براعظم ہیں: افریقہ، ایشیا، انٹارکٹیکا، آسٹریلیا، یورپ، شمالی امریکا اور جنوبی امریکا۔
مگر اب سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ درحقیقت زمین کا ایک اور براعظم بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود اوجھل تھا اور اسے زی لینڈیا کا نام دیا گیا ہے۔
اور یہ بحرالکاہل میں نیوزی لینڈ اور نیو کیلیڈونیا سے منسلک ہے۔
گیارہ محققین کی ٹیم نے دریافت کیا کہ نیوزی لینڈ اور نیو کیلیڈونیا درحقیقت 49 لاکھ اسکوائر کلومیٹر پر پھیلے ایک براعظمی قشر پر مشتمل ہیں جو کہ آسٹریلیا سے الگ ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے دکھا جائے تو اس وقت دنیا میں چھ براعظم ہیں: افریقہ، انٹار کٹیکا، آسٹریلیا، یورایشیا، شمالی امریکا اور جنوبی امریکا، یور ایشیاءایسا جغرافیائی خطہ ہے جو کہ یورپ اور ایشیاءپر مشتمل ہے۔
49 لاکھ اسکوائر کلو میٹر کے ساتھ زی لینڈیا زمین کا سب سے چھوٹا براعظم ہوگا۔
تحقیق کے مطابق یہ زمین کا سب سے کم عمر، پتلا اور ڈوبا ہوا براعظم بھی ہے جس کا 94 فیصد حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ زی لینڈیا میں وہ تمام چاروں عناصر موجود ہیں جو کسی براعظم کے لیے ضروری تصور کیے جاتے ہیں۔
ان عناصر میں سمندری قشر سے خطے کی بلندی، تین اقسام کی چٹانیں، پتلا اور کم گنجان قشر اور اتنا بڑے خطہ جو اسے چھوٹے براعظم یا برصغیر کی کیٹیگری سے الگ کرسکے۔
محققین کا کہنا تھا کہ زی لینڈیا کی اہمیت براعظموں کی فہرست میں ایک اضافی نام کی بجائے سائنسی لحاظ سے زیادہ ہوگی۔
محققین کے مطابق رقبے کے لحاظ سے یہ بھارت کے حجم کا ہے اور یہ مانا جاتا ہے کہ دس کروڑ سال پہلے انٹار کٹیکا اور 8 کروڑ سال پہلے آسٹریلیا سے الگ ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اچانک دریافت نہیں بلکہ یہ بتدریج سامنے آنے والی حقیقت ہے۔
 

 

 

ایمزٹی وی(طورخم)پاکستان نے حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد طورخم پر پاک افغان بارڈر کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا۔
ملک میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کی کڑیاں افغانستان سے ملنے کے بعد پاک افغان تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی جب کہ حکومت پاکستان نے آج درگاہ لعل شہباز قلندر میں خود کش دھماکے کے بعد طورخم پر پاک افغان بارڈر کو غیر معینہ مدت تک بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
زرائع کے مطابق پاک افغان طور خم بارڈرسے ہرقسم کی آمدورفت پر پابندی رہے گی جب کہ بارڈرپرامیگریشن کاعمل روک کرایف سی تعینات کردی گئی ہے۔
واضح رہےکہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال ہونے پر پاکستان میں افغان سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج بھی کیا گیا تھا۔

 

 

ایمز ٹی وی(مانیٹرنگ ڈیسک) اگر کراچی جیسے بڑے شہر میں آپ کے پاس اپنی گاڑی یا موٹرسائیکل نہ ہو تو سفری اخراجات آپ کے ماہانہ بجٹ پر کافی بھاری پڑ سکتے ہیں۔
ٹیکسیوں اور رکشوں کے میٹر اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں، لہٰذا ڈرائیور کا جتنا دل چاہے، وہ اتنا کرایہ مانگ لیتے ہیں، حتیٰ کہ کئی مرتبہ قریبی مقامات تک جانے کے لیے بھی آپ سے بہت زیادہ پیسے وصول کرلیے جاتے ہیں۔
شہرِ کراچی کے پہلے ماس ٹرانزٹ سسٹم گرین لائن بی آر ٹی کی تکمیل میں اب بھی تقریباً ایک سال کا عرصہ باقی ہے، مگر مکمل ہونے کے بعد بھی اس کا روٹ صرف ایک ہی ہوگا جو روز افزوں بڑھتے ہوئے اس بے ہنگم شہر کے لیے ناکافی ہوگا۔
تو پھر ہمارے پاس کیا متبادل ہیں؟
اس کا ایک متبادل یقیناً بائیکیا ہو سکتا ہے۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، بائیکیا ایک موٹرسائیکل ٹیکسی سروس ہے، فی الوقت یہ سروس کراچی کے شہریوں کو اوبر اور کریم کی طرز پر آسان سفری سہولیات فراہم کر رہی ہے۔
چوں کہ یہ سروس موٹرسائیکل کا استعمال کرتی ہے جس میں ایندھن اور مرمت کے اخراجات کم ہوتے ہیں، اس لیے اس کے چارجز روایتی ٹیکسیوں اور رکشوں سے کم ہوتے ہیں۔
یہ کمپنی پارسل ڈیلیوری کے میدان میں بھی خود کو آزمانا چاہ رہی ہے اور ان کے پارسل ڈیلیوری کے چارجز بھی کافی مناسب ہیں۔
یہ کیسے کام کرتی ہے؟
اس کی ایپ کافی سادہ اور آسان ہے اور مشہور ٹیکسی کمپنی کریم جیسی ہی ہے۔ لانچ ہونے پر آپ کے سامنے دو آپشن آتے ہیں: بائیکیا سواری کے لیے بلوائیں یا پھر پارسل پہنچانے کے لیے۔
کوئی بھی آپشن منتخب کرنے اور 'چلو' کا بٹن دبانے پر ایپ آپ کو قریبی رائیڈر سے منسلک کر دیتی ہے جو آپ کو آپ کی لوکیشن سے اٹھا لیتا ہے۔
ایپ میں متوقع کرایہ، بعد کے لیے بکنگ کروانے، جمع شدہ بیلنس اور منزل کے انتخاب جیسے بنیادی آپشن موجود نہیں ہیں۔ ایپ استعمال کرنے کے دوران میں نے کچھ مسائل (بگز) کا سامنا بھی کیا جن کا ذکر اس جائزے میں آگے چل کر آئے گا۔
میرا تجربہ
پیر کی ایک خوشگوار صبح میں نے دفتر تک جانے کے لیے بائیکیا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ سروس کیسی ہے۔
چند ہی منٹوں میں ایک شائستہ نوجوان اپنی 70 سی سی موٹرسائیکل پر مجھے اٹھانے کے لیے میرے گھر کے باہر موجود تھا۔ اس کی موٹرسائیکل بہت پرانی نہیں تھی اور بہتر حالت میں تھی۔
سفر کافی آرام دہ رہا، مگر رائیڈر تھوڑی بے احتیاطی سے چلا رہا تھا۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ مجھے دفتر پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں اور اگر آہستہ چلنے پر کرایہ زیادہ بھی ہوگیا تو بھی مجھے قبول ہوگا۔ اس نے میری درخواست تسلیم کرتے ہوئے بائیک کی رفتار آہستہ کردی اور بالآخر مجھے بحفاظت دفتر پہنچا دیا۔
گھر سے دفتر تک کا 17 کلومیٹر طویل راستہ 36 منٹ میں طے ہوا اور کل کرایہ 134 روپے بنا۔
یہ فاصلہ کتنا ہے، اس کے اندازے کے لیے میں بتاتا چلوں کہ میں گلستانِ جوہر میں رہتا ہوں اور میرا دفتر گورنر ہاؤس کے سامنے ہے۔ اگر یہی سفر رکشے کے ذریعے کیا جائے تو رکشے والے تقریباً 300 سے 400 روپے کے درمیان کرایہ لیتے ہیں۔
منزل پر پہنچنے کے بعد رائیڈر نے اپنا اسمارٹ فون نکالا اور خود کو فائیو اسٹار ریٹنگ دے ڈالی۔ میں اس پر کافی حیران ہوا مگر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس نے خود کو فائیو اسٹار ریٹنگ دی نہیں تھی، بلکہ اس نے مجھ سے فائیو اسٹار ریٹنگ دینے کی سفارش کی تھی۔ جب میں نے اپنی ایپ کھولی تو ایپ نے مجھ سے کنفرم کیا کہ آیا میں واقعی رائیڈر کو فائیو اسٹار دینا چاہتا ہوں۔ میرے پاس ریٹنگ کم کرنے کا آپشن بھی موجود تھا۔
اگلے چند دنوں میں، میں نے بائیکیا مزید تین دفعہ استعمال کی اور تینوں دفعہ سفر اچھا اور سستا رہا۔ ہر دفعہ خوش اخلاق رائیڈرز آئے جو ٹریفک سگنلز کے پابند تھے۔
کیا یہ محفوظ ہے؟
چاروں دفعہ جو موٹرسائیکلیں آئیں، ان میں عقبی شیشے موجود نہیں تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ لین تبدیل کرنے یا اوورٹیک کرنے سے قبل رائیڈر اپنا سر گھماتا اور پیچھے دیکھتا۔
کیا یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ یہ کتنا خطرناک طریقہ ہے؟
پاکستان میں زیادہ تر موٹرسائیکل سوار افراد عقبی شیشے لگوانے کو باعثِ شرم سمجھتے ہیں، آخر یہ شیشے نہ لگوانے کی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
میں سالہا سال سے موٹرسائیکل چلا رہا ہوں اور میری موٹرسائیکل میں ہمیشہ عقبی شیشے موجود ہوتے ہیں۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ کی موٹرسائیکل میں عقبی شیشے موجود ہوں (اور آپ انہیں استعمال کریں) تو حادثے کے امکانات اگر ختم نہیں تو بہت کم ضرور ہوجاتے ہیں۔
2 رائیڈز میں موٹرسائیکلیں بالکل پرانی اور مرمت کی طلبگار نظر آئیں۔ میں نے ایک رائیڈر سے پوچھا کہ کیا کمپنی موٹرسائیکلوں کو سروس میں شامل کرنے سے قبل حفاظتی معائنہ کرتی ہے تو اس کا کہنا تھا کہ ہاں، کرتی ہے۔
مگر ایسے کسی بھی حفاظتی معائنے کے کوئی آثار کم از کم مجھے تو نظر نہیں آئے۔ ایک موٹرسائیکل میں پچھلے فٹ ریسٹ نیچے کی طرف مڑے ہوئے تھے، چنانچہ کوئی 20 کلومیٹر کا سفر مجھے ٹانگیں لٹکائے ہوئے کرنا پڑا۔
اس کے علاوہ کسی بھی رائیڈر کے پاس پیچھے بیٹھنے والے شخص کے لیے ہیلمٹ نہیں تھا، حالاں کہ بائیکیا کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ پیچھے بیٹھنے والے شخص کو ہیلمٹ فراہم کیا جائے گا، چنانچہ ہر دفعہ مجھے اپنا ہیلمٹ لانا پڑا۔
حیرت کی بات ہے کہ مجھے لینے کے لیے آنے والے ایک رائیڈر نے دورانِ گفتگو بتایا کہ اس کے پاس لرنرز ڈرائیونگ لائسنس ہے، پکا لائسنس نہیں۔
بھلے ہی اس نے مجھے میری منزل تک بحفاظت پہنچا دیا ہو، مگر ایک ایسی کمپنی جو محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کرنے والی کمپنی بننا چاہتی ہے، اس سے ایسی لاپرواہی کی توقع ناقابلِ قبول ہے۔ بائیکیا کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ وہ بغیر لائسنس یا لرنرز لائسنس والے رائیڈرز کو اپنی سروس میں شامل نہیں کرتے۔
ایپ کے مسائل
ایپ استعمال کرنے کے دوران کچھ جگہوں پر تجربہ پریشان کن رہا۔ ایک صبح جب میں نے ایک اور دفعہ بائیکیا استعمال کرنے کے لیے ایپ کھولی تو گھر کے قریب ترین چاروں کے چاروں رائیڈر ملیر چھاؤنی میں نظر آ رہے تھے اور ان کے نشانات بھی اپنی جگہ سے ہل نہیں رہے تھے۔ 'چلو' کا بٹن دبانے پر ایپ کسی نہ کسی رائیڈر سے منسلک کر دیتی مگر رائیڈر کنفرم کرنے کے لیے واپس کال ہی نہ کرتے۔
پانچویں دفعہ کوشش کرنے پر ایک رائیڈر کا نشان لگاتار ملیر چھاؤنی سے گلشنِ اقبال اور واپس ملیر تک اڑ رہا تھا، جیسے کہ ایپ یہ معلوم نہ کر پا رہی ہو کہ رائیڈر موجود کہاں ہے۔
رائیڈر کو انتظار کروانے یا اسے بلوا کر رائیڈ منسوخ کر دینے کے کوئی چارجز نہیں ہیں جس کی وجہ سے غیر سنجیدہ افراد اکثر رائیڈر کا وقت اور ایندھن ضائع کرتے ہیں۔
کمپنی کو یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ ایک اور فیچر جو موجود نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ آپ سفر کی شروعات میں اپنی منزل کا انتخاب نہیں کر سکتے اور نہ ہی رائیڈر اسے ایپ میں سیٹ کرتے ہیں۔
ایک دفعہ جب رائیڈ ختم ہو جائے تو ایپ جی پی ایس کی مدد سے رائیڈ کا کُل فاصلہ بتاتی ہے اور یوں کرایہ طے ہوتا ہے۔
حادثے کی صورت میں
رائیڈرز کے ساتھ بات چیت کے دوران مجھے بتایا گیا کہ کمپنی نے انہیں حادثے کی صورت میں 25 ہزار روپے تک طبی سہولیات کی مد میں دینے کا وعدہ کیا ہے۔
مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ موبائل فون چھن جانے کی صورت میں آٹھ ہزار روپے فراہم کیے جائیں گے اور یہ کہ کمپنی رائیڈرز کو زیادہ مہنگے فون رکھنے سے منع کرتی ہے۔
چوں کہ موٹرسائیکل پر گاڑی کی بہ نسبت حادثے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر رائیڈ کے دوران میرا فون چھن جائے، تو مجھے بھی رائیڈر جتنے پیسے دیئے جائیں گے۔
مگر جب میں نے دعویٰ دائر کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ چوں کہ اب تک ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، اس لیے کوئی رائیڈر جانتا نہیں ہے کہ یہ کس طرح کام کرتا ہے۔
فیصلہ
ایک بات تو طے ہے، کہ بائیکیا آپ کے پیسوں کا بہترین نعم البدل ہے۔
اگر آپ اپنی منزل پر کم پیسوں میں جلد سے جلد پہنچنا چاہتے ہیں تو آپ کو بائیکیا ضرور استعمال کرنی چاہیے۔ کسی بھی نئی کمپنی میں اس طرح کے مسائل ہونا عام بات ہے، مگر جو چیز اہم ہے وہ کمپنی کا ان مسائل کو بروقت اور احسن طریقے سے حل کرنے کا عزم ہے۔
کمپنی کو اپنی موٹرسائیکلوں کی حالت کے حوالے سے کڑے معیار نافذ کرنے چاہیئں اور تمام ضروری حفاظتی فیچرز بشمول عقبی شیشے، پھسلنے کی صورت میں بائیک کو مسافروں پر گرنے سے بچانے کے لیے دھاتی سلاخ، پیچھے بیٹھنے والے کے لیے ہیلمٹ، اور سائلینسر پائپ کے لیے فریم تاکہ پیر یا ٹانگ جلنے سے بچائی جا سکے، کی موجودگی کو یقینی بنانا چاہیے۔
میں نے ان تمام نکات پر کمپنی کا مؤقف جاننے کے لیے کئی بار رابطہ کیا مگر مجھے جواب نہیں دیا گیا۔ اگر جواب ملا ہوتا تو ہم جان سکتے تھے کہ کمپنی ان مسائل کو کس طرح حل کر رہی ہے، یا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔