Monday, 14 October 2024
Reporter SS

Reporter SS

کراچی: وفاقی اردو یونیورسٹی نے مالی بحران کے پیش نظر پنشن اور گریجویٹی کے کیسز کو روک دیا ہے جبکہ گزشتہ وائس چانسلرز کے ادوار میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا آڈٹ کرانے کیلئے صدر مملکت اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو خط بھی لکھ دیا گیا ہے۔

دوسری جانب جامعہ اردو نے جاب اورینٹڈ ڈپارٹمنٹ قائم کرنے پر غور شروع کر دیا ہے اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کے تحفظات کو دور کرتے ہوئے آئندہ 3ماہ میں جامعہ اردو کے اسلام آباد کیمپس کو نئی عمارت میں منتقل کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

جامعہ انتظامیہ نے کسی بڑی ڈاؤن سائزنگ کی نفی کرتے ہوئے کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے نوجوان ملازمین کو فارغ نہ کرنے کا اشارہ دیا ہے۔

وفاقی اردو یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر عارف زبیر نے گزشتہ وائس چانسلرز کے ادوار میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ادوار میں اتنی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں کہ بتائی نہیں جا سکتیں، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ،آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو خط لکھ کر آڈٹ کرانے کی درخواست کر دی گئی ہے ۔

جامعہ اردو کو درپیش مالی بحران کے پیش نظر پنشن ،گریجویٹی کے کیسز کو روک دیا گیا ہے، گزشتہ تین سال کے میڈیکل بلز کے 54لاکھ روپے التواکا شکار تھے ، ان بلز کو ہم فی الوقت جاری نہیں کر سکتے کیوں کہ اس سے تنخواہوں کی ادائیگی کا نظام متاثر ہونے کا اندیشہ ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ زائد العمر ملازمین کے مقابلے میں نوجوان ملازمین کو ترجیح دی جائے گی۔

کراچی : وفاقی اردو یونیورسٹی کے ترجمان نے یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر سے متعلق شائع ہونے والی خبروں کو حقائق کے منافی اور گمراہ کن قرار دےدیا۔ انکا کہنا ہے کہ وائس چانسلر سینیٹ کی ہدایات کی روشنی میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ یہ پروپیگنڈا ایسے افراد پھیلا رہے ہیں جوجامعہ میں گز شتہ کئی عرصے اقربا پروری، مالی بے ضابطگیوں سے  ناجائز ذرائع سے ترقیاں کرانے اور ناقابل فہم الاؤنسز کی مد میں خطیر رقم کی خورد برد میں ملوث رہے ہیں اور ان کے خلاف آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ میں متعدد پیرا تحریر کیے گئے ہیں جبکہ ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

 ترجمان نے مزید کہا کہ موجودہ انتظامیہ یونیورسٹی میں مالی و تعلیمی نظم و ضبط قائم کرنے کیلئے کسی بھی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے گی اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں نشاندہی کیے جانے والے افراد کے خلاف ضابطے کے مطابق کارر وائیاں جاری رکھے گی۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں تعلیمی، تحقیقی اور مالی استحکام پیدا کرنے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے مشکل اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ ترجمان نے کہا کہ یونیورسٹی میں مستقل شیخ الجامعہ کی تقرری کے لیے صدر مملکت اور یونیورسٹی کے چانسلر کی جانب سے سینیٹ کے 42 ویں اجلاس کی روداد کی منظوری دیے جانے کے بعد تلاش کمیٹی قائم ہو چکی ہے۔

مانیٹرنگ ڈیسک : حال ہی میں میوزک سننے کے شوقین افراد کی جانب سے ایک نئی مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس میں انکا مطالبہ ہے کہ 'اسپوٹیفائے' کو پاکستان میں جلد لانچ کیا جائے۔
 
جنوبی کوریائی گروپ (بی ٹی ایس) کے پرستاروں نےسوشل میڈیا پر اس مہم کا آغاز کیا ہے جنہیں 'اے آر ایم وائی' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
 
مائیکروبلاگنگ سائٹ ٹوئٹر کے پاکستان پینل پر  SpotifyInPakistan# ٹرینڈ کر رہا ہے۔
 
'اسپوٹیفائے (Spotify)' کیا ہے؟
 
اسپوٹیفائے ایک ڈیجیٹل میوزک اسٹریمنگ سروس ہے جو صارفین کو پوری دنیا کے فنکاروں کے لاکھوں گانوں، پوڈکاسٹ اور ویڈیوز تک رسائی فراہم کرتی ہے۔
 
میوزک اسٹریمنگ سروس اسپوٹیفائے اس وقت دنیا کے 70 سے زائد ممالک کے لوگ استعمال کر رہے ہیں جس میں بھارت سمیت متعدد ایشیائی ممالک بھی شامل ہیں تاہم یہ سروس اس وقت پاکستان میں دستیاب نہیں ہے۔
 
پاکستان میں 'اسپوٹیفائے' لانچ کرنے کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟
 
سوشل میڈیا پر اس وقت ہزاروں صارفین کی جانب سے پاکستان میں اسپوٹیفائے کو لانچ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
 
صارفین کا کہناہے کہ پاکستانی عوام موسیقی کے شعبے میں بہت ترقی کر رہی ہے اور اس طرح کا پلیٹ فارم موسیقی سے وابستہ لوگوں کے لیے بھی مددگار ثابت ہوگا۔
 
پاکستان میں 'اسپوٹیفائے' لانچ کرنے کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟
 
سوشل میڈیا پر اس وقت ہزاروں صارفین کی جانب سے پاکستان میں اسپوٹیفائے کو لانچ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
 
صارفین کا کہناہے کہ پاکستانی عوام موسیقی کے شعبے میں بہت ترقی کر رہی ہے اور اس طرح کا پلیٹ فارم موسیقی سے وابستہ لوگوں کے لیے بھی مددگار ثابت ہوگا۔
مانیٹرنگ ڈیسک: امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایمازون نے اپنے ملازمین کو موبائل سے ٹک ٹاک ایپ ہٹانے سے متعلق ای میل پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ای میل غلطی سے ہوگئ تھی۔
 
ایمازون نے ایک روز قبل اپنے ملازمین کو ای میل بھیجی دی تھی جس میں کہا گیا کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے وہ اپنے ان موبائل ڈیوائسز سے ویڈیو شیئرنگ چینی ایپ 'ٹک ٹاک' کو 10 جولائی تک ہٹا دیں جن پر وہ کمپنی کا ای میل اکاؤنٹ استعمال کرتے ہیں تاہم ٹک ٹاک کو بدستور ڈیسک ٹاپ پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
 
تاہم ایمازون نے ایک روز بعد ہی اپنا بیان بدلتے ہوئے اسے غلطی سے بھیجی گئی ای میل قرار دیا ہے۔
 
برطانوی نشریاتی اداے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایمازون کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ملازمین کو یہ ای میل غلطی سے بھیج دی گئی، ہماری پالیسی میں ٹک ٹاک کو لے کر فی الحال کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے‘۔
واضح رہے کہ ٹک ٹاک چینی ایپ پوری دنیا میں نوجوانوں میں مقبول ہے تاہم امریکا اور چین کے درمیان ہانگ کانگ اور کورونا وائرس کے حوالے سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث ٹک ٹاک پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
 
چینی ایپ سے متعلق کہا گیا تھا کہ یہ چین کو خفیہ ڈیٹا فراہم کرتی ہے۔
 
اس کے علاوہ گزشتہ ماہ چینی ایپ ٹک ٹاک سمیت 53 ایپس آئی فون صارفین کی حساس معلومات کی جاسوسی کر نے کا بھی انکشاف ہوا تھا۔
 
مذکورہ ایپس کی جانب سے جاسوسی کی جانے والی حساس معلومات میں صارفین کے پاسورڈز، کرپٹو کرنسی والٹ ایڈریس، اکاؤنٹ ری سیٹ لنکس اور ذاتی پیغامات شامل ہیں۔
 
اس صورتحال میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا ہم ٹک ٹاک سمیت دیگر چینی سوشل میڈیا ایپس پر پابندی لگانے پر غور کررہے ہیں۔
مانیٹرنگ ڈیسک : ٹک ٹاک دنیا کی مقبول ترین سوشل میڈیا ایپس میں سے ایک ہے جس میں روزانہ ہی لاتعداد ویڈیو اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔
 
اب کمپنی نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ وہ کس طرح اپنے صارفین کے مواد کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔
 
گزشتہ دنوں کمپنی کی جانب سے ٹرانسپیرنسی رپورٹ جاری کی گئی جس کے مطابق جولائی سے دسمبر 2019 کے دوران اس نے دنیا بھر میں 4 کروڑ 90 لاکھ سے زائد ویڈیو کو پالیسیوں کی خلاف ورزی پر ڈیلیٹ کیا۔
 
کمپنی کی جانب سے سب سے زیادہ ویڈیو بھارت میں ڈیلیٹ کی گئی جن کی تعداد ایک کروڑ 60 لاکھ سے زائد تھی، جس کے بعد امریکا دوسرے نمبر پر ہے جہاں یہ تعداد 46 لاکھ رہی۔
 
حیران کن طور پر پاکستان اس فہرست میں تیسرے نمبر پر موجود ہے جہاں ٹک ٹاک نے 37 لاکھ 28 ہزار سے زائد ویڈیوز ڈیلیٹ ہوئیں جبکہ برطانیہ میں 20 لاکھ اور روس میں 12 لاکھ ے زائد ویڈیوز کو صاف کیا گیا۔
 
کمپنی کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے اختتام پر مواد کے حوالے سے نیا نظام متعارف کرایا گیا تھا تاکہ اسے زیادہ شفاف اور رپورٹ ہونے والی ویڈیوز کو ڈیلیٹ کرنے کی وجوہات آسان بنائی جاسکیں۔
 
جب کوئی ویڈیو کمنی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اس پر پالیسی کی خلاف ورزی کا لیبل لگایا جاتا ہے اور پھر ہٹا دی جاتی ہے۔
 
صرف دسمبر کے مہینے میں 25 فیصد ے زائد ایسی ویڈیوز کو پلیٹ فارم سے ہٹایا گیا جو نامناسب مواد پر مبنی تھیں، 25 فیصد کے قریب ویڈیوز بچوں کے تحفظ کی پالیسیوں کی خلاف ورزی پر ہٹائی گئیں، جن میں نقصان دہ، خطرناک یا غیرقانونی مواد جیے منشیات یا الکحل کے استعمال کو دکھایا گیا تھا۔
 
غیرقانونی سرگرمیوں پر مبنی 21.5 فیصد مواد کو صاف کیا گیا جبکہ خودکشی، خود کو نقصان پہنچانے یا خطرناک والی 15.6 فیصد ویڈیوز کو ہٹایا گیا۔
 
8 فیصد ویڈیوز کو پرتشدد مواد کی وجہ سے ڈیلیٹ کیا گیا جبکہ 3 فیصد ہراساں اور بدزبانی پر مبنی مواد کی وجہ سے ہٹائی گئیں، ایک فیصد ویڈیوز نفرت انگیز مواد کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کا نتیجہ تھیں۔
 
گزشتہ سال کی آخری ششماہی کے دوران 26 ممالک کی جانب سے ٹک ٹاک کے صارفین کے ڈیٹا سے متعلق درخواستیں کی گئی جن میں سے ایک پاکستان کی جانب سے بھی کی گئی تھی۔
 
ویڈیوز ہٹانے کے لیے ٹک ٹاک کو 45 درخواستیں 10 ممالک سے موصول ہوئیں۔
 
کمپنی کا کہنا تھا 'آج کی ٹیکنالوجی اتنی ایڈوانسڈ نہیں کہ ہم پالیسیوں کے نفاذ کے لیے خود پر انحصار کرسکیں'۔
 
یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی جب بھارت میں قومی سلامتی کو جواز بناکر ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی جاچکی ہے جبکہ امریکا کی جانب سے بھی اس مقبول ایپ پر پابندی کا عندیہ دیا جارہا ہے۔
موسم گرما کا آغاز ہوچکا ہے اور سورج کی شعاعیں لگتا ہے کہ ہمیں پکانے کے لیے تیار ہیں خاص طور پر گرم ہوائیں تو لوگوں کو تیزی سے بیمار کرتی ہیں۔
 
اور اس گرمی کا توڑ ائیر کنڈیشنر سمجھا جاتا ہے مگر اسے خریدنا اور چھوٹے گھروں میں لگانا کوئی آسان کام نہیں
 
مگر کیا آپ ایسا اے سی خریدنا پسند کریں گے جسے آپ پہن کر گھوم سکیں۔
 
سونی نے گزشتہ سال ایسا پروٹوٹائپ ویئرایبل ایئرکنڈیشنر تیار کیا تھا جسے جیب میں رکھا جاسکتا تھا جبکہ اسے استعمال کرنے کے لیے ایک خاص ٹی شرت پہننے کی ضرورت تھی۔
 
یہ دنیا کا پہلا اے سی ہے جسے آپ پہن بھی سکتے ہیں اور اب یہ عام صارفین کے لیے دستیاب ہے، تاہم فی الحال جاپان میں رہنے والے ہی اسے خرید سکیں گے۔
 
ریون پاکٹ نامی اے سی کو درحقیقت پہن نہیں سکتے بلکہ یہ لباس کے اندر منسلک ہوگا۔
 
ریون پاکٹ نامی اے سی کو اس خصوصی ٹی شرٹ کی گردن اور کمر کے درمیان موجود جیب میں رکھ دیا جائے گا اور یہ خاموش ڈیوائس گردن پر ٹھہر کر تھرمو الیکٹرک کولنگ خارج کرے گی۔
 
اگر موسم گرم ہے تو یہ اے سی آپ کا جسمانی درجہ حرارت 13 ڈگری تک پہنچائے گا جبکہ سرد موسم میں یہ جسمانی درجہ حرارت بڑھا کر 8 ڈگری تک لے جائے گا۔
 
یہ ڈیوائس حرارت کو جذب یا خارج کرکے سرد اور گرمی کا احساس دلاتی ہے، یعنی یہ بیک وقت ویئر ابیل اے سی اور ہیٹر دونوں ہے۔
 
تاہم یہ اے سی زیادہ دیر تک کام نہیں کرتا بلکہ سنگل چارج پر 2 گھنٹے کام کرتا ہے جو کمپنی کے خیال میں روزمرہ کے سفر یعنی گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر واپسی کے لیے کافی ہوگا۔
 
اس ڈیوائس کو یو ایس بی سی کیبل سے چارج کیا جاسکتا ہے جبکہ ایک اینڈرائیڈ یا آئی او ایس ایپ کے ذریعے اسے ٹھنڈی یا گرم خارج کرنے کے لیے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
 
یہ ڈیوائس بنیادی طور پر 2020 ٹوکیو اولمپکس کے لیے تیار کی گئی تھی مگر اگلے سال تک التوا پر سونی نے اسے اب فروخت کے لیے پیش کردیا ہے۔
 
اس کی قیمت 12 ہزار جاپانی ین (20 ہزار پاکستانی روپے سے زائد) رکھی گئی ہے، جبکہ پہننے کے لیے خصوصی لباس 18 سو ین (28 سو پاکستانی روپے) میں مل سکے گا۔
 
جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ یہ فی الوقت جاپان میں دستیاب ہے اور دیگر ممالک کے حوالے سے کمپنی نے ابھی کوئی اعلان نہیں کیا۔

ایمازون نے اپنے ملازمین کو ہدایت کی ہے کہ وہ 'سیکیورٹی خدشات' کی بنا پر اپنے ان موبائل ڈیوائسز سے ویڈیو شیئرنگ ایپ 'ٹک ٹاک' کو ہٹا دیں جن سے وہ کمپنی کا ای میل اکاؤنٹ استعمال کرتے ہیں۔

تاہم ملازمین کو اندرونی پیغام میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ ایمازون کے لیپ ٹاپ براؤزرز پر یہ ایپ استعمال کر سکتے ہیں۔

کمپنی کی جانب سے ملازمین کو بھیجی گئی ای میل، جو متعدد ملازمین نے ٹوئٹر پر شیئر کی، میں کہا گیا کہ 'سیکیورٹی خدشات کی بنا پر ٹک ٹاک ایپ ان موبائل ڈیوائسز پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جن سے ایمازون کا ای میل اکاؤنٹ استعمال کیا جاتا ہو۔'

ای میل میں ملازمین سے کہا گیا کہ اگر وہ ایمازون ای میل موبائل پر استعمال کرنا چاہتے ہیں تو انہیں 10 جولائی تک ڈیوائس سے لازمی طور پر ٹک ٹاک ایپ ہٹانی ہوگی۔

چینی کی اس ایپ کو ان دنوں اسکروٹنی کا سامنا ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ یہ چین سے ڈیٹا شیئر کرتی ہے۔

ٹک ٹاک نے اپنے بیان میں کہا کہ ایمازون کے خدشات سمجھ سے بالاتر ہیں۔

کمپنی کا کہنا تھا کہ اسے ملازمین کو ای میل بھیجنے سے قبل اس کا کوئی پیغام نہیں ملا۔

ٹک ٹاک نے کہا کہ 'ہمیں اب بھی ان کے خدشات سمجھ نہیں آرہے، ہم مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہیں تاکہ اگر انہیں کوئی مسئلہ درپیش ہے تو اس کا حل نکالا جائے اور ایمازون کی ٹیم ہماری کمیونٹی میں شرکت جاری رکھے۔'

بیجنگ: چینی کمپنی نے دنیا کی ارزاں ترین کار تیارکرلی ہے جس کی قیمت صرف 930 ڈالر ہے اور اسے گھر بیٹھے آرڈر کیا جاسکتا ہے جس کے بعد یہ آپ کے پتے پر ارسال بھی کی جاسکتی ہے۔

اس کار کا نام ’چینگلی‘ رکھا گیا ہے اور اسے چینگ زو ژائلی کار انڈسٹری نے تیار کیا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ برقی کاروں کی جانب متوجہ ہورہے ہیں۔ اس وقت چینگلی کار کا چرچا عام ہے جس پر آن لائن بات کی جارہی ہے۔ پاکستانی روپوں میں اس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے ہے جبکہ طاقتور اور بڑی بیٹیوں کے ساتھ اس کی قیمت 1200 ڈالر ہے جو دو لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے۔ 

کمپنی کے مطابق یہ دنیا کی سستی ترین برقی کار ہے جو جیب پر بھاری نہیں اور اس کی قوت ایک ہارس پاور سے کچھ زائد ہے لیکن یہ زیادہ سے زیادہ 30 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتی ہے۔ لیکن اس قیمت میں بھی گاڑی کے اندر دیگر اہم لوازمات شامل ہیں جن میں ایئر کنڈیشننگ، سسپینشن، ہیٹر، ریڈیو اور ریورس کیمرہ بھی لگا ہوا ہے۔ لیکن اس کی سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آپ آن لائن آرڈر دیجئے اور کار آپ کے گھر تک پہنچادی جائے گی۔

اس کے لیے کمپنی کی ویب سائٹ پر جائیں اور آن لائن آرڈر دیدیجئے جبکہ یہی کار اب علی بابا ویب سائٹ پر بھی فروخت کے لیے پیش کردی گئی ہے۔ اس کار کی لمبائی ڈھائی میٹر، چوڑائی ڈٰیڑھ میٹر اور بلندی 1.80 ہے۔ ایک مرتبہ بیٹری چارج کرنے پر آپ 40 سے 100 کلومیٹر کا سفر طے کرسکتے ہیں۔ اس میں 800، 1000 اور 1200 واٹ کی بیٹریاں لگ سکتی ہیں جو اپنے لحاظ سے 7 تا 10 گھنٹے میں چارج ہوتی ہیں۔

کار کے سب سے کم خرچ ورژن میں دو افراد بیٹھ سکتے ہیں جبکہ تین نشستوں والی کار کی قیمت 1500 ڈالر رکھی ہے۔ نت نئی کاروں پر تبصرہ کرنے والے بلاگر جیسن ٹورچنسکی نے اس پر ویڈیو بنائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رقم کم ہے اور خود کار بھی محدود خواص رکھتی ہے۔ اگرچہ اس کی قیمت گالف کے میدانوں کی کار سے بھی آدھی ہے لیکن یہ ڈھلواں سطح پر نہیں چڑھ سکتی ۔

 

دیگر ناقدین نے اسے نہایت کم قیمت پر ایک ماحول دوست ایجاد قرار دیا ہے۔

  
سنگاپور: مصروف شاہراہوں پر واقع دفاتر اور گھروں میں ٹریفک کا ناقابلِ برداشت شور محسوس ہوتا ہے۔ اب سنگاپور کے انجینیئروں نے کھڑی پر لگائے جانے والے ایک آلے کے ذریعے اس شور کو 50 فیصد تک کم کرنے کا کامیاب عملی مظاہرہ کیا ہے۔
 
بالخصوص موسمِ گرما میں اگر شورکی وجہ سے کھڑکیاں بند کی جائیں تو حبس کی باعث گھر کے اندر بیٹھنا محال ہوجاتا ہے۔ اسی مسئلے کو دیکھتے ہوئے نان یانگ ٹیکنالوجی یونیورسٹی، سنگاپور کے بان لیم اور ان کے ساتھیوں نے ایک مؤثر آلہ بنایا ہے جو کھڑکی سے آنے والے شور کی شدت کو نصف کرسکتا ہے یعنی 10 ڈیسی بیل کا شور کم کرنے کے قابل ہے۔
 
اس کے لیے انہوں نے ایشیا کی عمارتوں کی کھڑکیوں میں لگائی جانے والی جالیوں والی کھڑکی کو دیکھتے ہوئے چھوٹے لاؤڈ اسپیکر استعمال کئے جن کی تعداد 24 تھی اور انہیں 8 فٹ چوڑی اور 3 فٹ اونچی گرل والی کھڑکی پر لگایا گیا۔
ماہرین کے مطابق اندر آنے والے شور کی فری کوئنسی کے لحاظ سے اسپیکروں کے درمیانی فاصلے کا تعین کیا جاتا ہے۔
 
تجرباتی طور پر اس نظام کو ایک ماڈل کمرے میں لگایا گیا جہاں دو میٹر دور بڑے لاؤڈ اسپیکر سے ٹریفک اور ہوائی جہاز کا شور پیدا کیا گیا جس کی فری کوئنسی 200 سے 1000 ہرٹز تھی۔ واضح رہے کہ بڑی سڑکوں کا شور عموماً 1000 ہرٹز کے برابر ہوتا ہے۔
 
تجرباتی طور پر 300 سے 1000 ہرٹز والا شور کامیابی سے منسوخ (کینسل) کیا گیا۔ واضح رہے کہ اس پورے عمل میں عین وہی ٹیکنالوجی استعمال کی گئ ہے جو کارخانوں میں شور کم کرنے والے ہیڈفون میں ہوتی ہے لیکن یہ ہیڈفون صرف ہوائی جہاز کی آواز کو کم کرسکتے ہیں,
 
ہر اسپیکر کو ایک دوسرے سے ساڑھے بارہ سینٹی میٹر کے فاصلے پر لگایا گیا اور ان کا رخ آواز کی جانب تھا اور کھڑکی کے باہر سینسر لگائے گئے تھے۔
 
اس کے بعد 300 ہرٹز سے کم کی آوازوں کو کاٹنے کے لیے اسپیکروں کو ساڑھے چار سینٹی میٹر کے فاصلے پر رکھا گیا ۔
 
ماہرین کے مطابق اگرچہ دیگر اقسام کی آوازوں کو روکنا بھی ممکن ہے لیکن اس کے لیے اسپیکروں کو بڑا کرنا ہوگا تاکہ ہر قسم کے شور کو روکا جاسکے۔
 
ماہرین نے اس کی تفصیلات نہیں بتائی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اسپیکر شور کے خلاف فری کوئنسی خارج کرکے اس کی شدت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
ماہرین کے مطابق کئی اداروں اور کارخانوں پر ان کا سسٹم لگایا جارہا ہے تاکہ اس کی مزید افادیت نوٹ کی جاسکے۔

کراچی : وفاق المدرس کے تحت ملک بھر میں امتحانات کاآغاز ہو گیا، سالانہ امتحان میں4لاکھ 20ہزار سے زائد طلبہ وطالبات حصہ لے رہے ہیں، امتحانات کیلئے ایس او پیز بھی جاری کردی گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ میں مجموعی طور پر امتحانی مراکز کی تعداد دو سو اٹھائیس ہے جبکہ88 سینٹر طلبہ کے لئے اور 140 طالبات کے لئے تشکیل دیئے گئے ہیں۔

ملک بھر میں سینٹرز کی تعداد 2ہزار100 ہے اور سالانہ امتحان 1441ھ میں شریک طلبہ وطالبات کی مجموعی تعداد 4لاکھ 20ہزار سے زائد ہیں جبکہ کراچی کے چھ اضلاع میں طلبہ کے امتحانی مراکز کی تعداد چونسٹھ جبکہ طالبات کے چوراسی ہیں

ترجمان وفاق المدارس طلحہ رحمانی کے مطابق وفاق المدارس نے آج سے شروع ہونے والے امتحانات کیلئے ایس او پیز جاری کردی ہے، جس کے مطابق امتحانات کھلی جگہوں اور مساجد میں لئے جائیں گے، مساجد کے ہال اور صحن امتحانی سینٹرز کے لئے استعمال کئے جائیں گے۔

جاری ایس او پیز میں کہا گیا ہے کہ ہر طالبعلم 6فٹ کے سماجی فاصلے پر بیٹھے گا، تمام امیدوار اپنے کاغذات، قلم ، پینسل کو اپنے استعمال تک محدود رکھے۔

ترجمان وفاق المدارس کا کہنا ہے کہ کمرہ امتحان میں آنے سے قبل ہاتھوں کو صابن سے اچھی طرح سے دھوکر آئیں جبکہ امتحانی مراکز سے باہر بھی صابن اور سینیٹائزر کا انتظام کیا جائے اور ہاتھ ملانے سے گریز کیا جائے۔

ایس او پیز کے مطابق ہر امتحان سے قبل کمرہ امتحان کو کلورین سے اچھی طرح صاف کیا جائے امتحانی ہال میں دریا اور قالین نہ بچھائے جائیں اور ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا گیا ہے۔

ترجمان کے مطابق کراچی سمیت سندھ ، پنجاب، کے پی کے ، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں بھی ایس او پی کے تحت کے وفاق المدرس کے تحت امتحانات جاری ہے ، امتحانات مرحلہ سولہ جولائی کو اختتام پذیر ہوگا۔

دوسری جانب جید علمائے کرام نے جامعہ بنوریہ ساییٹ ، جامع مسجد بنوری ٹاون، دارالعلوم کورنگی ، جامعہ اسلامیہ پیپلز چورنگی سمیت مختلف امتحانی کا دورہ کیا۔