بیجنگ: تصویر میں دکھائی دینے والی مائیکروچپ کوالکوم کمپنی کی نئی اختراع ہے جو دنیا بھر کے اسمارٹ فون کے لیے پروسیسر بنانے والی ایک بڑی کمپنی ہے، توقع ہے کہ اگلے سال اکثر اسمارٹ فون میں یہی چپ استعمال ہوگی جسے ’اسنیپ ڈریگن 865‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ اپنی سابقہ چپ کے مقابلے میں 25 فیصد تیز رفتار ہے۔
اس چپ کی بدولت فائیو جی اسمارٹ فون کا خواب پورا ہوگا، اسمارٹ فون کے کیمرے مزید بہتر ہوں گے اور ایچ ڈی آر سمیت ڈولبی وژن جیسی نئی ڈسپلے ٹیکنالوجی پروان چڑھیں گی۔
گزشتہ کئی برس سے کوالکوم کی اسنیپ ڈریگن چپس اسمارٹ فون کی دنیا پر چھائی ہوئی ہیں۔ اس سال ہم نے گوگل پکسل فور ایکس ایل سے لے کر سام سنگ گیلکسی نوٹ ٹین میں بھی اسنیپ ڈریگن 855 سیریس کی مائیکروچپس دیکھی ہیں۔
مانیٹرنگ ڈیسک: جینیامیں ایک حالیہ رپورٹ میں امریکی تفتیشی ادارے ’’ایف بی آئی‘‘ نے صارفین کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی جدید قسم کا اسمارٹ ٹیلی ویژن ہے تو وہ بظاہر انہیں تفریح فراہم کرتے ہوئے ان کی جاسوسی بھی کرسکتا ہے۔
اسمارٹ فون کی طرح اسمارٹ ٹی وی بھی ہر وقت انٹرنیٹ سے رابطے میں ہوتا ہے جسے ہم اپنی آسانی کےلیے ایک ’’تفریحی کمپیوٹر‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسمارٹ ٹی وی کا اپنا آپریٹنگ سسٹم ہوتا ہے جبکہ وہ اضافی طور پر کیمرے اور مائیکرو فون سے بھی لیس ہوتا ہے۔
ایف بی آئی اور دوسرے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے تعاون سے کیے گئے، حالیہ تجزیوں سے معلوم ہوا ہے کہ اسمارٹ ٹیلی ویژنز میں سیکیورٹی کے حوالے سے کئی خامیاں موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی بھی ہیکر آپ کے اسمارٹ فون کا سسٹم ’’اغواء‘‘ کرسکتا ہے۔
اس طرح بہت ممکن ہے کہ ایک طرف آپ اپنے اسمارٹ ٹی وی پر کوئی فلم دیکھ رہے ہوں تو اس دوران وہی اسمارٹ ٹی وی (اپنے کیمرے اور مائیکروفون کی مدد سے) خفیہ طور پر آپ کی ساری ریکارڈنگ کرتے ہوئے کسی دور دراز ہیکر کو بھیج رہا ہو۔ علاوہ ازیں، یہ بھی ممکن ہے کہ اگر آپ اسمارٹ ٹیلی ویژن کی مدد سے آن لائن فلمیں خرید کر دیکھ رہے ہیں تو کوئی ہیکر آپ کے بینک اکاؤنٹ پر بھی حملہ آور ہوسکتا ہے۔
ایف بی آئی کی مذکورہ رپورٹ میں خاص طور پر یہ نکتہ اجاگر کیا گیا ہے کہ اسمارٹ ٹیلی ویژن میں سیکیورٹی اور پرائیویسی کے اقدامات پر خصوصی توجہ نہیں دی جاتی لہذا وہ ہیکرز کےلیے آسان ہدف ثابت ہوسکتے ہیں۔
نئی دہلی: بھارتی دارالحکومت میں اسکول کے بچوں کے لیے ’ دوپہر کے سرکاری کھانے‘ میں سے ایک مردہ چوہا ملا ہے۔
بھارتی خبر رساں ادارے کے مطابق دارالحکومت ریاست اتر پردیش کے ضلع مظفرنگر کے جنتا انٹر اسکول میں ’مڈ ڈے میل‘ میں دال چاول پیش کیا گیا تھا تاہم ایک طالب علم کے کھانے میں چوہے کا مردہ بچہ پایا گیا جس کے بعد اسکول کے 8 طلبا اور 4 استاد کی طبیعت غیر ہوگئی جنہیں قریبی اسپتال منتقل کردیا گیا۔
واقعے کی اطلاع ملنے پر ضلعی پولیس نے سرکاری اسکولوں میں کھانا فراہم کرنے والے غیر سرکاری ادارے جن کلیان سمیتی کیخلاف ایف آئی آر درج کر کے تفتیش کا آغاز کردیا ہے، ضلعی مجسٹریٹ امیت کمار سنگھ نے میڈیا کو بتایا کہ ایک بچے کے کھانے میں مردہ چوہا ملا ہے تاہم وہ کھانا کسی نے نہیں کھایا تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے بھی سرکاری کی جانب سے فراہم کیے گئے بچوں کے کھانے میں 70 فیصد پانی ملا دودھ دیا گیا تھا جس پر ایک ٹیچر کو معطل کردیا گیا تھا، اسی طرح سیتا پور ضلع میں دال کے بجائے ہلدی اور پانی کے محلول دیئے جانے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔
کراچی: بین الاقوامی سطح پر سونے کی فی اونس قیمت میں 7 ڈالر اور مقامی صرافہ مارکیٹوں میں فی تولہ اور دس گرام قیمت میں بالترتیب 350 روپے اور 300 روپے کا اضافہ ہوا۔
ذرائع کے مطابق عالمی بلین مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت 7 ڈالرکے ضافے سے1477 ڈالر کی سطح پر پہنچ گئی، جب کہ بدھ کے روز مقامی صرافہ مارکیٹوں میں بھی فی تولہ اورفی دس گرام سونے کی قیمتوں میں بالترتیب 350 روپے اور 300 روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔
قیمتوں میں اضافے کے بعد کراچی، حیدرآباد، سکھر، ملتان، فیصل آباد، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ کی صرافہ مارکیٹوں میں فی تولہ سونے کی قیمت بڑھ کر 85 ہزار 450 روپے اور دس گرام سونے کی قیمت اضافے کے ساتھ 73 ہزار 260 روپے ہوگئی، اس کے برعکس فی تولہ چاندی کی قیمت بغیر کسی تبدیلی کے 1000 پر مستحکم رہی اور فی دس گرام چاندی کی قیمت بغیر کسی تبدیلی کے 857 روپے 34 پیسے پر مستحکم رہی ہے
مانیٹرنگ ڈیسک: فیس بک کی جانب سے بہت جلد صارفین کو ڈیٹا کے حوالے سے زیادہ کنٹرول دیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں ایک کارآمد ٹول متعارف کرایا جارہا ہے۔
اس ٹول کی بدولت صارفین اپنے ڈیٹا یا میڈیا فائلز کو دیگر سروسز میں منتقل کرسکیں گے۔
اس فیچر کی بدولت صارفین اپنی فیس بک پر موجود تصاویر اور ویڈیوز کسی اور آن لائن سروس جیسے گوگل فوٹوز پر منتقل کرسکیں گے۔
میڈپارپورٹس کے مطابق درحقیقت کمپنی نے فی الحال گوگل فوٹوز سے ہی آغاز کیا ہے اور یہ گوگل، مائیکرو سافٹ، ٹوئٹر اور فیس بک کے درمیان طے پانے والے ڈیٹا ٹرانسفر پروجیکٹ کا حصہ ہے، جس کا مقصد ان سروسز کے درمیان اطلاعات کی منتقلی کو آسان تر بنانا ہے۔