سلیکان ویلی: امریکی حکومت کی جانب سے تنقید اور یونی لیور سمیت سو سے زائد کمپنیوں کی جانب سے اشتہارات کی بندش کے بعد فیس بک نے نفرت انگیز اشتہارات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق نئی پالیسی میں کسی خاص رنگ و نسل، قومیت، مذہب، ذات، جنسی رجحان، صنف، شناخت اور تارکینِ وطن (امیگریشن اسٹیٹس) سے تعلق رکھنے والے افراد کو دوسروں کی صحت اور جان و مال کےلیے خطرہ بنا کر پیش کرنے والے اشتہارات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اسی طرح تارکین وطن یا پناہ گزینوں کے خلاف نسلی منافرت پر مبنی اشتہارات اور اشتہاری مواد پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ تاہم ان نئی پابندیوں کا اطلاق غیر اشتہاری پوسٹوں پر نہیں ہوگا۔
اس سے قبل گزشتہ ایک ہفتے کے دوران فیس بک کی نفرت انگیز مواد پر قابو پانے کےحوالے سے کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کئی یورپی اور امریکی کمپنیوں نے ویب سائٹ کو اشتہارات نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ روز امریکا کی بڑی ٹیلیکوم آپریٹر کمپنی ’’ویریزون‘‘ اور اشیائے صرف بنانے والی بین الاقوامی کمپنی ’’یونی لیور‘‘ نے بھی رواں سال فیس بک کو اشتہارات نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
اس حوالےسےفیس بک کےبانی مارک زکربرگ جمعے کو لائیو اسٹریم کے ذریعے نفرت انگیز مواد کے خلاف اپنی کمپنی کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یورپی کمیشن کی رواں ماہ جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق فیس بک نے گزشتہ برس 86 فیصد نفرت انگیز مواد حذف کیا
زکربرگ کا کہنا تھا کہ فیس بُک اور اس کے ماتحت دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ’’اپنے ملک میں بدلتے حقائق‘‘ کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں مزید سخت کریں گے۔ رنگ و نسل اور تارکین وطن ہونے (امیگریشن اسٹیٹس) کی بنیاد پر امتیاز کرنے والا اشتہاری مواد فیس بک سے ہٹا دیا جائے گا۔
زکربرگ نے اعتراف کیا کہ اس پابندی کا اطلاق صرف اشتہارات پر کیا جاسکے گا، تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ صارفین کی جانب سے ’’ممکنہ طور پر‘‘ نفرت کا پرچار کرنے والی سوشل میڈیا پوسٹس پر اس پالیسی کا اطلاق ممکن نہیں ہوسکے گا لیکن ایسے قابل اعتراض مواد کی نشاندہی ’’پرابلمیٹک‘‘ (باعثِ پریشانی) کے لیبل سے ضرور کردی جائے گی۔