ایمز ٹی وی (سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے ملکوں کے درمیان جنگ زمین سے نکل کر اب خلاؤں تک جا پہنچی ہے اور دنیا کی سپر پاورز ریاستیں خلاوؤں میں اپنا تسلط جمانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں ایک طرف تو یورپی اور روسی خلائی ایجنسیاں چاند کا مستقل مسکن بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں تو دوسری جانب امریکا نے ایک ایسے ستارہ کو بنانے پر کام شروع کردیا ہے جو کسی بھی سیارے کو تباہ کرسکے گا اس لیے اسے موت کا ستارہ یا ڈیتھ اسٹار کا نام دیا گیا ہے۔
اب ملکوں کو تباہ کن ہتھیار تیار کرنے اور اس پر رقم خرچ کرنے کی ضروت نہیں رہے گی بلکہ خلا سے ایک ستارہ فائر کیا جائے گا اور وہ ایک سیارے کی تباہی کے لیے کافی ہوگا جب کہ اس ستارے میں کسی بھی جگہ کو تباہ کرنے والے عناصر پہلے سے موجود ہوتے ہیں اسے صرف ترتیب دینا ہوتا ہے۔ اس نظریئے کے خالق اور ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے چیف انجینئر کا کہنا ہے کہ کسی ڈیتھ اسٹار کو بنانے کے لیے کسی بڑے اسٹاف کو خلا میں بھیجنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس ستارے پر موجود میٹریل کو استعمال کر کے اسے آسانی سے ڈیتھ اسٹارمیں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
چیف انجینئر کے مطابق ایک شہاب ثاقب یا ستارے میں میٹلز، نامیاتی عناصر، پانی اور تمام اجزا موجود ہوتے ہیں جو ایک ڈیتھ اسٹار کی تیاری کے لیے درکا ہیں۔ ناسا اس طرح کے ڈیتھ اسٹار کی تیاری میں مصروف ہے اور اس کے لیے اسٹرائڈ ری ڈائریکٹ مشن ترتیب دے دیا ہے جو تیزی سے اس پر کام کر رہا ہے۔ یہ مشن ایک روبوٹ کو کسی بھی شہاب ثاقب پر اتارے گا اور وہاں سے مٹی کے نمونے حاصل کرے گا جسے چاند کے مدار کے گرد رکھ کر اسے دوبارہ حاصل کیا جائے گا جس سے 2023 تک ڈیتھ اسٹار کی تیاری ممکن ہوگی۔