جمعہ, 22 نومبر 2024

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان ون آن ون ملاقات ہوئی جس کے دوران دوطرفہ باہمی تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

 

وزیراعظم عمران خان کی دعوت پر افغان صدر اشرف غنی 2 روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے تو مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے ان کا استقبال کیا، افغان صدر کے ہمراہ افغان سفیر عاطف مشعال اور دفترخارجہ کے اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔

 

مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے نورخان ایئر بیس پر معزز مہمان کا استقبال کیا۔ پاکستان پہنچنے پر معزز مہمان کو نورخان ایئر بیس پر 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔

 

افغان صدر نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی جس کے دوران اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

 

افغان صدر اشرف غنی قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے بھی ملاقات کریں گے۔

 

اشرف غنی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے بھی ملاقات کریں گے جبکہ دونوں ملکوں کے مابین وفود کی سطح پر مذاکرات ہوں گے۔

 

کابل: افغان صدر اشرف غنی کی کابینہ کے 4 اہم عہدے دار مستعفی ہو گئے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق افغانستان میں صدر اشرف غنی کی کابینہ کے 4 اہم عہدے داروں نےاستعفی دے دیا، استعفے دینے والوں میں 2 وزرا اور 2 اعلیٰ سیکیورٹی حکام شامل ہیں۔

افغانستان کے نیشنل ڈائریکٹریٹ سیکیورٹی کے سربراہ معصوم ستانکزئی نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جب کہ 2 سیکیورٹی چیف بھی استعفیٰ دینے والوں میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ افغان وزیر دفاع طارق شاہ بہرامی اوروزیرداخلہ واعظ برمک بھی مستعفی ہو گئے۔

واضح رہے کہ استعفے کی وجوہات سیکیورٹی امور پر اختلافات بتائے جاتے ہیں تاہم اس سے قبل نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر حنیف اتمر بھی مستعفی ہو چکے ہیں۔

 

ایمزٹی وی(راولپنڈی)آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کو طویل تنازعات سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق افغانستان کے قومی سلامتی مشیر محمد حنیف اتمر کی سربراہی میں وفد نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔
اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ طویل تنازعات سے پاکستان اور افغانستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، ہمیں مشترکہ دشمن کے خلاف مل کر خطے میں امن کا راستہ تلاش کرنا ہے، شک و شبہات منفی چیزوں کو ہوا دیتے اور بھٹکانے والوں کو فائدہ دیتے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقات میں پاک افغان دو طرفہ اعلی سطح پر مذاکرات کیے گئے اور افغان مفاہمتی عمل سے متعلق آئیڈیاز شیئر کیئے گئے۔ وفد میں افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے سربراہ معصوم ستانکزئی، افغان آرمی چیف محمد شریف یفتالی، افغان صدر کے خصوصی نمائندے حضرت عمر زاخیلوال اور وزیر داخلہ واعظ برمک سمیت دیگر اہلکار شامل تھے۔ پاکستانی مذاکراتی وفد میں سیکرٹری خارجہ تہمینہ دولتانہ بھی شامل تھیں۔
دونوں ممالک کے حکام نے حال ہی میں طے پانے والے افغانستان پاکستان ایکشن پلان برائے امن و استحکام پر عملدرآمد کے حوالے سے بات چیت کی۔ پاکستان اور افغانستان نے دو طرفہ سیکیورٹی تعاون سمیت مختلف ورکنگ گروپس جلد قائم کرنے پر اتفاق کیا۔
افغان وفد نے تعاون بہتر بنانے سے متعلق پاکستانی اقدام کو سراہا۔ افغان قومی سلامتی مشیر نے کہا کہ افغانستان کو پاکستان سے بہت توقعات وابستہ ہیں۔ افغان وفد نے افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے آرمی چیف کو دورے کی دعوت دی جو جنرل قمر جاوید باجوہ نے قبول کرلی۔

 

ایمزٹی وی(کابل) افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو امن مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن طالبان کے ہاتھ میں ہے جب کہ پاکستان کے ساتھ ماضی کو بھلا کر نئے باب کا آغاز چاہتے ہیں۔
افغان میڈیا کے مطابق کابل امن کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی پیشکش کی اور اس سلسلے میں انہیں کابل میں دفتر کھولنے کی بھی پیشکش کی ہے۔
صدر اشرف غنی نے طالبان اور ان کے اہل خانہ کو ویزا اور پاسپورٹ کی فراہمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان رہنماؤں پر عائد پابندی ختم کرنے کے لئے کام کریں گے۔
افغان صدر کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن عمل اور جنگ بندی پر اتفاق کیا جانا چاہیے، افغانستان کو محفوظ ملک بنانے کے لئے طالبان ہمارا ساتھ دیں۔
صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ پاکستان سے بھی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور ماضی کو بھلا کر نئے باب کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔
افغان صدر نے مزید کہا کہ پاکستان افغانستان سے حکومتی سطح پر مذاکرات کرے جس کے لئے بہترین مقام کابل ہے ۔
خیال رہے کہ 26 فروری کو طالبان نے بذریعہ خط افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لیے امریکا کو قطر کے سیاسی دفتر میں براہِ راست مذاکرات کی پیش کش کی تھی۔
کابل میں منعقدہ امن اور سیکیورٹی کانفرنس میں پاکستان، اقوام متحدہ اور نیٹو سمیت 25 ممالک اور مختلف تنظیموں کے نمائندے شریک ہیں۔

 

 

یمزٹی وی(کابل)افغانستان کے صدراشرف غنی نے اعتراف کیا ہے کہ امریکا کے تعاون کے بغیر افغان فوج اور حکومت چھ ماہ بھی نہیں چل سکتی۔
غیر ملکی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں افغان صدر نے اپنی حکومت کی نااہلی کا اعتراف کرتے ہوئے اور اپنی حکومت کے مکمل طور پر امریکا پر انحصار کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی حمایت کے بغیر افغان نیشنل آرمی چھ ماہ سے زیادہ نہیں چل سکتی اورافغان حکومت کا وجود بھی باقی نہیں رہ سکتا۔
اشرف غنی کا کہنا تھا کہ افغانستان کو 21 بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں سے خطرہ ہے، درجنوں خودکش حملہ آور افغانستان بھیجے جارہے ہیں، پشتون بیلٹ کے بڑے حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے اور کابل حکومت انہیں بے دخل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ طالبان کی طاقت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ہم محاذ جنگ میں ہیں، طالبان نے عوام کو اتنا خوفزدہ کردیا ہے کہ وہ حکومت پریقین کرنے پر آمادہ نہیں۔
واضح رہے کہ امریکا افغانستان کےدفاعی بجٹ کا 90 فیصد ادا کرتا ہے جب کہ 16 سال کی اس طویل جنگ میں امریکا کو ابھی تک کامیابی نہیں مل سکی ہے۔

 

 

ایمزٹی وی(کابل)اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا کہ امن، سلامتی اور علاقائی تعاون پر پاکستان سے جامع مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جبکہ افغان حکومت نے اپنے طرز عمل سے امن کے ساتھ اپنی وابستگی کے عزم کو ثابت بھی کیا ہے۔ افغان حکومت نے گلبدین حکمت یار کی عسکری جماعت حزب اسلامی سے امن معاہدہ کرکے اس عزم کا اظہار کیا، میں پاکستان پر بھی زور دیتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ امن، سلامتی اور خوشحالی کے لیے علاقائی تعاون پر الگ الگ جامع مذاکرات کرے۔
افغان صدر نے کہا کہ ہم قریب اور دور کے تمام پڑوسیوں سے کہتے ہیں کہ کابل امن عمل میں ہمارے ساتھ شامل ہوں تاکہ امن اور علاقائی استحکام کو یقینی بنایا جاسکے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغانستان ہراول محاذ پر ہے تاہم یہ خطرہ سرحدوں کی حدود و قیود سے ماورا ہے، دہشت گردوں کے نزدیک کابل پر حملہ ہو یا برسلز، پیرس، بارسلونا اور لندن میں حملہ سب کی یکساں اہمیت ہے جسے وہ اپنی فتح قرار دیتے ہیں۔
اشرف غنی نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کا خیرمقدم کرتے ہیں جس میں دہشت گردی کی پناہ گاہوں کا خاتمہ کرنے کی بات کی گئی ہے۔

 

 

ایمزٹی وی (دوشنبے)وزیراعظم نوازشریف تاجکستان کے دوروزے سرکاری دورے کےوطن واپسی کے بعد وطن واپسی کے لئے روانہ ہوگئے۔
دوشبنے سے وطن واپسی پر طیارے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دورہ تاجکستان کامیاب رہا، افغان صدر نے تجارتی راہداری کے لیے بھارت کو راستہ دینے کی تجویز دی جس پر ہم نے کہا پہلے پاکستان، تاجکستان اور افغانستان اپنے معاملات بہتربنالیں، بھارت سے متعلق معاملہ بعد میں دیکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے مظالم کا سلسلہ جاری ہے اورکچھ ہی دنوں میں 100 سےزائد کشمیری شہید کردیئے گئے، ایسے حالات میں بھارت سے کاروبار کی بات کیسے ہوسکتی ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان کےالزام کا جواب دیا کہ ہماری طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہورہی جب کہ مقبوضہ کشمیر میں مظالم سے پاک بھارت تعلقات خراب ہوئے لہذا بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں مظالم بند اور مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف آنا چاہیے۔
فریش مینڈیٹ سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی بھڑک نہیں ماری لیکن جے آئی ٹی کا معاملہ حل ہوجائے پھر دھرنا پارٹی سے بھی نمٹ لیں گے، یہ ہر سازش میں شریک رہے اور سازشیں کرتے رہے اور 2014 میں ان کے دھرنوں کو دیکھ لیا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جس نے ایٹمی دھماکے کا بٹن دبایا اسی کا احتساب ہورہا ہے وہ بھی جعلی، ہم خود جے آئی ٹی کے عمل سے گزرنا چاہتے ہیں اور حالات کا تقاضا بھی یہی ہے،سپریم کورٹ کے کسی بھی قسم کے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں جب کہ جمہوریت کو مجھ سے کوئی خطرہ نہیں۔

 

 

ایمزٹی وی (دوشنبے) تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں پاکستان، تاجکستان اور افغانستان کا سہہ فریقی سربراہ اجلاس منعقد ہوا جس میں پاکستانی وزیراعظم نوازشریف، افغان صدر اشرف غنی اور تاجک صدر امام علی نے شرکت کی۔
اجلاس اس وقت بے نتیجہ ثابت ہوا جب افغانستان نے سہہ فریقی تجارتی راہداری میں بھارت کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کردیا۔ وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اور زیادتی کررہا ہے، بھارتی فوج کی جانب سے مظلوم نہتے کشمیریوں پر پیلٹ گنز کا استعمال کیا جائے اور ہم بھارت کو تجارتی رعایت دیں یہ کسی صورت ممکن نہیں۔
نوازشریف کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک بھارت کو تجارتی رعایت نہیں دی جاسکتی تاہم ہم نے افغانستان کو راستہ دے رکھا ہے اس کے سامان کی ترسیل کو نہیں روکا جائے گا۔
سہہ فریقی سربراہ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہم خود جے آئی ٹی کے عمل سے گزرنا چاہتے ہیں اور حالات کا تقاضا بھی یہی ہے میں نے کبھی بھڑک نہیں ماری لیکن جے آئی ٹی کا معاملہ حل ہوجائے پھر دھرنا پارٹی سے بھی نمٹ لیں گے۔

 

 

ایمزٹی وی (دوشنبے)تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں سنٹرل ایشیا ساؤتھ ایشیا پاور پروجیکٹ (کاسا) منصوبے پر 4 ملکی اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم نواز شریف، افغان صدر اشرف غنی، تاجک صدر امام علی رحمانوف اور کرغزستان کے وزیراعظم سورنو بے ینبیکوف نے شرکت کی۔
کاسا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ بجلی کی ترسیل کے منصوبے سے پاکستان و افغانستان کو ماحول دوست بجلی ملے گی اور تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی۔ انہوں نے کاسا 1000 کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ منصوبہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کو آپس میں ملائے گا اور اس سے علاقائی روابط کو بھی فروغ ملے گا۔
واضح رہے کہ کاسا ایک ہزار منصوبہ تاجکستان اور کرغزستان سے پاکستان اور افغانستان کو بجلی کی فراہمی کا منصوبہ ہے جو 2018 میں مکمل ہوگا۔
 
توانائی کے شعبے میں اپنی نوعیت کے اس منفرد منصوبے کا افتتاح 2016 میں ہوا تھا اور پایہ تکمیل تک پہنچنے کے بعد پاکستان کو موسم گرما (یکم مئی تا 30 ستمبر) میں 1300 میگاواٹ بجلی مہیا کی جائے گی۔

 

 

ایمزٹی وی (ریاض)سعودی دارلحکومت ریاض میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان مختصر ملاقات ہوئی ہے۔
امریکی اور افغان صدور کے درمیان ملاقات سعودی عرب میں ریاض کانفرنس کے موقع پر ہوئی۔
وائٹ ہاؤس سے جاری اعلامیہ کے مطابق ملاقات کے دورا ن صدر ٹرمپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اورافغانستان میں اہم اصلاحات لانے کے حوالے سے اشرف غنی کی قیادت کو سراہا ۔
امریکی صدر نے ملکی دفاع کے لئے افغان فورسز کی خدمات کی بھی تعریف کی۔

 

Page 1 of 2