ھفتہ, 23 نومبر 2024

کراچی: معاشی اعتبار سے رواں سال (2019) تاجروں کے لیے غیر یقینی صورت حال کا شکار رہا، تاہم تاجروں نے 2020 کے سال سے امیدیں باندھ لی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق 2019 کا سال معاشی اعتبار ملے جلے رحجان کا حامل رہا، کاروباری برادری حکومت کی ٹیکس اور معاشی پالیسیوں سے غیر یقینی صورت حال کا شکار رہی، تاہم تاجر پُر امید ہیں کہ آنے والا سال بہتر ہوگا۔ تاجر ہی نہیں دوسری طرف عام آدمی کے لیے بھی یہ سال مشکل ثابت ہوا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق نئی حکومت نے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ترقیاتی اخراجات کم کیے، ٹیکس چھوٹ کو جزوی طور پر کم کیا، تاہم معیشت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کاروباری سرگرمیوں میں تیزی لانا ضروری ہے۔

کاروباری برادری کے مطابق روپے کی قدر میں کمی، شرح سود میں اضافے اور ریگولیٹری ڈیوٹیز کی وجہ سے صنعتی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں حکومتیں قرضے لے کر روپے کی قدر کو مستحکم رکھے ہوئے تھی جن سے مثبت نتائج بر آمد ہونے کی بہ جائے معیشت پر برے اثرات رونما ہوئے، تاہم موجودہ حکومت کے معیشت کو بہتر کرنے کے اقدامات سے مستقبل میں صورت حال اچھی نظر آ رہی ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں واضح کمی آئی ہے، امپورٹ کم ہور ہی اور ایکسپورٹ میں اضافہ ہو رہا ہے، ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے حکومت نے کئی سخت اقدامات کیے، جس پر تاجروں نے احتجاج بھی کیا، صنعت کاروں اور کاروباری افراد نے نئی حکومت کو طویل المدتی پالیسیاں بنانے کا مشورہ دیا۔

حکومت کو نئے سال میں مزید بہتری کے لیے ایکسپورٹ میں اضافے کے لیے جنگی بنیادوں پر اصلاحات کرنا ہوں گی، بہ صورتِ دیگر حکومت کو قرضے کے لیے ایک بار پھر بیرونی سہارا لینا پڑے گا، ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک پیداواری صلاحیت کو بڑھایا نہیں جاتا، معاشی ترقی ممکن نہیں۔

توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایکسپورٹ میں اضافے کے لیے توانائی کی قیمتوں میں کمی کرنا حکومت کی اوّلین ترجیح ہونا چاہیے، کیوں کہ مہنگی پیداوار کے باعث ایکسپورٹرز کا دیگر ممالک کی مصنوعات سے مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے۔

 

اسلام آباد: حکومت کی جانب سے ایک سال کے دوران پیٹرولیم مصنوعات پر عوام سے 206 ارب روپے ٹیکس وصول کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
 
وزیر برائے پٹرولیم ڈویژن خسرو بختیار نے حکومت کے پہلے سال کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 7 بار اضافہ جب کہ 11 بار کمی کی گئی۔
 
پٹرولیم ڈویژن کے اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے ایک سال میں پٹرولیم ٹیکسوں کی مد میں 206 ارب 28 کروڑروپے عوام کی جیبوں سے نکلوا لیے۔ حکومت ڈیزل پر فی لیٹر 45 روپے 75 پیسے ٹیکس وصول کررہی ہے، پٹرول پر 35 روپے، مٹی کے تیل پر 20 روپے اور لائٹ ڈیزل پر 14 روپے 98 پیسے فی لیٹر ٹیکس وصولی ہورہی ہے
اسلام آباد: نیب نے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے مالکان کے اثاثوں کی چھان بین کا فیصلہ کرلیا ہے۔
 
ذرائع کے مطابق ملک بھر کے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے مالکان کی ایف آئی اے سے بیرون ملک ٹریول ہسٹری لینے کا بھی فیصلہ کیاگیا ہے۔ نیب انٹیلی جنس یونٹ نے ایف بی آر سے90سے زائد پرائیویٹ میڈیکل کالجز مالکان کے پچھلے8سال کے ٹیکس ریکارڈ کا ڈیٹا مانگ لیا۔ فلاحی طرز پر بنائے گئے اسپتال اور میڈیکل کالجزکے مالکان کی لسٹیں بھی تیار کرلی گئی ہیں۔
 
مفلوج پی ایم ڈی سی سے منظور شدہ میڈیکل کالجز کی انسپکشن رپورٹس کا پچھلے2 ہفتوں سے فارنسک آڈٹ جاری ہے۔ فیس کی مد میں لی جانے والی رقوم کے بارے میں بینکوں سے ریکارڈ طلب کرلیا گیا ہے۔

کراچی: محکمہ اینٹی کرپشن نے سپر ہائی وے پر غیرقانونی ٹیکس وصول کرنے پر مویشی چیک پوسٹ سیل کردی۔

کراچی ڈسٹرکٹ کونسل نے کراچی میں لائے جانے والے دودھ دینے والے جانوروں پر ٹیکس وصول کرنے کے لیے ایک نجی کمپنی کو ٹھیکہ دیا تھا۔

محکمہ اینٹی کرپشن کا کہنا ہے کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ مذکورہ چیک پوسٹ پر شہر میں قربانی کے لیے لائے جانے والے جانوروں پر بھی 2 ہزار سے 5 ہزار روپے تک ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔

محکمہ اینٹی کرپشن ایسٹ نے آج جوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودگی میں چیک پوسٹ پر چھاپہ مار کر 10 افراد کو گرفتار کرلیا اور تمام ریکارڈ اپنے قبضے میں لے لیا۔

محکمہ اینٹی کرپشن کا کہنا ہے کہ ٹھیکہ دار کو قربانی کے جانوروں پر ٹیکس وصول کرنے کا اختیار حاصل نہیں تھا تاہم وہ اب تک کروڑوں روپے کا غیرقانونی ٹیکس قربانی کے جانوروں پر بھی وصول کر چکا ہے جس کی مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

چیئر مین ایف بی آر نے مہنگائی کی اصل وجہ بتادیفیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کے چیئرمین شبرزیدی نے کہا ہے کہ مہنگائی کی وجہ ڈالر اور مڈل میں ہے۔ ہم نے ملکی تاریخ کا پہلا ٹیکس فری بجٹ دیا۔ بجٹ میں چینی کے سوا کسی چیز پرکوئی ٹیکس لگایا نہ سیلز ٹیکس بڑھایا اور اگر کوئی شخص بتا دے کہ نیا ٹیکس لگایاہے ابھی واپس لے لوں گا۔
 
انکا مزید کہنا تھا کہ کسی تاجر کا درآمدی مال کا کنٹینر کھلے گا نہ وضاحت لئے بغیر اکاؤنٹس منجمد کریں گے‘مویشی منڈی میں قربانی کےجانوروں پرٹیکس لگانے کی باتیں افواہ ہیں ، کسی جج، جنرل یاممبرایف بی آرکا ڈیٹا نہیں چھوڑا،شناختی کارڈ پر مزاحمت کیوں یہ کوئی نئی بات نہیں‘مہنگائی کی وجہ ڈالر کی قدر میں اضافہ اورمڈل مین کا کردارہے‘ اسمگلنگ ، انڈر انوائسنگ اور افغان ٹریڈ کا غلط استعمال بہتر کیے بغیر سسٹم ٹھیک نہیں ہوسکتا‘صنعتکاروں تاجروں کی مشاورت سے بہتر حل نکالیں گے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے یہاں ایف بی آر کے ریجنل دفتر میں میڈیا سے گفتگو میں کیا۔
 
چیئرمین ایف بی آر شبر رضا زیدی کا کہناتھا کہ ٹیکس جمع کرنے کے لئے حکومت خاموشی سے 18 یا 19 فیصد سیلز ٹیکس عائدکرسکتی تھی لیکن ہمارا مقصد خوف و ہراس پیدا کرنانہیں ہے‘سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم نہیں کی جائے گی ، وزیراعظم نے جو نیا ایف بی آر بنانے کی بات کی تھی وہ دراصل سارے ٹیکس نظام کی آٹومیشن ہے‘شناختی کارڈ لازمی قرار دینے کی مخالفت کرنے والے دراصل خود کو رجسٹرڈ نہیں کروانا چاہتے، مڈل مین ٹیکس نیٹ میں نہیں ہے اسے اب ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا،کہیں پر کوئی ہڑتال نہیں ہے،اگر ہے تو وہ عارضی ہے‘3 لاکھ 41 ہزار صنعتی صارفین میں سے صرف16 ہزار سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں شبر زیدی نے حالیہ بجٹ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے خدشات کو دور کرنے کیلئے تمام شعبوں کے نمائندہ افراد پرمشتمل کمیٹی قائم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔اخبار کے مطابق چیئرمین ایف بی آر نے فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری میں صنعتکاروں اور تاجروں کے ڈھائی گھنٹے تک تحفظات سنے۔
 
انہوں نے کہا کہ فیکٹری مالکان اپنی صنعتیں چلائیں شناختی کارڈ والے مسئلے کو وقتی طور پر مؤخر کیا جا سکتا ہے۔چھوٹے ٹریڈرز کے بارے میں انہوں نے کہا کہ حکومت اُن کیلئے فکس ٹیکس کا نظام لا رہی ہے،20جون سے ری فنڈ کیلئے 38ارب کے پر میسری نوٹ جاری کر دئیے گئے ہیں ، آئندہ سے برآمدی تاجروں کے ری فنڈ کلیم مؤخر نہیں کئے جائیں گے‘لیکویڈیٹی مسائل کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ اس سلسلہ میں از خود فیصلہ نہیں کر سکتے تاہم انہوں نے برآمد کنندگان سے کہا کہ وہ اسلام آباد آجائیں تاکہ اس مسئلہ پر مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ سے بات کی جا سکے۔ ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جو اس سکیم کے آخری روز ایف بی آر کے سسٹم میں خرابی کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکے وہ اداشدہ رقم نہ نکلوائیں اس مسئلے کو حل کرلیں گے۔
 

کراچی: تاجر ایکشن کمیٹی نے وفاقی بجٹ میں ٹیکسوں کی بھر مار کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے کل سے تین روزہ ہڑتال کا اعلان کردیا۔

ملک کی تمام تاجر تنظیموں کا مالی سال کے بجٹ اور ٹیکسوں کی بھرمار پر مشترکہ اجلاس ہوا جس میں حکومت کی عدم توجہ کیخلاف سب نے 13 جولائی کو شٹر ڈاؤن ہڑتال کا فیصلہ کیا ہے۔

کراچی تاجر ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے صدر میں پریس کانفرنس کی جس میں تاجر رہنما رضوان عرفان کا کہنا تھا کہ حکومت کے غیر ذمہ دارانہ روئیے اور بجٹ پر ہڑتال کا فیصلہ کیا ہے۔

اس دوران تاجر رہنماؤں نے وفاقی حکومت کو 11مطالبات بھی پیش کیے جن میں انکم ٹیکس کی چھوٹ کو 12 لاکھ پر واپس لانے، ہر دکاندار سے ایک جیسا ٹیکس لینے، ٹیکس دینے والوں کا آڈٹ نہ کرنے ، گاڑیوں کی درآمد پر ٹیکس کم کرنا شامل ہے۔

ادھر لاہور پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے تاجر رہنماؤں کا کہنا تھا کہ 30 جون کو چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کی جس کی منظوری کے لیے حکومت کو 7 جولائی کی ڈیڈلائن دی تھی لیکن حکومت نے 32 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ تسلیم نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ مطالبات پورے نہ ہونے پر احتجاج کا دائرہ پاکستان بھر میں لے جائیں گے۔ 

دوسری جانب وزیر اعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ تاجروں کاروزگار نہ چلا تو معیشت کا پہیہ بھی نہیں چلتا، ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چیئرمین ایف بی آر نے معیشت چلانے کے لیے تاجروں کو انجیکشن لگادیا ہے۔

واشنگٹن: عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے اعلان کردہ 6 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے ساتھ عائد شرائط کی تفصیلات جاری کردیں۔
 
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان سالانہ 1500 سے 2000 ارب روپے ٹیکسوں کی مد میں آمدن بڑھائے گا، پاکستان میں کرنسی کی شرح تبادلہ مارکیٹ طے کرے گی اور اسٹیٹ بینک کرنسی کی شرح تبادلہ میں مداخلت نہیں کرے گا۔
 
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ مانیٹری پالیسی کے ذریعے مہنگائی کو قابو کیا جائے گا۔
 
توانائی کے شعبے سے متعلق آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی جائیں گی اور گردشی قرضوں کا خاتمہ کیا جائے گا، واجبات کی وصولیاں یقینی بنائی جائیں گی جب کہ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں سیاسی مداخلت نہیں کی جائے گی۔
 
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے کاررروائیاں کی جائیں اور اداروں کو مضبوط کر کے ان میں شفافیت لائی جائے، منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکا جائے۔
 
آئی ایم ایف کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو شدید چیلنجز درپیش ہیں، ناقص پالیسیوں کی وجہ سے معیشت کمزور ہوئی، اندرونی اور بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوا۔
 
آئی ایم ایف کے مطابق ماضی میں ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر کنٹرول کیا گیا، پاکستان میں ٹیکس کے نظام میں کمزوریاں ہیں جب کہ سرکاری اداروں میں نا اہلی کے باعث نقصانات میں اضافہ ہوچکا ہے۔




پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیرخان ترین نے کہا ہے کہ نئے وفاقی بجٹ میں انہیں یا ملک کی کسی بھی شوگر ملز کو حکومتی ٹیکس میں اضافے سے فائدہ نہیں ہوگا۔

پی ٹی آئی کے سابق سیکریٹری جنرل نے کہا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ میرے یا شوگر ملز کو نہیں ملے گا، یہ تمام ٹیکس حکومت کو جائےگا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’لوگ غلط فہمی پھیلا رہے ہیں، چینی کی قیمتوں میں اضافے کا اضافی ریونیو حکومت کو جائے گا، کسی نجی شعبے کو نہیں‘۔

خیال رہے کہ حکومت نے 20-2019 میں شوگر پر عائد ٹیکس میں 17 فیصد اضافہ کیا جس کے نتیجے میں فی کلو قیمت تقریباً ساڑھے تین روپے بڑھ جائے گی۔

دوران پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ ’میرے پاس حکومت میں کوئی عہدہ نہیں ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے انہیں زراعت ایمرجنسی پروگرام کی ذمہ داری دی ہے اور اس ضمن میں کابینہ کو بھی بریفنگ دی۔

 

 

واضح رہے کہ 15 دسمبر کو سپریم کورٹ کے فیصلے میں پی ٹی آئی کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نا اہل قرار دے دیا تھا ، ان پر زرعی آمدن، آف شور کمپنیوں، برطانیہ میں جائیداد اور اسٹاک ایکسچینج میں اِن سائڈ ٹریڈنگ سے متعلق الزامات تھے۔

جہانگیر ترین کی پی آئی ڈی میں پریس کانفرنس توہینِ عدالت

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے جہانگیر ترین کی پریس کانفرنس پر کہا کہ وہ مالی اور باورچیوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کا سپریم کورٹ میں اعتراف کرنے والے سرکاری وسائل استعمال کررہے ہیں۔

انہوں نے جہانگیر ترین کی پی آئی ڈی میں پریس کانفرنس توہینِ عدالت قرار دے دی۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزیراعظم عمران صاحب جہانگیر ترین کو کسی بھی چیز سے منع نہیں کر سکتے کیونکہ ’اے ٹی ایم کے ناراض‘ ہونے کا ڈر ہوتا ہے، بنی گالا کے محل کا ’خرچہ بند‘ ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‎عمران خان سپریم کورٹ سے منی لانڈرنگ پر نااہل شخص آپ کی حکومت کی ترجمانی کر رہا ہے؟

‎انہوں نے کہا کہ نااہل قرار پانے والا مشہورزمانہ منی لانڈرر حکومتی پالیسی بیان کررہے ہیں ۔ یہ ہے نیا پاکستان؟

اسلام آباد: تحریک انصاف حکومت نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کیلیے مزید ایک اور ایمنسٹی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کالے دھن سے بنائی گئی پراپرٹی کی مالیت کے 4فیصد ٹیکس ادائیگی کے بعد پراپرٹی کو لیگلائز کیا جاسکے گا۔ فنانس بل کے شیڈول10 میں پنہاں ٹیکس ایمنسٹی کے مطابق رئیل اسٹیٹ انویسٹرزاپنے سرمایے کے ذرائع کو خفیہ رکھتے ہوئے ٹیکس نیٹ سے باہر مالی ٹرانزیکشنز کا4فیصد ادا کرکے اپنے کاروبارکو لیگلائز کراسکیں گے۔ ایف بی آر کے ترجمان ڈاکٹرحامد عتیق سرور کاکہناہے کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کیلیے ایمنسٹی اسکیم کا تاثر پایاگیا تواسمبلی سے منظوری سے قبل حکومت فنانس بل میں ترمیم کردے گی۔

وزیراعظم عمران خان نے بجٹ کو حتمی شکل دینے کے لئے کابینہ کا خصوصی اجلاس منگل کو طلب کر لیا۔ ملازمین کی تنخواہوں میں حتمی اضافے اور چینی پر سیلز ٹیکس بڑھانے پر طویل غور کئے جانے کا امکان ہے۔ ٹیکس رقوم میں 1400 ارب روپے کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔
 
بجٹ 11 جون کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ کابینہ 6 ہزار 800 ارب روپے سے زائد کے وفاقی بجٹ کی منظوری دے گی جس میں سے 3 ہزار ارب روپے کا خسارہ متوقع ہے۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے 2500 ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے، وفاق کے ترقیاتی پروگرام کیلئے 925 ارب روپے مختص ہوں گے۔
 
ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5 ہزار 5 سو 50 ارب روپے رکھنے کی تجویز زیر غور ہے۔ 14سو ارب روپے کے قریب ٹیکس وصولیوں میں اضافہ کیا جائے گا۔
 
چینی پر سیلز ٹیکس 8 سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی تجویز دی جا رہی ہے، پولٹری مصنوعات، الیکٹرونک مصنوعات سمیت درجنوں اشیا پر ٹیکس اور ڈیوٹیوں میں اضافے، لگژری اشیا کی درآمد پر 2 فیصد اضافی ڈیوٹی کو بڑھا کر 3 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
 
وفاقی بجٹ میں پانچ برآمدی شعبوں کیلئے زیرو ریٹنگ ختم کرنے کی بھی تجویز ہے، کھادوں کی قیمتوں میں کمی کی منظوری بھی متوقع ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں 10 سے 15 فیصد اضافے کی تجاویز زیرغور آئیں گی۔
 
تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی حتمی منظوری کابینہ منگل کو دے گی جبکہ تنخواہ دار طبقے کی ٹیکس چھوٹ میں بھی ردو بدل کیا جائے گا۔ کابینہ کی منظوری کے بعد بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
Page 1 of 9