ھفتہ, 23 نومبر 2024


ورلڈ کپ تک پاکستان کو پہنچنے میں مشکلات کا سامنا

ایمز ٹی وی (کھیل) ورلڈ کپ میں براہ راست جگہ بنانے کیلیے وقت پاکستانی ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسلنے لگا، انگلینڈ سے ہار کے بعد آٹھویں نمبر پر موجود ویسٹ انڈیز سے خلیج 8 پوائنٹس تک وسیع ہوگئی، کیریبیئن ٹیم اور آسٹریلیاسے سیریز میں ہوش کے ناخن نہ لیے تو تاریخی رسوائی مقدر بن جائے گی۔ دوسری جانب کپتان اظہر علی نے ون ڈے کرکٹ میں ماضی کے دور میں رہنے کا اعتراف کرلیا، وہ کہتے ہیں کہ انگلینڈ کے خلاف سخت سیریز میں اچھی کرکٹ نہیں کھیل پائے،البتہ ٹور میں2 آل راؤنڈرز کی ’دریافت‘ بھی کامیابی سے کم نہیں، 300 کا مجموعہ حاصل کرنے کے لیے بڑی شراکتیں درکار ہوتی ہیں، پلیئرز کی ذہنی مضبوطی ضروری ہے، نئے کھلاڑیوں کو مستقبل کے چیلنجز کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق ورلڈ کپ میں جگہ بنانے کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنے کا خطرہ تیزی سے پاکستان کی جانب بڑھ رہا ہے، انگلینڈ کیخلاف سیریز سے قبل گرین شرٹس کے پوائنٹس 87 تھے مگر اب ٹیم رینکنگ سسٹم متعارف ہونے کے بعد سے کمترین پوائنٹس 86 پر پہنچ گئی ہے، ایک پوائنٹ خسارے کی وجہ سے آٹھویں نمبر پر موجود ویسٹ انڈیز سے خلیج 8 پوائنٹس تک وسیع ہوگئی، پاکستان کو اب اسی کیریبیئن سائیڈ اور پھر آسٹریلیا سے مقابلہ کرنا ہے، اگر اس میں کامیابیوں کے ٹریک پر واپسی نہیں ہوئی تو پھر میگاایونٹ کا کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنے کا سنگین خطرہ درپیش ہوگا۔ یاد رہے کہ 30 ستمبر 2017 تک کی کٹ آف ڈیٹ تک جو ٹیمیں ٹاپ 8 پوزیشنز پرموجود ہوں گی صرف وہی براہ راست 2019 کے میگاایونٹ میںجگہ بنائیں گی، باقی2 جگہوں کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑے گا۔ دوسری جانب پاکستانی کپتان اظہر علی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ون ڈے کرکٹ میں گرین شرٹس باقی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے، انھوں نے کہاکہ اسٹرائیک ریٹ کے معاملے میں ٹیم باقی دنیا ہم سے کافی آگے ہے، اس معاملے میں بہتری لانے میں وقت لگے گا، کھلاڑی اپنے طور پر کوشش اور کوچنگ اسٹاف بھی اس سلسلے میں بہت محنت کر رہا ہے، قومی کپتان نے کہا کہ انگلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز بہت سخت رہی، پاکستانی ٹیم بہت اچھی کرکٹ نہیں کھیل سکی۔ البتہ سیریز کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ کچھ باصلاحیت کرکٹرز سامنے آئے، حسن علی، محمد نواز اور عماد وسیم نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا، انھوں نے کہا کہ پاکستانی ٹیم کا اس وقت بڑا مسئلہ آل راؤنڈر کا تھا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اس دورے میں ہمیں 2 ایسے کھلاڑی مل گئے، اگر انھیں سپورٹ کیا جائے تو وہ ٹیم کیلیے بڑے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں، اظہر علی نے اپنی بیٹنگ کے بارے میں کہا کہ کسی بھی کپتان کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی انفرادی کارکردگی سے ٹیم کے لیے مثال بنے، میں نے اس سیریز میں80 اور 82 رنز کی 2ایسی اننگز کھیلیں جس سے اعتماد بحال کرنے میں مدد ملے گی، میں کوشش کروں گا کہ آئندہ کے میچزمیں بھی اسی طرح کھیل سکوں۔ اظہر نے کہا کہ 300 رنز کے ہدف تک پہنچنے کے لیے بڑی پارٹنرشپس ضروری ہوتی ہیں، جب ایک ہی اوور میں 2 وکٹیں گریں تو ٹیم مشکل میں دکھائی دے رہی تھی لیکن سرفراز احمد اور شعیب ملک نے غیر معمولی کارکردگی دکھائی،یہی پارٹنرشپ ٹیم کو جیتنے کی پوزیشن میں لے آئی، کپتان نے کہا کہ کہ اس وقت سب سے اہم چیز کارکردگی میں بہتری لانا ہے اور ایک ساتھ کئی باتوں کے بارے میں سوچنا نہیں چاہیے، نئے کھلاڑیوں کو مستقبل کیلیے تیار کرنے کی ضرورت ہے، ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کرنا ہوگی تاکہ وہ ہمارے لیے میچ وننگ کارکردگی دکھائیں، پلیئرز کی ذہنی طور پر مضبوطی بھی اہم ہوگی۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment