Saturday, 09 November 2024
×

Warning

JUser: :_load: Unable to load user with ID: 46

ایمز ٹی وی (شمالی وزیرستان) پاکستانی فورسز کی فضائی کاروائی میں پچیس شدت پسند ہلاک ہوگئے جبکہ متعد ٹھکانے تباہ کردیئے گئے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر پاک فوج کی ضربوں کا سلسلہ جاری ہے تازہ کارروائیوں میں دہشت گردوں کے متعدد ٹھکانوں کو تباہ کردیا گیاآئی ایس پی آر کے مطابق شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں پاک افغان بارڈر کے علاقے میں ہونے والی تازہ کارروائیوں میں جیٹ طیاروں نے حصہ لیا جیٹ طیاروں کی بمباری سے پچیس دہشت گرد ہلاک جبکہ کئی دہشت گرد زخمی ہوگئے۔پاک فورسز کی کارروائی کے دوران دہشت گردوں کے گولہ بارود کے متعدد ٹھکانے بھی تباہ کردیئے گئے ہیں۔

ایمز ٹی وی(کراچی) آواز انسٹیٹیوٹ آف میڈیا اینڈ مینجمنٹ سائنسس کے زیر اہتمام ایک گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس کا موضوع ” الیکٹرانک میڈیا کا ضابطہ اخلاق2015 “ تھا۔ کانفرنس میں شعبہ ابلاغِ عامہ کے مختلف اساتذہ سمیت سنیئر تجزیہ کار اور شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر سینئیر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے ا پنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا نے " ضابطہ اخلاق" کو اتنی جلدی جاری کیا گیا کہ اس میں میڈیا سے جُڑے اسٹیک ہولڈرز کو بھی شامل نہیں کیا گیا جبکہ وزیراعظم نوازشریف کے پڑھے بغیر نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ان کا مزید کہنا تھاکہ اسے دیکھنے کے بعد احساس ہوا ہے اس میں بہت سی شقیں پاکستان براڈ کاسٹرزایسوسی ایشن پر مسلط نہیں کی جاسکتی۔ ڈان نیوز کے ایڈیٹر مبشر زیدی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک میڈیا اداروں کا اپنا کوئی ضابطہ اخلاق نہیں ہوگا تو ان پر اس طرح کے ضابطہ اخلاق مسلط ہوتے رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا براڈکاسٹر ایسو سی ایشن نے بھی اسے قبول کیا ہے کیونکہ اس میں اکثر میڈیا مالکان شامل ہیں۔ شعبہ ابلاغِ عامہ کی پروفیسرڈاکٹر سیمی نغمانہ نے کہا جب پیمرا وجود میں آیا تو وہ آ زادی سے بہت دور تھا لیکن 2002 میں شیخ رشید کے بیانات اور خواہشات کے بعد بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ سندھی اخبار عوامی آواز اور کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹر ز کے جرنل سیکریٹری جبار خٹک نے کہا کہ میں حیران ہوں ضابطہ اخلاق محض الیکٹرونک میڈیاپر ہی لاگو کرنا مقصدکیوں ہے پرنٹ میڈیا کیوں نہیں؟ سینیئر صحافی قیصر محمود نے میڈیا ہاؤس کی کی کمزوری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نئے آنے والے نوجوان صحافیوں کی رہنمائی نہیں کی جاتی وہ صحافت کے بنیادی اصو ل سے بھی ناواقف ہوتے ہیں اور انہیں نوکری پر رکھ لیاجاتا ہے اور وہ ٹی وی پر انٹرویو اور رپورٹنگ کررہے ہوتے ہیں۔اس لئے ضابطہ اخلاق کو ہمارے سروں پر رکھ دیا گیا ہے ۔ آخر میں سینئر صحافی مظہر عباس نے واضح کیا کہ ہم میڈیاضابطہ اخلاق2015 کو مسترد کرتے ہیں اور تمام میڈیا اداروں سمیت عدالتی اور اخلاقیات کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے تمام اداروں سمیت ایک مشترکہ ضابطہ اخلاق بنانا چاہیے جس میں سب سے اہم مسئلہ کسی بھی قسم کی قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینا شامل ہو۔ اس موقع پر ماس کمیونیکشن کے پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان سمیت نیوزون کی فضا شکیل اور کالم نگارمقتدہ منصور نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔

ایمز ٹی وی(کراچی) آواز انسٹیٹیوٹ آف میڈیا اینڈ مینجمنٹ سائنسس کے زیر اہتمام ایک گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس کا موضوع ” الیکٹرانک میڈیا کا ضابطہ اخلاق2015 “ تھا۔ کانفرنس میں شعبہ ابلاغِ عامہ کے مختلف اساتذہ سمیت سنیئر تجزیہ کار اور شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر سینئیر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے ا پنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا نے " ضابطہ اخلاق" کو اتنی جلدی جاری کیا گیا کہ اس میں میڈیا سے جُڑے اسٹیک ہولڈرز کو بھی شامل نہیں کیا گیا جبکہ وزیراعظم نوازشریف کے پڑھے بغیر نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ان کا مزید کہنا تھاکہ اسے دیکھنے کے بعد احساس ہوا ہے اس میں بہت سی شقیں پاکستان براڈ کاسٹرزایسوسی ایشن پر مسلط نہیں کی جاسکتی۔ ڈان نیوز کے ایڈیٹر مبشر زیدی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک میڈیا اداروں کا اپنا کوئی ضابطہ اخلاق نہیں ہوگا تو ان پر اس طرح کے ضابطہ اخلاق مسلط ہوتے رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا براڈکاسٹر ایسو سی ایشن نے بھی اسے قبول کیا ہے کیونکہ اس میں اکثر میڈیا مالکان شامل ہیں۔ شعبہ ابلاغِ عامہ کی پروفیسرڈاکٹر سیمی نغمانہ نے کہا جب پیمرا وجود میں آیا تو وہ آ زادی سے بہت دور تھا لیکن 2002 میں شیخ رشید کے بیانات اور خواہشات کے بعد بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ سندھی اخبار عوامی آواز اور کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹر ز کے جرنل سیکریٹری جبار خٹک نے کہا کہ میں حیران ہوں ضابطہ اخلاق محض الیکٹرونک میڈیاپر ہی لاگو کرنا مقصدکیوں ہے پرنٹ میڈیا کیوں نہیں؟ سینیئر صحافی قیصر محمود نے میڈیا ہاؤس کی کی کمزوری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نئے آنے والے نوجوان صحافیوں کی رہنمائی نہیں کی جاتی وہ صحافت کے بنیادی اصو ل سے بھی ناواقف ہوتے ہیں اور انہیں نوکری پر رکھ لیاجاتا ہے اور وہ ٹی وی پر انٹرویو اور رپورٹنگ کررہے ہوتے ہیں۔اس لئے ضابطہ اخلاق کو ہمارے سروں پر رکھ دیا گیا ہے ۔ آخر میں سینئر صحافی مظہر عباس نے واضح کیا کہ ہم میڈیاضابطہ اخلاق2015 کو مسترد کرتے ہیں اور تمام میڈیا اداروں سمیت عدالتی اور اخلاقیات کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے تمام اداروں سمیت ایک مشترکہ ضابطہ اخلاق بنانا چاہیے جس میں سب سے اہم مسئلہ کسی بھی قسم کی قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینا شامل ہو۔ اس موقع پر ماس کمیونیکشن کے پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان سمیت نیوزون کی فضا شکیل اور کالم نگارمقتدہ منصور نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔

ایمزٹی وی (انٹرنیشنل) دنیا میں موجود قرآن پاک کے قدیم ترین نسخوں میں سے ایک کی نمائش برمنگھم یونیورسٹی میں آج شروع ہو رہی ہے۔ چمڑے پر سیاہی سے لکھا گیا قرآن پاک کا یہ نسخہ اسلام کے ابتدائی دور کا ہے۔ اس نسخے کو برمنگھم یونیورسٹی کے ایک تاریک اور مخصوص درجہ حرارت میں رکھا گیا ہے جس کی نمائش سے اسلامی سکالرز میں اس نسخے کے بارے میں نئی بحث چھڑ گئی ہے جبکہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں اس نادر نسخے کے بارے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ قرآن پاک کا ہاتھ سے لکھا گیا یہ نسخہ 568سے 645صدی عیسوی کا ہے۔ پہلے خیال تھا کہ یہ نسخہ آٹھویں صدی عیسوی کا ہے۔ برمنگھم یونیورسٹی نے اس نسخے کی موجودگی کی خبر جولائی میں دی تھی لیکن اب پہلی بار اسے منظرعام پر لایا جا رہا ہے، اسے دیکھنے کیلئے مسلمان عالم دین، طلبا اور عام مسلمان بے چین ہیں۔ یہاں تک کہ ملائیشیا اور دیگر مسلم ممالک سے لوگ اسے دیکھنے کیلئے برطانیہ پہنچ رہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نسخہ 1930 سے یونیورسٹی کے پاس موجود ہے لیکن پی ایچ ڈی کی طالبہ البا فیدیلی نے اس کی قدامت کا تعین کیا تو اسے نمائش کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نسخہ مکہ مدینہ کے علاقے کے رسم الخط میں ہے۔

پاکستان نے کراچی اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت اقوام متحدہ کو دے دیئے۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ آفس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ملیحہ لودھی نے ثبوت اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون کو دیئے ہیں جبکہ پندرہ ممالک کے وزرائے خارجہ کو بھارتی ہٹ دھرمی اور جارحیت سے آگاہ کیا ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارت سیزفائرمعاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے، ہم مذاکرات کرنا چاہتے ہیں مگر بھارت الزام تراشیاں کر رہا ہے۔ بھارت حیلے بہانوں سے مذاکرات سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے حالانکہ وہ پاکستان میں ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے۔ سرتاج عزیز کا مزیدکہناتھاکہ افغانستان پاکستان پر الزام تراشی سے باز رہے۔

ایمزٹی وی(انٹرنیشنل) امریکی ریاست اوریگون کے شہر روس برگ میں واقع ایک نجی کالج میں فائرنگ کے نتیجے میں 15 افراد جاں بحق جبکہ 20 زخمی ہوگئے مقامی پولیس نے مزید معلومات فراہم کرنے سے معذرت کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ امپ کوا کمیونٹی کالج میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے جبکہ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فائرنگ کرنے والے کو شخص کو گرفتار کرلیا ہے۔

ایمزٹی وی(لاہور) پاکستان براڈکاسٹنگ ایسو سی ایشن نے قائم مقام چیئر مین پیمرا اور سیکریٹری اطلاعات کی جانب سے نئی ریٹنگ کمپنی کے قیام پر تشویش کا اظہار کیاہے .پی بی اے کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ریٹنگ کمپنی کے حوالے سے ایسوسی ایشن کا موقف پہلے دن سے ہی واضح ہے اس طرح کے ہتھکنڈے آئین کے آرٹیکل19 کے تحت شہریوں کی حقائق اور اطلاعات تک رسائی اور میڈیا کی آزادی پر اثر انداز ہونگے۔ پی بی اے کے مطابق پرنٹ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی کوششوں کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ حکومت کو اپنے ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنا چاہیے۔ سپریم کورٹ میڈیا کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن نے کہا کہ میڈیا کمیشن نے پیمرا کو خود مختار ادارہ بنانے سیکریٹ فنڈز ختم کرنے اور اشتہارات کی تقسیم شفاف بنانے کی سفارش کی ہے لہذا حکومت آئین کے آرٹیکل انیس کے تحت حقوق پر قدغن لگانے کے اقدامات سے گریز کرے۔ پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن نے قائمقام چیئرمین پیمرا کی جانب سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے دعوے کو بھی مسترد کر دیا۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ پیمرا یا وزارت اطلاعات کی جانب سے اس طرح کی کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔

ایمزٹی وی(اسلام آباد)حکومت نے الیکشن کمیشن کی جانب سے کسان پیکج کی معطلی کے خلاف اپیل کا اعلان کردیا۔پرویز رشید نے کہا کہ الیکشن کمیشن کب تک عوامی فلاح کے منصوبے ختم کرتا رہے گا ہے انکا مزید کہنا تھا کہ کسان پیکج کو بلدیاتی انتخابات کیساتھ نہ جوڑا جائے۔ عوام کو دیا گیا ریلیف معطل نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے تین کسان کنونشن کئے جبکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی ارکان نے کسانوں کے لئے ریلیف کا مطالبہ کیا ۔کسانوں کے لئے قانونی حق استعمال کریں گے۔

ایمزی وی(اسلام آباد)ہائر ایجوکیشن کمیشن نے برطانیہ کی لینسیسٹر یونیورسٹی سے کامسیٹس کے معاہدے کو ناجائز قرار دے دیا۔تفصیلات کے مطابق خورشید شاہ کی صدارت میں پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس میں کامسیٹس یونیورسٹی کی جانب سے بھاری فیس کے عوض غیرملکی یونیورسٹی کی ڈگری کا معاملہ زیر غور آیا۔ ایچ ای سی حکام نے بریفنگ میں بتایا کہ 2009ءمیں کامسیٹس نے اپنے بورڈ اور ایچ ای سی سے منظوری کئے بغیر لینسیسٹر یونیورسٹی سے ڈوئل ڈگری پروگرام کا آغاز کیاتھا۔ایچ ای سی کو 2013 تک نہیں پتہ تھا کہ کامسیٹس نے غیر ملکی یونیورسٹی سے اشتراک کیا ہے۔ اس معاہدے کو ایچ ای سی نے ناجائز قرار دے دیا ہے اور ساتھ کامسیٹس انتظامیہ کو کہا کہ آپ 2 ڈگریاں جاری نہیں کرسکتے۔ ایچ ای سی حکام نے کہا کہ کامسیٹس کی گریجویشن کی فیس 4لاکھ 75ہزار روپے ہے لیکن ڈوئل ڈگری پروگرام والوں سے 13لاکھ لے رہے ہیں۔ 2010ءسے اب تک اسٹوڈنٹس نے 36لاکھ پاونڈز ادا کرچکے ہیں۔ چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ ایچ ای سی پر خاموش رہنے کا الزام بے بنیاد ہے، ہم نے 2011ءسے پہلے 3نوٹس جاری کردیئے تھے انکامزید کہنا تھا کہ ہم کامسیٹس کو اسٹوڈنٹس کے مستقبل سے نہیں کھیلنے دیں گے۔ ایچ ای سی حکام نے بتایا کہ واشنگٹن معاہدے کے مطابق پاکستان انجینئرنگ کونسل نے بھی اس پروگرام کی مخالفت کی۔ کامسیٹس اسٹوڈنٹس سے لی گئی فیس واپس کرے یا لینسیٹر سے ہی مفت میں ایم ایس کروائے۔

ایمزٹی وی(انٹرنیشنل) افغانستان کے شہر قندوز میں طالبان کے قبضے کے بعد سرکاری فوج دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرہی ہیں۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال پر پارلیمنٹ نے شدید تنقید کرتے ہوئے افغانی صدر اشرف غنی سے مستعفٰی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ افغان قومی حکومت کی قیادت سیکورٹی کی صورتحال پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہے اس نے اعلان کے باوجود قندوز میں کوئی کاروائی نہیں کی جس سے وہاں پھنسے شہریوں کو خوراک اور پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ جبکہ افغان سیکورٹی حکام کا کہنا تھا کہ صورتحال کنٹرول کرنے کے جہاں سرکاری فوجیوں کو قندوز بھیجا جاچکاہے وہیں غیر ملکی اتحادی فوج کا بھی تعاون حاصل کیا گیا ہے۔