پیر, 17 جون 2024

پنجاب اسمبلی کے باہر ميڈيا سے گفتگو کرتے ہوئے فياض الحسن چوہان نے کہا کہ ملک کيلئے تين جنگيں لڑنے والا غدار کيسے؟ فوج کی قربانياں کسی سے ڈھکی چھپی نہيں ۔

فیاضالحسن نے مزید کہا کہ ادارے کے ايک فرد کو چننا سوالات کو جنم ديتا ہے،

سانحہ ماڈل ٹاؤن اورراؤ انوار پر تو کوئی پھانسی نہيں آرہی، معاشی دہشت گرد ضمانت لے کر باہر آرہے ہیں۔

لانس نائیک محمد محفوظ 1971 کی جنگ میں واہگہ اٹاری سیکٹر کے محاذ پر بھارتی فوج کيخلاف بڑی شجاعت اور دلیری سے لڑے۔

دشمن کی گولہ باری سے جب وہ شدید زخمی ہوئے اور ان کی بندوق بھی ناکارہ ہوگئی تو وہ بےتيغ دشمن کے بنکر میں گھس گئے۔

محفوظ شہید 25 اکتوبر 1944 کو پنڈ ملکاں میں پیدا ہوئے اور 25 اکتوبر 1962 کو بری فوج میں شمولیت اختیار کی۔

ان کی بہادری کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے ان کو اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ’’نشان حیدر‘‘ سے نوازا جبکہ بھارتی کمانڈر نے بھی محفوظ شہید کی شجاعت کا اعتراف کیا۔ وہ محفوظ آباد کے مقام پر آسودۂ خاک ہیں۔

اسلام آباد: وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کی مشرف فیصلے سے منسوب گفتگو کی وضاحت ضروری ہے۔

سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ پرویز مشرف فیصلے کے حوالے سے گفتگو کی وضاحت ضروری ہے،

تاثر ملتا ہے کہ چیف جسٹس مقدمے پر اثر انداز ہوئے اور مخصوص فیصلہ حاصل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا، یہ انتہائی نا مناسب بات ہے جو چیف جسٹس پاکستان سے منسوب کی گئی ہے۔ 

اسلام آباد: خصوصی عدالت نے سابق صدر اور جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آئین شکنی کیس میں سزائے موت کا حکم سنا دیا۔

تفصیلات کے مطابق خصوصی عدالت میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا، سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی گئی۔ خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ میں شامل ایک جج نے سزائے موت سے اختلاف کیا، تاہم خصوصی عدالت کے بینچ نے اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ سنایا۔

عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوا ہے۔

قبل ازیں، اسلام آباد میں خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت ہوئی، سابق صدر کی جانب سے ان کے وکیل نے خصوصی عدالت میں دفعہ تین سو بیالس میں بیان ریکارڈ کرانے کی درخواست دائر کر دی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف دفعہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں، خصوصی عدالت بیان ریکارڈ کرانے کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دے، اور عدالتی کمیشن یو اے ای جا کر پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کرے

دوسری طرف حکومت نے مشرف کے خلاف فرد جرم میں ترمیم کی درخواست دائر کر دی ہے، جس میں شوکت عزیز، عبد الحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانے کی استدعا کی گئی ہے، پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو ملزم بنانا چاہتے ہیں، تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔

عدالت نے اس پر کہا کہ ساڑھے 3 سال بعد ایسی درخواست کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ آج مقدمہ حتمی دلائل کے لیے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آ گئیں۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ جنھیں ملزم بنانا چاہتے ہیں ان کے خلاف کیا شواہد ہیں؟ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ تو گزر چکا ہے، کیا شریک ملزمان کے خلاف نئی تحقیقات ہوئی ہیں؟

پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ شکایت درج ہونے کے بعد ہی تحقیقات ہو سکتی ہیں، ستمبر 2014 کی درخواست کے مطابق شوکت عزیز نے مشرف کو ایمرجنسی کا کہا۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ مشرف کی شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے، کیا حکومت مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے؟

دریں اثنا، خصوصی عدالت نے استغاثہ کی جانب سے شوکت عزیز، زاہد حامد، سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو پارٹی بنانے کی دائر درخواست یہ کہہ کر واپس کر دی کہ آج کی عدالتی کارروائی مکمل ہو گئی ہے، درخواست دائر کرنے سے پہلے عدالت اور نہ ہی کابینہ سے منظوری لی گئی، پراسیکیوشن کی دیگر 2 درخواستوں پر بھی سماعت نہیں ہو سکتی، یہ دونوں درخواستیں عدالت کے سامنے نہیں ہیں۔

آئین شکنی کیس کی اہم باتیں

یاد رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا کیس مسلم لیگ ن نے نومبر 2013 میں درج کرایا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ آرمی چیف کی حیثیت سے پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگائی۔ مارچ 2014 میں پرویز مشرف پر فرد جرم  عائد کی گئی۔ 2016 میں عدالتی حکم پر ای سی ایل سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ مارچ 2018 میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس یحیٰی آفریدی کی معذرت کے بعد سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا تھا۔

گزشتہ برس مارچ میں سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ملزم کی گرفتاری اور جائیداد ضبطی اور انٹرپول کے ذریعے گرفتار کر کے پاکستان لانے کا بھی حکم جاری کیا تھا۔ تاہم اگست میں سیکریٹری داخلہ نے انکشاف کیا کہ پرویز مشرف کو پاکستان لانے کے معاملے پر انٹرپول نے معذرت کرلی ہے اور کہا کہ سیاسی مقدمات ان کے دائرہ اختیار میں نہیں۔

5 دسمبر کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو آئین شکنی کیس میں دلائل دینے کا ایک اور موقع دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ سماعت آخری بار ملتوی کی جارہی ہے، کسی بھی وکیل کی عدم حاضری پر محفوظ فیصلہ 17 دسمبر کو سنا دیا جائے گا۔

خصوصی عدالت میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آئین شکنی کیس 19 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جس پر 23 نومبر کو پرویز مشرف کی جانب سے عدالت سے رجوع کیا اور کہا کہ عدالت نے مؤقف سنے بغیر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا ہے۔

2 دسمبر کو جنرل (ر) پرویز مشرف شدید علیل ہو گئے تھے، جس پر انھیں دبئی کے اسپتال میں داخل کیا گیا، اکتوبر کے مہینے میں ایک میڈیکل رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پرویز مشرف کو ایک جان لیوا بیماری لاحق ہے، اے آر وائی نیوز کو موصول ہونے والے تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ کے مطابق سابق صدر کو ’امیلوئی ڈوسس نامی خطرناک بیماری لاحق ہوئی تھی۔

انیس سو اکہترکی جنگ میں واہگہ اٹاری سیکٹرکے محاذ پر بھارتی فوج کی گولہ باری سے زخمی ہونے کے باوجود دشمن کے بنکر میں نہتا گھس کر بھارتی فوجی کوجہنم واصل کرکے جام شہادت نوش کرنے والے قوم کے بہادر سپوت لانس نائیک محمد محفوظ شہیدکی شہادت کوآج اڑتالیس برس بیت گئے

لانس نائیک محمد محفوظ شہید پچیس اکتوبرانیس سو چوالیس کو پنڈملکاں میں پیدا ہوئے اور اپنی اٹھارویں سالگرہ کے دن پچیس اکتوبرانیس سو باسٹھ کوبری فوج میں شامل ہوئے، وہ انیس سو اکہترکی جنگ کے وقت واہگہ اٹاری سیکٹر میں تعینات تھے۔

سولہ دسمبرانیس سو اکہترکوجب جنگ بندی کا اعلان ہوا توپاک فوج نے اپنی کارروائیوں کو بندکردیا، دشمن نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اورپل کنجری کا جوعلاقہ پاک فوج کے قبضے میں آچکا تھا واپس لینے کے لیے سترہ اور اٹھارہ دسمبرکی درمیانی شب زبردست حملہ کر دیا-

پاک فوج میں لانس نائیک محمد محفوظ کی پلاٹون نمبرتین ہراول دستے کے طورپرسب سے آگے تھی چنانچہ اسے خود کارہتھیاروں کا سامنا کرنا پڑا، محفوظ شہید نے بڑی شجاعت اور دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے دشمن کی گولہ باری سے شدیدزخمی ہونے کے باوجود غیر مسلح حالت میں دشمن کے بنکرمیں گھس کرہندوستانی فوجی کودبوچ لیااورسترہ دسمبرکو ایسی حالت میں جام شہادت نوش کیاکہ مرنے کے بعد بھی دشمن کی گردن انکے ہاتھوں کے آہنی شکنجے میں تھی۔اس تمام معرکے کے دوران دشمن کی 3 سکھ لائٹ انفنٹری کے کمانڈنگ آفیسر کرنل پوری جوکہ اگلے مورچے میں تھا اور محفوظ کی تمام بہادری کی کاروائی دیکھ چکا تھا فائر بندی کے بعد جب شہداء کی لاشیں اٹھائی جا رہی تھیں تو دشمن لانس نائیک محمد محفوظ کا جسد ِمبارک خود اُٹھا کر لائے اور کمانڈنگ آفیسر نے محفوظ کی بہادری کا اعتراف ان الفاظ میں کیا کہ ’’میں نے اپنی تمام سروس کے دوران اتنا بہادر جوان کبھی نہیں دیکھااگر یہ انڈین آرمی کا جوان ہوتا تو آج میں اس بہادر جوان کو انڈین آرمی کے سب سے اعلی فوجی اعزاز کیلیئے پیش کرتا-‘‘

محمد محفوظ شہید ؒ مڈل ویٹ باکسنگ کے چمپیئن تھے۔باکسنگ میں مہارت کیوجہ سے آپکے ساتھی آپکو پاکستانی محمد علی کے نام سے پکارتے تھے

اس بہادری کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے لانس نائیک محمد محفوظ شہیدکواعلیٰ ترین فوجی اعزاز ’’ نشان حیدر’’ سے نوازا، لانس نائیک محمد محفوظ شہیدؒ کو نشان حیدر کا اعزاز 23 مارچ 1972ء کو ایوان صدر اسلام آباد میں منعقدہ خصوصی باوقار تقریب میں انکے والدگرامی مہربان خان نے حاصل کیا۔وہ محفوظ آباد کے مقام پرآسودۂ خاک ہیں-

بطور قوم ہم نے دہشت گردی کو شکست دی.جنرل قمر جاوید باجوہ

 کراچی : آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ سانحہ اے پی ایس کو ہم کبھی نہیں بھول سکتے ، ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں طویل سفر طے کیا ہے ،بطور قوم ہم نے دہشت گردی کو شکست دی ہے ۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے 5 برس گزرنے پر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ سانحہ اے پی ایس کو کبھی نہیں بھلایا جائے گا،  حملے میں موجود پانچ دہشت گردوں کو تختہ دار پر لٹکایا جاچکا ہے، دہشت گردی کو ناکام بنانے کے لیے بطور قوم ہم نے طویل جدوجہد کی ہے۔  

آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان میں دیرپا امن اور خوشحالی کے لیے متحد ہو کر آگے بڑھنا ہوگا،  ہم سانحہ اے پی ایس کے شہداء اور اُن کے اہلِ خانہ کو سلام پیش کرتے ہیں، یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر  ہونے والے دہشت گردوں کے حملے میں طلباء ، اساتذہ اور عملے کے ارکان سمیت 150 افراد شہید  ہوئے تھے۔ 2014 میں دہشت گردوں کی علم کے چراغ بجھانے کی کوشش ناکام ہوئی اور ڈیڑھ سو کے قریب طلباء اور اساتذہ  نے جانوں کے نذرانے پیش کرکے  قوم کو متحد کیا۔

اے پی ایس پر لگے زخم نے حکومت وقت کو نیشنل ایکشن پلان ترتیب دینے اور کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو از سر نو فعال کرنے جیسے اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا. انہی اقدامات کے نتیجے میں دہشت گردوں کو نشان عبرت بنانے کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا، بلاشبہ اے پی ایس کے 132 بچوں سمیت 150 فرزندان وطن نے اپنے لہو سے وہ شمع روشن کی جس کی لو آج بھی تازہ و غیر متزلزل ہے۔

اسلام آباد: پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مودی سرکار کے اقدامات پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

بھارت کی جانب سے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت سے متعلق آئین کا آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کر کے مقبوضہ کشمیر اور لداخ کو غیر قانونی طریقے سے بھارتی یونین میں شامل کر لیا تھا۔

جبری اقدامات کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی ردعمل کے خوف سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست سے کرفیو نافذ کر رکھا ہے جسے 4 ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لیکن لاکھوں کی تعداد میں فوج تعینات ہونے کے باوجود مقبوضہ وادی میں آئے روز مودی سرکار کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔

بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے 9 دسمبر کو لوک سبھا میں بھارتی شہریت سے متعلق متنازع بل پیش کیا جس کے تحت بنگلادیش، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائے گی۔

بھارتی شہریت کے متنازع بل کو راجیہ سبھا (بھارتی پارلیمنٹ کا ایوان بالا) نے بھی 11 دسمبر کو منظور کر لیا تھا اور پھر 14 دسمبر کو بھارتی صدر راج ناتھ کووند کی منظوری کے بعد یہ بل باقاعدہ قانون بن چکا ہے۔

مودی سرکار کے اس اقدام کے خلاف بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہو رہے ہیں اور آسام اور مدھیہ پردیش سمیت 6 ریاستوں نے اس قانون کو لاگو کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان اور ترجمان دفتر خارجہ اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔

اب پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے سوشل میڈیا پر اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کر کے بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

آصف غفور نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے مقبوضہ کشمیر سے لیکر آسام اور آگے تک، اختتام کی شروعات۔

کراچی : 1971 کے پاک بھارت معرکہ کے ہیرو میجر محمد اکرم شہید کا 48واں یوم شہادت آج منایا جارہا ہے، انہیں جرات و بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کرنے پر نشان حیدر عطا کیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق پاک بھارت معرکہ کے ہیرو شہید میجر محمد اکرم 4 اپریل 1938ء کو ڈنگہ ضلع گجرات میں پیدا ہوئے تھے، ابتداء میں وہ نان کمیشنڈ عہدے کے لئے منتخب ہوئے مگر پھر ملٹری اکیڈمی کاکول سے تربیت حاصل کرنے اور خصوصی امتحانات پاس کرنے کے بعد 1963ء میں بحیثیت سیکنڈ لیفٹیننٹ پاکستان آرمی کی فرنٹیئر فورس رجمنٹ سے وابستہ ہوئے۔

سن 1965ء میں انہیں کیپٹن کے عہدے پر ترقی دی گئی اور 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ظفر وال سیکٹر میں خدمات انجام دیں جبکہ 1970ء میں میجر کے عہدے پر تقرر کیا گیا۔

سن 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان کے علاقے ہلی کے محاذ پر میجر محمد اکرم نے اپنی فرنٹیئر فورس کی کمانڈ میں مسلسل پانچ دن اور پانچ راتیں اپنے سے کئی گنا زیادہ بھارتی فوج کی پیش قدمی روک کر دشمن کے اوسان خطا کر دیئے۔

میجر محمد اکرم نے دشمن کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے 5دسمبر 1971کو جام شہادت نوش کیا۔

میجر محمد اکرم شہید کا شمار پاک فوج کے ان ہی جانباز افسروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے مادر وطن کے دفاع کیلئے اپنی جان قربان کردی، 1971ءکی جنگ میں ان کی لازوال بہادری و شجاعت پر دشمن بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکا۔

میجر اکرم کو ” ہیرو آف ہلی “ کے نام سے شہرت ملی اور جرات و بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کرنے پر شہید کو اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔

 

اسلام آباد:  حکومت نے آرمی چیف کی توسیع سے متعلق قانون سازی کے معاملے پر 3رکنی کمیٹی بنادی ہے۔

ذرائع کے حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی کے لیے 3 رکنی کمیٹی قائم کردی ہے۔ کمیٹی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر پر مشتمل ہے۔ حکومتی کمیٹی آرمی چیف کی توسیع سے متعلق قانون سازی کے لئے اپوزیشن سے مذاکرات کرے گی۔

پس منظر

سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹی فکیشن سے متعلق درخواست پر اپنے فیصلے میں حکم دیا تھا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے 6 ماہ میں آرٹیکل 243 کی وسعت کا تعین کیا جائے۔

عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ 6 ماہ تک بطور آرمی چیف اپنی خدمات جاری رکھیں گے، ان کی موجودہ تقرری پارلیمنٹ کی قانون سازی سےمشروط ہوگی۔

 

 لاہور: وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ  کی توسیع ہوجائے گی۔

لاہور میں وزیر ریلوے شیخ رشید نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت سے جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع ہوجائے گی، تمام سیاسی پارٹیاں جنرل باجوہ کو توسیع دینے پر متفق ہیں

Page 2 of 40