اتوار, 08 ستمبر 2024

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بحیثیت بلوچستان ہائی کورٹ چیف جسٹس تعیناتی کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔
درخواست گزار حنیف راہی کے وکیل علی ظفر نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ بار کاموقف ہے کہ ججز تقرری کا طریقہ عدلیہ کی آزادی کے لیے اہم ہے اور ہمارا موقف ہے اگر یہاں جج کی تقرری کامعاملہ آیا تو قانون پر عمل ہوناچاہیے، کئی فیصلوں میں تقرریوں کی شفافیت کاعدالت کہہ چکی ہے۔ 5 اگست 2009 کو پہلا نوٹی فکیشن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس لگانے کا ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس نوٹی فکیشن میں کیاخرابی ہے، جب پوری ہائی کورٹ فارغ ہوگئی تو صورتحال پر 196 لاگو نہیں ہوگا، پہلے چیف جسٹس کی تقرری آرٹیکل 193 کے تحت کرنا تھی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا چیف جسٹس کے بغیر کسی جج کی تقرری ہوسکتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ بغیر چیف جسٹس جج کی تقرری نہیں ہوسکتی۔ حقائق بتاتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعیناتی قانون کے مطابق ہوئی ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کے دلائل سننے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی تقرری کے خلاف درخواست خارج کردی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 31 جولائی 2009 کو سابق صدرپرویز مشرف کی جانب سے 3 نومبر 2007 کو لگائی گئی ایمرجنسی کے تحت پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے عدالت عالیہ و عظمیٰ کے فاضل ججوں کو ان کے عہدوں سے ہٹادیا تھا۔ عدالتی فیصلے کی روشنی میں بلوچستان ہائی کورٹ کے تمام جج فارغ ہوگئے تھے، آئینی بحران سے بچنے کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلے نوٹی فکیشن میں بلوچستان ہائی کورٹ کا جج اور پھر اسی وقت اُنھیں بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کردیا گیا تھا۔

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ یہ مارشل لاء کی غلاظت ماتھے پر لگانے کا وقت نہیں۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آئین کے کسی حرف پر آنچ نہیں آنے دیں گے، ملک میں جمہوریت اور آئین کی پاسداری ہوگی، میرے ہوتے ہوئے آئین سے انحراف نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آئین پر کوئی حرف نہیں آنے دیں گے، آئین میں الیکشن کے التوا کی کوئی گنجائش نہیں، انتخابات آئین کے مطابق مقررہ وقت پر ہوں گے۔ آئین میں کسی مارشل لاء کی گنجائش نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جوڈیشل مارشل لاء صرف ایک لفظی سوچ ہے، اس سوچ پر صرف ہنسی ہی آسکتی ہے، ڈیزائن کے تحت مارشل لاء جیسی باتیں اڑائی جاتی ہیں، یہ وقت نہیں کہ ہم مارشل لاء کی غلاظت ماتھے پر لگائیں۔ اگر مارشل لا کو نہ روک سکا تو گھر چلا جاؤں گا۔

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں نہال ہاشمی کو ایک اور موقع دیتے ہوئے تحریری معافی نامہ طلب کرلیا ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں رہنما مسلم لیگ(ن) نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چاہتاہوں کہ آپ غیرمشروط معافی لکھ کردیں، آپ کی غلطی کی سزا آپ کے بچوں کو نہیں دینا چاہتا، معافی سےمطمئن ہوئے تو نوٹس واپس لے لیں گے، نہال ہاشمی کو معافی اس کیس کی حد تک ہوگی تاہم کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم نے معافی کا اصول طے کرلیا ہے، توہین عدالت کے دیگر مقدمات کا جائزہ میرٹ پرلیں گے۔
چیف جسٹس نے نہال ہاشمی سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو اپنے کہے پر ندامت یا شرمندگی ہے جس پر نہال ہاشمی نے جواب دیا کہ اپنےعمل پر شرمندہ ہوں، آئندہ اپنے گھر، گاڑی اور کسی بھی محفل میں محتاط رہوں گا۔
 

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ نے سابق ایس ایس پی ملیر راﺅانوار کے عدالت میں پیش ہونے پر توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا اور ان کے بینک اکاﺅنٹس کھولنے کا حکم دے دیا اور عدالت نے ان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے نیب اللہ محسود قتل کیس کی سماعت کی ۔چیف جسٹس آف پاکستان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ آپ احکامات کے باوجود عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئے،کیا آپ کو عدالتوں پر اعتماد نہیں تھا۔
راﺅ انوار نے عدالت سے حفاظتی ضمانت کی استدعا کی،چیف جسٹس آف پاکستان نے سابق ایس ایس پی ملیر کی حفاظتی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے راﺅ انوار کیخلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا اور ان کے بینک اکاﺅنٹس کھولنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ راﺅ انوار کے بچوں کی روزی روٹی چلتی رہے۔

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ نے پیپلزپارٹی کے رہنما اورسابق وفاقی وزیرداخلہ رحمان ملک کے خلاف توہین عدالت کی درخواست خارج کردی۔
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے رحمان ملک کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کی۔ رحمان ملک کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کے روبروموقف اختیارکیا کہ توہین عدالت کیس کا فیصلہ انٹرا کورٹ اپیل میں مسترد ہوچکا، اس لئے اسے خارج کیا جائے۔
چیف جسٹس نے دلائل سننے کے بعد توہین عدالت کی درخواست خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ خدائی خدمت گار کی 55 درخواستیں چیمبرمیں خارج کرچکا ہوں، دو ہفتوں میں مزید ایسے مقدمات دیکھنے کو ملیں گے جنہیں کبھی کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔
درخواست خارج کئے جانے پررحمان ملک نے عدالت کے روبرو کہا کہ بطور وزیر داخلہ پانچ سال پیشیاں بھگتتا رہا، عدالت کا شکر گزار ہوں معاملہ ختم کردیا۔
واضح رہے کہ درخواست گزارمحمود اخترنقوی کی جانب سے موقف اختیارکیا گیا تھا کہ عدالت نے دہری شہریت کیس میں رحمان ملک کو 15 دن میں مراعات واپس کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے مراعات واپس نہیں کیں۔ ایسا کرکے رحمان ملک توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا ازخودنوٹس میں آئی ایس آئی کی رپورٹ غیرتسلی بخش اور نامکمل قرار دے دی۔
زرائع کے مطابق سپریم کورٹ میں فیض آباد ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، مقدمے کی سماعت کے دوران آئی ایس آئی کی 46 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ خادم رضوی تسلیم شدہ بدعنوان ہے، فیض آباد دھرنے کی مختلف سیاسی جماعتوں نے حمایت کی، حمایت کرنے والوں میں شیخ رشید، اعجاز الحق اور تحریک انصاف کا علماء ونگ بھی شامل ہے، آئی ایس آئی نے فیض آباد دھرنے پر طاقت کا استعمال نہ کرنے کی سفارش کی۔
عدالت نے آئی ایس آئی کی رپورٹ غیرتسلی بخش اور نامکمل قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئی ایس آئی کو تومعلوم ہی نہیں کون کون ہے، اربوں کی جائیداد کو آگ لگادی گئی، ملک کی سب سے بڑی ایجنسی کی معلومات جان کر مجھے تشویش ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل نے آئی ایس آئی کے ساتھ میٹنگ کی، کیا اٹارنی جنرل آفس آئی ایس آئی سے مطمئن ہے، بتائیں خادم رضوی کی گزربسر کیسے ہورہی ہے، خادم رضوی ٹیکس دیتاہے یا نہیں اور اس کا روزگارکیا ہے،رپورٹ میں اس بارے تفصیلات کہاں ہیں، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے عدالت کوبتایا کہ خادم رضوی پیشے کے اعتبار سے خطیب ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ کیا خطیب کی کوئی تنخواہ ہوتی ہے۔

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو سرکاری اسپتالوں میں تقرریوں سے روک دیا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وفاقی دارالحکومت کے سرکاری اسپتالوں میں سہولیات سے متعلق کیس کی سماعت کی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 5 ہزار کا آکسیجن سلنڈر 22 ہزار روپے میں خریدا جاتا رہا، یہ بڑی بات ہے کہ اس مقدمے میں 3 کروڑ واپس روپے واپس آئے ہیں۔
چیف جسٹس نے وزیر مملکت برائے کیڈ طارق فضل چوہدری سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ عدالت کی مداخلت کے بغیر کام نہیں ہوتا، پارلیمنٹ میں کورم پورا نہیں ہوتا، دفتری معاملات مکمل نہیں ہوتے، جتنے گھنٹے آپ سیاسی جلسوں میں خرچ کرتے ہیں اتنے اپنے کام میں بھی خرچ کر لیا کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس حکومت میں لوگ تقرریاں کروا کر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، جن لوگوں کو نوکریاں ملیں گی وہ خاندان آپ کے ووٹر بنیں گے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو سرکاری اسپتالوں میں تقرریوں سے روک دیا جس پر وزیر مملکت نے اعتراض کیا اور حکم پر نظر ثانی کی درخواست کی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کے دو ماہ رہ گئے ہیں، نئی حکومت آئے گی تقرریوں کے معاملات دیکھ لے گی۔

 

 

ایمزٹی وی(کراچی)سپریم کورٹ نے سیاسی رہنماؤں کی تصاویر والے سرکاری اشتہارات کے پینافلیکس اتارنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سرکاری اشتہارات پر سیاسی رہنماؤں کی تصاویر کے کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جن اشتہارات پر سیاسی رہنماؤں کی تصاویر شائع ہوئیں ان کی تفصیلات پیش کی جائیں۔ اخبارات اور ٹی وی پر کتنے اشتہارات چلائے گئے، پولوں پر لگے سرکاری اشتہارات میں بھی سیاسی رہنماؤں کی تصاویر دیکھی ہیں۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ سیاسی رہنما سابق ہوں یا موجودہ کسی کی تصویر سرکاری اشتہارات میں نہیں ہونی چاہیئے، جتنے اشتہارات میں ایسی تصاویر شائع ہوئیں ان کے پیسے واپس قومی خزانے میں جمع کروائیں جائیں۔ عدالت نے 4 اپریل تک سیاسی رہنماؤں کی تصاویر والے سرکاری پینافلیکس اتروانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ سے کسی بھی سیاسی لیڈر کی تصویر سرکاری خرچے پر نشر یا شائع نہیں ہونی چاہیئے۔
عدالت نے چیف سیکرٹری کو 4 اپریل تک عملدرآمد رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آپ حلف نامے کے ساتھ تمام اشتہارات اور پیسوں کی تفصیلات پیش کریں۔ چیف سیکرٹری نے کہا کہ چند روز میں رپورٹ دے دیں گے۔

 

 

ایمزٹی وی(صحت)کراچی میں خوردہ دودھ فروش دکانداروں اور ہول سیلرز کے درمیان قیمت کے تنازع کے بعد ریٹیلرز نے ہڑتال کرتے ہوئے دکانیں بند کردیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے بھینسوں کو دودھ کی پیداوار بڑھانے والے مضر صحت انجکشن پر پابندی کے بعد کراچی میں ڈیری فارمرز نے دودھ مہنگا کردیا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ نے دودھ کی قیمت میں اضافے پر پابندی عائد کردی تاہم ہول سیلرز نے عدالتی احکامات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ریٹیل دکانداروں کیلئے دودھ کی قیمت 95 روپے فی لیٹر کردی ہے۔ خوردہ دودھ فروش دکانداروں نے ہول سیلرز سے 95 روپے فی لیٹر قیمت پر دودھ خریدنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگا دودھ خرید کر 85 روپے کی سرکاری قیمت پر دودھ نہیں بیچ سکتے۔
شہر قائد میں دکانیں بند ہونے کے باعث دودھ کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور شہریوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔ کہیں کہیں اکا دکا دکانیں کھلی ہیں جہاں دودھ انتہائی مہنگا 100 سے 105 روپے لیٹر فروخت کیا جار ہا ہے جہاں لوگوں کی طویل قطاریں لگی ہیں۔ دودھ نہ ملنے کی وجہ سے بالخصوص چھوٹے بچے شدید متاثر ہیں۔ اس پوری صورتحال میں شہری انتظامیہ غائب ہے اور من مانی کرنے والے دودھ فروشوں کو کنٹرول میں ناکام نظر آرہی ہے۔
 

 

 

ایمزٹی وی (اسلام آباد)سپریم کورٹ میں وفاقی وزیر دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے وفاقی وزیر دانیال عزیز پر فردِجرم عائد کردی جو جسٹس مشیر عالم نے پڑھ کرسنائی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دانیال عزیز نے عدالتی معاملات میں مداخلت کی اور اپنی پریس کانفرنس میں غیرمناسب الفاظ استعمال کئے۔ دانیال عزیز نے جسٹس اعجازالحسن کے بارے میں بھی توہین آمیز الفاظ استعمال کئے۔ جب کہ انہوں نے کہا تھا کہ نگران جج نے نیب حکام کو لاہور طلب کرکے نیب ریفرنس تیار کرایا۔
دانیال عزیز نے صحتِ جرم سے انکار کردیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اب اپنے دفاع میں شہادتیں پیش کریں گے آپ کے جواب کے بعد دلائل ہوں گے۔
اس سے قبل گزشتہ سماعت میں دانیال عزیز کے وکیل نے مؤقف پیش کیا تھا کہ ہم نے جواب جمع کرادیا ہے، میرے مؤکل عدالت کا مکمل احترام کرتے ہیں اور انہوں نے سیاسی مخالفین پر تنقید کی تھی، 9 ستمبر 2017 کو میڈیا پر ایک خبر نشر ہوئی جس میں لگائی گئی سرخی غلط تھی۔ جسٹس عظمت نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پی آئی ڈی والی پریس کانفرنس کو غلط انداز میں پیش کیا گیا؟۔ وکیل دانیال عزیز نے کہا کہ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ میڈیا میں نشر کردہ تقریر ایک نجی محفل کی تھی جب کہ ایک اور چینل میں جو انٹرویو نشر ہوا اس میں ان کے موکل نے احتساب عدالت کے جج کے بارے میں بات کی۔
عدالت نے دانیال عزیز کا جواب غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دانیال عزیز پر 13 مارچ کو فردِ جرم عائد کی جائے گی۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ قانون کے مطابق انصاف ہوگا، آپ کے مؤکل نے پاناما کا مکمل ریکارڈ نہیں پڑھا، الفاظ خود بولتے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ میں 14 سال سے جج ہوں لیکن کبھی کسی کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس نہیں لیا، میں نے تو عدالتی فیصلوں میں یہاں تک لکھا ہے کہ فیصلوں پر اچھے اور برے تاثرات کا اظہار کرسکتے ہیں لیکن اب میں خود تنگ آچکا ہوں
 

 

Page 13 of 46