اتوار, 08 ستمبر 2024

 


ایمزٹی وی(اسلام آباد) سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں وزیر اعظم کے وکیل کے سامنے حسن ، حسین اور مریم نواز کی کمپنیوں ، زیر کفالت کے معاملے اور تقاریر میں سچ بولنے سے متعلق 3 سوالات رکھ دیئے ہیں۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے پانامالیکس کی تحقیقات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جماعت اسلامی کی جانب سے ایک مرتبہ پھر کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ، جس پر چیف جسٹس نے جماعت اسلامی کے وکیل اسد منظور بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کہا ہے کہ کمیشن تشکیل دیا جائے، ہم نے تمام آپشن کھلے رکھے ہیں، اگراس نتیجے پر پہنچے کہ کمیشن کے بغیر انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوں گے تو ضرور کمیشن بنائیں گے، نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے نے کچھ نہیں کیا، جب ہم نےدیکھا کہ کہیں کوئی کارروائی نہیں ہورہی تو یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا، ادارے قومی خزانے پر بوجھ بن گئے ہیں ، اگر انہیں کوئی کام نہیں کرنا تو ان کو بند کردیں۔

عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ وزیر اعظم کی پہلی تقریر میں سعودیہ مل کی فروخت کی تاریخ نہیں دی گئی، لندن فلیٹس سعودی مل بیچ کر خریدے یا دوبئی مل بیچ کر،بیان میں واضح تضاد ہے، نوازشریف نےکہا کہ لندن فلیٹ جدہ اور دبئی ملوں کی فروخت سے لئے، 33 ملین درہم میں دبئی اسٹیل مل فروخت ہوئی اور یہ قیمت وزیر اعظم نے بتائی۔ حسین نوازنے کہا کہ لندن فلیٹ قطرمیں سرمایہ کاری کے بدلے حاصل ہوئے، وزیر اعظم نے مسلسل ٹیکس چوری کی ہے، 2014 اور 2015 میں حسین نواز نے اپنے ابوجی کو 74 کروڑ کے تحفے دیئے۔ ان تحفوں پر وزیر اعظم نے ٹیکس ادا نہیں کیا۔

جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کے گوشواروں میں کہاں لکھا ہے کہ مریم نواز ان کے زیر کفالت ہیں۔ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ ان کے پاس مریم کے والد کے زیر کفالت ہونے کے واضح ثبوت ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ ویلتھ ٹیکس 2011 میں مریم نواز کے اپنے والد کے زیر کفالت ہونے کے ثبوت بتائیں، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ اس کے بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں، مریم صفدر کو 3 کروڑ 17 لاکھ اور حسین نواز کو 2 کروڑ کے تحفے والد نے دیے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کے د لائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم نواز زیر کفالت ہیں لیکن ابھی یہ تعین کرنا ہے کہ مریم نواز کس کے زیر کفالت ہیں، نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز چوہدری شگر مل کی شیئر ہولڈر ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہو سکتا ہے کہ مریم نواز کی آمدن کا ذریعہ چوہدری شگر مل ہو۔
نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز نے جاتی امرامیں اپنے والد کے ساتھ رہنے کا اعتراف کیا، مریم نواز کے مطابق وہ کسی پراپرٹی کی مالک نہیں، انہوں نے کوئی یوٹیلیٹی بل جمع نہیں کرائے، 2011 سے 2012 کے دوران مریم نواز کے اثاثوں میں اضافہ ہوا، مریم نواز نے والد سے 3 سال میں مجموعی طور پر 8 کروڑ روپے وصول کیے، انہوں نے بھائی حسن نواز سے 2 کروڑ روپے کا قرض لیا، مریم نواز کے شیئرز اور زرعی اراضی بھی ہے۔ کمپنیوں کےٹرسٹ ڈیڈکی کوئی حیثیت نہیں،قانون کےمطابق مریم نواز ان کی مالک ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بی ایم ڈبلیو گاڑی تو پہلے سے استعمال شدہ تھی، گاڑی کی مالیت میں ایک کروڑ 96 لاکھ کا اضافہ کیسے ہوگیا۔

جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے کہ بل جمع کرانا گھر کے مردوں کا کام ہوتا ہے، کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مریم والد کے زیر کفالت ہیں، زیر کفالت ہونے کا معاملہ اہمیت کا حامل ہے، ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ ملک کے قانون میں زیر کفالت کی کیا تعریف کی گئی ہے، ہم بھی تلاش کر رہے ہیں آپ بھی تلاش کریں، نعیم بخاری نے کہا کہ جناب میں عمر میں آپ سے بڑا ہوں، جس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ بخاری صاحب آپ عمر بتا دیں پھر کچھ نہیں کہوں گا، نعیم بخاری نے کہا کہ میری عمر 68 سال سے زیادہ ہے، عدالت میرے ساتھ مذاق نہ کرے، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پھر آپ تسبیح پکڑیں، گھر چلے جائیں اور اللہ اللہ کریں۔

نعیم بخاری نے کہا کہ نومبر1999 میں حسن نوازنے ایک انٹرویو میں کہا کہ فلیٹس میں کرائے پر رہتا ہوں، فلیٹس کا کرایہ پاکستان سے آتا ہے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کرایہ پاکستان سے ضرور آتا ہے لیکن وہ بزنس سے آتا ہے یہ بات ہم نےنوٹ کی ہے۔ قطری شہزادے کے خط میں کہا گیا ہے کہ لندن کی جائیداد ان کی تھی سوال ہے کہ کیا حسن نواز کا بیان قطری شہزادے کے خط سے مطابقت رکھتا ہے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ کرایہ کاروبار سےادا کرنے کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں، 1999 میں حسن نواز طالب علم تھا تو 2 سال بعد فلیگ شپ کمپنی کی رقم کہاں سےآئی۔ کرایہ دادا ابو کے شروع کردہ کاروبار سے آتا ہے یہ حسن نواز مان چکے ہیں،حسین نواز نے کہا کہ حسن نواز کو کاروبار کے پیسے اس نے دیے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا میاں شریف خود کاروبار سنبھالتے تھے، ہوسکتا ہےکہ میاں شریف بچوں اور پوتوں کی دیکھ بھال کرتےہوں۔ جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ تمام بیانات کوملا کر پڑھیں کہ پیسہ دبئی سے قطر پھر سعودی عرب اور پھر لندن گیا، جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیئے کہ کوومبر کمپنی کے نام سے بھی ایک آف شور کمپنی ہے، اس کوجو کمپنی فنڈ فراہم کرتی ہے وہ دبئی میں ہے، کوومبر کو یہ رقم دبئی میں کہاں سےآتی ہے وہ سوال وکیل دفاع سے پوچھیں گے۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف کےگوشواروں کےمطابق مریم نواز2011میں ان کے زیر کفالت تھیں، پہلے نواز شریف نے مریم کو 3 پھر 5کروڑ تحفے میں دیے، پاناما لیکس کی دستاویز ڈاؤن لوڈ کی گئی ہیں، جنوری 1999 میں فلیٹس کے بورڈ آف ڈائریکٹرزمیں میاں شریف،شہبازشریف، حمزہ شہباز، شمیم اختر، صبیحہ اختر اور مریم نواز شامل تھے، 1999 میں لندن کی ایک عدالت نے فیصلہ بھی جاری کیا تھا۔ وزیراعظم کےبیانات میں تضادہےاس وجہ سےوہ صادق اورامین نہیں رہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں آپ سے بہت سے سوال کرنے ہیں بخاری صاحب، آپ جس دور کی بات کر رہے ہیں اس وقت وفاق مشرف کو ظاہر کرتاتھا، کیا مفادعامہ کے تحت درخواست میں صادق اورامین کامعاملہ سن سکتےہیں، اس حوالےسےقانون کےمطابق فورم موجود ہے۔ ہمارے سامنے یہی معاملہ ہے کہ آپ کےدستاویزات پر جواب لے کر فیصلہ کریں یا کمیشن بنائیں، اس بینچ کیلئے بظاہر یہ ممکن نہیں لگتا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو پہلےسزا ہوئی پھر وہ نااہل ہوئے۔ جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیئے کہ درخواستوں میں رقم منتقل ہونےکاسوال اٹھایا گیا ہے، اس کاجواب دینے کے لئے مخالف فریق کوسارا ریکارڈ پیش کرنا ہوگا اور وہ ریکارڈ کسی ٹریبونل کے سامنے پیش ہوگا۔

نعیم بخاری کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل شروع کئے، ان کا کیس شارٹ، سوئٹ اور اسمارٹ ہے، ہم پاناما لیکس پر ٹی اوآر کمیٹی، الیکشن کمیشن اور دیگر فورم پر بھی گئے لیکن فائدہ نہیں ہوا۔ قائمہ کمیٹی میں ایف بی آر نے اراکین پارلیمنٹ کی توہین کی، دودھ کی رکھوالی پر بلوں کو نہیں بٹھا سکتے، عام آدمی ہوں میرا وکیل میرا رب ہے، میرا ایمان ہے کہ عدالت کو کیس کا علم ہے اور اللہ تعالی نےآپ سے فیصلہ لینا ہے، میں جدہ اور دبئی کی جائیداد کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا، نوازشریف کے کاغذات نامزدگی پر ماہر قانون دان موجود ہیں، یہ کہنا درست نہیں کہ کاغذات نامزدگی میں زیر کفالت ہونے کاخانہ نہیں تھا، زیر کفالت میں 2افراد کا نام درج ہے، ایک زیر کفالت اہلیہ اوردوسری بیٹی ہیں۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ علم نہیں کہ 12ملین درہم کتنے برکت والے ہیں جو 1989سے لے کر آج تک ختم نہیں ہو رہے، انہیں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ آف شور کمپنیاں نواز شریف کی ہیں، مریم نواززیرکفالت ہیں توآف شورکمپنیاں ظاہرکردینا چاہئےتھیں نیلس اورنیسکول کوگوشواروں میں ظاہر کرنا چاہئے تھا، میں کوومبر کمپنی کی ٹرسٹ ڈیڈ میں شریف خاندان کی پھرتیاں دکھانا چاہتا ہوں کہ جس دن مریم نواز کے دستخط ہوئے اس دن اس کی تصدیق بھی ہوگئی،دونوں تاریخوں پر دستخط ایک دوسرے سے مماثلت نہیں رکھتے، مریم نواز نے 2 تاریخ کو دستخط کئے لیکن نوٹری پبلک سےٹرسٹ ڈیڈزکی تصدیق نہیں ہوئی۔ درحقیقت دونوں ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہیں ان پر وزارت خارجہ کی تصدیقی مہر نہیں، 4 تاریخ تک جدہ سے لندن تک یہ ڈیڈ قطری جہاز کےعلاوہ نہیں پہنچ سکتی۔

شیخ رشید کے دلائل پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ انکم ٹیکس کاخانہ بھرا نہیں گیا تھا تو اس کا جائزہ لینا کس کا کام ہے، ٹیکس گوشوارےغلط بھرے گئے تو اس کافیصلہ مفادعامہ کے تحت کیا سپریم کورٹ کرے گی یا پھر فیصلے متعلقہ فورم پر اپیل کی جانی چاہئے، کیا انصاف کی خاطر قانون کو روندتے چلے جائیں۔ جس پر شیخ رشید نے کہا کہ تاریخ میں ایسےموقع آتے رہتے ہیں لیکن جمہوریت کو مضبوط کرنے کا آخری موقع ہے۔

شیخ رشید کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر وزیر اعظم نوازشریف کے وکیل سلمان بٹ نے دلائل شروع کئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کےپاس دفاع کے لئے بنیادی طور پر کیاہے۔ جس پر سلمان بٹ نے کہا کہ وہ درخواستوں پر عائد الزامات کا جواب دیں گے کیونکہ درخواستوں پر اٹھائے گئے الزامات دفعہ 184/3 میں نہیں آتے، اس کے لیے وہ وزیراعظم کی تقاریر کو تفصیل سے سامنے رکھیں گے.

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کی تقاریر 27بار پڑھی جاچکی ہیں۔ الزامات رقم منتقلی کےبارے میں بھی عائد کئے گئے ہیں، الزام ہے کہ کمپنیاں اورجائیدادغیرقانونی طریقےسےبنائی گئیں، اصل بات یہ ہے کہ بچوں نے جائیدادیں کیسے بنائیں، بیانات میں تضاد کےعلاوہ یہ الزام ہے کہ بچوں کو وزیراعظم نے رقم فراہم کی۔ سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ درخواست گزاروں نے اس بارے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کئے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جائیداد کی ملکیت کو تسلیم کرنے کے بعد ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری آپ کی ہے، ثبوت پر ایسے لوگوں نے بھی بات کی جن کو قانون کا کچھ علم نہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں، دوسرا سوال زیر کفالت ہونے کے معاملے سے متعلق ہے جب کہ تیسرا سوال ہے کہ وزیر اعظم کی تقریروں میں سچ بتایا گیا ہے یا نہیں۔ کیس کی مزید سماعت بدھ کو ہوگی۔

دوسری جانب وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں حسین، حسن اور مریم نواز کی جانب سے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پاناما کیس انتہائی اہم نوعیت کا معاملہ ہے، اس کی وجہ سے ریاست کے مختلف اداروں کا کام متاثر ہورہاہے ، تاثر دیا جارہا ہے کہ وزیر اعظم اوران کے اہل خانہ کی جانب سے تاریخیں لی جارہی ہیں، حقیقت میں تاریخیں درخواست گزاروں کی جانب سےمانگی جارہی ہیں، اس لیے پاناما کیس کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر کی جائے۔

 

 


ایمزٹی وی(اسلام آباد)وزیراعظم نوازشریف کے بچوں کی ملکیت نیسکول لمیٹڈ اور نیلسن انٹرپرائزز کے بعد اب ایک تیسری آف شورکمپنی کومبرگروپ بھی سامنے آگئی ہے ۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاناماکیس میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی دستاویزات میں شریف فیملی نے دومتضاد ڈیڈز جمع کرائیں جہاں مریم صفدر اپنے بھائی کی کمپنی کی ٹرسٹی ہیں اور 2فروری 2006ءکو مریم صفدر نے دونوں کمپنیوں نیسکول اور نیلسن کی ٹرسٹی کے طورپر معاہدے پر دستخط کیے ،اسی دن مریم صفدر نے اپنے بھائی کیساتھ ایک اور کمپنی کومبرگروپ کیلئے بھی اسی طرح کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے 49فیصد شیئرز کا مالک ان کابھائی تھا۔

آئندہ 6دسمبر کوہونیوالی سماعت میں یہ تیسری کمپنی پاکستان تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے دلائل کا مرکز ہوسکتی ہے ۔ دوہفتہ کے وقفے کے بعد بدھ کو ہونیوالی سماعت میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنے موقف میں 10سوالات اٹھائے تھے جبکہ کچھ ججوں نے ریمارکس دیئے تھے کہ شریف فیملی آف شورکمپنیوں کی ملکیت کے بارے میں شواہد چھپارہی ہے کیونکہ ان کے جواب میں کچھ ضروری دستاویزات تاحال موجودنہیں۔

سماعت کے دوران عدالت نے 1994ءمیں نیلسن اور نیسکول کی شیئرہولڈ کمپنی منرواآفیسر لمیٹڈ کے مالک کے بارے میں معلومات چھپانے پر بھی حیرت کا اظہار کیا اور جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بینچ سے یہ معلومات کیوں چھپائی گئیں۔

 


ایمزٹی وی(انٹرٹینمنٹ) ماڈل ایان علی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے کیس پر ججز کا اختلاف ہو گیا جس کے بعدبینچ نے معاملے کو حتمی فیصلے کیلئے چیف جسٹس کے پا س بھجوادیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ کے2رکنی ڈویژنل بینچ میں ماڈل ایان علی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے کیس پر اختلاف سامنے آیا ہے جس کے بعد اب اس کیس کو فیصلے کیلئے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کے پاس بھجوا دیا گیا ہے ا ور اب وہ بطور ریفری جج اس کیس پر فیصلہ دیں گے جسے حتمی سمجھا جائے گا۔


سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ میں جسٹس احمد شیخ اور جسٹس کریم خان آغا شامل تھے جن کے درمیان کیس کے فیصلے کے حوالے سے اختلاف کے بعد معاملے کو ریفری جج کےلئے چیف جسٹس کے پاس مارک کردیا گیا ہے

 


ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ نے عمران خان اور جہانگیر ترین سے جواب طلب کر لیا ۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم بینچ نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کیلئے دائر حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت کی اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے تحریک انصاف کے رہنماﺅں سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی ۔

سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ میں وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو پارٹی بنانا چاہتاہوں لہذٰا کیس کو لارجر بنچ میں لگایا جائے تاہم عدالت نے لارجر بنچ میں کیس مقرر کرنے کی استدعامسترد کردی۔انہوں نے عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ عمران خان نے اپنی آف شور کمپنیاں تسلیم کی ہیں۔

تحریک انصاف کے وکیل نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا کہ حنیف عباسی کی درخواست قابل سماعت نہیں اسے خارج کیا جائے ۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان اورجہانگیر ترین سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی ۔

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد) مسلم لیگ نواز کے رہنما طلال چودھری نے کہا ہے کہ عمران خان نے وکیل بدل کر اداکار رکھ لیا ہے ، فیصلے وکیل بدلنے اور ای میلز سے نہیں بلکہ ثبوت پیش کرنے سے ہونگے ۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ نوازشریف کو گرانے والے ایک بار پھر گریں گے ، فیصلہ جھوٹ پر نہیں ثبوت پر ہو گا ۔ ”عمران خان کی زندگی سے جھوٹ نکال دیا جائے تو کچھ نہیں بچتا “۔ ہمیں کٹھرے میں لانے والے خودکھڑے ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت ثبوت مانگتی ہے تو یہ جھوٹ لے آتے ہیں ، وہ موسم گزر گئے جب فیصلے کوئی اور کرتے تھے ۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ میاں صاحب پر فلم بناﺅں گا ۔

 

 


ایمزٹی وی (اسلام آباد) چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ شریف فیملی کی آف شور کمپنیوں، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرے گا۔ حامد خان کی معذرت کے بعد اب نعیم بخاری ایڈووکیٹ تحریک انصاف کے کیس کی پیروی کریں گے۔
بنی گالا میں عمران خان سے شیخ رشید نے ملاقات بھی کی اور کیس پر تبادلہ خیال کیا۔ پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے گا، اچھی خبریں آئیں گی۔ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف نون لیگ کے رہنماء حنیف عباسی کی درخواست کی سماعت بھی آج ہو گی۔ درخواستوں کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سنے گا۔ ادھر قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ وزیر اعظم پہلے ہی خود کو احتساب کے لئے پیش کر چکے ہیں۔

 

 


ایمزٹی وی(اسلام آباد)قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں سے متعلق جواب جمع کروا دیاہے ۔

تفصیلات کے مطابق ایاز صادق کا کہناتھا کہ عمران خان نے استعفوں کی تصدیق کو کھٹائی میں ڈالنے کیلئے مختلف حربے استعمال کیے ،جس انداز سے استعفے دیئے گئے وہ خود بخود منظور نہیں ہوتے ،اراکین نے براہ راست استعفے مجھے جمع نہیں کروائے،تصدیق کیلئے بار بار بلانے کے باوجود بھی استعفوں کی تصدیق کرنے کیلئے کوئی رکن اسمبلی نہیں آیا جبکہ ممبر اسمبلی کی جانب سے بھی پی ٹی آئی اراکین کی مسلسل غیر حاضری کیخلاف کوئی تحریک جمع نہیں کروائی گئی ۔

انہوں نے کہاکہ اراکین کی مسلسل 40روز تک غیر حاضری پر کارروائی قومی اسمبلی کے سپیکر کا اختیار نہیں ہے ۔

 

 


ایمزٹی وی(اسلام آباد)تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے خلاف درخواست میں سیکیورٹیز اینڈایکس چینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے اپنا جواب سپریم کورٹ میں داخل کرادیا جس میں کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین نے غیر قانونی طور پر حاصل کردہ 7کروڑ سے زائد رقم واپس کی اور جرمانہ بھی ادا کیا ۔

ذرائع کے مطابق جواب میں جہانگیر ترین کو جرم قرار دیتے ہوئے سپریم کور ٹ کو بتایا گیا ہے کہ انہیں ان سائیڈ ٹریڈنگ پر تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد یونائٹڈشوگر ملز کے شیئر کی غیر قانونی فروخت پر جرمانہ کیا گیا جو انہوں نے ادا کر دیا ہے اور غیر قانونی طور پر کمائے گئے 7کروڑ سے زائد بھی واپس کر دیے ہیں ۔

جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ آج جہانگیر ترین کی نااہلی کے حوالے سے حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت کر یگا اور اس موقع پر ایس ای سی پی کا یہ جواب کیس میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ جہانگیر ترین نے سپریم کورٹ میں دیے گئے جواب میں جہانگیر ترین نے آف شور کمپنیوں سے انکار کیا ہے۔

جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین نے یونائٹیڈ شوگر ملز کے حصول کیلئے ان سائیڈر ٹریڈنگ آرڈیننس 1969ءاور کمپنیز آرڈیننس 1984ءکی خلاف ورزی بھی کی اور سات کروڑ کمائے جن میں سے انہوں نے 7کروڑ سے زائد واپس کر دیے ہیں جس میں جرمانے اورمعاملے کی تحقیقات پر ریگولیٹر کے خرچے کی مد میں رقم شامل ہے ۔

ایس ای سی پی نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا ہے کہ جہانگیر ترین کو بطور ڈائریکٹر جے ڈی ڈبلیوان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے یونائٹیڈ شوگر ملز کے حصول کے لئے معاملات طے کر نے کا اختیار بھی دے رکھا تھا جس کے بعد انہوں نے سیکیورٹیز اینڈ ایکس چینج آرڈیننس 1969ءکے سیکشن 15 اے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 7کروڑ سے زائد رقم حاصل کی۔”نومبر 2004ءسے نومبر 2005ءتک شوگر مل کے شیئرز میں تمام تر تجارت اور قیمتوں کا تعین بھی جہانگیر ترین کا اختیار میں تھا اور ایس اسی سی پی ایکٹ 1997ءکے تحت تحقیقات کا حکم 12دسمبر 2006ءکو دیا گیا ۔
جواب میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ جہانگیر ترین نے حاجی خان اور اللہ یار کے نام پر 3لاکھ 41ہزار 780شیئرز حاصل کیے اور شوگر مل اور سٹاک مارکیٹ میں اپنے شیئر ہولڈرز کو فروخت کر کے سات کروڑ سے زائد رقم کمائی ۔
بعد میں ایس ای سی پی نے 3دسمبر 2007ءکو ایک خط کے ذریعے غیر قانونی رقم کے الزامات پر وضاحت طلب کی جس کے جواب میں جہانگیر ترین نے 8دسمبر کو جواب جمع کرایا اور الزامات تسلیم کرتے ہوئے سات کروڑ سے زائد رقم واپس کر دی ۔

 

 

ایمزٹی وی(لاہور) پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ قطری شہزادے کے عدالت میں پیش ہونے تک حکومت کی جانب سے پیش کردہ ان کا خط ردی کا ٹکرا ہے

لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کیس میں ثبوت حامدخان نے نہیں شریف فیملی نے پیش کرنے ہیں کہ انہوں نے جائیداد کس ذرائع سے بنائی، اس کیس میں اب حکومت کی جانب سے نئی نئی باتیں سامنے آرہی ہیں

وزیراعظم نواز شریف کے قومی اسمبلی کے بیان میں قطری شہزادے کا نام تک نہیں تھا لیکن پتہ نہیں یہ قطری شہزادہ یکدم کہاں سے نمودار ہو گیا۔ پاناما کیس کے حوالے سے نہ پی ٹی آئی نے کوئی رابطہ کیا اور نہ ہی مشورہ مانگا تاہم اگر مشورہ مانگا گیا تو ضرور دوں گا۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ جس طرح یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بطور وزیراعظم عدالت میں پیش ہوئے، پامانا لیکس کیس میں بھی وہی ہونا چاہیئے اور نوازشریف کوبھی عدالت میں پیش ہوناچاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کے بیانات میں بہت تضاد ہے، حسین نواز نے خود کہا تھا کہ قطر سے کسی نے مدد نہیں کی لیکن اب قطری شہزادے کا خط منظر عام پر آ گیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کے مطالبات بلکل جائز ہیں جس پر پیپلزپارٹی کبھی بھی ہوٹرن نہیں لے گی لہذا اب وزیراعظم کے پاس فرار کی کوئی راہ باقی نہیں ہے۔

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کے احتساب کے حوالے سے ریمارکس دیکر سب کو حیران کر دیا ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ یہ کس نے کہا کہ صرف وزیرا عظم کا احتساب ہو رہا ہے اور کسی اور نے نہیں کیا تو باقی افراد کا احتساب نہیں ہو گا ۔ عدالت نے تمام فریقین کو دستاویز اور شواہد جمع کرانے کی ہدایت کی تھی اوردیگر درخواستوں کو نظر انداز نہیں کیا گیا ۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ان درخواستوں کو نیب اور ایف آئی اے کو بھجوانے کا کہا ۔”آپ تو چاہتے ہیں کہ تمام معاملات نیب کو بھجوا دیے جائیں “،
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیس کا فیصلہ جلد کرنا چاہتے ہیں ، ایسی درخواستیں سننے لگیں تو فیصلہ نہیں ہو گا ۔ ہر پیشی پر 8،10نئی درخواستیں آجاتی ہیں ۔ حاکم وقت کا معاملہ ہے ابتداءکرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
نیب اس معاملے کو اپنے دائرہ اختیار سے باہر قرار دے چکا ہے ۔ ”ایسا لگتا ہے کہ ادارے صرف تنخواہوں کیلئے بنائے گئے ہیں ۔ اگر ہر درخواست کو سنتے رہیں تو مین کیس نہیں چلے گا ۔ اگر ایسے چلتا رہا تو مرکزی کیس کا فیصلہ نہیں کر پائیں گے ۔