منگل, 17 ستمبر 2024

 

یمز ٹی وی ( انٹرٹینمنٹ) کرنسی سمگلنگ کیس کی ملزمہ ماڈل گرل ایان علی کی بیرون ملک جانے کی خواہش دھری کی دھری رہ گئی۔ وزارت داخلہ نے ایان علی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایان علی کا نام ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی درخواست پر ای سی ایل میں ڈالا گیا، سندھ ہائیکورٹ کا معاملہ پر اختیار سماعت نہیں تھا۔ عدالت عالیہ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے کا معاملہ نظرانداز کرتے ہوئے پنجاب ہوم ڈیپارٹمنٹ کا مؤقف سنے بغیر فیصلہ دیا، ریفری جج نے حق میں فیصلے کی وجوہات نہیں بتائیں، عدالتی فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جسٹس کے کے آغا کو مقدمہ سننے سے انکار کرنا چاہیے تھا۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر ایان علی کا نام ای سی ایل میں شامل رکھا جائے۔ درخواست میں ماڈل ایان علی کو فریق بنایا گیا ہے۔

 

 

ایمز ٹی وی (تعلیم /کراچی) شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاء کے بانی وائس چانسلر جسٹس (ریٹائرڈ) قاضی خالد علی نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری، میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار سے ملاقات کی۔ یونیورسٹی کے غیر ملکی جامعات سے تعلیمی روابط اور اس سلسلے میں برطانوی دوروں کے سلسلے کے بارے میں آگاہ کیا۔ بانی وائس چانسلر نے جامعہ ِ قانون کی کارگردگی کی رپورٹ پیش کی اور چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کو داخلوں سٹی کیمپس، شہید بینظیر بھٹو کیمپس کورنگی اور مرکزی کیمپس ملیر کے متعلق آگاہ کیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثارنے اِن کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ جامعہ ِ قانون، پاکستان میں تعلیمی انقلاب کی طرف پہلا قدم ہے اور انہوں نے جسٹس (ریٹائرڈ) قاضی خالد علی کو یہ یقین دلایا کہ جامعہ قانون اور انِ کو عدلیہ کی سرپرستی حاصل رہے گی۔ چیف جسٹس صاحب نے اِس موقع پر کہا کہ بانی وائس چانسلر کی کوششیں نہ صرف قابل ِ ستائش اور قابل ِ تحسین ہیں بلکہ یہ تاریخ کا حصہ بنے گی۔ اس موقع پر بانی وائس چانسلر نے اپنی عدالتی فیصلوں پر مشتمل کتاب بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو پیش کی۔

 

 

ایمز ٹی وی (صحت) سپریم کورٹ کی جانب سے مضرصحت دودھ کی کھلے عام فروخت پر لیے گئے نوٹس کے بعد حکومت کو بھی ہوش آہی گیا، حکومت کی جانب سے مضر صحت دودھ اور خوراک فروخت کرنے والوں کو سزائیں دینے کے لیے اسپیشل عدالتیں قائم کرنے کی تیاری مکمل کر لی گئی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے مضر صحت دودھ اور پانی کے معاملے کا نوٹس لیتے ہی سالہا سال سے خواب غفلت میں پڑی پنجاب حکومت کو بھی عوام کی صحت کا خیال آ ہی گیا اور حکومت نے پہلی بار مضر صحت دودھ اور خوراک فروخت کرنے والوں کو سزائیں دینے کے لیے اسیشل ٹریبونلز قائم کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ وہ لوگ جو حکومتی اہلکاروں کی ملی بھگت اور حکومت کی ناک تلے سالہا سال سے عوام کو خوبصورت پیکنگ میں دودھ اور خوراک کی دیگر چیزوں کے نام پر زہر کھلا رہے تھے اور حکومت نے کبھی ان کے خلاف کارروائی کو درخور اعتنا ہی نہ سمجھا یکایک ان کا یہ عمل انسانیت کے خلاف سنگین جرم قرار دے دیا گیا۔ اس حوالے سے حکومت پنجاب کی جانب سے صوبے بھر کے ضلعی افسران اور متعلقہ سیکریٹریز کو مراسلہ بھی بھجوا دیا گیا ہے جس میں ان کو ہدایت کی گئی ہے کہ اسپیشل کورٹس کے لیے دو دو افراد کو نامزد کیا جائے تاکہ انھیں تعینات کیا جاسکے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے اسپیشل کورٹس میں تعیناتی کے لیے ایم بی بی ایس، فوڈ ٹیکنالوجی، کیمسٹری یا بایو کیمسٹری، بیالوجی اور وٹرنری میں ماسٹرز کی ڈگری کی شرط رکھی گئی ہے۔ پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ سے درخواست کی جائے گی کہ وہ اسپیشل کورٹس کے لیے جوڈیشل افسران کو نامزد کریں تاکہ ان عدالتوں کا جلد قیام ممکن ہو سکے ۔

 

 

ایمز ٹی وی( فیصل آباد) ایم پی اے محمدنوازملک نے کہاہے کہ عمران خان پانامہ کیس کافیصلہ آنے کے بعدبنی گالہ میں شام غریباں منائیں گے۔وہ قبل ازوقت مفروضے پرمبنی گفتگوکرکے عوام کوبے و قوف اورہمدردی حاصل کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ عدلیہ آزاداورخودمختارہے جہاں سب کوقانون اورآئین کے مطابق ہی فیصلوں کی توقع رکھنی چاہئے۔وقت ثابت کرے گاکہ عمران خان نے الزامات کی سیاست میں قوم کاوقت ضائع کیا۔میاں نوازشریف پانامہ سے بھی سرخروہوں گے اور2018ءکے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کونہ پہلے کوئی سیاسی فائدہ ہوانہ آئندہ ہوگا۔مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ہاتھ کرپشن سے پاک ہیں قوم کوان پرمکمل اعتمادہے ۔

عمران خان اوران کے ٹولے کوشکست در شکست کاسامناکرناپڑے گا۔ حکومت نے توانائی بحران سمیت ملکی تعمیروترقی اورعوام کی خوشحالی کے لئے جواقدامات کئے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن پہلے سے زیادہ نشستیں جیت کراقتدارمیں آئے گی۔

 

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ نے مریم نواز کے وکیل شاہد حامد کے دلائل سننے کے بعد پاناما کیس کی سماعت میں 1گھنٹے کا وقفہ کر دیا ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پاناما کیس کو سننے والے 5رکنی بینچ نے پاناما کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا ہے جس کے بعد مریم نواز کے وکیل اپنے دلائل کا تسلسل جاری رکھیں گے ۔
سماعت کے آغاز میں مریم نوازکے وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا مریم نواز کی جانب سے جواب داخل کرو ا دیا ہے جس پر میرے دستخط ہیں کیونکہ مریم نواز نے مجھے مجاز ٹھہرایا ہے ۔ بینچ کے رکن جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ میاں محمد شریف کی وفات کے بعد ان کی جائیداد کا کیا بنا ؟ شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ شریف خاندان میں اس حوالے سے کوئی جھگڑا یا تنازع نہیں ہے ۔ عدالت نے وزیر اعظم کے وکیل سے میاں شریف کی وفات کے بعد وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیلات طلب کر لیں ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ کیا ممکن ہے کہ وراثتی جائیداد تقسیم کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا جا سکے ۔”کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دو روز میں اس سے متعلق آگاہ کیا جا سکے “؟
مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف نے کاغذات نامزدگی میں کہا ہے کہ وہ والدہ کے گھر میں رہتے ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ کپٹن صفدر نے 2011ءمیں ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروایا ، ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے کا کیا نتیجہ ہو گا ؟جس پر مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ ، اگر کوئی ٹیکس ریٹرن نہ جمع کرائے تو اسے 28ہزار جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے ۔
 
2011ءسے پہلے کیپٹن صفدر کی تنخواہ سے ٹیکس کٹوتی ہوئی تھی ۔بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ پر الزام ہے کہ کیپٹن صفدر نے گوشواروں میں اہلیہ کے اثاثے چھپائے ۔ شاہد حامد نے جواب دیا کہ یہاں نااہلی یا ٹیکس چوری کا سوال نہیں ہے ، کیپٹن صفدر نے کاغذات نامزدگی کیساتھ مریم نواز کے گوشوارے کف کیے تھے ۔ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرانے پر نااہلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، کیپٹن صفدر نے کاغذات نامزدگی کیساتھ مریم نواز کے گوشوارے لگائے جس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کیپٹن صفدر کی نااہلی مانگی گئی ہے ۔ شاہد حامد نے جواب دیا کہ ٹیکس کا معاملہ ایف بی آ ر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے شاہد حامد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیپٹن صفدر کیخلاف ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التواہے ۔الیکشن کمیشن کو ریفرنس پر فیصلہ دینے کا مکمل اختیار ہے ۔ بتایا جائے اگر ریفرنس میں بھی یہی سوال اٹھایا گیا تو سپریم کورٹ مداخلت کیوں کرے؟ سپریم کورٹ آرٹیکل 184/3کے تحت متوازی کارروائی کیسے کر سکتی ہے ؟ شاہد حامد نے جواب دیا کہ وزیر اعظم کی نااہلی کیلئے بھی ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التواءہے ۔عدالت ریفرنس خود سنے تو اس کی مرضی ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جب ایک متعلقہ بااختیار فورم ہے تو اس کے مقدمات ہم کیوں سنیں؟دیگر ادارے بھی ریاست نے آئین کے مطابق بنائے ہیں ۔ مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے جواب دیا کہ وزیر اعظم ہو یا عام شہری قانون سب کیلئے برابر ہے ، حقیقت یہ ہے کہ وزیرا عظم نے خود کو احتساب کیلئے پیش کیا جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے شاہد حامد کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کسی رکن اسمبلی کیلئے کیا طریقہ کار ہے ؟ شاہد حامد نے بتایا کہ منتخب نمائندے کی نااہلی کیلئے کووارنٹو کی رٹ دائر کی جا سکتی ہے ۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ میں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض ہے ؟ تو شاہد حامد نے موقف اپنایا کہ میں تو عدالتی سوالوں کے جواب دے رہا ہوں ۔
 
پاناما کیس بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کیا اس بنیاد پر کارروائی نہ کریں کہ معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر التواءہے ؟ فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے معاملہ اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے یا نہیں ؟یوسف رضا گیلانی کیخلاف ریفرنس اسپیکر نے مسترد کیا تو معاملہ سپریم کورٹ آیا ۔ جسٹس عظمت سعیدشیخ نے شاہد حامد سے پوچھا کہ وزیر اعظم کی نااہلی کا کیس کس ہائیکورٹ میں زیر التواءہے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ سپیکر کے فیصلے کیخلاف اپیل لاہور ہائیکورٹ میں زیر التواءہے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ، ریفرنس اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے جس پر شاہد حامد نے جواب دیا کہ ایک الزام پر ریفرنس دیگر فورم پر موجود ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ ہماری تشویش ہے کہ دادرسی کیلئے فورم قانون کے تحت موجود ہیں ۔ اس کیس کا کیسے جائزہ لیں جس کیلئے دوسرے فورم موجود ہیں ؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمار کس دیے کہ آرٹیکل 63کے تحت سپیکر سے رجوع کیا جا سکتا ہے ۔ریفرنس خارج ہونے پر کیا دوسرا شخص بھی اسپیکر کے پاس داد رسی کیلئے جائے ؟ پھر دادرسی کیلئے سپریم کورٹ ہائیکورٹ سے براہ راست رجوع کر سکتے ہیں ؟ عدالت درخواستوں کو قابل سماعت قرار دے چکی ہے ۔آپ اس معاملے پر عدالت کی معاونت کریں تو شاہد حامد نے جواب دیا کہ بڑا اعتراض صرف عدالتی دائرہ اختیار پر ہے ۔قابل سماعت پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔” میری موکلہ کا موقف ہے کہ میری بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں “۔ موکلہ کے مطابق ان کے بھائی کا بھی یہی موقف ہے کہ لندن فلیٹس اس کے نام ہیں ۔موکلہ کا کہنا ہے کہ درخواست گزارکا اصرار ہے کہ بیرون ملک پراپرٹی کی میں مالک ہوں ۔موکلہ کو والد کے زیر کفالت بھی کہا جا رہا ہے حالانکہ ایسا نہیں ۔ مریم نواز عام شہری ہیں ،یہ عوامی اہمیت کا معاملہ کیسے ہے ؟ جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ وزیرا عظم نوازشریف کی حدتک معاملہ اہمیت کا حامل ہے ۔ مریم نواز کیخلاف سپریم کورٹ سے کوئی فیصلہ نہیں مانگا گیا ۔اگر فرض کر لیں کہ بیرون ملک جائیداد مریم نواز کی ہے تو پھر بھی کیا ہے تو بینچ کے رکن جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ عدالت متنازع حقائق پر فیصلہ دے سکتی ہے ۔ مریم نواز کے وکیل نے بتایا کہ میری موکلہ اپنے دالد کے زیر کفالت نہیں ۔اگر زیر کفالت نہیں تو لندن فلیٹس مریم نوا ز کے ہوں بھی تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ الزام ہے مریم نوازاپنے والد کی فرنٹ مین ہیں جس پر وکیل نے جواب دیا کہ یہ تو درخواست گزار نے ثابت کرنا ہے ، بار ثبوت شکایت کندگان پر ہے ۔کیس کے حوالے سے آئے روز باہر ہونیوالے انکشافات پر حیرت ہوتی ہے کاغذات کو لہرا کر کہا جاتا ہے کہ نئی دستاویزات سامنے آگئی ہیں ۔ پریس کانفرنسوں میں کہا جاتا ہے کہ کیس ختم ہو گیا ہے ، عدالت کے باہر میڈیا پر جو ماحول بنا ہوا ہے وہ حیران کن ہے ، عدالت کے باہر سیاسی لڑائی ہو رہی ہے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی لڑائی کے الفاظ مناسب نہیں سیاسی اختلاف ہو سکتے ہیں ۔ شاہد حامد نے کہا میں سیاسی لڑائی سے متعلق اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فریقین نے پہلے جواب میں قطری خط کا ذکر نہیں کیا ۔ ضمنی جواب میں قطری خط کاذکر کیا گیا ۔ 5نومبر کے تحریری بیان میں قطری سرمایہ کاری خط کا ذکر کیا گیا ، 7نومبر کو داخل تحریری جواب میں قطری خط کا ذکر نہیں تھا ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ 2004کی ای میل میں مریم نے نیلسن اور نیسکول کی بینیفشل اونر ہونا تسلیم کیا اور یہ دستاویز سب واضح کرتی ہے ۔ کیا مریم نواز کے اصلی دستخط اس دستاویز میں کیے گئے دستخطوں سے میچ کر سکتے ہیں ، دستاویزات کو دفن کرنے کی کوشش نہ کریں۔شاہد حامد نے جواب دیا کہ عدالت مریم نواز کے دستخطوں کا جائزہ لے سکتی ہے ، مریم نواز کے نام سے منسوب جس دستاویز کا حوالہ دیا گیا اس پر ان کے جھوٹے دستخط ہیں ۔

 

 

ایمز ٹی وی (تعلیم /اسلام آباد ) سی ڈی اے انتظامیہ نے قائد اعظم یونیورسٹی اراضی قبضہ کے سوموٹو نوٹس پر سپریم کورٹ میں ادارے کا جواب جمع کروا دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری 1991 میں یونیورسٹی کے تمام اراضی 1584ایکڑ 4 کنال اور 15 مرلے کا قبضہ حاصل کر چکی تھی۔ مارچ 1991 میں یونیورسٹی نے مزید 125 ایکڑ اراضی کا معاہدہ 10,80744 روپے میں کیا۔ یونیورسٹی اراضی پر قبضہ کا معاملہ پہلی مرتبہ 2007 میں سامنے آیا۔ سی ڈی اے نے شکایت کے چار روز کے بعد تمام اراضی پر خار دار تار لگانے کا کہا۔ 2007 میں بھی یونیورسٹی انتظامیہ کو مکمل تعاون کا کہا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سی ڈی اے چیئرمین بھی معاملہ پر یونیورسٹی کا دورہ کر چکے ہیں۔ اراضی قبضے کے معاملے پر یونیورسٹی اور سی ڈی اے افسران کا ورکنگ گروپ بنا دیا گیا ہے۔ ورکنگ گروپ کی 19 جنوری کی میٹنگ میں متعدد اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ سی ڈی اے فوری طور پر یونیورسٹی کوباونڈری وال لگانے کا اجازت نامہ جاری کرے گا ورکنگ کمیٹی نےفیصلہ کیا ہے کہ یونیورسٹی اراضی کی حد بندی میں سی ڈی اے اور اسلام آباد انتظامیہ مکمل تعاون کرے گی۔ ورکنگ کمیٹی کے فیصلہ کے مطابق سی ڈی اے یونیورسٹی اراضی کا مکمل ریکارڈ فراہم کرے گا۔ یونیورسٹی اراضی پر کئے گئے قبضے کو خالی کروانے کیلئے پولیس اور انتظامیہ مکمل تعاون کرے گی۔

 

 

 
ایمزٹی وی(اسلام آباد/تجارت)چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے عدالت کی تسلی ہوجانے تک یوٹیلٹی اسٹورز میں گھی اور تیل کی فروخت روکنے کا حکم جاری کردیا۔عدالت کا کہنا تھا کہ کوالٹی کنٹرول کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد یوٹیلٹی اسٹورز کے گھی اور تیل کو تلف کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے غیر معیاری گھی اور تیل کی فروخت کے خلاف لیے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت یوٹیلٹی اسٹورز کے وکیل مصطفی رمدے نے عدالت کے سامنے یوٹیلٹی اسٹورز پر موجود گھی اور تیل کی رپورٹ جمع کرائی۔جسٹس ثاقب نثار نے مصطفی رمدے کو ہدایت کی کہ وہ عدالت کو زمینی حقائق سے آگاہ کریں اور رپورٹ میں شامل تھیوری کو نہ دہرایا جائے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے اداروں پر بھروسہ ہے مگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی برادشت نہیں کی جائے گی۔
اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے یوٹیلٹی اسٹورز کے وکیل سے استفسار کیا کہ اسٹورز پر غیرمعیاری مصنوعات کیوں فروخت کی جارہی ہیں اور سنی بناسپتی، انمول گھی، شمع تیل اور راج بناسپتی نامی برانڈز کہاں فروخت ہوتے ہیں؟جس پر مصطفی رمدے نے جواب دیا کہ چھوٹے شہروں کے مقامی افراد ان برانڈز کے گھی اور تیل خریدنا پسند کرتے ہیں۔عدالت نے حکم جاری کیا کہ ملک بھر میں فروخت ہونے والے تمام برانڈز کے گھی اور تیل کی کوالٹی رپورٹ 10 دن میں جمع کرائی جائے اور ساتھ ہی پاکستان میں ٹیسٹنگ لیبارٹریز کی موجودگی اور ان کی استطاعت کے بارے میں بھی رپورٹ پیش کی جائے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ایک ڈاکٹرز کے وفد نے دوران ملاقات انہیں بتایا کہ غیر معیاری گھی کا استعمال بچوں میں دل کے امراض میں اضافے کی وجہ ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل سے مزید استفسار کیا کہ کیا نمک کی قسم اجینوموتو انسانی صحت کے لیے شدید نقصان دہ ہے؟ اور کیا اس کے استعمال سے دل کے امراض اور بلڈ پریشر سمیت الرجی میں اضافہ ہوتا ہے؟ساتھ ہی انہوں نے پاکستان کوالٹی کنٹرول کو ہدایت دی کہ وہ اجینو موتو کی جانچ کرکے اس کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ جلد ہی ٹیٹراپیک، پلاسٹک پاؤچ اور پلاسٹک کی پانی کی بوتلوں پر بھی نوٹس لیں گے کیونکہ یہ پلاسٹک کی بوتلیں دھوپ میں پڑے رہنے پر مضرِصحت ہو جاتی ہیں۔جس کے بعد کیس کی سماعت کو 2 ہفتے کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
 

 

 

ایمز ٹی وی(لاہور) آئی سی آئی جے نے پانامہ لیکس میں مریم نواز شریف سے متعلق کچھ نئی دستاویزات سماجی رابطے کی ویب سائٹ ”ٹوئٹر“ پر جاری کر دی ہیں اور کہا ہے کہ یہ دستاویزات پاکستانی سپریم کورٹ میں جاری مقدمے اور عوامی دلچسپی کے باعث جاری کی جا رہی ہیں۔
آئی سی آئی جے کی جانب سے جاری ہونے والی نئی دستاویزات میں منروا کمپنی سے متعلق کاغذات ہیں اور مریم نواز شریف کے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی بھی شامل ہے۔ آئی سی آئی جے کے رکن باسٹین اوبرمیر نے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں لکھا کہ ”ہم نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور پانامہ پیپرز کے معاملے پر عوامی دلچسپی کیلئے مزید دستاویزات جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔“ ان کی جانب سے منروا کمپنی کی دستاویزات اور مریم نواز شریف کے پاسپورٹ کی کاپی بھی جاری کی کی گئی ہے۔
تحقیقاتی صحافی، پانامہ پیپرز کتاب کے شریک منصف اور آئی سی آئی جے کے ممبر فریڈریک اوبرمائر نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ پر ایک پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے مریم نواز شریف کے پاسپورٹ کی کاپی جاری کرتے ہوئے اسے ”ثبوت“ لکھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ” آپ پانامہ پیپرز کیس کے معاملے میں مریم نواز اور شریف خاندان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں؟ تو یہ لیں۔“
انہوں نے مزید لکھا ”جیسا کہ سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد بھی کچھ لوگ شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں کہ کیا مریم نواز شریف کا نام واقعی پانامہ پیپرز میں ہے، جی ہاں، ان کا نام ہے۔“
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ان دستاویزات کو ری ٹویٹ کیا ہے اور کہا ہے کہ پانامہ پیپرز کے معاملے پر مریم نواز شریف سے متعلق حقائق جاننے کے خواہشمند افراد خود ان دستاویزات کو دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں۔

 

 

ایمز ٹی وی(کراچی) کرنسی اسمگلنگ کیس میں پھنسی ماڈل گرل ایان علی کی درخواست منظور کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ نے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا حکم دیدیا۔
تفصیلات کے مطابق ایان علی نے ای سی ایل سے نام نکال کر بیرون ملک جانے کی اجازت کیلئے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر دورکنی بینچ کے جسٹس احمد علی شیخ اور جسٹس کے کے آغاکے فیصلے میں اختلاف تھا اور بغیر کوئی فیصلہ سنائے معاملہ ریفری جج جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کو بھجوادیاگیاتھا، اُنہیں نے جسٹس کے کے آغا کے موقف سے اتفاق کیا اور ایان علی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیدیا۔
عدالتی فیصلے پر سرکاری وکیل نے سپریم کورٹ میں اپیل کیلئے ایک ہفتے یا 15دن کی مہلت مانگی لیکن عدالت نے یہ استدعا مستردکرتے ہوئے فوری طورپر ای سی ایل سے نام نکالنے کا حکم دیدیا۔
 

 

 

ایمز ٹی وی (کراچی) پاکستان تحریک انصاف سندھ کے سینئر نائب صدر حلیم عاد ل شیخ نے کہا ہے کہ ن لیگ کے پاس کورٹ میں پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے اسی لئے نواز شریف استثنیٰ کی آڑ میں چھپنا چاہتے ہیں۔ یہ باتیں انہوں نے پارٹی سیکریٹریٹ ’’انصاف ہاؤس‘‘ کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ تحریک انصاف کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل عمران اسماعیل، کراچی ریجن کے سینئر نائب صدر و رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان، دوا خان صابر اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی جانب سے ہر روز سپریم کورٹ کے باہر مداریوں کا تماشہ لگایا جاتا ہے۔ خواجہ سعد رفیق اگر بد تمیزی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں توہم ان کا چیلنج قبول کرتے ہیں اور مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہیں .