Saturday, 16 November 2024
×

Warning

JUser: :_load: Unable to load user with ID: 45

ایمزٹی وی(ٹیکنالوجی) ایف بی آر کی طرف سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ گوگل پاکستان پر 32 فیصد ٹیکس عائدکیے جانے کا امکان ہے۔

سینئر افسر نے بتایا کہ گوگل پاکستان کو کسی قسم کی کوئی ٹیکس چھوٹ حاصل نہیں، گوگل انتظامیہ کا موقف ہے کہ مرکزی دفترپاکستان سے باہر ہے، اس لیے ان پر پاکستانی ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوتا جبکہ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ پاکستانی قوانین کے مطابق گوگل پاکستان پر انکم ٹیکس قانون کی شق 105میں دیے گئے پروسیجر کے مطابق ٹیکس عائد ہوتا ہے۔

ایمز ٹی وی (اسپیشل رپورٹ) سردیوں میں وزن کیوں بڑھتا ہے اور خاص طور پر موسم سرما میں چکنائی والے کھانوں اور میٹھی اشیاء کی طلب سے مزاحمت کرنا کیوں مشکل ہو جاتا ہے۔ ان سوالوں کا جواب ایک نئی تحقیق نے دیا ہے جس کے مطابق انسانوں میں لاشعوری طور پر زیادہ کھانے کی خواہش ہے، جو اسے خاص طور پر موسم سرما میں زیادہ کھانے کے لیے تیار کرتی ہے۔

 

اس تحقیق میں حیاتیاتی سائنس سے وابستہ سائنس دانوں نے نوع انسانی میں موسم سرما میں زیادہ کھانوں کی خواہش کے لیے ارتقائی وضاحت پیش کی ہے۔ماہرین حیاتیات کے مطابق انسانی ارتقاء پر ایک فوری نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ ابتدائی انسانوں میں موٹاپا خطرات سے مقابلہ کرنے یا بقا کے لیے ضروری تھا جبکہ دوسری طرف کم وزنی ہونا کمزوری کی علامت تھی۔

محققین کا کام مطالعہ جریدہ ' رائل سوسائٹی پروسیڈنگ بی' کی جنوری کی اشاعت میں 'فٹنس اینڈ فٹنس' کے عنوان  سے شائع ہوا ہے۔تحقیق بتاتی ہے کہ ابتدائی انسانوں میں زیادہ کھانے کی خواہش تھی اور ان میں موٹاپے سے بچنے کی محدود صلاحیت تھی جبکہ خاص طور پر ان میں موسم سرما میں زیادہ کھانوں کی شدید خواہش پائی جاتی تھی۔

 

یونیورسٹی آف ایگزیٹر اور برسٹل یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق کے مصنف اینڈریو ڈی ہیگینسن نے کہا کہ ہمارے اندر میٹھے اور غیر صحت مند کھانوں کی لالچ پر قابو پانے اور موٹاپے سے بچنے کے لیے ایک ارتقائی میکانزم اب تک نہیں ہے۔ پروفیسر ہیگینسن کہتے ہیں کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ فطرت نے ہمیں پیٹ بھر جانے کا احساس کرنے کی صلاحیت سے نوازا ہے لیکن، ہمارے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ مصنوعی کھانوں کے لیے بہت کم مزاحمت رکھتے ہیں۔انھوں نے مزیدکہا کہ کیونکہ آج کے جدید کھانوں میں مٹھاس اور ذائقہ زیادہ ہے، جو انسانوں میں کھانے کی خواہش پیدا کرتا ہے اور یہ خواہش بہت طاقتور ہوتی ہے کسی بھی کمزور ارتقائی میکانزم کے مقابلے میں جو ہمیں بتائے گا کہ اب کھانے سے ہاتھ روک لیا جائے۔

تحقیق کے شریک مصنف جان میک نیمارا نے کہا کہ موسم سرما میں جسم میں چربی کو برقرار رکھنے خواہش زیادہ مضبوط ہوتی ہےاس وقت قدرتی دنیا میں خوراک کی قلت ہوتی ہے اور یہ اس بات کی وضاحت بھی پیش کرتی ہے کہ کیوں ہم موسم سرما میں وزن میں کمی کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

 

مزید جاننے کے لیے محققین نے ایک کمپیوٹر ماڈل کا استعمال کیا ہے جس نے یہ پیش گوئی کی کہ جانوروں کو  موسم سرما میں کتنی چربی کا ذخیرہ کرنا چاہیئے۔جو خوراک کی دستیابی اور کھانا تلاش کرتے ہوئے شکاریوں کی طرف سے ہلاک کیے جانے کے خطرے کی عکاس تھی۔ ماڈل میں فرض کیا گیا کہ ابتدائی انسانوں اور جانوروں نے اپنی بقا کی جدوجہد میں فطری انتخاب کے ساتھ تبدیل شدہ ماحول سے مطابقت رکھنے کی صلاحیت پیدا کی تھی، جس نے انھیں زندہ رکھا تھا اور بقا کی صلاحیت رکھنے والے انسانوں اور جانوروں کو فطری انتخاب نے صحت مند وزن برقرار رکھنے کی ایک بہترین حکمت عملی دی ہے۔ 

ماڈل سے ظاہر ہوا کہ جب جانوروں نے چربی کے ذخیرہ کی زیادہ سے زیادہ سطح سے تجاوز کیا اور توانائی کے لیے کھانے کی بڑی مقدار حاصل کی تو اس کا ان پر بہت تھوڑا نقصان ظاہر ہوا۔ بالکل اسی طرح کی صورت حال میں  انسانوں کے لاشعور میں وزن پر قابو رکھنے کا میکانزم کمزور پڑ جائے گا اور مزیدار کھانوں کے سامنے بے بس ہو جائے گا۔

 

شریک مصنف السدیر ہیوسٹن نے مزید کہا کہ ماڈل پیش گوئی کرتا ہے کہ جانوروں کو اس وقت وزن میں اضافہ کرنا چاہیئے جب خوراک تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تمام جانوروں بشمول انسانوں میں موسمی اثرات ظاہر ہوتے ہیں جو انھیں وزن بڑھانے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ بقول پروفیسر ہیوسٹن جسم میں چربی کا ذخیرہ کرنا دراصل خوراک تلاش کرنے میں ناکامی کے خطرے کے خلاف ایک طرح سے زندگی کی ضمانت ہے جبکہ صنعتی انسانوں سے پہلے کا انسان موسم سرما میں ایسا کرتا تھا۔

لہذا ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ مارچ اور نومبر کے درمیانی مہینے وزن کم کرنے کے لیے سازگار ہوتے ہیں کیونکہ، ان مہینوں میں ہمارا لاشعور ہمیں ایک بعد دوسری اور تیسری چیز کھانے کے لیے مجبور نہیں کرتا ہے۔

 

ایمز ٹی وی (تعلیم)ثانوی تعلیمی بورڈکراچی نے میٹرک کے ضمنی امتحانات 2015سائنس اور جنرل ریگولر وپرائیویٹ کی مارک شیٹس جاری کر نے کا اعلان کر دیا ہے۔ میٹرک بورڈ کے چیئرمین پروفیسر انوار احمد زئی کے مطابق ریگولر طلبہ کی مارک شیٹس ان کی درسگاہوں کو متعلقہ شیڈول کے مطابق جاری کر دی جائیں گی اور طلبا و طالبات اپنے اپنے اسکولوں سے ہی مارک شیٹس حاصل کرسکیں گے۔ جبکہ پرائیویٹ طلبا وطالبات کی مارک شیٹس ان کے رہائشی پتوں پر ارسال کر دی گئی ہیں نہ ملنے کی صورت میں بورڈ آفس کے متعلقہ سیکشن سے رابطہ کر سکتے ہیں۔دریں اثناءضمنی امتحانات 2015کے پرچوں میں رہ جانے والے طلباءوطالبات کو مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ اسکروٹنی فارمزنیشنل بینک، حبیب بینک، عسکری کمرشل بینک اوریونائیٹڈ بینک کی بورڈ آفس کی برانچوں سے حاصل کر کے 22فروری 2016تک جمع کروا سکتے ہیں۔

ایمز ٹی وی (ٹیکنالوجی) تاریخ میں پہلی مرتبہ خلا میں پھول کی افزائش کی گئی ہے جو چند روز پہلے خلا کے بے وزنی کے ماحول میں کھل چکا ہے۔

ناسا کے مطابق یہ ایک زینیا پھول ہے جو اردو میں آہار کے نام سے جانا جاتا ہے، اس پھول کی خاص بات یہ ہے کہ اسے کھایا بھی جاسکتا ہے۔ ناسا حکام کا کہنا ہے کہ اس کامیابی سے خلا کے طویل سفر کے دوران خوراک بننے والے پھول مثلاً ٹماٹر وغیرہ اگائے جاسکیں گے جو انسانوں کے کھانے کے کام آئیں گے۔

اس سے قبل بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں سلاد اگانے کا تجربہ بھی کامیاب رہا تھا۔ خلا کے خاص ماحول اور کششِ ثقل کی کمی کی وجہ سے پودوں اور پھولوں کی افزائش میں مشکل پیش آتی ہے اور اسی لیے اس خوبصورت پھول کوایک کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔ ناسا کے مطابق اس کی افزائش میں خلانورد اسکاٹ کیلی نے بہت محنت کی جو ایک سال سے خلائی اسٹیشن پر موجود ہیں۔

ایک ماہ قبل چند پھول نمی اورپھپھوند کی وجہ سےمرگئے تھے لیکن اب یہ پہلا پھول اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ اس کے لیے اسکاٹ نے پھول کے متاثرہ حصے کاٹ دیئے اور پانی دینے کا معمول بھی بدل دیا تھا۔

ناسا میں خلائی زراعت کے ماہر کے مطابق پھول اگانے  سے بہت معلومات ملی ہے کہ خلا کے خاص ماحول میں پودوں میں پانی کس طرح سفر کرتا ہے اور کن چیزوں سے پودوں کو نقصان پہنچتا ہے جب کہ یہ معلومات مستقبل میں چاند، مریخ اور طویل انسانی خلائی سفر کے لیے موزوں ثابت ہوں گی۔

سائنسدانوں کا کہنا ہےکہ انسان کو مریخ تک پہنچنے کے لیے کئی ماہ کا طویل سفر کرنا ہوگا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ خلائی جہاز میں ہی سبزیاں اور پھل اگائی جائیں جو ایک جانب خلانوردوں کا پیٹ بھرسکیں تو دوسری جانب فضا میں آکسیجن اور تازگی فراہم کرسکیں اور پھول کی افزائش اس ضمن میں ایک اہم قدم ہے تاہم آئندہ سال بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ٹماٹر کی افزائش کی جائے گی۔

ایمز ٹی وی (راولپنڈی)پاک فوج کے شعبہ ابلاغ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے خیبر ایجنسی میں فضائی کارروائی کی جس کے نتیجے میں 9 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق فضائی کارروائی پاک افغان سرحد کے قریب کی گئی جہاں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جس میں دہشت گردوں کے متعدد ٹھکانے اور ان کا مواصلاتی نظام بھی تباہ ہوگیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس دہشت گردوں کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن ضرب عضب میں اب تک متعدد دہشت گرد ہلاک جب کہ ان کے سیکڑوں ٹھکانے بھی تباہ کیے جاچکے ہیں

ایمز ٹی وی (تعلیم)وفاقی جامعہ اردو کے ناظم امتحانات غیاث الدین احمد کے مطابق بی کام(سال اول) پرائیویٹ سالانہ امتحانات کا آغاز 25 جنوری2016 سے ہوگا۔ پہلا پیپر 25 جنوری کو انگریزی، 26جنوری تعارف کاروبار،27جنوری اسلامیات /اخلاقیات، 28جنوری اکاﺅنٹنگ، 29جنوری شماریات کاروبار حساب، 30جنوری مطالعہ پاکستان،31جنوری معاشی تجزیہ(معاشیات) اوریکم فروری کوبینکاری و مالیات کا پیپر ہوگا۔ طلباءو طالبات کا امتحانی مرکز اردو یونیورسٹی گلشن اقبال کیمپس بنایا گیا ہے جبکہ امتحانات کے اوقات کاردوپہر 2بجے سے شام5بجے تک ہونگے۔

ایمز ٹی وی (چارسدہ) باچا خان یونیورسٹی میں دہشتگردوں کے حملے کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے ، دہشتگردوں کی جانب سے آج صبح یونیورسٹی میں اچانک فائرنگ کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کی زد میں آکر متعدد افراد زخمی ہوگئے ، فائرنگ کے نتیجے میں طلبہ میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ جان بچانے کیلئے بھاگ کھڑے ہوئے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ متعدد طلبہ اور اساتذہ یونیورسٹی کی عمارت میں محصور ہیں ۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور سکیورٹی اداروں کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور یونیورسٹی کو گھیرے میں لے لیا ، دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کی تعداد 4 سے 7 ہوسکتی ہے ۔ 

پاک فوج کے جوانوں نے دہشتگردوں کے حملے کے بعد علاقے کا گھیرائو کر لیا اور باچا خان یونیورسٹی پہنچ گئے ، زخمی ہونے والوں میں دو چوکیدار اور ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ حملے کے وقت یونیورسٹی میں باچا خان کی برسی کے حوالے سے مشاعرہ جاری تھا کہ اسی دوران دہشتگردوں کی جانب سے حملہ کر دیا گیا ، واقعے کے بعد چارسدہ کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور ڈاکٹروں کی چھٹیاں منسوخ کر کے انہیں ڈیوٹی پر طلب کر لیا گیا ۔ دھماکوں کے وقت 6 سے 7 سو طلبہ یونیورسٹی میں موجود تھے ۔ 

 

پولیس نے موقع پر پہنچ کر دہشتگردوں کا مقابلہ کیا ۔ دوسری طرف مردان سے ریسکیو کی 7 گاڑیاں باچا خان یونیورسٹی روانہ کر دی گئیں تاکہ زخمیوں کو طبی امداد دی جا سکے ۔ یونیورسٹی کے گرد و نواح میں شدید دھند کی وجہ سے ریسکیو آپریشن میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ممکن ہے دہشتگردوں نے دھند کا فائدہ اٹھا کر کارروائی کی ہو ۔ یونیورسٹی میں موجود طلبہ شدید خوف و ہراس کا شکار رہے اور کئی طلبہ بھگدڑ کے نتیجے میں زخمی بھی ہوئے ۔ یونیورسٹی میں فوج کی نگرانی میں سرچ آپریشن کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور شہر کو چاروں طرف سے سیل کر دیا گیا ہے ، شہر کو آنے والے تمام راستے بند کردیئے گئے ہیں ، آر پی او سعید وزیر کا کہنا ہے کہ ہوسٹل میں محصور تمام طلبہ کو باہر نکال لیا گیا ہے ۔