ایمزٹی وی(اسلام آباد)قومی احتساب بیورو (نیب) نے گزشتہ 16 سالوں کے دوران سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے خلاف کیسز کی تحقیقات اور ان کی پیروی کے لیے قومی خزانے کے 40 کروڑ روپے سے زائد خرچ کیے۔ذرائع کے مطابق نیب سابق صدر کے خلاف کیسز کی 1999 میں اپنے قیام کے آغاز سے ہی پیروی کر رہی ہے، تاہم آصف زرداری اپنے خلاف کرپشن کے 5 میں سے 4 کیسز میں بری ہوچکے ہیں۔تاہم نیب کی جانب سے سابق صدر کے خلاف قومی اور سوئس عدالتوں میں چلائے جانے والے ان مقدمات پر اخراجات کے حوالے سے تفصیلات فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔تفصیلات کے مطابق ایس جی ایس-کوٹیکنا، پولو گراؤنڈ، ارسس ٹریکٹرز اور اے آر وائی ریفرنسز میں بری کیا جاچکا ہے۔کرپشن کے جس ایک کیس کا وہ سامنا کر رہے ہیں وہ اثاثہ جات کا ہے اور اس میں بھی ان کی جانب سے بریت کی درخواست دی جاچکی ہے۔واضح رہے کہ آصف زرداری کے خلاف ایس جی ایس-کوٹیکنا کیس 98-1997 میں نواز شریف کے دور حکومت میں احتساب بیورو کے ذریعے سوئٹزرلینڈ میں قائم کیا گیا تھا، جس میں اُن پر اور بے نظیر بھٹو پر الزام تھا کہ انہوں نے کمیشن کی مد میں 6 کروڑ ڈالر حاصل کیے۔
ایمزٹی وی(اسلام آباد) قومی احتساب بیورو (نیب) اور پاکستان رینجرز کی مشترکہ ٹیم نے توانائی کے شعبے میں بے ضابطگیوں اور کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کا دائرہ پانچ کمپنیوں اور اداروں تک وسیع کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق توانائی کے شعبے میں کرپشن کی تحقیقات وسیع کرنے کا فیصلہ سابق وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین، سوئی سدرن گیس کمپنی کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر زہیر صدیقی، کمپنی کے سابق ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر شعیب وارثی اور کامران احسان نگی کی گرفتاری کے بعد کیا گیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ان افراد کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کرنے کے احکامات ڈاکٹر عاصم حسین، سوئی سدرن گیس کمپنی، سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)، کے الیکٹرک اور دیگر کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے حوالے سے دیئے گئے۔ذرائع نے مزید کہا کہ رینجرز کو مرکزی بینک سے ڈاکٹر عاصم کے بینک اکاؤنٹس کی حاصل ہونے تفصیلات میں کچھ اہم شواہد ملے ہیں جس کے بعد تحقیقات کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ایمز ٹی وی ﴿کراچی﴾ سندھ کے مختلف سرکاری محکموں میں فنڈزکے استعمال میں سال 14-2013 کے دوران اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کاانکشاف ہوا ہے۔ مالی بے ضابطگیوں کاانکشاف حکومت سندھ کے سالانہ اکاؤنٹس (2013-2014)کے کیے گئے آڈٹ میں ہواہے، مذکورہ آڈٹ رپورٹ ڈائریکٹرجنرل آڈٹ سندھ غلام اکبرسوہو نے حال ہی میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کو پیش کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق محکمہ تعلیم تین ارب روپے سے زائد کی بے مالی ضابطگیاں سامنے آئیں جن میں یورپین یونین سے ایک ارب 44 کروڑ روپے کی گرانٹ حاصل کرنے میں ناکامی اور67کروڑ روپے کی فراہم کردہ رقم استعمال نہ کرنا شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری محکموں کو قوائدو ضوابط کے تحت کام کرنے کی ہدایات جاری کرنے والا محکمہ سروسز اینڈجنرل ایڈمنسٹریشن بھی بے ضابطگیوں میں پیچھے نہیں رہا اور مذکورہ محکمے نے 58کروڑ روپے سے زائد مالیت کے ٹھیکے ایکنیک سے منظوری لیے بغیر دے دیے۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس سندھ کے افسران نے بھی سرکاری خزانے کے غیرقانونی استعمال میں کسر نہیں چھوڑی اوروزیر اعلیٰ ہاؤس کے اکاؤنٹس میں بھی تقریباً ایک ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔