پیر, 07 اکتوبر 2024
Reporter SS

Reporter SS

 
 
 
 
ریاض: سعودی عرب کے کنگ سلمان اسپتال میں کرونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال کا کام روبوٹ نے شروع کردیا، روبوٹ کی بدولت طبی عملہ کرونا کے خطرے سے کسی حد تک محفوظ ہوگیا۔
 
سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب کے کنگ سلمان اسپتال ریاض میں روبوٹ نے کرونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال کا کام شروع کردیا، روبوٹ کو ڈاکٹر بی ٹو کا نام دیا گیا ہے۔
 
ڈاکٹر بی ٹو کرونا کے مریضوں کی صحت نگہداشت پر مامور ہے، یہ کیمروں کی مدد سے مہلک وائرس کے مریضوں کے احوال، مریضوں کی حالت اور علامتوں کی تشخیص کر لیتا ہے جبکہ ان کی بدلتی ہوئی حالت بھی ریکارڈ کرتا رہتا ہے۔
 
روبوٹ کیمروں سے آراستہ ہے، اس میں مریضوں کی جسمانی حالت ریکارڈ کرنے والی ٹیکنالوجی سے آراستہ خود کار آلہ نصب ہے۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ کرونا وائرس مریض سے ڈاکٹر، نرس یا معاون طبی عملے میں منتقل نہیں ہوتا۔
 
وزارت صحت کے مطابق کنگ سلمان اسپتال میں روبوٹ ڈاکٹر بی ٹو کا تجربہ کامیاب ہونے پر دیگر اسپتالوں میں بھی روبوٹ کا استعمال عام کردیا جائے گا۔
گھوٹکی: سندھ میں ملزمان کو سوشل میڈیا پر لڑکیوں کے نام سے جعلی آئی ڈیز بنا کر بلیک میل کرنا مہنگا پڑگیا۔
 
ایف آئی اے کی سکھر سائبرکرائم ونگ نے سندھ کےضلع گھوٹکی میں کارروائی کرکے دو ملزمان کو گرفتار کرلیا، ملزمان جعلی اکاؤنٹ کے ذریعے خواتین کو بلیک میل کرتے تھے۔
 
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمان جعلی آئی ڈیز پرخواتین کی تصویر اپلوڈ کرکے بلیک میل کرتے تھے۔ ایف آئی اے نے درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے دونوں ملزمان کو گرفتار کیا۔
 
خیال رہے کہ سوشل میڈیا خواتین کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنانا اور صارفین کو بلیک میل کرنا معمول بن چکا ہے۔ اس سے قبل بھی متعدد بار ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں اور درجنوں ملزمان گرفتار بھی ہوئے۔
 
اس بابت ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ نے ملک بھر میں اپنی کارروائیاں تیز کردی ہیں۔
 
 
نیویارک: گوگل ڈو کے نئے فیچر نے زوم، اسنیپ چیٹ کو ویڈیو کالنگ اور کانفرنسنگ اسپیس میں پیچھے چھوڑ دیا۔
 
تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال میں گروپ ویڈیو کالز چاہے وہ دوستوں کے لیے ہو، فیملی کے لیے یا آفس کے لیے ٖضرورت بن چکی ہے اور اس حوالے سے زوم صارفین میں مقبول ہے لیکن اب ڈو کے صارفین ویب یعنیٰ براؤزر پر بھی ڈو گروپ کالز کر سکیں گے اس طرح یہ دیگر ایپس کے مقابلے میں آجائے گا۔
 
گوگل کروم پر گروپ کالز کرنے کی سپورٹ متعارف کرائی جا رہی ہے جس میں ایک نیا لے آٹ بھی دیا جا رہا ہے جس سے آپ ایک وقت میں زیادہ افراد کو دیکھ سکیں گے۔گروپ کال کے لیے لوگوں کو مدعوکرنے کا عمل بھی انوائنٹ لنگ کے ذریعے آسان بنایا جا رہا ہے۔
 
 
ڈو موبائل ایپ میں ایک نئے فیملی موڈ کا بھی اضافہ کیا جا رہا ہے جس کی مدد سے صارفین اسکرین پر رئیل ٹائم میں ڈوڈل بناسکیں گے جبکہ ماسکس اور دیگر ایفیکٹس بھی استعمال کر سکیں گے۔ماسکس اور دیگر ایفیکٹس ون آن ون اور گروپ کالز میں دستیاب ہوں گے اور انہیں مدر ڈے ایفیکٹ کے ساتھ متعارف کرا دیا گیا ہے۔
 
گوگل نے مارچ میں اپنی ایپ ڈو کے لیے گروپ ویڈیو کال میں لوگوں کی تعداد کی حد 8 سے بڑھا کر 12 کر دی تھی اور اسے 32 تک بڑھانے کا وعدہ کیا ہے۔
 
گوگل ڈو پروڈکٹ منیجر ہمبرٹو کاسٹانیڈا نے واضح کیا کہ فیملی موڈ میں آپ ویڈیو کالز پر ڈوڈل، تفریحی ایفیکٹس، ماسک اور فلٹر استعمال کر سکیں گے۔
 
 
 
 
 
 
سڈنی : آسٹریلیا کی وزیر سائنس کا کہنا ہے کہ 10 سے 15 ماہ میں دو کورونا ویکسین تیار ہوسکتی ہیں، اس ویکیسین کی امریکہ اور برطانیہ میں آزمائش کی جائے گی۔
 
آسٹریلیا بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا ہے جہاں کورونا ویکسین کی تیاری پر کام جاری ہے، کامن ویلتھ سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ آرگنائزیشن (سی ایس آئی آر او) کے تحت سائنسدان دن رات اس کی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں۔ آسٹریلیا میں رواں سال کے اختتام یا اگلے سال کے آغاز تک کورونا وائرس ویکسین تیار کی جاسکتی ہے۔
 
اس حوالے سے وفاقی وزیر سائنس کیرن اینڈریوز نے میڈیا کو بتایا کہ آسٹریلیائی دولت مشترکہ سائنسی اور صنعتی تحقیقاتی تنظیم (سی ایس آئی آر او) دو اقسام کی ویکسینوں کی جانچ پڑتال کررہی ہے جن میں سے ایک امریکہ اور ایک برطانیہ سے ہے۔ سی ایس آئی آر او برطانیہ اور امریکہ سے دو ویکسینوں کے بارے میں ٹیسٹ کر رہا ہے۔
 
 
وزیر سائنس کا کہنا ہے کہ 10 سے 15 ماہ میں ویکسین تیار ہوسکتی ہے، انہوں نے کہا کہ سی ایس آئی آر او چین سے باہر پہلی ریسرچ تنظیم تھی جس نے تحقیق کو قابل بنائے جانے کے لئے وائرس کا کافی ذخیرہ تیار کیا، یہ تنظیم اپنے تیز رفتار کام کی بدولت اب پری کلینیکل ٹرائلز کے مرحلے پر ہے۔ یہ ایک ایسی پوزیشن ہے جس میں عام طور پر پہنچنے میں دو سال لگتے ہیں۔
 
ان کا مزید کہنا تھا کہ15ماہ کے اندر ویکسین تک پہنچنا ریکارڈ وقت ہوگا کیونکہ ویکسین کی نشوونما عام طور پر ایک لمبا اور پیچیدہ عمل ہے جس میں15 سال بھی لگ سکتے ہیں۔
 
 
 
 
سیئول : ماہرین صحت نے دعویٰ کیا ہے کہ مہلک ترین کوویڈ 19 وائرس کا مریض ایک بار صحتیاب ہونے کے بعد دوبارہ وائرس کا شکار نہیں ہوسکتا۔
 
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس نے وبا نے دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کے باعث ہر طرف شدید خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے تاہم ڈاکٹروں کی محنت کے باعث 10 لاکھ سے زائد مریض صحتیاب بھی ہوچکے ہیں۔
 
جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے ایک تحقیق کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ کرونا کے مہلک ترین وائرس سے متاثر ہونے والا مریض دوبارہ اس وبا کا شکار نہیں ہوسکتا، یہ تحقیق اس شبے کے بعد کی گئی ہے جس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ جنوبی کوریا، جاپان اور چین میں کرونا سے صحتیاب ہونے والے افراد دوبارہ اس وائرس کا شکار ہورہے ہیں۔
 
 
ماہرین کا کہنا تھا صحت مند افراد میں دوسری بار مہلک وائرس کی تشخیص ٹیسٹنگ کی خرابی کا نتیجہ ہے، دوبارہ ٹیسٹ کی رپورٹ مثبت آنے کی وجہ جسم میں موجود وائرس کے غیر موثر ٹکڑے ہیں اور یہ ٹکڑے روائتی ٹیسٹ میں پکڑ میں بھی نہیں آتے۔
 
خیال رہے کہ دنیا بھر میں نئے اور مہلک ترین کوویڈ 19 وائرس کے متاثرہ افراد کی تعداد 36 لاکھ 86 ہزار سے زائد ہوچکی ہے اور صحتیاب ہونے والوں کی تعداد صرف 12 لاکھ 20 ہزار تک پہنچی ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 2 لاکھ 55 ہزار کا ہندسہ عبور کرچکی ہے۔
 
 
 
 
نیویارک: موبائل بنانے والی معروف کمپنی آئی فون کے چہرے کی شناخت کے بعد کھلنے والے ماڈلز کو اب فیس ماسک کے ساتھ بھی کھولا جاسکے گا۔
 
خلیج ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق فیس آئی ڈی والے تمام آئی فون کو ان لاک کرنے کے لیے صارفین کو پاس کوڈ (خفیہ ہندسے) درج کرنے کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی، وہ اپنے موبائل کی اسکرین کو سوئپ کر کے پاس مذکورہ ہندسے ڈال کر اسے ان لاک کرسکیں گے۔
 
علاوہ ازیں آئی فون نے اپنے آپریٹنگ سسٹم آئی او ایس 13.5 بیٹا ورژن میں صارفین کو یہ سہولت بھی فراہم کی ہے کہ وہ فیس ماسک کے ساتھ اپنے فون ان لاک کرسکتے ہیں۔
 
 
اس سے قبل ایپل استعمال کرنے والے صارفین کو یہ مشکل درپیش تھی کہ وہ جب تک اپنے فیس ماسک ہٹاتے نہیں تھے اُن کا موبائل شناخت نہیں کرتا تھا اور اسی وجہ سے فون ان لاک نہیں ہوتا تھا۔
 
کمپنی کی جانب سے صارفین کو فون ان لاک کرنے کے لیے دوسرا آپشن پاس ورڈ کا بھی دیا گیا جس کو درج کر کے وہ اپنے فون ان لاک کرسکتے ہیں۔
 
ایپل نے فیس ماسک کے ساتھ فون ان لاک کرنے کے فیچر کی آزمائش تو کرلی البتہ یہ سہولت عام صارفین کو کب تک دستیاب ہوگی اس حوالے سے کمپنی نے کوئی اعلان نہیں کیا۔
 
یہ بھی پڑھیں: کرونا وائرس: ایپل نے آئی فون کی فروخت محدود کردی
 
یاد رہے کہ کرونا وبا پھیلنے کے بعد لوگ احتیاطی تدابیر کے پیش نظر وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے ماسک استعمال کررہے ہیں، اس دوران فیس ان لاک والے فون استعمال کرنے والے صارفین کو پریشانی کا سامنا تھا۔
 
جینیوا: طبی ماہرین نے عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُن جانوروں کی نشاندہی پر کام شروع کرے جن کے ذریعے کرونا وائرس انسانوں میں منتقل ہوا۔
 
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق بین الاقوامی طبی ماہرین کی ہنگامی (ایمرجنسی) کمیٹی نے ڈبلیو ایچ او کے نام مراسلہ لکھا جس میں سفارش کی گئی ہے کہ اُن جانوروں کی نشاندہی کی جائے جو کرونا وائرس کو پھیلانے یا انسانوں میں اسے منتقل کرنے کی وجہ بنے ہیں۔
 
ڈبلیو ایچ او کے حکام کا کہنا ہے کہ کمیٹی کی جانب سے موصول ہونے کے بعد عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے اس حوالے سے کام شروع کردیا اور وہ اب اُن جانوروں کو تلاش کررہے ہیں جو کرونا وائرس کو پھیلانے کا سبب بنے۔
 
 
عالمی ادارہ صحت کے محکمہ برائے جنگلی حیات اور ایگری کلچر کے ماہرین بھی اس ضمن میں ڈبلیو ایچ او کی معاونت کررہے ہیں۔
 
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈ روس نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایک ٹیم نے اس حوالے سے کام شروع کردیا۔
 
کمیٹی نے ڈبلیو ایچ او سے یہ بھی سفارش کی کہ کرونا سے متاثرہ افراد کی نشاندہی اُس طرح سے کی جائے جیسے دنیا بھر میں انسانی آبادی کا طریقہ کار معلوم کرنے کے لیے کی جاتی ہے، ہنگامی بنیادوں پر ان باتوں کو تلاش کر کے ہم کرونا کی روک تھام میں اہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
 
 
یاد رہے کہ اس سے قبل دنیا کے مختلف ممالک کے ماہرین کے مختلف تحقیقات میں یہ باتیں سامنے آچکی ہے کہ کرونا وائرس چمگادڑ، کتوں، پینگولین یا دیگر ممالیہ سے پھیلا ہے۔
 
fb-share-icon0Tweet20
Comments
 
 
 
نیویارک: ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جسم میں وٹامن ڈی کی سطح جتنی کم ہوگی اتنا ہی کرونا وائرس کا خطرہ زیادہ ہوگا۔
 
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے کرونا وائرس لگنے اور کو وِڈ نائنٹین انفیکشن سے مرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
 
ابتدائی تحقیق میں یہ عارضی ثبوت سامنے آیا ہے کہ حیاتین ڈی کی کم سطح کی وجہ سے زیادہ امکان ہے کہ کرونا وائرس لگنے کے بعد مریض مر جائے گا۔
 
اس تحقیق میں 20 یورپی ممالک میں اوسطاً وٹامن ڈی کی سطح کا موازنہ کیا گیا ہے جہاں کو وِڈ نائنٹین کے انفیکشن اور اس سے اموات کا ریکارڈ موجود تھا، اس سے یہ معقول انکشاف ہوا کہ جن ممالک میں حیاتین ڈی کی سطح کم تھی وہاں کو وِڈ نائنٹین انفیکشن کی شرح کے ساتھ اموات کی شرح بھی زیادہ تھی۔
 
اس تحقیقی مطالعے کا ابھی دیگر سائنس دانوں نے جائزہ (peer-review) نہیں لیا ہے، جس سے مذکورہ ثبوت کی مزید توثیق نہیں ہوئی ہے، تاہم کوئین الزیبتھ اسپتال فاؤنڈیشن ٹرسٹ اور یونی ورسٹی آف ایسٹ انجلیا کے سائنس دانوں نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ ‘ہم یقین کے ساتھ سارس کو وِڈ 2 انفیکشن کے خلاف تحفظ کے لیے وٹامن ڈی سپلیمنٹ کی تجویز دے سکتے ہیں۔’
 
اس تحقیق کو اس سے قبل ہونے والی ایک اور تحقیق بھی سہارا دیتی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ وٹامن ڈی کے استعمال سے کرونا وائرس لگنے کے بعد مریض کی صحت یابی کا امکان بڑھ جاتا ہے، اس سلسلے میں یونی ورسٹی آف گریناڈا کی 10 ہفتوں پر مشتمل ٹرائل ابھی جاری ہے، جو کہ ٹرینٹی کالج ڈبلن کی ایک حالیہ تحقیق کے بعد شروع کیا گیا ہے، جس میں دیکھا گیا کہ جن افراد نے وٹامن ڈی سپلیمنٹ لیا ان میں چیسٹ انفیکشن 50 فی صد کم ہوا۔
 
حالیہ تحقیق نے اس سے قبل کی تحقیقاتی اسٹڈیز کی مدد سے یہ بھی دیکھا ہے کہ جن معمر افراد میں وٹامن ڈی کی سطح کم تھی، ان میں کرونا وائرس لگنے سے اموات کا خطرہ زیادہ پایا گیا۔
 
تحقیق کے مطابق جن یورپی ممالک سے سیرم سیمپلز لیے گئے ان میں وٹامن ڈی کی اوسطاً مقدار 56nmol/l پائی گئی، جب کہ 30nmol/l سے کم سطح شدید کمی کا اشارہ کرتی ہے۔ تحقیق میں دیکھا گیا کہ اسپین میں وٹامن ڈی کی سطح 26nmol/L تھی، اٹلی میں 28nmol/L، سوئٹزرلینڈ کے نرسنگ ہومز میں 23nmol/L، اٹلی میں 70 سالہ عورتوں کے 76 فی صد میں 30nmol/L سے کم سطح تھی۔ خیال رہے کہ ان ممالک میں کرونا کیسز اور اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔
 
واضح رہے کہ وٹامن ڈی مچھلی اور مشروم جیسی غذاؤں کے ذریعے انسانی جسم میں اپنا راستہ بناتا ہے یا سورج کی روشنی میں جلد میں موجود خلیات کے ذریعے پیدا ہو سکتا ہے۔

 کورونا وائرس کی ویکسین کی انسانوں پر طبی آزمایش شروع ہوگئی ہے اور 2020 کے آخر تک یہ ممکنہ ویکسین دستیاب ہوجائے گی۔

امریکی کمپنی کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے والے جرمن کمپنی نے انسانوں پر اس کی طبی آزمائش شروع کردی ہے اور ممکنہ طور پر اس سال کے آخر تک لاکھوں افراد کو یہ ویکسین فراہم کردی جائے گی۔
امریکی جریدے میں شایع ہونے والی خبر کے مطابق امریکی دوا ساز کمپنی فائزر کا کہنا ہے کہ امریکا میں ویکسین کی طبی آزمائش آئندہ ہفتے سے شروع ہوجائی گی اور کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اس کا استعمال بھی جلد کیا جاسکے گا۔
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق 23 اپریل کو طبی آزمائش کے شرکا کو ویکسین کی پہلی ڈوز دے دی گئی ہے اور جرمنی میں ابتدائی طور پر اس آزمایش میں 12 افراد شریک ہوئے ہیں۔ تاہم ابھی تک ویکسین کے نتائج کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہے۔
جرمنی کے وفاقی ادارہ برائے ویکسین اور بائیومیڈیکل ادویہ نے 22 اپریل کو جرمن کمپنی بائیون ٹیک اور فائزرکو کورونا وائرس ویکسین کی طبی آزمائش کرنے کی منظور دی تھی۔ دونوں کمپنیاں مشترکہ طور پر پہلے یورپ اور پھر امریکا میں ویکسین کی آزمائش کریں گی۔ آزمایش کے نتائج اور متعلقہ اداروں کی منظوری کے بعد 2021 تک کرورڑوں کی تعداد میں ویکسین تیار کی جائے گی۔

 اس وقت دنیا میں کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کے لیے 6 پروگرام کی طبی آزمائش شروع ہوچکی ہے اور 80 پروگرام ابتدائی مراحل میں ہیں۔

چینی سائنسدانوں نے انسانی جسم میں کورونا وائرس کی تشخیص اور اس کے خلاف مؤثر اینٹی باڈیز کی موجودگی کا بیک وقت سراغ لگانے کےلیے ایک نیا ٹیسٹ ایجاد کرلیا ہے جو صرف 10 منٹ میں انتہائی درست نتائج دیتا ہے۔

امریکن کیمیکل سوسائٹی کے ایک نمائندہ تحقیقی مجلے ’’اینالیٹیکل کیمسٹری‘‘ کی تازہ ترین آن لائن اشاعت میں شائع شدہ مقالے کے مطابق، چینی ماہرین نے جس تکنیک سے استفادہ کیا ہے وہ ’’لیٹرل فلو امیونوایسے‘‘ (ایل ایف اے) کہلاتی ہے اور عملاً وہی تکنیک ہے جو حمل (پریگنینسی) کا پتا چلانے والے گھریلو ٹیسٹ میں عام استعمال ہوتی ہے۔
معمولی سی تبدیلی اور بہتری کے ساتھ ایل ایف اے تکنیک پر مبنی یہ ٹیسٹ نہ صرف خون میں ناول کورونا وائرس کی موجودگی یا غیر موجودگی کا پوری درستی سے پتا چلا سکتا ہے بلکہ اس وائرس سے دفاع کرنے والی اینٹی باڈیز کا بھی پتا دے سکتا ہے۔

ابتدائی تجربات کے دوران کورونا وائرس سے متاثرہ 7 افراد سے لیے گئے خون کے نمونوں کی جانچ میں استعمال آزمایا گیا، جس میں اس نے تمام نمونوں میں کورونا وائرس کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کی۔

یہ طریقہ مزید 12 ایسے نمونوں پر بھی آزمایا گیا جنہیں اس سے پہلے کورونا وائرس کی تشخیص کرنے والی عمومی تکنیک ’’آر ٹی پی سی آر‘‘ سے جانچا گیا تھا مگر ان میں سے کسی نمونے میں بھی کورونا وائرس نہیں ملا تھا۔ نئے طریقے سے جانچنے پر ان میں سے ایک نمونے میں کورونا وائرس مل گیا، جبکہ متعلقہ شخص میں کورونا وائرس کی تمام علامات موجود تھیں مگر عمومی تکنیک سے وائرس نہیں مل پایا تھا۔
ابتدائی آزمائشوں سے ’’ایل ایف اے‘‘ پر مبنی تکنیک نہ صرف ناول کورونا وائرس بلکہ مستقبل میں کسی بھی دوسرے وائرس کی فوری اور کم خرچ تشخیص میں بھی ہمارے کام آسکے گی۔ تاہم یہ معلوم نہیں کہ اس ٹیسٹ کو مارکیٹ تک پہنچنے میں کتنا وقت لگ جائے گا۔