ایمزٹی وی(سندھ/ صحت)سول ہسپتال میرپور خاص میں قائم ہیموڈائیلاسز سینٹر کی ایک قومی ادارے کے تعاون سے ڈیڑھ کروڑ روپے کی لاگت سے نئی عمارت کی تعمیر کا کام آخری مرحلے میں ہے،حکومت اور اپنی مدد آپ کے تحت مذکورہ سینٹر سے اب تک ہزاروں مریض مستفید ہوچکے ہیں یہ بات ڈویژنل کمشنر شفیق احمد مہیسر کی زیرصدارت منعقدہ اجلاس میں بتائی گئی۔ اس موقع پر سول ہسپتال میرپورخاص میں قائم فری ہیموڈائیلاسز سینٹر کے انچارج ڈاکٹر اشتیاق نے بتایا کہ اس وقت سینٹرمیں 2004گردوں کے مریضوں کا علاج مفت کیا جارہا ہے ڈائیلاسزسینٹر میں ڈاکٹرزاور ٹیکنیشن کی کمی کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں جس پر کمشنر نے کہا کہ ڈائیلاسز سینٹر میں ڈاکٹر اور ٹیکنیشن کی تقرری کیلئے اقدامات کئے جائیں گےیونائیٹڈ انرجی پاکستان اور انتظامیہ کے تعاون سے 15.9184ملین روپے کی لاگت سے ڈائیلاسز سینٹر میرپورخاص کی نئی بلڈنگ کی تعمیر کا کام آخری مرحلے میں ہے
ایمزٹی وی(صحت)انڈس اسپتال نے شیخ سعید میموریل زچہ و بچہ اسپتال کی 54بستروں سے 74بستروں تک توسیع کے بعد اس کا باقاعدہ افتتاح کردیا ہے۔ اسپتال میں جدید این آئی سی یو وارڈ بھی بنایا گیا ہے جس میں بیک وقت 12نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال کی جاسکے گی۔ اس سلسلے میں منگل کو اسپتال میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے انڈس ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر عبدالباری نے صحت کے شعبے میں عوام کی خدمت کیلئے ایک اور ہدف کے حصول پر مسرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ انڈس ہسپتال نیٹ ورک کا مقصد ملک کے غریب ترین طبقے کو اعلیٰ درجہ کی طبی سہولیات مفت فراہم کرنا ہے۔ اس موقع پر مہمانِ خصوصی کاٹی کے چیئرمین مسعود نقوی نے کہا کہ انڈس اسپتال شیخ سعید کیمپس کی توسیع انڈس اسپتال کی سینئر مینجمنٹ کا بہترین کارنامہ ہے۔انڈس ہسپتال اعلیٰ معیا ر کی طبی سہولیات مفت فراہم کرکے ملک و قوم کی بہترین خدمت کررہا ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ میرا یقین ہے کہ اتنا عظیم کام صرف وہی قیادت کرسکتی ہے جس کے دل میں انسانیت کا احترام ہو۔کورنگی کے علاقے میں پہلے سے موجود اس ہسپتال کی 74بستروں تک توسیع سے گائینی کے زیادہ مریض مستفید ہوسکیں گے
ایمزٹی وی(صحت) اگر آپ کسی ٹریفک سے بھرے شہر میں رہتے ہیں تو وٹامن بی کی اضافی گولیاں اپنے پاس رکھئے کیونکہ وٹامن بی فضائی آلودگی سے جسم پر ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرسکتا ہے۔ سائنسدانوں کےمطابق وٹامن بی کی تھوڑی مقدار کا باقاعدہ استعمال فضائی آلودگی سے ہونے والے جسمانی اثرات کو زائل کرسکتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے اکثر شہروں کی فضا آلودگی سے بوجھل ہوچکی ہے اور دنیا کے 92 فیصد شہروں کی ہوا میں آلودگی مقرر کردہ عالمی معیارات سے تجاوز کرچکی ہے۔ ان آلودگیوں میں سلفیٹ اور سیاہ کاربن سب سے زیادہ خطرناک تصور کئے جاتے ہیں جو پھیپھڑوں سے لے کر دل کی بیماریوں تک کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اس کےعلاوہ فضا میں شامل زہریلے مرکبات زندگی کو بھی کم کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق فضا میں موجود آلودگی کے وہ باریک ذرات جو 2.5 مائیکرومیٹر سے چھوٹے ہوتے ہیں وہ انسانوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں جنہیں ’پی ایم 2.5‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ گاڑیوں کا ایندھن اور لکڑی جلنے سے پیدا ہوتے ہیں اور اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ پھیپھڑے کی گہرائی تک اتر کر اعضا کو متاثر کرتے ہیں۔ خوفناک بات یہ ہے کہ یہ ذرات انسانی جین اور ڈی این اے تک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ کولمبیا اور ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے 18 سے 60 برس کے صحتمندرضاکاروں کو ایک جائزے کے لیے بھرتی کیا اور ان میں سے ایک گروپ کو روزانہ 50 ملی گرام وٹامن بی 6 اور ایک ملی گرام وٹامن بی 12 دیا جبکہ دوسرےگروپ کوئی فرضی دوا یا ڈھائی ملی گرام فولک ایسڈ کی گولیاں دی گئیں۔پھر انہیں ٹورانٹو کی آلودہ سڑکوں پر ماسک پہنا کر کھڑا کیا گیا اور وقفے وقفے سے خون کے نمونے لیے گئے۔ جن رضاکاروں کو چار ہفتے تک وٹامن بی کھلائے گئے ان کے جین کے دس مقامات پر ہونے والے نقصان میں 28 سے 76 فیصد تک کمی دیکھی گئی جبکہ وٹامن بی نہ کھانے والوں میں یہ رحجان نہیں دیکھا گیا۔ تاہم سائنسدانوں نے مزید تحقیق پر زور دیا ہے۔
ایمزٹی وی(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی سافٹ ویئر انجینئر نے ایسا کمپیوٹر پروگرام تیار کیا ہے جو امیگریشن اور پناہ کی درخواست دینے والوں کو درپیش قانونی مسائل حل کرنے کے لیے انہیں خودکار انداز میں قانونی ویئربناڈالامشاورت اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے انجینئر کا تیار کردہ یہ سافٹ ویئر امریکا، کینیڈا اور برطانیہ کے لیے امیگریشن اور پناہ کی درخواستیں دینے والوں کو مفت آن لائن قانونی مشاورت اور رہنمائی فراہم کرتا ہے جب کہ اس مقصد کے لیے یہ سادہ انگریزی میں اپنے صارف کے ساتھ معلومات کا تحریری تبادلہ کرتا ہے یعنی یہ ایک ’’چیٹ بوٹ‘‘ (Chatbot) ہے۔ فی الحال اسے صرف فیس بُک میسنجر کے ساتھ ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پہلے پہل اسے ایک کمپنی کے لیے بنایا گیا تھا تاکہ ان لوگوں کو قانونی رہنمائی دی جاسکے جنہیں غلط طور پر ٹریفک چالانوں اور جرمانوں کا سامنا ہے مگر وہ اپنے لیے وکیل کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے۔ آن لائن شروع ہونے والی یہ مفت سروس کچھ ہی عرصے میں لندن، نیویارک اور سیاٹل میں 2 لاکھ سے زیادہ ڈرائیوروں کو ناجائز ٹریفک چالانوں اور جرمانوں سے چھٹکارا دلواچکی ہے۔ مزید ترامیم و اضافہ جات کے بعد اسی سافٹ ویئر کے ذریعے امریکا اور برطانیہ کے شہری جائیداد سے متعلق امور میں مفت آن لائن قانونی مشورے بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ سابقہ کامیابیوں کے پیش نظر اس انجینئر نے وکلاء کی مدد سے اس پر مزید کام کیا اور اب اس کا جدید ترین ورژن ایک نئی سروس کی صورت میں امیگریشن اور پناہ (اسائیلم) کی درخواستیں دینے والوں کی خودکار رہنمائی کررہا ہے اور انہیں درست طور پر امیگریشن/ اسائیلم فارم بھرنے میں مدد بھی فراہم کررہا ہے۔ انجینئر کا کہنا ہےکہ وہ اس ’’چیٹ بوٹ‘‘ کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں اور اس کے آئندہ ورژن میں واٹس ایپ پر کام کرنے کی سہولت بھی موجود ہوگی۔ ویسے تو مؤکلوں کو قانونی مشورے دینے کے لیے آئی بی ایم پہلے ہی ’’راس‘‘ کے نام سے ایک خودکار سافٹ ویئر بناچکا ہے لیکن زبان اور انٹرفیس میں سادگی کے باعث امریکی انجینئر کا یہ چیٹ بوٹ استعمال میں بہت ہی آسان ہے جس سے وہ عام شہری بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو قانونی زبان سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔ صارفین کی پرائیویسی یقینی بنانے کے لیے چیٹ بوٹ اور صارف میں ہونے والا تبادلہ خیال مکمل ہوتے ہی سرور سے ڈیلیٹ کردیا جاتا ہے البتہ صارف کے کمپیوٹر پر وہ محفوظ رہتا ہے۔
ایمزٹی وی(مانیٹرنگ ڈیسک)سمندر دنیا کے 70 فیصد سے زائد رقبے پر موجود ہیں اور عالمی موسموں پر ان کا غیرمعمولی اثر ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے بری خبر یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ سے ہونے والی حرارت تیزی سے سمندروں می اتر رہی ہے اور اب ہمارے پرانے اندازے کے مقابلے میں سمندر 13 فیصد تیزی سے گرم ہورہے ہیں۔ جرنل سائنس ایڈوانسز میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 60 برس سے سمندروں کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور گزشتہ تخمینوں کے مقابلے میں اب یہ گرمی 13 فیصد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس سے قبل 1992 میں کہا گیا تھا کہ 1960 کے مقابلے میں عالمی سمندروں کا درجہ حرارت دُگنا بڑھا ہے۔ اس مطالعے کی رپورٹ کے مصنف کے مطابق گزشتہ 60 برسوں میں سمندری پانی گرم ہونے کی شرح بھی تیزی سے بڑھی ہے کیونکہ گرین ہاؤس گیسز سے بڑھنے والی گرمی کی 90 فیصد مقدار سمندروں میں ہی جذب ہورہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہےکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ موسمیاتی نظام میں سمندر غیرمعمولی کردار ادا کرتے ہیں اور ان کی گرمی سے زمین سے لے کر ہوا تک کا سارا سسٹم متاثر ہورہا ہے، ہم دیکھ چکے ہیں کہ 2015 تاریخ کا گرم ترین سال رہا لیکن اگلے ہی برس یہ ریکارڈ ٹوٹ گیا اور اب 2016 تاریخ کا گرم ترین سال قرار پایا ہے۔ اس سے پوری دنیا میں خشک سالی، قحط، طوفان ، سیلاب اور بادوباراں کے غیرمعمولی واقعات پیش آئے ہیں۔