جمعہ, 17 مئی 2024

 

ایمز ٹی وی(کراچی)پیپلزپارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے نواز شریف کی سیاست نے ہی ان کو نقصان پہنچایا ہے ،نواز شریف کی سب سے بڑی غلطی ان کا تکبر ہے اس تکبر نے ان کو مارا،ہم فرشتے نہیں ہم سے بھی کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما کا کہنا تھاوزارت عظمیٰ کے امیدوارکیلئے اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت جاری ہے،ہوسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی اورپی ٹی آئی کاوزارت عظمیٰ کیلئے امیدوارمشترکہ ہولیکن متفقہ امیدوارلانے کافیصلہ عمران خان کے رویے پرمنحصرہے،اگر عمران خان نے دشمنی والا رویہ رکھا تومشترکہ امیدوارنہیں ہوگا۔

پی پی رہنما نے کہا نوازشریف اس بحران کوپہلے بھی ٹال سکتے تھے،گھسیٹ کراقتدارچلانے سے بہترتھا نوازشریف پہلے استعفا دے دیتے،نوازشریف عدالتی فیصلے سے پہلے عہدے سے الگ ہوجاتے وہ باوقارطریقہ تھا،ان کا کہنا تھا عمران خان نے جب دھرنا دیا تو ہم نے جمہوریت کا ساتھ دیا،بھٹو صاحب سے لے کر آج تک ہماری بنیادی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوئی ہیں

 

 

ایمزٹی وی (اسلام آباد)تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں 700 سے زائد صفحات پر مشتمل جواب میں حنیف عباسی کے ممنوعہ و غیرملکی فنڈنگ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بدنیتی پر مبنی قرار دیا۔ پی ٹی آئی نے اپنے جواب میں کہا کہ اس کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے اور پارٹی کے اکاوٴنٹس کا آڈٹ ماضی کا حصہ بن چکا ہے، تمام تفصیلات عدالت کو فراہم کر دی ہیں، شفافیت کے لئے بیرون ملک فنڈ ریزنگ کی گئی۔ تحریک انصاف نے کہا کہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی بیرون ملک فنڈ ریزنگ کی ہے لیکن تفصیلات فراہم نہیں کیں، یہ الزام لگا کر پاکستان کی اقلیتی برادری کے منہ پر طمانچہ مارا گیا کہ پی ٹی آئی نے غیرمسلموں سے ممنوعہ اور غیرملکی فنڈنگ لی، درحقیقت تحریک انصاف نے دوہری شہریت رکھنے والوں سے فنڈز اکٹھے کیے، پی ٹٰی آئی کی فارن ایجنٹ کمپنی کو ذرائع سے ملنے والے فنڈ ممنوعہ یا غیرملکی نہیں۔ پی ٹی آئی نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ حنیف عباسی کے الزامات بدنیتی پر مبنی ہیں اور انہوں نے اپنے الزامات ثابت کرنے کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دیئے۔

 

 

ایمزٹی وی (اسلام آباد)سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر جسٹس اعجا ز افضل کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجا ز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ پاناما عملدرآمد کیس کی تیسری سماعت جاری ہے تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری ، جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے دلائل مکمل ہونے کے بعد آج وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث نے بھی اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں ۔
سماعت شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نے رشتہ داروں کی جائیداد کو نہیں چھپایا ، جے آئی ٹی کے پاس کچھ ہوتا تو سوال ضرور کرتی ۔ وزیر اعظم کی کوئی بے نامی جائیداد نہیں ۔ انہوں نے ٹیکس ریٹرن میں اثاثے ظاہر کیے ۔ وزیر اعظم کا کسی ٹرانزیکشن سے کوئی تعلق نہیں ، جے آئی ٹی نے لندن فلیٹس سے متعلق غلط نتائج اخذ کیے۔ کیا وزیر اعظم ان اثاثوں کے لیے جواب دہ ہیں جو انکے ہیں ہی نہیں۔ فلیٹس سے متعلق تمام امور میاں شریف سر انجام دیتے تھے۔ بچے 1995ءتک زیر کفالت تھے صرف اس عرصہ کا وزیر اعظم سے پوچھا جا سکتا ہے۔جے آئی ٹی نے مزید کسی اثاثے سے متعلق سوال نہیں کیا ۔ وزیر اعظم کے ڈکلیئر اثاثوں کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں ، بیوی بچوں کے اثاثو ں کا کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھرایا جا سکتا ۔ کسی منسلک شخص کے اثاثوں سے فائدہ اٹھانے والا ملزم نہیں ہو سکتا۔ کسی کے گھر جا کر رہنے والے سے اس گھر سے متعلق نہیں پوچھا جا سکتا جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ قانون میں آمدن اور اثاثوں کے ذرائع کا تذکرہ ہے، قانون میں اس شخص کا بھی ذکر ہے جس کے قبضے میں اثاثہ ہو ۔آپکے مطابق کسی کے گھر رہنے والے پر نیب قانون کا اطلاق نہیں ہو گا ؟زیر استعمال ہونا اور بات ہے ، اثاثے سے فائدہ اٹھاناالگ بات ہے۔ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں دوسرے کے گھر کچھ عرصہ رہنے والا ملزم نہیں بن سکتا؟لگتا ہے بے نامی دار کی تقریف لکھتے وقت نیب قانون میں کوئی غلطی ہوئی ہے، بے نامی دار کی اصل تعریف ہم سب جانتے ہیں اور مانتے بھی ہیں ۔ جے آئی ٹی نے معلوم کروایا کہ مریم نواز بینی فشل مالک ہیں اور باہمی قانونی معاونت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ٹریجڈی یہ ہے کہ کون مالک ہے اس کی دستاویزات بھی موجود نہیں ۔ امگر مالک کا پتہ چل جائے تو یہ سوال آتا ہے کہ خریداری کیلئے پیسہ کہاں سے آیا ؟ساری چیزیں ہیں ، آنکھیں بند نہیں کریں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اثاثے جس کے زیر استعمال ہوں وہ بھی بے نامی دار ہو سکتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ پراپرٹی کب خریدی گئی ، فنڈ کہاں سے آئے اور کہاں گئے؟وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ سب کی منی ٹریل دیں گے ۔ وزیر اعظم نے یہ جواب نہیں دیا پراپرٹی کب خریدی اور فنڈ کہاں سے آئے ۔ فلیس کی خریداری کے فنڈز برطانیہ کیسے پہنچے؟فنڈز سعودی عرب دبئی یا قطر میں تھے ، سوال یہ ہے کہ فنڈز کیسے لندن پہنچے ۔ منی ٹریل کہاں ہے ، جواب نہیں دیا جا رہا ۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کیلئے کب اور کس نے ادائیگی کی ؟وزیر اعظم نے کہا انکے پاس تمام دستاویزات کی منی ٹریل موجود ہے مگر عدالت کے سوالوں کے جواب نہیں دیے جا رہے۔ نیلسن اور نیسکول سے متعلق کوئی دستاویزات نہیں دی گئی۔ منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں دیا گیا ۔میاں شریف نے فنڈز کہاں سے اور کیسے منتقل کیے، بنیادی سوال کا جواب مل جائے تو بات ختم ہو جائے گی ۔وزیر اعظم کو علم تھا کہ وہ اسمبلی میں کیا کہہ رہے ہیں ، وزیر اعظم نے خود کہا تھا کہ میں بتاﺅں گا کہاں سے فلیٹ لیے۔ حسین نواز نے کہا کہ وہ مالک ہیں مگر دستاویزات نہیں دی گئیں ۔ یہ فرض کر لیں کہ یہ میاں شریف کے ہیں تو کچھ شیئر تو نوازشریف کا بھی ہو گا۔ وزیر اعظم ہوں یا حسین نواز ،دونوں زبانی کہہ رہے ہیں۔
بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ مہینوں سے سن رہے ہیں فلیٹ ملکیت کے علاوہساری چیزیں واضح ہیں۔ اس کیس کے تمام پہلو ہم پر واضح ہیں ۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وزیراعظم خو د کسی پراپرٹی کے مالک ہیں ۔ ہم مسلسل ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں۔دیکھنا ہے فیصلہ ہم نے کرنا ہے یا معاملہ ٹرائل کورٹ کو بھیجنا ہے۔

 

 

ایمزٹی وی (راولپنڈی)پانامالیکس کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرانے کے بعد پاک فوج کا پہلا رد عمل سامنے آگیا ہے ۔
میڈیا ذرائع کے مطابق پاک فوج نے کہا ہے کہ ہمارے لیے کرپشن قابل برداشت نہیں ہے اور ہمیشہ قانون اور انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاک فوج نے کئی بار عزم دہرایا ہے کہ کرپشن قابل برداشت نہیں ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلح افواج جمہوریت کی مکمل حمایت کرتی ہے لیکن پھر بھی فوج پر ناجائز تنقید کی جا رہی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی فوج پر اسی طرح کے ناجائز الزامات لگائے گئے لیکن ہم ہمیشہ قانون کے ساتھ کھڑے ہیں ۔

 

 

ایمزٹی وی (کراچی)پاناما جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائے جانے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے بھی وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ جب وزیراعظم نواز شریف کو اخلاقی بنیادوں پر عہدے پر براجمان نہیں رہنا چاہیے اور ایم کیو ایم اب وزیراعظم کو مشورہ نہیں بلکہ یہ مطالبہ کرتی ہے کہ انہیں اخلاقی بنیادوں پر عہدے سے مستعفی ہوجانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور وزیراعظم کو اخلاقی بنیادوں پرہوناچاہیے، موجودہ صورتحال میں دانشمندی کا مظاہرہ نہ کیا گیا توسیاسی بحران پیدا ہو سکتاہے۔
خیال رہے کہ پاناما جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائے جانے کے بعد وزیراعظم نواز شریف پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور ایم کیو ایم پاکستان سمیت تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اورجماعت اسلامی نے بھی نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ہے البتہ حکمراں جماعت مسلم لیگ(ن) کا کہنا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو چیلنج کریں گے اور وزیراعظم مستعفی نہیں ہوں گے۔

 

ایمزٹی وی (اسلام آباد)جسٹس اعجاز افضل خان کی سر براہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی خصوصی بینچ پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے آغاز میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے رپورٹ پیش کی۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے جے آئی ٹی بنائی جس نے اپنا کام مکمل کرلیا، جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں تصویر لیک کرنے والے کا نام نہیں لکھا، ہمیں کمیشن کی تشکیل کی درخواست کی گئی جو ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ، ہم نے پوچھا تھا کہ تصویر لیک پر رپورٹ پبلک کریں یا نہیں، ہمارے خیال میں تصویر لیک معاملے پر کمیشن تشکیل دینے کی ضرور ت نہیں، اگر ہم ذمہ دار شخص کا نام ظاہر کرتے ہیں تو حکومت چاہے تو کمیشن تشکیل دے سکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے ایف آئی اے رپورٹ پڑھ کر سنائی، ایس ای سی پی ریکارڈ ٹیمپرنگ معاملے پر بحث کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے رپورٹ میں سنجیدہ الزامات ہیں، ظفر حجازی نے اپنے ماتحتوں کو ڈرایا اور دھمکایا، انہوں نے عدالت سے جھوٹ بولا، پہلے ٹمپرنگ سے انکار کیا اور پھر کہا میرا تعلق نہیں، وہ بیان دینے والوں کو بھی دھمکاتے رہے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ظفرحجازی نے ماتحت افسران کو گلگت اور جیل بھیجنے تک کی دھمکیاں دی، ان کے خلاف آج ہی مقدمہ درج ہونا چاہئے، اب دیکھنا ہے کہ ٹمپرنگ کس کے کہنے پر ہوئی۔
سپریم کورٹ نے 20 اپریل کو پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیا تھا جس کی روشنی میں 6 اداروں کے نمائندوں پر مشتمل جے آئی ٹی 7 مئی کو تشکیل دی گئی تھی۔ ایف آئی اے کے ڈی جی واجد ضیا کی سربراہی میں جے آئی ٹی کے دیگر ارکان میں اسٹیٹ بینک سے عامر عزیز ، ایس ای سی پی کے نمائندے بلال رسول ، نیب سے عرفان نعیم منگی ، آئی ایس آئی سے بریگیڈیئر محمد نعمان سعید جبکہ ایم آئی سے بریگیڈیئر کامران خورشید شامل تھے۔
واضح رہے کہ جے آئی ٹی نے 62 دن تک تحقیقات کی جس کے دوران وزیر اعظم نواز شریف، ان کے تینوں بچے، داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے علاوہ ایس ای سی پی ، نیب ، ایف بی آر اور نیشنل بینک کے سربراہان بھی پیش ہوئے۔

 

ایمزٹی وی (اسلام آباد)ملک میں سب سے بڑے کیس کی سب سے اہم تحقیقات پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم آج اپنی رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائے گی۔
7مئی کو تشکیل دی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کررہے ہیں، ٹیم نے مجموعی طور پر 62دن بلا ناغہ کام کیا ۔
اس دوران ٹیم نے وزیراعظم نواز شریف، ان کے دو بیٹوں حسین نواز، حسن نواز اور صاحبزادی مریم نواز سمیت شریف خاندان کے دیگر اہم افراد کے بیانات قلمبند کیے۔
 
ٹیم نے وزیراعظم کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیراعظم کے قریبی عزیز طارق شفیع، جاوید کیانی، وزیراعظم کے سمدھی و وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور وزیراعظم کے کلاس فیلو اور نیشنل بینک کے صدر سعید احمد چمن کے بیانات بھی قلمبند کیے۔
ٹیم نے تحقیقات کے دوران چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری سے بھی حدیبیہ پیپرملز کیس کے بارے بیانات قلمبند کیے۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے حدیبیہ پیپر ملز کی تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر بشارت شہزاد اور جاتی امرا پراپرٹی کی تحقیقات کرنے والے سابق ایف آئی اے افسر جاوید علی شاہ سے بھی کیس کا پس منظر جانا۔
سپریم کورٹ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو پیر 10جولائی تک کام مکمل کرکے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کررکھی ہے ۔
سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ آسمان گرے یا زمین پھٹے، جے آئی ٹی دی گئی مدت کےد وران ہی کام مکمل کرے گی، اس کی مدت میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔
دوسری طرف حکومت نے قطری شہزادے کےبیان کے بغیر رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کا اعلان کردیا ہے۔

 

 

ایمزٹی وی (اسلام آباد)جے آئی ٹی کی سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کیے جانے سے قبل پاکستان کی اعلیٰ سول و عسکری قیادت سرجوڑ کر بیٹھ گئی جس دوران ملک بھر میں جاری آپریشنز ،پاک افغان تعلقات اور امریکی وفد کے دورہ پاکستان پر تبادلہ خیال کیاگیا، اس اجلاس میں آرمی چیف کے علاوہ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی بھی شریک تھے ۔
میڈٰیا ذرائع کے مطابق وزیراعظم ہاؤس میں ہونیوالے اجلاس کی صدارت نواز شریف نے کی جس میں سیاسی و عسکری قیادت نے شرکت کی ۔ آرمی چیف کے ہمراہ آنیوالے ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی کے علاوہ مشیر قومی سلامتی ، وفاقی وزراء اور دیگر اعلیٰ سول و عسکری حکام نے شرکت کی ۔
اس اجلاس کے دوران آپریشن ضرب عضب کے دوران حاصل ہونیوالی کامیابیوں، ردالفساد میں پیش رفت کے علاوہ بیرونی سرحدوں کی سیکیورٹی اور افغانستان کیساتھ تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کیاگیا۔ ذرائع کے مطابق امریکی وفد کے حالیہ دنوں میں پاکستان اور پھر قبائلی علاقے وزیرستان کے دورہ پر بھی قیادت کو بریفنگ دی گئی ۔

 

 

ایمزٹی وی (کراچی)اداروں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے والے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر نہال ہاشمی نے توہین عدالت کے جرم میں فرد جرم عائد ہونے سے پہلے ہی معافی مانگنے کی تیاریاں کرلیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سینیٹر نہال ہاشمی نے سپریم کورٹ سے متنازعہ تقریر کے معاملے پر غیر مشروط طور پر معافی مانگنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور معافی نامہ بھی تیار کرلیا گیا ہے۔ معافی نامے میں نہال ہاشمی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انہوں نے بطور وکیل اپنے 30 سالہ کیریئر میں کبھی بھی عدالت کی توہین کرنے کی کوشش نہیں کی، وہ عدالت کا مکمل طور پر احترام کرتے ہیں، ان کی تقریر کو سیاق و سباق سے ہٹ کرپیش کیا گیا ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں عمران خان کے خلاف بات کی تھی لیکن اسے اداروں کے خلاف تقریر کے طور پر پیش کیا جار ہا ہے۔ نہال ہاشمی کے معافی نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر عدالت سے معافی مانگتے ہیں۔
واضح رہے کہ نہال ہاشمی نے اپنی ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ وہ میاں نواز شریف کا احتساب کرنے والوں کے بچوں پر زمین تنگ کردیں گے۔ اداروں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے پر نہال ہاشمی کے خلاف مقدمہ درج ہے جس میں انہوں نے عبوری ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔
نہال ہاشمی کےخلاف مقدمے میں دہشتگردی کی دفعہ بھی شامل ہے جو کہ عامر وڑائچ ایڈووکیٹ کی درخواست پر شامل کی گئی تھی۔ نہال ہاشمی کی متنازعہ تقریر کا سپریم کورٹ نے نوٹس لے کر حکم دیا تھا کہ ان پر 10 جولائی کو فرد جرم عائد کی جائے گی تاہم لیگی رہنما نے فرد جرم عائد ہونے سے پہلے ہی معافی مانگنے کی تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔

 

 

ایمزٹی وی (اسلام آباد)سپریم کورٹ میں جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں3 رکنی بنچ نے ڈاکٹرعاصم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کی۔ ڈاکٹرعاصم کے وکیل لطیف کھوسہ نے مؤقف پیش کیا کہ ڈاکٹرعاصم کی طبیعت انتہائی ناساز ہے اور وہ علاج کے لئے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔ نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عاصم کو ضمانت طبی بنیادوں پر ملی اس لئے ہم اس کی منسوخی چاہتے ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ سمجھ نہیں آتی کہ ہر بڑے آدمی کو بیماری کا سرٹیفیکیٹ کیسے مل جاتا ہے ہر میڈیکل بورڈ کہتا ہے کہ بڑے آدمی کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔

 

جسٹس دوست محمد نے کہا کہ یہ معاملہ 1980 سے شروع ہوا جب عدالت نے ایک مرگی کے مریض کی ضمانت منظور کی تھی اور آج تک ہر ملزم مرگی کا سرٹیفکیٹ لے کر آجاتا ہے۔

عدالت نے نیب اور وزارت داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا جب کہ ضمانت منسوخی سے متعلق نیب کی درخواست پر ڈاکٹرعاصم کو نوٹس جاری کیا گیا اور کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔

 

Page 10 of 28