جمعہ, 17 مئی 2024

راولپنڈی:  سینٹرل جیل اڈیالہ میں سزائے موت کے قیدیوں کی تعداد 311 ہوگئی ہے۔

جن میں6 خواتین بھی شامل ہیں،اڈیالہ جیل میں گزشتہ 6 ماہ سے کسی بھی ملزم کو پھانسی نہیں دی گئی، سزائے موت کے 76 ملزمان کی اپیلیں سپریم کورٹ اور227 پھانسی کے ملزمان کی اپیلیں ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہیں۔

9 ملزمان کی رحم کی اپیلیں صدر کے پاس فیصلے کی منتظر ہیں۔ رواں سال کے پہلے 10 ماہ میں 19 ملزمان کی پھانسی کی سزائیں عمر قید میں تبدیل کی گئیں جب کہ 21 پھانسی کے ملزمان کو بری کر دیا گیا

 

اسلام اباد : جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپیل چیف جسٹس ثاقب نثار کے روبرو نہ لگانے کی درخواست دائر کر دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کیخلاف اپیل چیف جسٹس ثاقب نثار کے روبرو نہ لگانے کی درخواست دائر کر دی۔
درخواست میں کہا گیا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین ہیں، رجسٹرار آفس کے اعتراضات کیخلاف اپیل چیف جسٹس کے سامنے لگ سکتی ہے جبکہ چیف جسٹس نے مجھے جج کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی، اس لیے انصاف کے تقاضوں کیلیے میری اپیل کو کسی دوسرے جج کے سامنے سماعت کیلیے لگایا جائے۔

 

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے نجی ٹی وی چینل کی جرمانہ ختم کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے پیمرا کا دس لاکھ جرمانے کا فیصلہ برقرار رکھا ۔جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے نجی ٹی وی کی جرمانہ ختم کرنے کی درخواست کی سماعت کی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ نے دھماکے سے متعلق جھوٹی خبر چلائی دھماکہ گلبرگ میں ہوا آپ نے ڈیفنس میں کرا دیا تھا ۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے آپ نے لوگوں کو پریشان کیا آپ کو درست رپورٹنگ کرنا چاہئے تھی آپ کو ثابت کرنا چاہئے تھا کہ آپکی رپورٹ درست ہے۔سچ ٹی وی کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے اپنے طور پر خبر نہیں چلائی بلکہ پی ٹی وی سے خبر لی تھی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم پی ٹی وی سے جرمانہ لیں۔
وکیل نے کہا کہ ہمیں دس لاکھ روپے کا جرمانہ کیا گیا جرمانہ ہی کم کر دیں میڈیا انڈسٹری کے حالات پہلے بہت خراب ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آپ نے دس سیکنڈ کا اشتہار چلانا ہے اور پیسے پورے ہوجائیں گے۔عدالت نے جرمانہ کم کرنے کی درخواست خارج کرتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا۔

 

اسلام آباد: ریلوے اراضی کی فروخت کے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان میں کیس کی سماعت کے دوران ساﺅنڈ سسٹم خراب ہوگیا۔جس پر چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کمپنی کے سی ای او کو تلاش کرنے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں ریلوے اراضی کی فرخت کے متعلق سماعت میں ریلوے کے وکیل اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔وکیل درخواستگزار نے چیف جسٹس سے کہا ک وزیر ریلوے کہتے ہیں کے وہ ریلوے کی زمین بیچ کر ریلوے کو یونے والا خسارہ پورا کرے گے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کے ریلوے کو زمین بیچنے کا کوئی اختیار نہین ریلوے کو زمین مخصود مقاصد ک لیے فراہم کی گئی ہے۔
جس پر ریلوے کے وکیل نے کہا کہ ریوے کو زمین لیز پر دینے کی اتھارٹی نہیں ہے اور ہمیں اس متعلق بیان دینے کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔ جس چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے وکیل سے کہا کے اب کیوں سارے قانون ےاد آگئے اتنے برسو سے کیا ہو رہا تھا۔ صدر مملکت سے زمین فرخت کرنے کی منظوری کیسے لے لی جاتی ہے صدر مملکت کے پاس اس بات کی اجازت دینے کا کوئی اختیار نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کے ہمارا نظام خراب ہوتا جارہا ہے ریلوے کیسے زمین فرخت کر سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کے ایسے مقدمات رات 8سے 12بجے تک سنیں گے

 

 

چیف جسٹس نے نجی جامعات میں سہولیات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ چند پیسوں کے لیے تعلیمی نظام کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے نجی یونیورسٹیوں میں سہولیات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سے استفسار کیا کہ آپ کس چکر میں پڑ گئے؟۔ آپ کو اس عمر میں کتابیں لکھنی چاہیں، لیکچرز دینے چاہئیں، آپ کے کالجز اور ایگزیکٹ کمپنی میں کیا فرق رہ گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چند پیسوں کے لیے تعلیمی نظام کا بیڑا غرق کردیا گیا، ہر تعلیمی ادارے کا سربراہ کہتا ہے کہ ہمارا ادارہ بہتر ہے، جب وہاں سروے کروایا جاتا ہے تو آوے کا آوا بگڑا ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے یونیورسٹی آف لاہور سمیت دیگر یونیورسٹیوں میں فراہم کی گئی سہولیات کی انکوائری کے لیے قانونی ماہر ظفر اقبال کلانوری اور ڈائریکٹر ایف آئی اے وقار عباسی پر مشتمل ٹیم تشکیل دے دی، چیف جسٹس نے حکم دیا کہ گورنر پنجاب اور وزیراعلی یونیورسٹیز کے چارٹرڈ کرنے سے متعلق تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیں۔

 

سپریم کورٹ میں سانحہ آرمی پبلک اسکول از خود نوٹس کیس 5 اکتوبر کو سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا۔

ذرائع کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے سپریم کورٹ میں سانحہ آرمی پبلک اسکول ازخود نوٹس کیس سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے 3 رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔ اٹارنی جنرل، سیکریٹری داخلہ اور چیف سیکریٹری خیبر پختون خوا کو نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ 5 اکتوبر کو سماعت کرے گا، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن بنچ کا حصہ ہوں گے۔ واضح  رہے کہ 16 دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 130 طلبا سمیت 144 افراد شہید ہوگئے تھے۔

 
 

 

سپریم کورٹ آف پاکستان نے نجی اسکولوں سے متعلق ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں زیرالتوا تمام کیسز کو یکجا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

عدالت عظمیٰ نے اس ضمن میں تمام بڑے اسکولوں کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ بڑے اسکولوں کو فریق بنا کر معاملے کو سماعت کے لیے مقرر کر رہے ہیں،اسکولوں کو خود اس معاملے میں اپنا دفاع کرنا ہے۔

سپریم کورٹ 4 اکتوبر کو اسکولوں کی فیسوں سے متعلق کیسز کی سماعت کرے گی۔

 

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو فوری طور پر عدالت طلب کرلیا۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس کی سماعت ہوئی، اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جو بھی آتا ہے، وہ ایمانداری سے کام کرنے کا ہی کہتا ہے، ایمانداری کا سرٹیفکیٹ ہم دیں گے، بتائیں وزیراعلیٰ پنجاب کتنی دیر میں پہنچ سکتے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اسلام آباد میں ہی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ اسلام آباد میں ہیں تو ابھی بلا لیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کلیم امام کی رپورٹ بدنیتی پر مبنی ہے، احسن جمیل گجر وزیراعلیٰ کے پاس سفارش لے کر گئے تھے لیکن رپورٹ میں سب اچھا کہا گیا ہے، اسے مسترد کرتے ہیں، ان کے خلاف سخت ایکشن کی ہدایات جاری کریں گے۔ عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو عدالت میں طلب کرتے ہوئے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔

 

اسلام آباد:  سپریم کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری، اہلیہ شہید محترم بے نظیر بھٹو، بچوں بلاول، بختاور اور آصفہ کے اثاثوں اور اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کرلیا

سپریم کورٹ میں این آر او کیس کی سماعت ہوئی اور عدالت نے گزشتہ روز جمع کرائے گئے آصف زرداری کے بیان حلفی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان سے باہر ان کی کوئی جائیداد نہیں۔

سپریم کورٹ نے آصف زرداری سے گزشتہ دس سال کے اثاثوں، بچوں اور بے نظیر بھٹو کے نام پر کھولے گئے اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کرلیں۔ عدالت نے تمام تفصیلات بیان حلفی کے ساتھ دو ہفتوں میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ عدالت نے کہا بتایا جائے کہ 2007ء میں آصف زرداری کے کتنے اثاثے تھے، براہ راست اور بلواسطہ ملکیتی اثاثوں کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں، آصف زرداری اگر کسی اثاثے کے ٹرسٹی ہیں تو اس کا بھی بتائیں۔ 

جسٹس عمرعطاء بندیال نے کہا کہ آصف زرداری کے بیان حلفی سے سوالات پیدا ہوئے ہیں، انہوں نے بیان حلفی میں موقف اپنایا ہے کہ آج کے دن تک ان کے کوئی غیر ملکی اثاثے نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل فاروق نائیک کو کہا کہ آصف زرداری سے پوچھ کر یہ بھی بتائیں کہ کیا ان کا کوئی سوئس اکاؤنٹ بھی ہے۔

سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف، سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم اور ان کے اہل خانہ کے اثاثوں کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ کیا پرویز مشرف صرف اپنی تنخواہ سے دبئی میں فلیٹ خرید سکتے تھے۔ عدالت نے پرویز مشرف سے غیر ملکی اثاثوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ سابق آرمی چیف دس دن میں اپنی اہلیہ کے اثاثوں کی تفصیلات بھی دیں۔

پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ مشرف کے پاس دبئی میں فلیٹ ہے، ایک اکاؤنٹ میں 92 ہزار درہم ہیں، جبکہ جیپ اور مرسڈیز سمیت تین گاڑیاں بھی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سنا ہے مشرف کو سعودی عرب سے تخائف ملے ہیں، کیا مشرف اپنی ساری زندگی کی تنخواہ سے بھی فلیٹ خرید سکتے تھے، ان سے کہیں عدالت آ کر خود وضاحت دیں۔

وکیل نے کہا کہ مشرف کے غیر ملکی اثاثے صدارت چھوڑنے کے بعد کے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا لیکچر دینے سے اتنے پیسے ملتے ہیں، کیوں نہ میں بھی ریٹارمنٹ کے بعد لیکچر دوں، چک شہزاد فارم ہاؤس کس کا ہے۔ وکیل نے جواب دیا کہ چک شہزاد فارم ہاؤس بھی پرویز مشرف کا ہے۔

چیف جسٹس نے آصف زرداری کا بیان حلفی لیک ہونے پر اپنے عملے کو طلب کر لیا۔ آصف زرداری کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ آصف زرداری 9 سال جیل میں رہے مگر کچھ ثابت نہیں ہوا اور تمام مقدمات میں باعزت بری ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فی الحال صرف الزامات کا جواب لے رہے ہیں، اگر کوئی الزام غلط ہوا تو آصف زرداری کلئیر ہو جائیں گے، ہم سیاسی رہنماؤں کے سر سے تہمتیں ختم کرنا چاہتے ہیں، عوام کو اپنے لیڈروں پر بد اعتمادی نہیں ہونی چاہیے۔

 

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں عدالت برخاستگی تک قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنادی۔

ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کو آرٹیکل 63 (1) جی کے تحت توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عدالت برخاستگی تک قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنادی۔ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں طلال چوہدری پانچ سال کے لئے نااہل ہوگئے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے عدلیہ مخالف تقاریر پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری کو یکم فروری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔ جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کا فیصلہ 11 جولائی کو محفوظ کیا تھا۔ 

سزا مکمل ہونے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے طلال چوہدری نے کہا کہ اگر میری سزا سے عدالت کا وقار بلند ہوتا ہے تو میں اسے قبول کرتا ہوں، یہ فیصلہ اگر پہلے کردیا جاتا تو میری جماعت انتخابات میں دوسرا امیدوار میدان میں لاسکتی تھی اور اس سے نتیجہ اور بھی بہتر آ سکتا تھا، اس لٹکتی ہوئی تلوار سے میرے حلقے کے لوگ کنفیوژ رہے اور میرے مخالفین کو سیاسی فائدہ پہنچایاگیا، فیصلے سے یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ (ن) لیگ نا انتخاب سے پہلے قبول تھی اور نا ہی اب قبول ہے۔ ہم کرپٹ نہیں صرف ہم اقتدار کے لئے نااہل ہیں۔

واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور مسلم لیگ (ن) کے دانیال عزیز کو بھی توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں عدالت برخاستگی تک قید اور جرمانہ ہوا تھا۔

 

Page 6 of 28