پیر, 25 نومبر 2024

اسلام آباد : وفاقی حکومت نےسانحہ آرمی پبلک اسکول کیس میں وزیراعظم کادستخط شدہ جواب جمع کرانےکی مزید3ہفتوں کی مہلت مانگ لی۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت سانحہ آرمی پبلک اسکول کیس میں وزیراعظم کا دستخط شدہ جواب سپریم کورٹ کے دیئے گئے وقت پر جمع نہ کراسکی۔

وفاقی حکومت کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں کہا کہ وزیراعظم کا دستخط شدہ جواب جمع کرانے کیلئے تین ہفتے کی مہلت دی جائے۔ سانحہ اے پی ایس پشاور کے شہداء کی 16 دسمبر کو برسی ہے۔

درخواست کے مطابق وزیراعظم نے شہداء کے والدین سے ملاقات کیلئے کمیٹی تشکیل دی ہے۔ مناسب ہوگا والدین اور کمیٹی کی ملاقات کا نتیجہ سامنے آنے دیا جائے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مہلت دی جائے تاکہ عدالت کو جامع عملدرآمد رپورٹ پیش کی جاسکے۔

عدالت کی جانب سے وزِیراعظم کا دستخط شدہ جواب 4 ہفتے میں طلب کیا گیا تھا، دیا گیا وقت 10 دسمبر کو پورا ہو رہا ہے۔

اسلام آباد:  یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کےملازمین کواپ گریڈکرنےکافیصلہ معطل ہوگیا۔

سپریم کورٹ نے یو ای ٹی پشاور کے ملازمین کی اپ گریڈیشن کے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران وکیل یو ای ٹی نے دلائل میں کہا کہ کے پی کے کی جامعات میں ماضی میں سیاسی بھرتیاں کی گئیں۔یونیورسٹی کے پاس فنڈز نہیں تنخواہیں آدھی کر دی گئی ہیں، تین یونیورسٹیز کے ملازمین سڑکوں پر تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یونیورسٹیز کی صورتحال بھی اسٹیل مل اور پی آئی اے کی طرح ہے، یونیورسٹیز میں بھی ایک ایک سیٹ پر پچاس پچاس لوگ بھرتی کیے گئے ہیں، اتنے لوگ بھرتی کرینگے تو سارا فنڈ تنخواہوں میں جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملات ایسے ہی چلانے ہیں تو یونیورسٹیز بند کر دیں ، کوئی ڈیٹاموجودہےکہ آسامیاں کتنی ہیں اور بھرتیاں کتنی ہوئیں؟ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ جامعات کے پاس فنڈ نہیں۔

عدالت نے یونیورسٹی ملازمین کو اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ معطل کردیا اور فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ یو ای ٹی نے اپنے ملازمین کی اپ گریڈیشن کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کیا تھا۔

اسلام آباد: ایل این جی اسکینڈل کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف نیب کے گواہ بن گئے۔

تفصیلات کے مطابق شیخ رشید احتساب عدالت میں ایل این جی کیس میں مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی کے خلاف گواہی دیں گے، اس کیس میں نیب مجموعی طور پر 59 گواہان عدالت میں پیش کرے گا۔

وفاقی وزیر شیخ رشید بہ طور شکایت کنندہ نیب کے پہلے گواہ ہوں گے، وزارت توانائی کے 4 افسران حسن بھٹی، نواز احمد ورک، عبدالرشید جوکھیو اور عمر سعید بھی گواہان میں شامل ہیں۔ قائم مقام جی ایم سوئی سدرن گیس فصیح الدین بھی گواہان میں شامل ہیں، جب کہ جمیل اجمل ڈائریکٹر پورٹ قاسم اتھارٹی بھی استغاثہ کے گواہ ہوں گے۔

 نیب نے شاہد خاقان عباسی کیخلاف ایل این جی ریفرنس دوبارہ دائر کردیا

یاد رہے کہ 12 دسمبر کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ریفرنس دوبارہ دائر کر دیا تھا، جسے احتساب عدالت نے باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا، ریفرنس میں شاہد خاقان سمیت 10 ملزمان نامزد ہیں۔

اس ریفرنس میں رجسٹرار احتساب عدالت کے اعتراضات دور کیے گئے ہیں، ریفرنس 8 ہزار صفحات پر مشتمل ہے، جو اختیارات کے غلط استعمال پر دائر کیا گیا، ملزمان میں مفتاح اسماعیل کا نام بھی شامل ہے، ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ایک کمپنی کو 21 ارب روپے سے زائد کا فائدہ پہنچایا گیا، مارچ 2015 سے ستمبر 2019 تک یہ فائدہ پہنچایا گیا، 2029 تک قومی خزانے کو 47 ارب روپے کا نقصان ہوگا اور عوام پر گیس بل کی مد میں 15 سال میں 68 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی استدعا مسترد کردی۔

سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزار نے آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے خلاف درخواست واپس لینے کی استدعا کی۔

عدالت نے کیس واپس لینے کی استدعامسترد کرتے ہوئے کہا کہ کیس واپس لینے کیلئے ہاتھ سے لکھی درخواست کیساتھ کوئی بیان حلفی نہیں، معلوم نہیں مقدمہ آزادانہ طورپرواپس لیا جا رہا ہے یا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 29 نومبر کو آرمی چیف ریٹائرڈ ہو رہے ہیں، ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن صدر مملکت کی منظوری کے بعد جاری ہوچکا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کی منظوری اور نوٹیفکیشن دکھائیں۔ اٹارنی جنرل نے دستاویزات اور وزیراعظم کی صدر کوسفارش عدالت میں پیش کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم کو آرمی چیف تعینات کرنے کا اختیارنہیں، آرمی چیف تعینات کرنے کا اختیارصدر کا ہے، یہ کیا ہوا پہلے وزیراعظم نے توسیع کا لیٹرجاری کردیا، پھروزیراعظم کو بتایا گیا توسیع آپ نہیں کر سکتے، آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن 19 اگست کا ہے، 19 اگست کو نوٹیفکیشن ہوا تو وزیر اعظم نے کیا 21 اگست کو منظوری دی۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری چاہیے تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صدر مملکت نے کابینہ کی منظوری سے پہلے ہی توسیع کی منظوری دی اور کیا کابینہ کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ منظوری دی؟۔

واضح رہے کہ 19 اگست کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کی گئی تھی۔ وزیراعظم آفس سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید 3 سال کے لیے آرمی چیف مقرر کردیا۔

اسلام آباد: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے خود نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت دی تھی، ہائی کورٹ نے صرف جزویات طے کیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کا عدلیہ سے متعلق بیان پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے جس کیس کا طعنہ دیا اس پر بات نہیں کرنا چاہتا، ججز پر تنقید اور طاقتور کا طعنہ ہمیں نہ دیں، ججز پر اعتراض کرنے والے تھوڑی احتیاط کریں، وزیراعظم نے خود نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت دی تھی، ہائی کورٹ نے صرف جزویات طے کیں۔

 چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج کی عدلیہ کا تقابلی جائزہ 2009 سے پہلے والی عدلیہ سے نہ کریں، ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے، ایک وزیراعظم کو ہم نے سزا دی، دوسرے کو نااہل کیا اور سابق آرمی چیف کے مقدمے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے، کوئٹہ کے کیس کا 3 ماہ میں سپریم کورٹ سے فیصلہ ہوا، 2 دن پہلے ایک قتل کیس کا ویڈیو لنک کے ذریعے فیصلہ کیا۔
 
 چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں 3100 ججز نے گذشتہ سال 36 لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے، سپریم کورٹ میں 25 سال سے زیرالتواء فوجداری اپیلیں نمٹائی گئیں، جن لاکھوں افراد کو عدلیہ نے ریلیف دیا انہیں بھی دیکھیں، 36 لاکھ مقدمات میں سے صرف تین چار ہی طاقتور لوگوں کے ہوں گے۔

وزیراعظم نے جس کیس کی بات کی وہ ابھی زیرالتواء ہے اس لیے اس پر بات نہیں کروں گا، وزیراعظم نے طاقتور اور کمزور کی بھی بات کی، اب ہمیں وسائل کی کمی محسوس ہو رہی تھی، وزیراعظم جب وسائل دیں گے تو مزید اچھے نتائج بھی سامنے آئیں گے، محترم وزیراعظم نے دو دن پہلے خوش آئند اعلان کیا کہ عدلیہ کو وسائل دیں گے۔

 چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ماڈل کورٹس نے تمام نتائج صرف 187 دنوں میں دیے، فیملی مقدمات طاقتور لوگوں کے نہیں ہوتے، 20 اضلاع میں کوئی سول اور فیملی اپیل زیرالتواء نہیں، منشیات کے 23 اضلاع میں کوئی زیرالتواء مقدمات نہیں، ماڈل کورٹس کی وجہ سے 116 اضلاع میں سے 17 میں کوئی قتل کا مقدمہ زیر التواء نہیں، تمام اپیلوں کے قانون کے مطابق فیصلے کیے گئے، تمام اپیلیں ناتواں لوگوں کی ہیں طاقتور اور کمزور میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے حکومت کو اسٹیل ملز کی زمین فروخت کرنے سے روک دیا۔

سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے پاکستان اسٹیل کے ملازمین کے پروویڈنٹ فنڈ کی ادائیگی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

عدالت نے وزارت صنعت وپیداوار کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کے حکم کے خلاف حکومتی درخواست خارج کردی۔

دورانِ سماعت جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ پاکستان اسٹیل کی پیداوار صفر ہے، اپنی جیبیں بھرنے کیلئے مل کو تباہ کیا گیا، کیوں نہ مل کے معاملے کا نوٹس لے لیں۔

اس موقع پر حکومتی وکیل نے مؤقف اپنایا کہ پروویڈنٹ فنڈ کی ادائیگی کیلئے فنڈز نہیں، ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے زمین فروخت کررہے ہیں۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ پاکستان اسٹیل ملز بہت بڑا ادارہ تھا، سیکڑوں اسٹیل ملز پاکستان اسٹیل ملز کے توسط سےچلتی تھیں، مل میں گاڑیاں، ٹرک اورراکٹ تک بنتے تھے۔

عدالت نے حکومت کا مؤقف مسترد کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو پاکستان اسٹیل کی زمین فروخت کرنے سے روک دیا۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ پاکستان اسٹیل کی زمین عوام کی ملکیت ہے، اس لیے فروخت نہیں ہوسکتی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ اور دھرنے کے خلاف درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے مقامی انتظامیہ کو اس معاملے کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ اور دھرنے کے خلاف مقامی وکیل کی درخواست سمیت دیگر درخواستوں کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس درخواست میں آپ کی استدعا کیا ہے ؟ جس پر درخواست گزار نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف آزادی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے جس پر پابندی لگائی جائے۔

عدالت نے وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ حکومت کی طرف سے پیش ہوئے ہیں؟۔ وکیل نے جواب دیا کہ میں عام شہری کے طورپرپیش ہوا ہوں۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل سے لگ رہاہے آپ حکومت کی طرف سے پیش ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کو احتجاج کا حق حاصل نہیں، احتجاج کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا، دنیا بھر میں کوئی عدالت احتجاج کے حق کو ختم نہیں کرسکتی، شہریوں کو پالیسی کے خلاف احتجاج کا حق ہوتا ہے جمہوری حکومت کے خلاف نہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے آزادی مارچ کیخلاف درخواستیں نمٹاتے ہوئے مقامی انتظامیہ کو معاملہ دیکھنے کا حکم دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ اسلام آباد انتظامیہ دھرنے کی اجازت سے متعلق درخواست کو قانون کے مطابق نمٹائے، انتظامیہ احتجاج کرنے والوں اور نہ کرنے والوں دونوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دھرنے والوں نے چیف کمشنر سے رجوع کیا ہے لہذا انتظامیہ کو اس پر فیصلہ کرنے دیں، پی ٹی آئی کو 2014 میں اسی عدالت نے احتجاج کی اجازت دی، تب بھی انتظامیہ کو کہا تھا کہ احتجاج کرنے والوں کے حقوق کو یقینی بنائیں، مقامی انتظامیہ اس بار دھرنے کی درخواست کا فیصلہ کرتے ہوئے عدالتی فیصلے مدنظر رکھے۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بلوچستان سے منتخب ہونے والے قاسم سوری کی رکنیت بحال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا نوٹی فیکشن بھی معطل کر دیا۔

  جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کیس کی سماعت کی۔ قاسم سوری کی جانب سے نعیم بخاری ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت قرار دے چکی کہ غیر تصدیق شدہ ووٹ جعلی نہیں ہوتے اور اس کی سزا جیتنے والے کو نہیں مل سکتی، ٹھوس شواہد کے بغیر الزام عائد کرنا درست نہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ غیر تصدیق شدہ ووٹ قاسم سوری کے کیسے ہو سکتے ہیں۔

فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر علی محمد کا کہنا تھا کہ فیصلہ بلوچستان، حلقہ اور قاسم سوری کے لیے باعث عزت ہے۔ یاد رہے الیکشن کمیشن نے ٹریبونل کے فیصلے کی روشنی میں 2 اکتوبر کو قاسم سوری کی رکنیت ختم کی تھی۔

 

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ایک آمر آکر دو منٹ میں پارلیمنٹ کو اڑا دیتا ہے۔

جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے خیبر پختونخوا میں جنگلات کی کٹائی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ جنگلات کی ملکیت کے دعوی داروں کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے قرار دیا کہ درخواست گزاروں نے کیس کی سماعت کے دوران کسی سطح پراپنا حق نہیں مانگا۔

دوران سماعت قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کو اس کیس میں نظرثانی کے لئے آناچاہیے تھا کہ درخواست گزاروں کا حق دعوی نہیں بنتا،حکمران دیگر مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اصل مسئلہ ماحول کا تحفظ ہے، جنگلات کا تحفظ آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لئے ضروری ہے، جنگلات کاٹنے والے لوگ نسلوں کو قتل کر رہے ہیں۔

قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں کم جنگلات رہ گئے انھیں بھی ویران کیا جا رہا ہے، خیبر پختونخوا میں سڑک کنارے 3 درخت لگا کر ڈرامہ کیا جا رہا ہے، کوئی بھی درختوں کے تحفظ کے لئے مخلص نہیں، جنگلات سے متعلق تمام قوانین کرپشن کے تحفظ کے لئے بنائے گئے، اتنا اہم قانون آرڈیننس کے ذریعے کیوں لایا گیا؟ ڈکٹیٹر کے قانون کو کوئی چھونے کے لئے تیار نہیں، ایک آمر آکر دو منٹ میں پارلیمنٹ کو اڑا دیتا ہے، آج کل کے ماحول میں آزادی سے کوئی بات بھی نہیں کر سکتے، ملک کہاں تھا اور کہاں پرلا کے کھڑا کر دیا گیا ہے
 
 
 
 
اسلام آباد : معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے فسطائی مودی کے جھوٹ کاپول کھول دیا اور پاکستان کے مؤقف کی جیت ہوئی۔
 
معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا بھارتی عدالت نےفسطائی مودی کے جھوٹ کاپول کھول دیا، بھارتی سپریم کورٹ میں پاکستان کے مؤقف کی جیت ہوئی، بھارتی ظلم وجبرمظلوم کشمیریوں کے صبر کے آگے پسپا ہورہا ہے۔
 
 
 
بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے نے مقبوضہ جموں کشمیر کی صورتحال پر فسطائی مودی کے جھوٹ کا پول کھول دیا ۔یہ فیصلہ پاکستان کے موقف کی جیت ہے۔ بھارتی ظلم و جبر مظلوم کشمیریوں کے صبر کے آگے پسپا ہورہا ہے۔
 
 
 
فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کا تحفظ بھارتی عدلیہ کاامتحان ہے، دنیا دیکھ رہی ہے بھارتی سپریم کورٹ اپنے دعوے کے مطابق مودی سرکارکے دباؤ کا مقابلہ کیسے کرتی ہے۔
 
 
مقبوضہ کشمیر میں عالمی انسانی حقوق کا تحفظ بھارتی عدلیہ کی آزادی کا امتحان ہے۔دنیا دیکھ رہی ہے کہ سپریم کورٹ اپنے دعوے کے مطابق بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اور مودی سرکارکے دباؤ کا مقابلہ کیسے کرتی ہے؟
 
 
خیال رہے گذشتہ روز بھارتی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی میں مقبوضہ کشمیر سے آرٹیکل 370 ختم کرنے سے متعلق مقدمے کی سماعت ہوئی ، جس میں عدالت نے مودی حکومت کو مقبوضہ وادی میں حالات ہر صورت معمول پر لانے کا حکم صادر کیا تھا۔
 
 
واضح رہے مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کی ریاستی دہشت گردی نے معمول کی زندگی مفلوج کررکھی ہے، مقبوضہ وادی میں نافذ کرفیو اور کڑی پابندیوں کو آج چوالیس روز ہوگئے ہیں جبکہ بھارتی فوج نے سری نگر سمیت مختلف علاقوں میں بلٹ پروف بنکرز تعمیر کرلئے ہیں۔
Page 1 of 46