ایمز ٹی وی (سائنس) عمر بڑھنے کے ساتھ ہی انسان کی یاداشت ( میموری) کم ہونے لگتی ہے اور بڑھاپے میں انتہائی کم ہوجانے سے انسان الزائمر اور ڈائیمینشئا جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے لیکن اب اس کم ہوتی یادداشت کو روکنے کے لیے سائنس دانوں نے روشنی کے زریعے اسے بحال کرنے کا طریقہ دریافت کرلیا ہے۔ میساچوسس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین طب اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ روشنی کے ذریعے کھوتی یادداشت کے روکنے کے اس طریقہ علاج یعنی روشنی سے علاج کو آپٹو جینٹک کا نام دیا گیا ہے جس کا تجربہ ابھی تک صرف چوہوں پرکیا گیا ہے تاہم انہیں امید ہے کہ جو لوگ الزائمر کی ابتدائی اسٹیج پر ہوں ان کا علاج اب ممکن ہوگا۔ تحقیق کے بانی سوسومو ٹونی گاوا کا کہنا ہے کہ انسان کی میمیوری جب کھو جاتی ہے تو بھی وہ دماغ میں موجود رہتی ہے اور اصل میں اس میموری یعنی یادداشت کو واپس لانا ہی اصل مسلہ تھا لیکن روشنی کے طریقہ علاج سے اس مسئلے کا حل نکال لیا گیا ہے۔ ٹونی گاوا کی ہی لیب میں کی گئی گزشتہ تحقیق میں اس بات کی نشان دہی کی گئی تھی کہ دماغ میں یادداشت کو سیل ’ہیپو کیمپس‘ محفوظ رکھتے ہیں جبکہ اس تحقیق میں کہا گیا تھا کہ یادداشت کے مختلف حصے ’این گرامز‘ کو سرگرم کر کے موجودہ یادداشت کو فعال کیا جا سکتا ہے۔ اپنے تحقیقاتی مقالے میں ٹونی گاوا اور اس کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس کا تجربہ چوہوں پر کیا گیا جس کے لیے انہیں لیب میں خوف دلانے والی فٹ شاک دی گئی اور ایک گھنٹے بعد انہیں دوبارہ چمیبر میں رکھ دیا گیا۔ کچھ دنوں بعد دیکھا گیا کہ جو چوہے نارمل تھے انہوں نے ہی خوف کا اظہار کیا جبکہ جو چوہے یادداشت کے کھونے کی بیماری الزائمر کا شکار تھے انہوں نے کسی خوف کا اظہار نہیں کیا تاہم یہ بات بھی سامنے آئی کہ خوف کھانے کا جذبہ ان میں موجود ہے لیکن غیر فعال تھا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ این گرام سیلز کے ساتھ حساس لائٹ پروٹان لگا کر روشنی کےذریعے انہیں فعال کیا گیا جس سے کھوئی ہوئی یادداشت بحال ہونے لگی۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ براہ راست این گرام سیلز کو فعال کرنے سے میموری ایک بار پھر کام کرنے لگتی ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ہی انسان کی یاداشت ( میموری) کم ہونے لگتی ہے اور بڑھاپے میں انتہائی کم ہوجانے سے انسان الزائمر اور ڈائیمینشئا جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے لیکن اب اس کم ہوتی یادداشت کو روکنے کے لیے سائنس دانوں نے روشنی کے زریعے اسے بحال کرنے کا طریقہ دریافت کرلیا ہے۔ میساچوسس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین طب اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ روشنی کے ذریعے کھوتی یادداشت کے روکنے کے اس طریقہ علاج یعنی روشنی سے علاج کو آپٹو جینٹک کا نام دیا گیا ہے جس کا تجربہ ابھی تک صرف چوہوں پرکیا گیا ہے تاہم انہیں امید ہے کہ جو لوگ الزائمر کی ابتدائی اسٹیج پر ہوں ان کا علاج اب ممکن ہوگا۔ تحقیق کے بانی سوسومو ٹونی گاوا کا کہنا ہے کہ انسان کی میمیوری جب کھو جاتی ہے تو بھی وہ دماغ میں موجود رہتی ہے اور اصل میں اس میموری یعنی یادداشت کو واپس لانا ہی اصل مسلہ تھا لیکن روشنی کے طریقہ علاج سے اس مسئلے کا حل نکال لیا گیا ہے۔ ٹونی گاوا کی ہی لیب میں کی گئی گزشتہ تحقیق میں اس بات کی نشان دہی کی گئی تھی کہ دماغ میں یادداشت کو سیل ’ہیپو کیمپس‘ محفوظ رکھتے ہیں جبکہ اس تحقیق میں کہا گیا تھا کہ یادداشت کے مختلف حصے ’این گرامز‘ کو سرگرم کر کے موجودہ یادداشت کو فعال کیا جا سکتا ہے۔ اپنے تحقیقاتی مقالے میں ٹونی گاوا اور اس کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس کا تجربہ چوہوں پر کیا گیا جس کے لیے انہیں لیب میں خوف دلانے والی فٹ شاک دی گئی اور ایک گھنٹے بعد انہیں دوبارہ چمیبر میں رکھ دیا گیا۔ کچھ دنوں بعد دیکھا گیا کہ جو چوہے نارمل تھے انہوں نے ہی خوف کا اظہار کیا جبکہ جو چوہے یادداشت کے کھونے کی بیماری الزائمر کا شکار تھے انہوں نے کسی خوف کا اظہار نہیں کیا تاہم یہ بات بھی سامنے آئی کہ خوف کھانے کا جذبہ ان میں موجود ہے لیکن غیر فعال تھا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ این گرام سیلز کے ساتھ حساس لائٹ پروٹان لگا کر روشنی کےذریعے انہیں فعال کیا گیا جس سے کھوئی ہوئی یادداشت بحال ہونے لگی۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ براہ راست این گرام سیلز کو فعال کرنے سے میموری ایک بار پھر کام کرنے لگتی ہے۔
ایمز ٹی وی (کھیل) ویمنز ورلڈ ٹی 20 میں آج پاکستان اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں میدان میں اتریں گی ، دونوں ٹیمیں دہلی کے فیروز شاہ کوٹلا اسٹیڈیم میں ان ایکشن ہوں گی۔ گروپ بی کی کمزور بنگالی ٹیم کیخلاف فتح سے پاکستانی لڑکیوں کی سیمی فائنل میں رسائی کا امکان روشن ہو سکتا ہے۔ وا ضح رہے کہ گروپ بی کے پوائنٹس ٹیبل پر پاکستان کا چوتھا اور بنگالی ٹائیگرز کا پانچواں نمبر ہے.
ایمز ٹی وی (انٹرٹینمنٹ): فلم بین صرف سنجیدہ ہی نہیں ایکشن اور کامیڈی فلمیں بھی پسند کرتے ہیں فلم میکرز کو ہلکے پھلکے موضوعات پر مبنی فلمیں بنانی چاہیں جن سے لوگ زیادہ سے زیادہ انٹرٹین ہوسکیں ہیں۔ ”سکندر“ میرے کیرئیر کی بہترین فلموں میں سے ایک ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار اداکارہ حیا سہگل نے ایمز تی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ حیا سہگل کا کہنا تھا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ چند لوگوں نے رسک لے کر فلمیں بنائیں تو ان کی یہ کاوش کامیاب رہی۔ اب تو ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی فلم میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی لینے لگی ہیں۔ فلم اور سینما انڈسٹری کا ایک اچھا ماحول بن چکا، فلم بینوں کا اچھا رسپانس نے فلم میکرز پہلے زیادہ محنت کر رہے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ان کاکہنا تھا کہ اب فلم بینوں کی پسند کو سامنے رکھ کر کام کرنیوالا پروڈیوسر اور ڈائریکٹر باکس ا?فس پر کامیابی حاصل کرے گا۔ جس وقت فلم انڈسٹری کا میں حصہ بنی ا س وقت یہ برے دور سے گزر رہی تھی ، اس کے باوجود جتنی بھی فلمیں کیں ان میں میرے کام کو سراہا گیا۔نئے فلم میکرز ایک اچھی فلم بنانے کے لیے تمام تر توانائیاں بروئے کار لارہے ہیں ، مگر وہ زیادہ سنجیدہ موضوع پر فلمیں بنار ہے ہیں۔ اب انھیں چاہیے کہ وہ ایکشن، رومانٹک ، کامیڈی اور میوزیکل بھی فلمیں بنائیں جو کمرشل سینما کے فروغ کے لیے ضروری ہے۔حیا سہگل نے کہا کہ فلم ”سکندر“ ایک مکمل پیکیج ہے جس میں فلم بینوں کو کامیڈی ، ڈرامہ ، ایکشن سمیت سب کچھ دیکھنے کو ملے گا۔ اس کی آدھی سے زیادہ شوٹنگ ہوچکی ہے جس میں مجھ سمیت پوری کاسٹ نے اپنے اپنے سین عکسبند کروائے ہیں جب کہ ایک اسپیل جو دوہفتوں پر مشتمل ہوگا۔ اس کے مکمل ہوتے ہی گانے رہ جائیں گے جنھیں معمر رانا یورپ میں شوٹ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اداکارہ نے کہا کہ اس وقت میری پوری توجہ ”سکندر“ پر ہی مرکوز ہے جو سال رواں کی بہترین فلموں میں سے ایک ہوگی۔