ایمزٹی وی(ٹیکنالوجی) سب سے پہلے اے ٹی ایم مشین لندن میں برطانوی شخص جان شیفرڈ بیرن نامی نے لگائی تھی ۔ اس حوالے سے جان شیفرڈ کا کہنا تھا کہ میرے دماغ میں یہ خیال آیا کہ میرے پاس اپنی ایک مشین ہونی چائیے جس کو استعمال کرکے میں کسی بھی ٹائم اپنے پیسے نکال سکوں ۔
تفصیلات کے مطابق اس نے مشہور برطانوی بینک بار کلیز کو جب یہ آئیڈیا پیش کیا تو اسے فوری طور پر منظور بھی کر لیا گیا اور آخر کار جون 1967ءکو شمالی لندن کے علاقے اینفیلڈ میں اے ٹی ایم مشین لگا دی گئی ۔ تاہم اس وقت PIN کا خیال نہ ہونے کی وجہ سے رقم نکلوانے کے لئے چیکوں پر کاربن پرنٹنگ کی بنیاد پر پیسے نکالے جاتے تھے
ایمزٹی وی(اسپورٹس)پاکستان کے مطالبے پر انڈین کرکٹ بورڈ 19 مارچ کو ہونے والے پاک بھارت میچ کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پردھرم شالا سے کولکتہ منتقل کرنے پر راضی ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر بی سی سی آئی سے پاک بھارت میچ کولکتہ یا موہالی منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا جب کہ بی سی سی آئی نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سب سے بڑا ٹاکرا دھرم شالا سے کولکتہ منتقل کرنے پر رضا مندی ظاہر کردی تاہم اس کا حتمی اعلان آئی سی سی کرے گا۔ واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ہماچل پردیش کے وزیراعلی کی جانب سے پاکستان ٹیم کو سیکیورٹی نہ دینے کے بعد اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اس حوالے سے آئی سی سی کو خط بھی لکھا تھا۔
ایمزٹی وی (انٹرٹینمنٹ)انگلینڈ کے سرکاری ادارے نے مسلمان خواتین مریضوں کو طبی معائنے کیلئے خصوصی گاﺅن پہننے کی پیشکش کی ہے جس کی بدولت وہ دوران معائنہ کسی قسم کی جھجک محسوس نہیں کریں گی۔ تفصیلات کے مطابق انگلینڈ کے نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے ہسپتالوں میں مسلمان خواتین مریضوں کو نئے باوقار گاﺅن پیش کیے جا رہے ہیں جسے مسلمان خواتین کی شکایات کے بعد اس ہفتے باضابطہ طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ ہسپتال ٹرسٹ کی طرف سے مریضوں کے اس نئے گاﺅن کو ”کثیر العقائد باوقار گاﺅن“ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ خاص گاو¿ن ان خواتین کے لیے ہو گاجو مذہبی وجوہات کی بنا پر ہسپتال میں مریضوں کی روایتی پوشاک پہننا پسند نہیں کرتی ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ نئے باوقار گاﺅن کو مسلمان خواتین کی شکایات دور کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ گاﺅن میں چہرے کے لیے نقاب بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ سر کے دو سکارف اور کمر پر باندھنے کے لیے ایک بیلٹ بھی موجود ہے جسے ایک ڈھیلے ڈھالے پاجامے کے ساتھ پہنا جائے گا۔
ایمزٹی وی(صحت) پوری دنیا میں تلخ یادوں، ڈپریشن اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے آنکھوں کی مشق کا ایک طریقہ بہت مقبول ہورہا ہے جسے لوگوں نے مؤثر قرار دیا ہے۔تفصیلات کے مطابق ماہرین کے مطابق تلخ یادیں ذہن میں جم جاتی ہیں اور بہت دیر تک نقش قائم رکھتی ہیں اور پورے مزاج پر وار کرتی رہتی ہیں ماہرین کا خیال ہے کہ آنکھوں کو دائیں بائیں گھمانے سے ڈپریشن کی وجہ بننے والی یادوں کے عصبی راستے کمزور پڑتے ہیں اور اس کے فوری نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اسےآئی موومنٹ ڈی سینسیٹائزیشن اینڈ ری پروسیسنگ ( ای ایم ڈی آر) کا نام دیا گیا ہے اس میں لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی پنڈولم کی طرح آنکھوں کو دائیں اور بائیں دونوں کناروں تک لے جائیں اور یہ عمل 20 سے 30 مرتبہ دُہرائیں۔ اسے کرنے والے افراد نے مؤثر پایا ہے اور اسے بہتر احساس کی وجہ قرار دیا ہے لیکن ماہرین کے مطابق اگر اسے کوئی تربیت یافتہ ماہر نفسیات انجام دے تو یہ اور بھی پراثر ثابت ہوتا ہے.
ایمزٹی وی (انٹرٹینمنٹ)اداکارہ وماڈل سجل علی نے کہا ہے کہ ٹی وی اورفلم کے کام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دونوں شعبوں کا مزاج الگ ہے لیکن دونوں شعبوں میں کام کرتے ہوئے ہی ایک فنکارزیادہ سے زیادہ سیکھ سکتا ہے۔ ٹی وی ڈراموں میں کچھ منفرد کردار کرنے کے بعد فلموں میں کام کی پیشکش کاسلسلہ شروع ہوگیا تھا لیکن میں نے کبھی خود کوفلم کے لیے مناسب نہیں سمجھا۔ کیونکہ فلم میں جہاں ایکٹنگ جاندارہونی چاہیے، وہیں گلیمر سے بھرپور انداز بھی ضروری ہوتا ہے، یہی نہیں فلمی گیتوں پررقص کرنا بھی بہت ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے میں نے ہمیشہ فلموں کی پیشکش کوقبول نہیں کیا تھا۔ فلوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پڑھے لکھے نوجوان فلم میکنگ کر رہے ہیں۔ جس طرح سے اعلیٰ تعلیم یافتہ فنکاراب اس شعبے میں کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں، اسی طرح تکنیکی شعبے سے وابستہ لوگ بھی تعلیم کے زیورسے مالامال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فلموں کامعیار بہتر ہورہا ہے اوراس میں آنے والے وقت میں مزید بہتری آئے گی۔ اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ سلور اسکرین پرہرایک فنکاردکھنا چاہتا ہے ، مگرمیری سوچ دوسروں سے الگ ہے۔ میں بڑی اسکرین پرکام کرنا چاہتی ہوں اورمستقبل میں ایک منفرد اندازمیں جلوہ گربھی ہونگی ، جومیرے چاہنے والوں کے لیے ایک بہترین سرپرائز ثابت ہوگا۔
ایمزٹی وی (انٹرٹینمنٹ) لوک گلوکار پٹھانے خان کو مداحوں سے بچھڑے 16 برس بیت گئے۔ لیکن صدارتی ایوارڈ یافتہ سریلے گلوکار کے گائے ہوئے عارفانہ کلام آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ لوک گلوکار پٹھانے خان کا اصل نام غلام محمد تھا۔ صوفیانہ کلام کو دل کی گہرائیوں کے ساتھ ادا کرنے کا خاص ہنر پٹھانے خان کا اثاثہ تھا۔ انہوں نے بابا بلھے شاہ کے کلام کو اس کی تمام تر نزاکتوں کے ساتھ گایا۔ استاد پٹھانے خان کی معروف کافی ‘‘میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں’’ آج بھی زبان زدعام ہے۔ پٹھانے خان کو 1979ء میں فن کی خدمت کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہوں نے خواجہ غلام فرید، بابا بلھے شاہ، مہر علی شاہ سمیت متعدد صوفی شعرا کا کلام گا کر شہرت حاصل کی۔ پٹھانے خان نے 79 مختلف ایوارڈز حاصل کیے۔ پٹھانے خان کی آواز میں درد کے ساتھ ایک عجیب سی کشش تھی۔ اسی لیے ان کا عارفانہ کلام سنتے ہی رقت طاری ہو جاتی ہے۔