ایمز ٹی وی (ایجوکیشن) خیبر پختونخوا کی کئی نابینا لڑکیوں کا کہنا ہے کہ وہ 'امتیازی سلوک' کا شکار ہیں کیوں کہ انھیں ثانوی تعلیم تک رسائی نہیں دی جا رہی ہے۔ بینائی سے محروم بہت سی طالبات اسکول چھوڑنے پر مجبور ہیں کیونکہ صوبے میں ان کے لیے پرائمری اسکولز تو موجود ہیں لیکن کوئی ہائی اسکول موجود نہیں ہے۔
پشاور میں نابینا لڑکیوں کے لئے پرائمری اسکول موجود ہے مگر وہاں صرف 25 طالبات تعلیم کرسکتی ہیں۔ اسکول میں کلاسز بھی بہت تاخیر سے شروع ہوتی ہیں۔ دس سال کی عمر سے لڑکیاں بنیادی تعلیم حاصل کرنا شروع کرتی ہیں جبکہ 16 برس کی عمر تک صرف پانچ جماعتیں مکمل کرپاتی ہیں۔
پاکستان کا شمار خواندگی کے اعتبار سے دنیا میں کم ترین شرح رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے جہاں صرف 30 فیصد بچے ہی اسکول جاتے ہیں۔خیبر پختونخوا کی نابینا طالبات اور بھی کئی مسائل کا شکار ہیں۔ صوبے میں کوئی بریل پرنٹنگ پریس نہ ہونے کی وجہ سے اساتذہ اپنے ہاتھوں سے کتابیں بنانے پر مجبور ہیں۔اساتذہ پرانی کتابیں لیتے ہیں جسے بینائی والا شخص اونچی آواز میں پڑھ کر سناتاہے اوروہ اسے بریل میں تبدیل کرکے لکھ لیتے ہیں۔ یہ بہت مشکل عمل ہے ہزاروں نقطوں کو کاغذ پر بنانا مگر اساتذہ کا یہ جذبہ قابل تحسین ہے۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے محکمہ بہبود کے نئے وزیر کی تعیناتی کے بعد اسکول کے ہیڈماسٹر پرامید ہیں کہ حکومت اس اسکول میں کلاسز کا اضافہ کرے گی اور وہ ثانوی تعلیم کے کورسز پڑھا سکیں گے۔ ہیڈماسٹر کے مطابق تمام کاغزی کاروائی مکمل ہوچکی ہے اور اسکول میں مزید جماعتوں کی تعمیر کا کام دو سے تین ماہ میں شروع کردیا جائے گا۔ لیکن یہ نابینا طالبات اس سے قبل بھی کئی وعدے سن چکی ہیں۔ اور اب یہ اس وقت تک مطمئن نہیں ہوں گی جب تک وہ اپنے اسکول میں نئی کلاسز کے تعمیر ہونے کی آوازیں نہیں سن لیتیں۔