منگل, 17 ستمبر 2024

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)عدالت عظمیٰ کے موجودہ ججز میں سے ایک جج رواں سال جبکہ2 جج 2018ء اور 3 ججز 2019ء میں رٹائر ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال جسٹس امیر ہانی مسلم 30 مارچ کو عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے جبکہ آئندہ سال جسٹس دوست محمد خان 20 مارچ 2018ء اورجسٹس اعجاز افضل خان 8 مئی 2018ء کو رٹائر ہوں گے۔
2019ء میں رٹائر ہونے والے ججزمیں موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار 18 جنوری 2019ء اور جسٹس شیخ عظمت سعید 28 اگست 2019ء جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید خان کھوسہ21 دسمبر 2019ء کو رٹائر ہوں گے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت اس وقت 16 ججز موجود ہیں۔
 
چیف جسٹس انورظہیرجمالی کی رٹائرمنٹ کے بعد ایک نشست خالی ہے جس کو پرکرنے کے لیے جوڈیشل کمیشن نے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ میں بطو۔رجج تقرری کی سفارش کی ہے، ان کی تقرری کے بعد عدالت عظمیٰ میں ججزکی تعداد پوری ہوجائے گی۔

 

 

ایمز ٹی وی(لاہور) پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اعتزا ز احسن نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو چاہیے تھا کہ وزیر اعظم کو طلب کرتی اور لندن فلیٹس کی ملکیت کے حوالے سے سوالات پوچھے جاتے۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ پاناما کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے تاہم وزیراعظم نوازشریف نے شریف فیملی کے لندن فلیٹس کا مالک ہونے کا اعتراف کیا تھا اور سپریم کورٹ کو وزیر اعظم کو طلب کر کے سننا چاہئیے تھا اور فلیٹس کی ملکیت کے حوالے سے سوالات کرنے چاہئیے تھے ۔’قطری ، ایرانی اور متحدہ عرب امارات کے خطوط ملک کو مالی انتشار کی طرف دھکیل سکتے ہیں“۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اور قانون دان اعتزا زاحسن نے ایک سوال پر کہا کہ نوازشریف کا موقف تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی عدالت کو یہ موقف تسلیم کرنا چاہیئے کیونکہ اگر عدالت نے یہ وضاحت تسلیم کر لی تو ملک میں مالی انتشار پیدا ہو جائے گا ۔
عدالت نیب کے سامنے لاچار نظر آئی ۔ نیب کے حوالے سے عدالت کے ریمارکس کہ ”نیب ہمارے سامنے فوت ہو گیا “ بدقسمتی کی بات ہے ۔”سپریم کورٹ کو چاہیے تھا کہ مردہ نیب کو زندہ کر تی “۔ اگر پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں منعقد نہیں ہوتا تو یہ حکومت کی ناکامی تصور ہو گی ۔انہوں نے بار ایسوسی ایشنز میں سیکیورٹی اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ مجھے بھی شناختی کارڈ اور بار کا ممبر شپ کارڈ دکھاکر اندر آنے دیا گیا ۔

 

 

ایمزٹی وی (اسلام آباد) قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کے زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی کی جانب سے نوید قمر نے شرکت کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے فوجی عدالتوں کی مدت میں 3 سال کے بجائے ڈیڑھ سال کی توسیع دینے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔
اپوزیشن جماعتیں فوجی عدالتوں کے ساتھ نگراں کمیٹی کی بحالی کے مطالبے پر قائم ہیں، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں نے نگراں کمیٹی کے قیام پر زور دیا ہے۔
دوسری جانب مذہبی دہشت گردی کے الفاظ کے معاملے پر سیاسی رہنماؤں میں اختلافات بدستور موجود ہیں اور اس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کریں گے۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی رضا مندی کے بعد مسودے کی منظوری کے لئے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں اجلاس جاری ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے ذیلی کمیٹی کو ہدایت کی ہے کہ پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں طے پانے والے نکات پر مشتمل مسودے کو حتمی شکل دی جائے۔

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے پاناما کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکلا نے جوابی دلائل مکمل کرلئے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیس کی سماعت مکمل ہونے پر ریمارکس دیئے کہ یہ وہ مقدمہ نہیں جس میں مختصر حکم دیا جائے، کیس کے تمام زاویوں کو گہرائی سے دیکھا جائے گا اور پھر تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کی اجازت پر عمران خان نے فاضل جج صاحبان کے روبرو کہا کہ ترقی یافتہ ملکوں کے ادارے مضبوط ہیں لیکن ہمارے ادارے مضبوط نہیں، میری کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں، میں کرپشن ختم کرنے کے لئے یہاں آیا ہوں، لیڈر کو عام شخص سے زیادہ ایماندار اور دیانتدار ہونا چاہئے۔ اگر میری دیانتداری ثابت نہ ہوتو مجھے بھی عوامی عہدے پر آنے کا کوئی حق نہیں، پاکستانی قوم دنیا کی ان 10 اقوام میں شامل ہوتی ہے جو سب سے زیادہ خیرات اور فلاحی کاموں میں حصہ ڈالتی ہے لیکن ہم بحیثیت قوم ٹیکس کی ادائیگی میں سب سے پیچھے ہیں۔
سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے جوابی دلائل پر کہا کہ گلف اسٹیل کے واجبات 63 ملین درہم سے زیادہ تھے لیکن اس سے متعلق کوئی وضاحت نہیں آئی، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ابتدائی دلائل میں آپ نے یہ بات نہیں کی۔
نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز کی دستخط والی دستاویز میں نے تیار نہیں کی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ آپ مریم کے دستخط والی دستاویز کو درست کہتے ہیں جب کہ شریف فیملی اس دستاویز کو جعلی قرار دیتی ہے، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ متنازعہ دستاویز کو چھان بین کے بغیر کیسے تسلیم کریں، عدالت میں دستخط پر اعتراض ہو تو ماہرین کی رائے لی جاتی ہے، ماہرین عدالت میں بیان دیں تو ان کی رائے درست مانی جاتی ہے۔ عدالت ٹرائل کورٹ نہیں جو یہ کام کرے، نعیم بخاری نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کیس میں عدالت ایسا کر چکی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ گیلانی کیس میں عدالت نے توہین عدالت کی درخواست پر فیصلہ کیا تھا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ یہ بھی وزیراعظم کے ان اثاثوں کا مقدمہ ہے جو ظاہر نہیں کیے گئے۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایسی دستاویزات کو ثبوت مانا جا سکتا ہے، عدالت نے ہمیشہ غیر متنازعہ حقائق پر فیصلے کیے، کیا ہم قانون سے بالاتر ہو کر کام کریں۔ عدالت اپنے فیصلوں میں بہت سے قوانین وضع کر چکی ہے، جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بنیادی حقوق کا معاملہ سن رہے ہیں، مقدمہ ٹرائل کی نوعیت کا نہیں۔
نعیم بخاری نے کہا کہ کیا دنیا میں کسی نے پاناما لیکس کو چیلنج کیا ہے، وزیر اعظم نے بھی موزیک فونیسکا کو کوئی قانونی نوٹس نہیں بھجوایا، 1980 سے 2004 تک قطری شیخ بینک کا کردار ادا کرتے رہے، سرمایہ کاری پر منافع اور سود بھی بنتا گیا، سالہا سال تک قطری مراسم کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، قطری نے کہہ دیا کہ قرض کی رقم اس نے ادا کی، اتنی بڑی رقم بینک کے علاوہ کیسے منتقل ہوگئی، انہوں نے اخبار میں پڑھا کہ اسی قطری کو ایل این جی کا ٹھیکہ دیا گیا، وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں سچ نہیں بولا، انہوں نے ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کیا، گیلانی کیس کی طرح میں بھی عدالت سے ڈیکلریشن مانگ رہاہوں، جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ قطری ٹھیکے والی بات مفادات کے ٹکراؤ کی جانب جاتی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمارے سامنے ایل این جی کے ٹھیکے کا معاملہ نہیں، دستاویزات پر نہ دستخط ہیں نہ کوئی تاریخ، ادائیگی کس سال میں کی گئی وہ بھی نہیں لکھا، غیر تصدیق شدہ دستاویزات مسترد کرنا شروع کیں تو 99.99 فیصد کاغذات فارغ ہو جائیں گے، ایسی صورت میں ہم واپس اسی سطح پر آ جائیں گے، دونوں فریقین کی دستاویزات کا ایک ہی پیمانہ پر جائزہ لیں گے۔
نعیم بخاری کی جانب سے جوابی دلائل مکمل کیے جانے کے بعد شیخ رشید نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں باقاعدگی سے جسٹس اکیڈمی آتا ہوں،اتنے تسلسل سے میں کبھی نا تو اسکول گیا اور نہ کالج، عدالت نے سماعت کے دوران 371 سوالات پوچھے ،جن میں سے زیادہ تر شیخ عظمت کے تھے، جواب نہ ملنے پر جج صاحب کا دل زخمی ہوا، جج صاحب کا صحت یاب ہونا اللہ کا احسان ہے، میرا کیس اسمارٹ، سویٹ اور شارٹ ہے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آج آپ نے سلگش کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ آج کل انصاف اور فیصلے کے معنی مختلف ہو گئے ہیں، انصاف اس کو کہا جاتا ہے جو حق میں آئے، فیصلہ حق میں آئے تو کہا جاتا ہے کہ ان سے اچھا منصف کوئی نہیں، فیصلہ حق میں نہ آئے تو کہتے ہیں جج نالائق ہے، ججز پر رشوت اور سفارشی کا الزام لگتا ہے، کہتے ہیں کہ ملی بھگت ہو گئی۔
شیخ رشید نے کہا کہ میرا کیس پہلے دن سے ہی صادق اور امین کا ہے، عدالت صادق اور امین کی کئی فیصلوں میں تعریف کرچکی ہے، عدالت نے جن 20 اراکین کو نااہل کیا ان کے فیصلے سامنے رکھناہوں گے، ان 20 اراکین اسمبلی کو آرٹیکل 184 (3) کے تحت نااہل کیا گیا، قوم کو عدالت سے انصاف کی امید ہے، کرپشن پر سزا نہ ملی تو ملک خانہ جنگی کی طرف جائے گا، نواز شریف نے کہا تھا کرپشن کرنے والے اپنے نام پر کمپنیاں اور اثاثے نہیں رکھتے، دبئی فیکٹری کب اور کیسے لگی، پیسہ کیسے باہر گیا۔ تمام دستاویزات موجود ہونے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔ کیس آپ کو سمجھ آ چکا ہےاور اب ہم وقت ضائع کر رہے ہیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ منی لانڈرنگ اور کرپشن پر استثنیٰ نہیں ہوتا، نواز شریف کا بیان اگر اسمبلی کی کارروائی ہو تو ہی اسے استحقاق حاصل ہے، ذاتی وضاحت استحقاق کے زمرے میں نہیں آتی، مفاد عامہ کی درخواست میں سپریم کورٹ وہ ریلیف بھی دے سکتی ہے جو نہیں مانگا گیا، ایمرجنسی والے کیس میں بھی سپریم کورٹ نے استدعا سے بڑھ کرریلیف دیا، عدالت نے چوہدری نثار کی درخواست میں چیئرمین نیب کو اڑایا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ کہنا مشکل ہو گا کہ تقریر کارروائی کا حصہ نہیں تھی، پتہ نہیں اس نے فیصلے پڑھے بھی ہیں یا نہیں، جس نے آپ کو لکھ کر دیا،اڑا دیا کے لفظ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے، اس سے ایسا لگتا ہے جیسے کسی کا کوئی ایجنڈا ہو، ہم کسی کو اڑاتے نہیں، صرف فیصلہ کرتے ہیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ ہمارے شہر میں ایسے ہی لفظ استعمال ہوتے ہیں، ڈاوٴن ٹاوٴن کے منشی تو ایسے ہی لکھ کردیتے ہیں، میرے شہر میں لوگ قانون کو نہیں فیصلے کو زیادہ سمجھتے ہیں کیونکہ آپ سے آ گے تو صرف اللہ ہی کی ذات ہے، میں نے رات کو تنہائی میں شریف فیملی کی دستاویزات کو دیکھا ہے، مجھے تو تمام دستاویزات جعلی لگتی ہیں، سپریم کورٹ نے تو نواز شریف کو ملک میں داخلے کی اجازت دی، تمام ادارے اور پی ایم ہاوٴس روزانہ اپنا کیس امپروو کرتے ہیں، قطری کی آمد پہلی بار نہیں ہوئی، ہیلی کاپٹر کیس میں بھی قطری آچکا ہے، طارق شفیع نے بھی اپنا پہلا بیان بہتر بنایا ہے۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نواز شریف کی انٹری نہیں ایگزٹ کا کیس لائے ہیں۔ سب لوگ اپنے کیس کی تیاری کرکے آتے ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون شہادت کے مطابق چوری کا مال جس سے برآمد ہو اسی کو ثابت کرنا ہوتا ہے، شیخ رشید نے کہا کہ شریف خاندان نے تسلیم کیا ہے کہ مال ان کا ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ مال شریف خاندان کا ہونے اور چوری کا ہونے میں فرق ہے، پہلے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ مال چوری کا ہے۔
شیخ رشید کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے جوابی دلائل میں کہا کہ اللہ وزیراعظم کو صحت، زندگی اور آئین کے مطابق چلنے کی توفیق دے، وزیراعظم نے اپنی تقریرمیں کہا تھا کہ استحقاق یا استثنیٰ نہیں مانگوں گا لیکن عدالت میں آ کر استحقاق مانگا گیا، وزیراعظم نے اسمبلی میں جو ریکارڈ پیش کیا تھا وہ طلب کرنے کی درخواست کی تھی، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم نے جو تصاویر پیش کی تھیں وہ ریکارڈ پر آ چکی ہیں، وزیراعظم شروع سے ہی بہت ہینڈسم ہیں، کیا آپ ان کی جوانی کی تصاویر دیکھنا چاہتے ہیں

 

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)پانامہ کیس میں ہلکے پھلکے جملوں سے ماحول خوشگوار رہا۔ سوال تھا کہ جھوٹ بولنے والا رکن اسمبلی نہیں بن سکتا تو پھر کیا سارے شوہروں کی رکنیت خطرے میں پڑ گئی؟ جسٹس کھوسہ نے کنوارے لوگوں کو سچا کہہ ڈالا تو شیخ رشید مسکرا دیئے۔
پاناما کیس میں سوال اٹھ گیا بے ایمانی کا مطلب آخر ہے کیا؟ جسٹس شیخ عظمت کہنے لگے کہ جواب کسی فریق نے نہیں دیا۔ جسٹس عظمت نے یہ بھی پوچھ لیا کہ کیا جھوٹ بولنے والا رکن اسمبلی نہیں بن سکتا؟ انھوں نے ساتھ ہی کہا کہ بیوی سے تو ہر شخص جھوٹ بولتا ہے ، دفتر میں بیٹھ کر کہا جاتا ہے راستے میں ہوں۔ اس پر جسٹس کھوسہ کہنے لگے کہ جو شادی شدہ نہیں وہ جھوٹ بھی نہیں بولتا۔
ریمارکس سن کر کنوارے شیخ رشید زیر لب مسکرا دیئے۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر گمراہ کرنے لگے۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل کی ٹانگ دکھنے لگی تو جسٹس اعجاز افضل نے بیٹھ کر دلائل دینے کو کہہ دیاتو نعیم بخاری نے اپنی نشست پیش کر دی ۔

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد )امیرجماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا کہنا ہے کہ سرکاری ادارے کیا صرف غریبوں کے احتساب کے لیے رہ گئے ہیں ؟نیب اور ایف بی آر عوام کے حقوق کے بجائے دربار کے حقوق کی زیادہ حفاظت کررہے ہیں۔
سراج الحق نے پاناما کیس کی سماعت پر سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ چیئرمین نیب کے تقرر کا فیصلے کرنے کے لیے بہترین ادارہ عدالتیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ احتساب اداروں نے کبھی ذمے داریاں پوری نہیں کیں، احتساب اداروں نے کبھی کسی طاقتور کا احتساب نہیں کیا۔
 

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے سانحہ لاہوراورپشاورکی بھرپورمذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں کامیاب ہوں گے،یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کاسوال ہے، سپریم کورٹ کاہر جج ایک قلعہ ہے جسے کسی صورت تسخیر نہیں کیا جاسکتا، پاکستان کو اپنے کردار اور کاوشوں سے بہترین ملک بناناہے، ملکی خدمت میں کوئی ہمارے جذبے کومتزلزل نہیں کرسکتا۔
پاکستان بارکونسل کے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کسی بھی ملک کی آزاد عدلیہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جج قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہے، جج قانون کی خلاف ورزی کر کے فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا،قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ججز کی آئینی ذمہ داری ہے، قانون کی حکمرانی ملکی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
 
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ فیصلہ قانون کے مطابق کریں گے تو انصاف ہوتا نظر آئے گا، انصاف کی فراہمی ہماری ذمہ داری اور مقصد ہے، آنے والے وقت میں عدلیہ اداروں کی اصلاح میں کرداراداکریگی، ججزکی عزت آزادعدلیہ کیساتھ ہے۔انہوں نے کہا کہ وکلاکوحق نہیں کہ ریلیف نہ ملے توجج سے زیادتی کریں، یقین دلاتاہوں ججزتقرریاں میرٹ پرہوں گی، جج اوروکلاایک ہی جسم کے دو حصے ہیں۔

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ اگر آج بھی شریف خاندان کے وکلاءکی پٹاری سے کوئی ثبوت نہ نکلا تو سمجھ لیں کے یہ نااہل اور ناکام ہیں ۔سیاسی اور اخلاقی طور پر ہم کیس جیت چکے ہیں۔ ایک وکیل کہتا ہے جو کرنا ہے کر لو اور دوسرا کہتا ہے کہ سپریم کورٹ کیس نہیں سن سکتی۔
میڈیا ذرائع کے مطابق پاناما کیس کی سماعت سے قبل سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاناما کیس وہی پر ہے جہاں سے شروع ہوا تھا تاہم شریف خاندان کے پاس منی ٹریل ہے اور نہ ہی کوئی دستاویز ۔ عوامی اور اخلاقی طور پر ہم پاناما کیس جیت چکے ہیں تاہم قانو نی کیس کا فیصلہ آنا باقی ہے ۔
شیخ رشید احمد نے مزید کہا کہ پاناما کیس کا فیصلہ اسی ہفتے یا اگلے ہفتے میں آنے کی توقع ہے اور اس فیصلے سے سیاسی تابو ت نکلیں گے ۔شریف خاندان کے وکلاء کہہ رہے ہیں ہمارے پاس منی ٹریل ہے نہ کوئی ثبوت۔
 

 

 

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں کرپشن کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے اور سپریم کورٹ سے بھی کرپشن کے تابوت نکلیں گے ۔
پاناما کیس کی سماعت سے قبل سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت میں کرپشن پر نامزد وزیر اعلیٰ کو 4سال قید ہوئی ، دنیا میں بھی کرپشن کے بارے میں سوالات ہو رہے ہیں اور آواز یں بلند ہو رہی ہیں ۔ ”پاناما کیس حقیقت کی جانب بڑھ رہا ہے “۔
شیخ رشید نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کے صاحبزادوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ رواں ہفتے اپنے دلائل مکمل کر لیں گے ۔

 

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد) سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت 2ہفتے کے بعد دوبارہ شروع ہو گئی جہاں وزیرا عظم کے صاحبزادوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ اپنے دلائل دے رہے ہیں ۔بینچ کے رکن جسٹس عظمت سعید شیخ کی علالت کے باعث سماعت ملتوی کی گئی تھی ۔
تفصیلات کت مطابق جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل 5رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے،جسٹس عظمت سعیدکے اچانک علیل ہونے کے باعث کیس کی سماعت روک دی گئی تھی،اب وہ صحتیاب ہیں اور ڈاکٹروں نے انہیں اپنی معمول کی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔
پاناما کیس کے حوالے سے درخواست گزار پاکستان تحریک انصاف ، عوامی مسلم لیگ ، جماعت اسلامی جبکہ وزیر اعظم نوازشریف اور مریم صفدر کے وکلاءاپنے دلائل مکمل کر چکے ہیں اور اب وزیراعظم کے بچوں حسن نوازاورحسین نواز کے وکیل سلیمان اکرم راجہ اپنے دلائل دے رہے ہیں۔