منگل, 14 جنوری 2025

 

ایمز ٹی وی (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت نے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اب چاند کی جانب توجہ مبذول کرلی ہے۔
انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (آئی ایس آر او) کے مستقبل کے ارادوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر سیوا تھانو پلائی کا کہنا تھا کہ ہندوستان 2030 تک چاند کے وسائل کو بروئے کار لاکر ملکی توانائی کی ضروریات کو پورا کرے گا۔ خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے بھارتی خلائی تحقیقاتی ادارے نے 104 سیٹلائٹس خلاء میں بھیج کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔
آئی ایس آر او کے پروفیسر اور براہموس ایرواسپیس کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ بھارت کی توانائی کی تمام ضروریات چاند کی سطح سے کھود کر حاصل کیے گئے ہیلیئم کی مدد سے پوری کی جاسکتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 3 روزہ کلپنا چاولا اسپیس پالیسی ڈائیلاگ کے سیمینار میں اختتامی خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر سیوا تھانی کا کہنا تھا کہ اس ٹارگٹ کو 2030 تک حاصل کرلیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چاند کی مٹی جس میں ہیلیئم 3 نامی دھات کی بھاری مقدار پائی جاتی ہے، کی کھدائی ان کے ادارے کا ترجیحی پروگرام ہے اور دیگر ممالک بھی اس منصوبے پر کام میں مصروف ہیں۔
ڈاکٹر سیوا تھانی کے مطابق چاند پر موجود ہیلیئم دنیا بھر کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوگی۔ آئی ایس آر او کے پروفیسر نے سیمینار کے شرکاء کو آگاہ کیا کہ ہیلیئم کی کھدائی سے لے کر اس کی زمین تک منتقلی کا منصوبہ زیرِغور ہے۔
بھارتی فوج کے ڈائریکٹر جنرل پلاننگ لیفٹیننٹ جنرل پی ایم بالی کا خیال تھا کہ بھارت اپنی قومی سلامتی کے لیے خلائی ٹیکنالوجی میں بہتری کی ضرورت کا اندازہ کرچکا ہے لہذا اس حوالے سے اہم پالیسیاں اور ادارتی فریم ورک تشکیل دیئے جارہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی بھارت کے پاس روابط اور ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹس کا وسیع جال موجود ہے، 2013 میں لانچ کیا گیا بھارت کا ملٹری سیٹلائٹ (GSAT-7) اس بات کا شاہد تھا کہ بھارت قومی سلامتی کے لیے خلاء میں تسخیر اور تلاش کا کام شروع کرنا چاہتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل بالی کا مزید کہنا تھا کہ خطے اور پوری دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ابھرتے ہوئے ملک کی حیثیت سے ہندوستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ زمین کے ساتھ ساتھ خلاء میں بھی فوجی اثاثے تیار کرے ہمسایہ ممالک کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'اطراف میں بدلتی صورتحال کے باعث ضروری وسائل سے لیس ایک خصوصی خلائی پروگرام کی ضرورت ناگزیر تھی'۔

 

ایمز ٹی وی (انٹرٹینمنٹ)برلن انٹر نیشنل فلم فیسٹیول میں بہترین فلم کا گولڈن بیئر ایوارڈ ہنگری کی فلم ’آن باڈی اینڈ سول‘ کے نام رہا۔ دس روزہ انٹر نیشنل فلم فیسٹیول کے دوران 18 فلموں میں مقابلہ ہوا، میلے میں ہنگری کی فلم ’آن باڈی اینڈ سول‘ جیوری ارکان کے دل جیتنے میں کامیاب ہوئی اور گولڈن بیئر کا ایوارڈ اپنے نام کیا۔ بہترین ڈائریکٹر فن لینڈ کے آکی کورسمیکی ،بہترین اداکارآسٹرین جارج فریڈرک اور بہترین اداکارہ جنوبی کوریا کی کم من ہی قرار پائیں۔

ایمز ٹی وی(کراچی) صوبہ سندھ کے نو منتخب گورنر محمد زبیر نے واضح کیا ہے کہ کراچی میں حالات اب کافی بہتر ہوچکے ہیں اور شہر کو 10 منٹ میں بند کروانا اب ممکن نہیں ہے۔
انٹرویو میں محمد زبیر نے کراچی میں بدامنی کا ذمہ دار ماضی کی حکومتوں کو قرار دیا اور کہا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں شہر کی 'چابیاں' متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے حوالے کردی گئیں۔ انھوں نے کہا کہ 'آج کراچی کو کوئی 10 منٹ تو کیا، 10 ماہ میں بھی بند نہیں کروا سکتا'۔
تاہم محمد زبیر نے کہا کہ صورتحال اب بھی بہت نازک ہے اور اگر کراچی آپریشن سے ذرا بھی توجہ ہٹائی گئی تو حالات پھر سے خراب ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اب فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کو شہر کے حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
گورنر سندھ نے بتایا کہ ماضی میں بہت سی حکومتوں نے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر شہر میں سیاسی جماعتوں کو کھلی چھوٹ دی، جن میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف سرِ فہرست ہیں، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دور میں بھی متحدہ کو مکمل آزادی تھی۔
حالیہ دنوں میں کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے محمد زبیر کا کہنا تھا کہ رینجرز آپریشن کا اسٹریٹ کرائم سے کوئی تعلق نہیں، یہ کام پولیس کا ہے جس نے شہر میں ان واقعات کی روک تھام کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن اس مقصد کے لیے اسے کچھ وسائل کی کمی کا بھی سامنا ہے۔
اس سوال پر کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کراچی پولیس کسی قسم کی سیاسی مصلحتوں کا بھی شکار ہے؟ انھوں نے کہا کہ حال ہی میں ان کی آئی جی سندھ سے ملاقات ہوئی ہے جس میں واضح پیغام دیا گیا کہ کہ اگر کسی بھی جگہ پر ایسا کچھ ہے تو اس کا خاتمہ کیا جائے اور یہی اصول رینجرز کے لیے بھی ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے لیے نرمی کا مظاہرہ نہ کیا جائے، چاہے وہ مسلم لیگ (ن) ہی کیوں نہ ہو۔
گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ اس وقت صوبائی حکومت میں نئی ٹیم ہے، جبکہ سب سے مشکل کام نائن زیرو پر کارروائی کرنا تھا اور یہ کام پہلے ہی مکمل کیا جاچکا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ نہ صرف جرائم پیشہ افراد، بلکہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کو شہر میں اپنا نیٹ ورک قائم کرنے سے روکا جائے تاکہ امن کے قیام کا جو ہمارا مقصد تھا وہ پورا ہوسکے۔
گورنر سندھ محمد زبیر نے یہ بھی واضح کیا کہ اس وقت کراچی کی تمام سیاسی جماعتیں ایک بات پر متفق ہیں کہ اب شہر میں متحدہ لندن کو سیاست کرنے کی کسی بھی صورت اجازت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے کہ 'اب متحدہ لندن کو لندن میں ہی سیاست کرنی چاہیئے، کراچی میں اس کی کوئی اجازت نہیں دے گا'۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تاریخ پر نظر ڈالی جائے گی تو وہ لوگ شرمندہ ہوں گے جنہوں نے 'الطاف برانڈ آف پولیٹکس ' کو شہر میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی۔ گورنر سندھ نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی طرح ایم کیو ایم پاکستان اور لندن ایک ہونے کی کوشش کریں گے تو پھر متحدہ پاکستان کا وجود بھی ختم ہوجائے گا۔
 

 

ایمز ٹی وی (صحت /ٹھٹھہ) ٹھٹھہ میں تھیلسیمیا کیئر سینٹر قائم نہ ہونے کے باعث مریض علاج کی سہولت سے محروم ہیں بروقت خون نہ لگنے کے باعث رواں ماہ کے دوران میرپور ساکرو کی رہائشی دو بچیاں ڈیڑھ سالہ مناہل بی بی بنت عمر چشتی اور نادیہ بنت غلام حسین مور جریو کا انتقال ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں تھیلیسمیا میں مبتلا کمسن بچے دریا علی خان شیخ کے والد ایم مظفر شیخ نے بتایا کہ تھیلیسمیا کیئر سینٹر قائم نہ ہونے کے باعث بچوں کا کراچی اور حیدرآباد سے علاج کراتے ہیں جس کے باعث آنے جانے میں شدید مشکلات پیش آتی ہیں اور کافی وقت ضایع ہوتا ہے جبکہ بروقت خون نہ لگنے اور مناسب علاج نہ ہونے کے باعث تاحال درجنوں بچے اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ انہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ ٹھٹھہ میں تھیلیسیمیا کیئر سینٹر قائم کیا جائے جہاں مریضوں کو بون مارو ٹرانسپلانٹیشن سمیت دیگر علاج کی سہولیات مفت فراہم کی جائیں۔

ایمزٹی وی (صحت /شکارپور) گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر ٹوکے وادھو مل ہال میں رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ دینے کے حوالے سےتربیتی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں ڈاکٹر صائمہ میمن،ڈاکٹر ارشد ملک اور اخلاق وزیرنے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ دینے والوں کی تعداد انتہائی کم ہونے کے باعث حادثات میں زخمیوں کو بچانا مشکل ہوجاتاہے۔ ایک لاکھ سے زائد بچے تھیلیسمیا جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہیں، جنہیں روزانہ کی بنیاد پر خون کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ اس لئے نوجوان اور صحتمند لڑکوں خواہ لڑکیوں جن کی عمر 18سے30برس تک ہو انہیں ایک سال میں دو سےتین بار خون کا عطیہ دینا چاہئے۔ تقریب میں ڈی ایچ او ڈاکٹر قاضی خورشید احمد،آغا حق نواز خان پٹھان، ڈاکٹر کشور کمار،پرکاش لعل،آغا وحید پٹھان،تنویر حیدر شاہ سمیت مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں اورجامعہ شاہ لطیف شکارپور کیمپس کے طلبہ و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی

 

ایمز ٹی وی(کراچی) کراچی میں چلنے والے سی این جی رکشہ بھی شہریوں کے لیے چلتا پھرتا بم بن گئے ،اس بات کا انکشاف اس وقت ہو اجب شہر میں چلنے والے رکشہ مالکان یا ڈرائیورز نے سی این جی بند ہونے کے باعث کولڈ ڈرنک یا پھر منرل واٹر کی بوتلوں میں پیٹرول بھر کر اس میں پائپ لگا کر رکشے چلانے شروع کیے اور اسی بے احتیاطی کے باعث ایسے رکشوں میں آگ لگنے کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ۔
سروے کے مطابق سی این جی کی بندش کے ایام میں رکشہ ڈرائیورزپٹرول ٹینک میں بھروانے کے بجائے بوتلوں میں پٹرول ڈلوانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں چند رکشہ ڈرائیورز کا کہنا تھا کہ پٹرول کے ٹینک میں زنگ ہونے کے باعث وہ بوتل میں پٹرول ڈالتے ہیں جبکہ چند دیگر ڈرائیوروں کا کہنا تھا کہ رکشوں میں پٹرول کے مقدار کے جانچنے کے لیے کوئی میٹر یا لائٹ نہیں دی گئی ہے جس سے یہ پتا چل سکے کہ ٹینک میں کتنا پٹرول موجود ہے تاہم بوتل میں پٹرول سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،ایک رکشہ مالک مہتاب عرف گڈوکا کہنا تھا کہ اس وقت شہر میں چلنے والے دو قسم کے سی این جی رکشے ہیں جن میں سے ایک رکشہ کے ٹینک میں 6لٹر جبکہ دوسرے میں 4لٹر پٹرول آتا ہے جسے چیک کرنے کے لیے پٹرول ٹینک کا ڈھکن کھول کر دیکھنا پڑتا ہے بصورت دیگر اسے چیک کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ موجود نہیں ۔
پنجاب چورنگی پر موجود ایک رکشہ ڈرائیور امداد عرف کیپٹن کا کہنا تھا کہ رکشہ بنانے والی کمپنی کو چاہیے تھا کہ وہ پٹرول کو چیک کرنے کے لیے کم از کم ایک لائٹ یا پھر الارم لگا دیتے جس سے اس بات کی نشاندہی ہو جاتی کہ پٹرول ختم ہونے والا ہے ، اس قسم کا کوئی بھی اشارہ ان رکشوں میں موجود نہیں ہے جس کے باعث یہ رکشہ ڈرائیورز اس قسم کا رسک لے رہے ہیں اور اس سے فوری آگ لگنے کا خدشہ بھی ہر وقت موجود رہتا ہے ۔
 

 

ایمز ٹی وی (صحت /ٹھٹھہ) محکمہ پولیس کی جانب سے پولیس لائن مکلی میں واقع پولیس اسپتال میں ایک مفت طبی کیمپ قائم کیا گیا، طبی کیمپ میں ماہر امراض جلد ڈاکٹر اشرف علی شاہ، لیاقت یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنسز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سنتوش کمار، ماہر امراض زنانہ ڈاکٹر بدر جان، ماہر امراض قلب ڈاکٹر اللہ نواز قاضی، سینے کے امراض کے ماہر ڈاکٹر شاہینہ قیوم، امراض چشم کے ماہر ڈاکٹر وسیم قریشی و دیگر نے مریضوں کا معائنہ کیا، طبی کیمپ میں مختلف بیماریوں میں مبتلا ایک ہزار سے زائد مریضوں کو مفت علاج اور ادویات فراہم کی گئیں، قبل ازیں ایس ایس پی ٹھٹھہ فدا حسین مستوئی نے طبی کیمپ کا افتتاح کیا۔

ایمز ٹی وی (انٹرٹینمنٹ)پاکستان کے کامیاب اداکار فواد خان کی بالی ووڈ فلم ’کپور اینڈ سنز‘ کو ریلیز ہوئے کافی عرصہ گزر چکا ہے، لیکن آج بھی ہندوستان میں لوگ انہیں بھول نہیں پائے۔ انڈین ایکسپریس کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں فلم ’کپور اینڈ سنز‘ کے ہدایت کار شکن بترا نے فواد خان کے حوالے سے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا ’مجھے فواد خان بہت یاد آتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ کیا مجھے اس بات پر خاموش رہنا چاہیے، میں انہیں کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے یاد کرتا ہوں کہ وہ بہت اچھے انسان ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ تھا‘۔ شکن بترا نے مزید کہا ’ہم ہندوستانی پوری دنیا میں قانونی طور پر کام کرتے ہیں، اسی طرح اگر کوئی اور ہمارے ملک میں قانونی طور پر کام کرنا چاہے تو اسے پوری اجازت ملنی چاہیے، یہ دو طرفہ راستہ ہے‘۔ خیال رہے کہ فلم ’کپور اینڈ سنز‘ فواد خان کی بولی وڈ میں دوسری فلم تھی، انہوں نے 2014 میں فلم ’خوبصورت‘ کے ساتھ بولی وڈ میں ڈیبیو کیا۔ فواد خان کرن جوہر کی فلم ’اے دل ہے مشکل‘ میں بھی اہم کردار ادا کرچکے ہیں اور ان کے کردار کے باعث فلم کو ہندوستان میں ریلیز ہونے پر پریشانی کا سامنا رہا۔ تاہم اب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جاری کشیدگی کے باعث ان پر بالی ووڈ میں کام پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔فواد خان اس وقت پاکستانی ہدایت کار بلال لاشاری کی فلم کی شوٹنگ میں مصروف ہیں۔

 

ایمز ٹی وی(کراچی) کراچی کے علاقے ملیرمیں ایک ایسا قبرستان موجود ہے جو ’’بلوچوں کے مقبرے‘‘ کے نام سے اپنی شناخت رکھتاہے ۔ 100 ایکڑ اراضی پر محیط یہ تاریخی قبرستان میمن گوٹھ کے قریب ہا شم جوکھیو گوٹھ میں واقع ہے ۔یہاں تقر یباََ 600 سے زائد پکی اور سینکڑوں کی تعداد میں کچی قبریں 700 برس سے موجودہیں ۔
اس علاقے میں قدیم بلوچ گھرانوں کی 18 فٹ اونچی قبریں دور سے ہی اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ تین منزلہ اور چار منزلہ یہ قبریں تاریخ کے اوراق کا نہ صرف ایک گمشدہ باب ہیں بلکہ بلوچی تہذیب کی عکاس بھی ہیں ۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بلوچ قبرستان میں صرف بلوچ کلمتی قبیلے کے سردار وں ، اِنکے غلاموں سمیت قبیلے کے دیگر لوگ دفن ہوئے اس لئے یہاں سرداروں اور امراء کی قبریں جیومیٹریکل طریقے سے اہرامی طرز پر بنوائی گئی ہیں۔ قبروں پر بنے نقش و نگار سے ان کی شناخت کو یقینی بنایا گیا۔ یہاں خواتین کی قبروں پر زیورات کے اور بچوں کی قبروں پر پالنے کے نقوش بنائے گئے ہیں۔ سرداروں کی قبروں کی شناخت تاج کے نشان سے کی گئی ہے ۔ ہر قبر پر مدفون شخص کا نام عربی خط میں نقش کیا گیا ہے ۔ ان میں سے بعض قبروں پر میناکاری کاعمدہ کام بھی کیا گیا ہے اور بعض پر قرآنی آیات لکھی گئی ہیں ۔یہ متناسب قبریں قطار در قطار پٹی کے طرز پرعمدہ نقش ونگاری اور ماہرانہ سنگ تراشی سے مزین ہیں ۔

صدیوں پرانی اس فنی تخلیق میں ان قبروں پر کاریگروں کاخوبصورت اور متوازن کام واضح ہے ۔ سماجی اور معاشی طور پر خوشحال کلمتی سرداروں کی قبروں کا احاطہ پیلے ، سر خی مائل پتھر میں تراشا گیا ہے ۔ ایک جانب ارد گرد بکھرے ہوئے ستون ، شہتیر اور چبوترے کے پتھرسر دار ملک طوطہ خان کی چوکنڈی کے ہیں جو بد قسمتی سے کھنڈر بن چکی ہے دوسری جانب یہاں موجود مسجد بھی منہدم ہو چکی ہے ۔ کئی مقبروں کے احا طے گر چکے ہیں اور باقی ماندہ قبریں بڑی بے در دی سے ٹوٹی اور کھدی ہوئی نظر آتی ہیں۔مہراﷲ نامی شخص پچھلے کئی برسوں سے بلوچ قبرستان میں چوکیداری کے فرائض انجام دے رہے ہیں ان قبروں کی اچھی اور بری حالت زار کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’’وہ بے بس ہیں‘‘۔
 

 

ایمز ٹی وی (تعلیم /کراچی ) ہمدرد یونیورسٹی کی چانسلر سعدیہ راشد نے کہا ہے کہ جامعہ ہمدرد کے فارغ التحصیل طلبہ کی کامیابی ان کے اساتذہ کی محنت ا ور ان کے والدین کی قربانیوں کا ثمر ہے- وہ اپنی زیرصدارت جامعہ ہمدرد کے اکیسویں کانووکیشن سے ہمدرد یونیورسٹی کے مین کیمپس مدینۃ الحکمہ کراچی میں خطاب کررہی تھیں- کانووکیشن میں کل 1395فارغ التحصیل طلبہ کو ڈگریاں دی گئیں جن میں 817موجود اور 578غیر حاضر طلبہ تھے- 13طلبہ کو پی ایچ ڈی اور 56کو ایم فل کی ڈگری دی گئیں-اس کے علاوہ 8بہترین طلبہ کو شہید حکیم محمد سعید گولڈ میڈلز، 26ہر سال فرسٹ آنے والے طلبہ کو ہمدرد گولڈ میڈلز اور 7گولڈ میڈلز انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ کے ہونہار طلبہ کو دیے گئے- سعدیہ راشد نے کامیاب طلبہ و طالبات کو مبارک باد دیتے ہوئے مزید کہا کہ اب آپ اپنا کیرئیر شروع کرنے جارہے ہیں لیکن آپ جو بھی کام کریں اس سے قوم کی افرادی قوت کے خزانے میں مزید اضافہ ہونا چاہیے اور یہ اضافہ نہ صرف آپ کے لیے منافع بخش ہوگا بلکہ اس سے قومی دولت میں بھی اضافہ ہوگا- انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اس کانووکیشن کے فارغ التحصیل طلبہ قومی فلاح و بہبود اور تعلیم و صحت کے شہید حکیم محمد سعید کے مشن کے بہترین سفیر ثابت ہوں گے- ہمدرد کی تاریخ پر مختصر روشنی ڈالتے ہوئے سعدیہ راشد نے کہا کہ ہمدرد کو 1906میں حکیم عبدالمجید صاحب نے دہلی انڈیا میں قائم کیا لیکن ا ن کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ صرف 30سال کی عمرمیں فوت ہوگئے اس وقت ان کے بڑے بیٹے حکیم عبدالحمید کی عمر 8سال اور چھوٹے بیٹے حکیم محمد سعید کی عمر صرف 2سال تھی لیکن ان کی بیوہ رابعہ بیگم نے ہمدرد کو سنبھالا اور اسے مستحکم کیا۔ اسی طرح سے شہید حکیم محمد سعید نے کراچی پاکستان میں 1948ء میں بے سرو سامانی کے عالم میں ہمدرد کو قائم کیا اور اپنی خداداد صلاحیتوں اور محنت سے اسے بڑا طبی دوا ساز ادارہ بنادیا- ہمدرد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حکیم عبدالحنان نے خطبہ استقبالیہ اور یونیورسٹی کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ ہمدرد شہید حکیم محمدسعید کے وژن اور مشن کے مطابق سات فیکلٹیز میں معیاری تعلیم دے رہی ہے - نجی شعبہ میں قائم جامعہ ہمدرد ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایک تجزئیے کی بنیاد پر تقریباً 75فیصد نمبر حاصل کیے ہیں اور سسٹم کے مطابق " X " کیٹیگری دی گئی ہے - تمام اسناد اور گولڈ میڈلز مہمان خصوصی اور جاپان کے کونسل جنرل توشوکازو آئی سومورا چانسلر سعدیہ راشد اور وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حکیم عبدالحنان نے طلبہ کو دیے- کلمات تشکر متولیہ اور نائب صدر مدینۃ الحکمہ فاطمہ منیر احمدنے ادا کیے۔ کانووکیشن میں بیرونی سفارت کار، معزز مہمانان، ماہرین تعلیم، اساتذہ، والدین اور طلبہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی -