ایمز ٹی وی(ٹیکنالوجی) غیرملکی میڈیا کے مطابق یورپی ممالک نے ایک مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجا ہے۔ جس کا مقصد زلزلوں، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کی بہتر اور تیز تر نگرانی کرنا ہے۔ یہ سیٹلائٹ ایک نئی قسم کی لیزر کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا حامل ہے جس سے مطلوبہ ڈیٹا تیزی اور بہتری کے ساتھ ریکارڈ کیا جا سکے گا 50 کروڑ یورو کی لاگت سے تیار کیا گیا یہ سیٹلائٹ مطلوبہ ڈیجیٹل تصاویر کو زمین پر فوری طور پر ارسال کرسکتا ہے۔ اس سیٹلائٹ کی مدد سے 1.8 گیگا بائٹ فی سکینڈ کی رفتار سے ڈیٹا وصول کیا جا سکے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بڑی بڑی تصاویر کی منتقلی کے لیے کافی وقت درکار ہوتا تھا کیونکہ ان کا تجزیہ کرنے کے لیے پہلے انہیں زمین پر موجود مراکز پر مختلف مراحل سے گزارنا پڑتا تھا لیکن اب یہ تمام مواد پراسیسڈ حالت میں فوری طور پر دستیاب ہو سکے گا
ایمز ٹی وی (اسپیشل رپورٹ) ایک بھارتی ڈاکٹر لڑکیوں کو بچانے کے لیے انوکھے مشن پر ہیں وہ اپنے ہسپتال میں ایسی حاملہ خواتین سے زچگی کی کوئی فیس نہیں لیتے جن کے ہاں بچی کی ولادت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر گنیش راکھ کا کہنا ہے کہ ایسے ملک میں جہاں روایتی طور پر لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے لڑکیوں کے حوالے سے صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے یہ ان کی ایک ادنٰی سی کوشش ہے۔
سنہ 1961 میں بھارت میں سات سال سے کم عمر ہر 1000 لڑکوں کے لیے 976 لڑکیاں تھیں۔ جبکہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اب یہ تعداد کم ہو کر 914 رہ گئی ہے۔ ڈاکٹر گنیش نے سنہ 2007 میں مغربی بھارت کے شہر پونے میں ایک چھوٹا سا ہسپتال شروع کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی عورت زچگی کے لیے آتی ہے تو اس کے ساتھ رشتہ دار اس امید پر آ جاتے ہیں کہ لڑکا ہوگا۔ ’ایک ڈاکٹر کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا ہے کہ مریض کے رشتہ داروں کو یہ بتانا کہ مریض مر چکا ہے لیکن میرے لیے یہ اتنا ہی مشکل ہے خاندانوں کہ یہ بتایا کہ ان کے ہاں لڑکی کی پیدائش ہوئی ہے۔‘
’اگر لڑکا پیدا ہوتا ہے تو جشن مناتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں لیکن اگر بیٹی پیدا ہو تو وہ ہسپتال سے چلے جاتے ہیں۔ ماں رونے لگتی ہے اور پھر خاندان والے فیس میں رعایت طلب کرنے لگتے ہیں۔ وہ بہت مایوس ہوتے ہیں۔‘ ’مجھے کئی مریضوں نے بتایا کے انھوں نے علاج کروایا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ لڑکا ہی پیدا ہو۔ میں حیران تھا کیونکہ میں ایسے کسی علاج کے بارے میں نہیں جانتا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے کسی سادھو بابا سے رابطہ کیا ہے جس نے ماں کی ناک میں کوئی دوائی ڈالی جس کے بعد یہ یقینی ہے کہ بیٹا ہی ہوگا۔‘
سنہ 2011 کی مردم شماری ڈاکٹر گنیش کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھی انھیں ادراک ہوا کہ صورتحال کتنی سنگین ہے۔ بھارت میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے مادہ حمل کو گرانے کو قتلِ عام کے مترادف قرار دیا جس کے بعد نریندر مودی نے اسے ’قومی شرمندگی‘ قرار دے کر لڑکیوں کو بچانے کے لیے اس کے خلاف تحریک چلانے کا مطالبہ کیا۔ تین جنوری سنہ 2012 کو ڈاکٹر گنیشن راکھ نے بچیوں کی پیدائش کو بچانے کے لیے اپنی مہم شروع کی۔ ’میں نے فیصلہ کیا کہ میں لڑکی کی پیدائش پر کوئی فیس نہیں لوں گا۔ اور چونکہ لڑکوں کی پیدائش پر خاندان والے جشن مناتے ہیں اس لیے ہم لڑکی کی پیدائش پر جشن منائیں گے۔‘
گذشتہ چار برس میں اس مہم کے آغاز کے بعد سے ان کے ہسپتال میں 454 لڑکیوں کی پیدائش ہوئی ہے اور انھوں نے کسی والدین سے فیس نہیں لی۔ پونے سے 50 کلو میٹر دور ایک دیہات سے آنے والے والدین کے ہاں بھی بچی کی پیدائش ہوگئ ہے۔ ابھی بچی کا نام نہیں رکھا گیا لیکن ہسپتال کا عملہ اس ایک دن کی بچی کو اینجل یعنی فرشتہ پکارنے لگا ہے۔ ڈاکٹر گنیشن اور ہسپتال کے عملے نے والدین کو پھولوں کا تحفہ دیا، موم بتیاں جلائی گئیں اور چاکلیٹ اور کیک لائے گئے۔ ہسپتال کے عملے اور خاندان کے لوگوں نے تالیوں کی گونج میں ایجنل کے لیے برتھ ڈے کا گیت گایا گیا۔
راہل دیہاڑی پرمزدوری کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا: ’وہاں گھر کے قریب بھی ہسپتال ہیں لیکن ہم یہاں آئے کیونکہ ڈاکٹر گنیش فیس نہیں لیتے۔‘ ان کی والدہ الکا شاجی کہتی ہے’وہ ایک اچھے آدمی ہیں۔‘ڈاکٹر گنیش کا کہنا ہے کہ وہ ڈاکٹر بننے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے بلکہ انھیں تو ایک ریسلر بننا تھا۔ ’لیکن میری والدہ نے میری حوصلہ شکنی کی اور کہا کہ تم بہت زیادہ کھانے لگو گے دوسروں کا کھانا بھی کھا جاؤ گے۔‘
ان کا خدشہ جائز تھا۔ ان کے والد ایک اناج کے بازار میں قلی تھے۔ وہ کمر پر بوریاں لاد کر لے جاتے۔ ان کی ماں گھروں میں برتن دھوتیں اور بمشکل ڈاکٹر گنیشن اور ان کے دو بھائیوں کا پیٹ پالتیں۔‘ اس لیے انھوں نے ڈاکٹر بننے پر دھیان دیا۔ بچی کی پیدائش پر فیس نہ لینے کا فیصلہ آسان نہیں تھا ان کی اہلیہ اور بھائیوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ڈاکٹر گنیش کی اہلیہ ترپتی رکھ کا کہنا ہے کہ ’ہم معاشی طور پر زیادہ خوشحال نہیں ہیں۔اس لیے جب انھوں نے اپنے فیصلے کے بارے میں مجھے بتایا تو میں پریشان ہوئی کہ گھر کیسے چلے گا۔‘
لیکن ان کے والد آدیناتھ راکھ نے ان کا ساتھ دیا اور دل سے اس فیصلے کی حمایت کی۔ ڈاکٹر گنیشن راکھ کہتے ہیں ’انھوں نے مجھے اچھا کام جاری رکھنے کو کہا۔ انھوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ پھر سے قلی کا کام کر لیں گے۔‘ آج ان کی کوشش کا ثمر ملنے لگا ہے۔ وزرا اور حکام ان کے کام کو سراہنے لگے ہیں اور بالی وڈ سٹار امیتابھ بچن نے انھیں ’اصلی ہیرو‘ قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر گنیش کے بقول ’میں نے ایک چھوٹی سے چیز شروع کی تھی مجھے نہیں معلوم تھا کے اسے اس طرح لیا جائے گا۔ لیکن بعض چھوٹی چیزیں ذہنوں پر بڑا اثر ڈالتی ہیں۔‘ گذشتہ چند ماہ میں انھوں نے ملک کے دیگر حصوں میں ڈاکٹروں سے رابطہ کیا ہے کہ وہ کم سے کم ایک مفت زچگی کریں جس پر کئی ڈاکٹرز نے ان کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔
وہ پونے کی سڑکوں پر کئی مارچ کروا چکے ہیں جس میں وہ لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بیٹی ایک بیٹے کی نسبت زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔وہ کہتے ہیں’ میں لوگوں اور ڈاکٹرز کے رویے بدلنا چاہتا ہوں۔ جس دن لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر جشن منائیں گے میں پھر سے فیس لینا شروع کر دوں گا۔ ورنہ میرا ہسپتال کیسے چلے گا؟‘
ایمزٹی وی(اسپورٹس) ڈچ فٹ بال لیگ میں اجاکس ایمسٹرڈیم اور روڈا کا سنسنی خیز میچ دو دو گول سے برابر رہا ، فینورڈ کو ہوم گراونڈ پر ڈین ہیگ کے ہاتھوں شکست ہو گئی ۔ ڈچ فٹ بال لیگ میں اجاکس ایمسٹرڈیم اور روڈا کی ٹیمیں مدمقابل ہوئیں، اجاکس کو پہلے ہاف میں دو ایک کی برتری حاصل تھی، روڈا نے کھیل کے اختتامی لمحات میں گول کر کے مقابلہ دو دو سے برابر کر دیا ۔ روٹرڈیم میں فینورڈ کو ڈین ہیگ کے ہاتھوں دو صفر سے شکست کا مزہ چکھنا پڑا ، لگا تار پانچواں میچ ہارنے کے بعد فینورڈ کی ٹائٹل جیتنے کی امیدیں دم توڑ گئیں ۔
ایمزٹی وی (تعلیم) باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کو کھولنے یا بند رکھنے کا فیصلہ کرنے اور سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ کا ہنگامی اجلاس آج طلب کر لیا گیا۔باچا خان یونیورسٹی کے ترجمان سید خان خلیل نے بتایا کہ وائس چانسلر فضل رحیم مروت نے ہنگامی اجلاس آج دن گیارہ بجے طلب کیا ، جس میں یونیورسٹی کے تمام شعبہ جات کے سربراہان نے شرکت کی۔اجلاس میں یونیورسٹی پر حملے کے بعد کئے گئے سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا جائے گا اوراس کے تناظر میں جامعہ کو دوبارہ کھولنے یا بند رکھنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اجلاس میں حکومتی کمیٹی کی رپورٹ پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا، جس میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور سیکیورٹی انچارج کو ہٹانے کی سفارش کی گئی ہے۔
ایمزٹی وی (تعلیم) نجی تعلیمی اداروں کے مالکان سے پنجاب حکومت کے مذاکرات کامیاب ہوگئے لیکن لاہورکے بڑے نجی تعلیمی اداروں نے آج سے اسکول کھولنے سے انکار کردیا ہے۔ جس سے والدین ذہنی اذیت کا شکار ہوگئے ہیں۔پنجاب حکومت اور نجی تعلیمی اداروں کے درمیان یکم فروری سے ا سکولوں کو دوبارہ کھولنے کے حوالے سے مذاکرات کامیاب ہو گئے، اس کے باوجود لاہور میں اے پلس اور اے کیٹیگری کے اسکول مالکان نے تعلیمی ادارے کھولنے سے انکار کر دیا ہے۔ پنجاب حکومت اور بڑے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے درمیان ٹھن گئی،لاہور کے10 بڑے ایجوکیشنل گروپس نے اپنی تمام برانچز بند رکھنے کا اعلان کر دیا جبکہ پرائیویٹ اسکولوں کی2 نمائندہ ایسوسی ایشنز نے آج اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں پھر سے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیرتعلیم پنجاب نے دو ٹوک کہہ دیا کہ سیکیورٹی کے نام پر بلیک میل نہیں ہونگے،ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا، آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز فیڈریشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے سیکیورٹی کے معاملے پر یقین دہانی کرا دی ہے۔ لاہور کے10 بڑے تعلیمی اداروں کی جانب سے بچوں کے والدین کو یکم فروری کو اسکول بند رہنے کا ایس ایم ایس بھیج دیا گیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ جب تک اسکول انتظامیہ کی جانب سے باضابطہ اعلان نہیں ہوتا تعلیمی ادارے بند رہیں گے، یہی نہیں میڈیا یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے ملنے والی خبر پر توجہ نہ دیں۔
ایمزٹی وی(اسپورٹس) وقار یونس کی بطور کوچ ناکامیوں کا سلسہ دراز ہوگیا، ان کی ہیڈ کوچ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد پاکستان نے 10میں سے 7 ون ڈے سیریز ہاری ہیں۔
کئی اسٹار کھلاڑیوں سے محروم سری لنکن ٹیم کیخلاف سیریز میں فتح واحد بڑی کامیابی ہے، اس کے علاوہ تمام مضبوط ٹیموں نے گرین شرٹس کو شکستوں سے دوچار کیا، دوسری جانب اظہرعلی کی قیادت میں پاکستان ٹیم 6 میں سے تیسری ون ڈے سیریز ہاری ہے، ہیڈ کوچ کی افادیت پر بھی سوالیہ نشان گہرے ہوتے جارہے ہیں، کبھی مستقبل کی امید سمجھے جانے والے احمد شہزاد اعتماد متزلزل ہونے کے بعد ناکام بیٹسمینوں کی فہرست میں شامل ہوچکے، اظہرعلی بھی بڑی اننگز نہ کھیلنے کے سبب دباؤ کا شکار ہیں، ٹیل اینڈرز وکٹ پر قیام بھول چکے، مجموعی طور بیٹنگ کی کارکردگی میں تسلسل نظر نہیں آتا، ٹیم میں لیفٹ آرم بولرز کی بھرمار ہے لیکن اہم مواقع پر ان کی صلاحیتیں بیکار ہوجاتی ہیں۔
ایمز ٹی وی (ماسکو) امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سابق اہلکارایڈورڈ اسنوڈن نے دعویٰ کیا ہے کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن زندہ ہیں۔
روسی اخبار کو انٹرویو کے دوران سابق امریکی سی آئی اے اہلکار ایورڈ اسنوڈن نے تہلکہ خیرانکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ اسامہ بن لادن ہلاک نہیں بلکہ زندہ ہیں اور اس وقت تک وہ سی آئی اے کے تنخواہ دار ہیں جنہیں ماہانہ ایک لاکھ ڈالر سے زائد رقم ادا کی جاتی ہے۔ اسنوڈن نے بتایا کہ میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں لیکن 2013 تک وہ بحراقیانوس میں جزیرہ بہاماز کے ایک گھر میں اپنی 5 بیویوں اور کئی بچوں کے ہمراہ قیام پذیر تھے۔
ایورڈ اسنوڈن کا کہنا تھا کہ سی آئی اے کی جانب سے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا ڈرامہ رچایا گیا لیکن درحقیقت انہیں اہلخانہ سمیت جزیرہ بہاماز کے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا جب کہ اس حوالے سے ان کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں اور اس پر وہ کتاب بھی لکھیں گے۔ سابق سی آئی اے اہلکار کا کہنا تھا کہ ہر شخص صرف یہی جانتا ہے کہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کردیا گیا لیکن اسے کسی نے نہیں دیکھا اس لئے ایسے شخص کی داڑھی منڈوا کر اور کپڑے تبدیل کرکے چھپانا آسان ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ ایڈورڈ اسنوڈن امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کا سابق اہلکارہے جو سی آئی اے کے راز افشا کرکے امریکا سے فرار ہوا اور ان دنوں روس میں پناہ لئے ہوئے ہے۔
ایمزٹی وی (تعلیم) فیصل آباد میں بھی آج تمام سرکاری اسکول اور بیشتر نجی اسکول چھ روز کی چھٹیوں کے بعد دوبارہ کھل گئے ہیں. تاہم بڑے نجی تعلیمی ادارے آج بھی بند رکھے گئے ہیں۔ حکومتی اعلان کے مطابق فیصل آباد میں بھی تمام سرکاری اسکول آج کھول دئیے گئے ہیں۔ پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشنز کے فیصلے کے مطابق اکثر نجی اسکول بھی کھول دئیے گئے ہیں، تاہم اے اور اے پلس کیٹیگری کے نجی تعلیمی ادارے آج بھی بند ہیں۔ ان اسکولوں کی انتظامیہ کی جانب سے والدین کو گذشتہ روز ہی ایس ایم ایس بھیج دیا گیا تھا کہ سوموار کو بھی اسکول بند رہیں گے۔ بچے علم کی جستجو لئے اسکولوں میں پہنچے اور تعلیم کا سفر جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ بچوں کو اسکول چھوڑنے آنے والے والدین نے بھی اطمینان کا اظہار کیا۔
ایمز ٹی وی (لندن) برطانیہ میں آبادی کے بارے میں جاری نئے اعداد وشمار کے مطابق پہلی مرتبہ برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی 30 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔
آفس آف دی نیشنل اسٹیٹسٹکس ( اواین ایس) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے برطانوی دارالحکومت لندن کے بعض علاقوں کی آبادی نصف سے زائد مسلمانوں پرمشتمل ہے اوراگلے 10 برس میں برطانیہ کے بعض علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی اوران کی آبادی تمام مذاہب اورپس منظررکھنے والےافراد سے تجاوز کرجائے گی۔ اواین ایس کے مطابق بلیک برن میں 29 فیصد، سلو میں 26 فیصد، لیوٹن میں 25 فیصد، برمنگھم میں 23 فیصد، لیسیٹرمیں 20 فیصد اور مانچسٹرمیں 18 فیصد مسلمان بستے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں رہنے والے نصف سے زائد مسلمان بیرون ملک پیدا ہوئے ہیں جب کہ دس سال سے کم عمرکے مسلمانوں کی آبادی برطانیہ میں رہنے والے تمام مذاہب اور قومیتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے اور ان کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ برطانیہ میں 30 لاکھ مسلمانوں کا مطلب یہ ہے کہ 20 میں سے ایک شخص مسلمان ہے۔ اس کے بعد برطانیہ کی سماجی شناخت پر ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے اور کئی حلقوں سے زور دیا جارہا ہے کہ وہ برطانوی معاشرے اور ماحول سے اجنبیت دورکریں اور سماج میں جذب ہونے کی کوشش کریں۔
برطانیہ میں تارکین وطن پرنظررکھنے والے اور سابق سفارتکار لارڈ گرین نے کہا ہے کہ ’ یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ بڑے پیمانے پربرطانیہ میں لوگ آرہے ہیں جو ہمارے معاشرے کو تیزی سے بدل رہے ہیں۔ انہوں نے برطانوی وزیرداخلہ کی اس بات سے بھی اتفاق کیا ہے کہ اس طرح برطانوی آبادی میں (مسلمانوں کی) سماجی ہم آہنگی کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ دیگر حلقوں نے کہا ہے کہ مغربی یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور دیگر خطوں سے مسلمان بڑی تعداد برطانیہ کا رخ کررہے ہیں۔
برطانیہ میں تجزیہ کاروں نے معاشرے میں مسلمان آبادی کے جذب ہونے پر زور دیا ہے اس کے علاوہ برطانوی مسلمانوں کو ایک بند برادری سے تعبیر کیا ہے۔
ایمز ٹی وی (برسلز) یورپ میں اسلام کے پھیلاؤ کے خوف سے یورپ کے 14 ممالک میں 6 فروری کو اسلام مخالف مظاہروں کا اعلان کر دیا گیا۔
یورپ میں تیزی سے پھیلتے ہوئے اسلام کے خوف سے انتہا پسند تنظیموں نے جمہوریہ چیک، ایسٹونیا، فن لینڈ، جرمنی، پولینڈ، سلوواکیا اور سوئٹزرلینڈ سمیت یورپ کے 14 ممالک میں ریلیاں نکالی جائیں گی۔ مظاہروں کا انعقاد غیر ملکیوں کی یورپ آمد کے مخالف جرمن گروپ پیجیڈا نے کیا۔ یہ تنظیم اپنا تعارف ان یورپی شہریوں کے طور پر کراتی ہے کہ جو مغرب کی اسلامائزیشن کے خلاف ہیں، پیجیڈا کے تاتیانہ فیسٹرلنگ نے یہ اعلان اپنی ہم خیال تنظیموں سے ایک اجلاس کے بعد یورپ بھر میں ان اسلام مخالف مظاہروں کا اعلان کیا۔
اس کا کہنا تھا کہ یورپ کی اسلامائزیشن کے خلاف جنگ ہمارا مشترکہ ہدف ہے، جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ کے قریب ہونیوالے اجلاس کا انعقاد چیک گروپ ’’اسلام مخالف بلاک‘‘ کی جانب سے کیا گیا تھا جس کے رہنما مارٹن کونوسکا نے یورپ کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کواحمقانہ اور خودکشی قرار دیا گیا۔