اتوار, 28 اپریل 2024

سندھ کے ایک اور تعلیمی بورڈ میں مستقل چیئرمین کے تقرر کے بجائے تاحکم ثانی پرانے چیئرمین کا ہی تقرر کردیا گیا ہے اور اس حوالے سےگزشتہ ماہ مدت مکمل کرنے والے میرپورخاص بورڈ کے چیئرمین برکات حیدری کی مدت ملازمت میں تاحکم ثانی توسیع کردی گئی ہے جس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔

اس طرح اب سندھ کے سات تعلیمی بوڑڈز میں غیر مستقل چیئرمین کام کررہے ہیں جن میں میٹرک بورڈ کراچی، انٹر بورڈ کراچی، سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن، سکھر تعلیمی بورڈ، لاڑکانہ تعلیمی بورڈ، نوابشاہ تعلیمی بورڈ اور میرپورخاص تعلیمی بورڈ شامل ہیں۔ ان ساتوں تعلیمی بورڈز کے چیئرمین کے عہدوں کے لئے انٹرویوز مارچ کے پہلے ہفتے میں تلاش کمیٹی نے لے لئے تھے اور سیکرٹری بورڈز و جامعات نے حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر سمری تیار کر کے وزیر اعلیٰ سندھ کو بھیج دی تھی۔

یہ سمری مشیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری سندھ کو توسط سے جانی تھی جو ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ سندھ تک نہیں پہنچی ہے اور صوبائی مشیر نثار کھوڑو کے دفتر میں رکی ہوئی ہے، ذرائع کے مطابق مشیر نثار کھوڑو کو سمری پر اعتراضات ہیں مگر یہ سمری اعتراض دور کرنے کے لئے واپس بھی نہیں بھیجی گئی ہے جس کی وجہ سے میرپورخاص میں برکات حیدری کی مدت میں تاحکم ثانی توسیع کردی گئی۔

توسیع کے معاملے میں بھی امتیاز برتا گیا۔ برکات حیدری کی دوسری مدت ایک سال کے لئے بڑھائی گئی تھی جبکہ حیدرآباد کے چیئرمین ڈاکٹر محمد میمن کے مستعفی ہونے کے باوجود ان کو دوسری مدت تین سال کے لئے دے دی گئی تھی جو تاحال مکمل نہیں ہوئی ہے۔

سیکریٹری کالج ایجوکیشن بنتے ہی باقر عباس نقوی نے اپنے عمل سے سندھ کے کالج اساتذہ کے دل جیت لیے۔ سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسو سی ایشن کے مرکزی صدر پروفیسر سید علی مرتضیٰ، پروفیسر شاہجہاں پنھور، پروفیسر کریم ناریجو، پروفیسر  اصغر شاہ، پروفیسر منور عباس، پروفیسر الطاف میمن، پروفیسر ڈاکٹر شکیل، پروفیسر غلام روسول لاکھو، پروفیسر مشتاق پھلپوٹہ، پروفیسرامیر علی لاشاری،پروفیسرنازیہ سولنگی، پروفیسر عارف یونس، پروفیسرعبدالمنان بروہی، پروفیسرآصف منیر، پروفیسر سعید فاطمہ، پروفیسرعدیل معراج،پروفیسرحسن میر بحر، پروفیسر عزیز میمن، پروفیسرعبدالمجید ٹانوری و دیگر نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے بہت سے کالج اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ رٹائر ہوا ہے جس کے سبب ان کی تنخواہ بند ہوگئی جبکہ دفاتر کے بند ہونے کے سبب ریٹائرمنٹ کے کاغذات بھی نہیں بن پائے تھے اس سبب وہ بے حد پریشان تھے جس کی اطلاع باقر عباس نقوی سیکریٹری کالج ایجوکیشن کو دی گئی، جس پرانہوں نے پہلے ہی روز ان تمام ریٹائرڈ اساتذہ سمیت دیگر ملازمین کے کاغذات کو تین دنوں میں مکمل کرنے کے احکامات جاری کر دیے جس سے سندھ بھر کے اساتذہ اور بالخصوص متاثرین بے حد خوش ہوئے ہیں۔

 سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسو سی ایشن کے رہنماؤں نے مزیدکہا کہ چھ ماہ پہلے لیکچررز کی ہونے والی ڈی پی سی کا نوٹیفکیشن تا حال جاری نہیں ہو پایا ہے جس کے سبب پندرہ سال سے ترقی کے منتظر لیکچررز میں کافی مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔

 سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسو سی ایشن کے رہنماؤں کا مزید کہنا تھا کہ اس صوبے کے طلبہ بالخصوص سرکاری کالج کے طلبا و طالبات مہنگی انٹر نیٹ کے سبب یوٹیوب کی سہولیات سے استفادہ نہیں کر سکتے جبکہ والدین یوٹیوب کے حوالے سے تحفظات کا بھی شکار ہیں اس سلسلے میں سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسو سی ایشن کے رہنماؤں نے صوبائی وزیرِ تعلیم سعید غنی اور سیکریٹری کالج ایجوکیشن سید باقر عباس نقوی سے اپیل کی کہ وہ کالج طلبہ کی سہولت اور والدین کے ذہنی اطمنان کی خاطر یوٹیوب کے علاوہ دیگر طریقوں،آن لائن کلاسز یا کیبل آپریٹرز کے تعاون سے سندھ کالج کیبل ٹی وی چینل کا اجرا کیا جاسکتا ہے جس کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر چھ سے سات گھنٹے مختلف مضامین کے لیکچرز دکھائے جا سکتے ہیں ا س سلسلے میں سندھ بھر کے کالج اساتذہ بھرپور تعاون کرنے کو تیار ہیں۔

 

پنجاب میں آرگینک طریقے سے گلوٹن فری گندم کی کاشت کا تجربہ کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں پیداوار میں بھی 35 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
لاہورکے سرحدی علاقے ایچوگل کے قریب 22 ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی گئی تھی، گیارہ ایکڑ رقبے پرعام طریقے سے گندم کاشت ہوئی جب کہ 11 ایکڑ پر آرگینک طریقہ کار استعمال کیا گیا۔

گلوٹن فری گندم کی کاشت کا تجربہ سابق وائس آرمی چیف جنرل یوسف خان کے فارم ہاوس پر کیا گیا ہے، اس فارمولے کے استعمال سے ناصرف گندم کے سٹے زیادہ بڑے پیدا ہوئے بلکہ پیداوار بھی دوسری فصل کے مقابلے میں 6 من فی ایکڑ تک زیادہ آئی ہے، آرگینک پروٹوکول استعمال کرنے والوں کا دعوی ہے کہ یہ گلوٹن فری گندم ہے جوعام گندم کے مقابلے میں زیادہ مفید اورمہنگی ہے۔
پاک بحریہ کے سابق کمانڈر اور زرعی ماہر محمد رفیق کہتے ہیں کہ اچھی فصل اور پیداوار کے لئے اچھے بیج کے ساتھ ساتھ اچھی اور زرخیززمین کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ہمارے یہاں عام طور پر زمین کی پانچ، چھ انچ اوپرکی سطح پر ہل چلا کر بار بار فصل کاشت کی جاتی ہے اور کھادوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے زمین کی اوپری سطح کی زرخیزی کم ہوتی جاتی ہے۔

آرگینک لکویڈ پروٹوکول کی وجہ سے زمین کی زرخیزی بڑھ جاتی ہے،ایک ایکڑمیں ہم 2 لیٹر آرگینک لکویڈ پروٹوکول استعمال کرتے ہیں۔ یہ لکویڈ زمین میں کینچوے پیدا کرتا ہے جو ناصرف زمین کی زرخیزی بڑھاتے بلکہ زمین کی نچلی سطح کو نرم کردیتے ہیں، اسی طرح یہ لکویڈ پروٹوکول پودے کی غذائی ضروریات پورا کرتا ہے۔ ہم نے گندم کے کھیت کو 2 مرتبہ پانی دیا جس میں آرگینک لکویڈ پروٹوکول شامل کیا گیا جبکہ ایک بار اس کا اسپرے کیا گیاتھا، اب اس کا فرق صاف دیکھا جاسکتا ہے۔
آرگینک لکویڈ پروٹوکول تیارکرنے والے ادارے کے نمائندے مقصود احمد نے بتایا کہ ہم گزشتہ پندرہ سال سے مختلف فصلوں ،باغات اورنرسریوں میں اس پروٹوکول کواستعمال کررہے ہیں، یہ فارمول اکمرشل بنیادوں پر تیار نہیں کررہے ، جو بھی کاشتکار اسے اپنی فصلوں کے لئے استعمال کرنا چاہے ہم خود یہ سروسز فراہم کرتے ہیں۔ لاہور میں جس گندم میں یہ پروٹوکول استعمال ہوا ہے یہاں ہمیں ایک ماہ کی تاخیرہوگئی تھی، اس کے باوجود عام فصل کے مقابلے میں ہماری پیداوار زیادہ آئی ہے، گندم کا دانہ زیادہ بڑا ہے۔
دوسری طرف پی سی ایس آئی آر کی رپورٹ کے مطابق آرگینک فارمولے سے تیارکی گئی گندم مکمل طور پر گلوٹن فری نہیں ہے تاہم اس میں گلوٹن کی مقدار عام گندم کے مقابلے میں کم ہے اور یہ مقدار انسانی صحت کے لئے نقصان دہ نہیں ہے، عام گندم میں گلوٹن کی مقدار 12.82 فیصد ہوتی جس سے بعض افراد میں انتڑیوں کی بیماری پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
مقامی کاشتکاروں نے بتایا کہ لاہور اوراس کے قریبی علاقوں میں گندم کی فی ایکڑاوسط پیداوار 30 سے 35 من ہے تاہم جس رقبے پریہ فارمولہ استعمال ہوا ہے وہاں کی پیداوار زیادہ آئی ہے۔

دنیا بھر میں سائنسدان اس خطرناک وبا کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے ویکسین کی تیار کرنے کے لیے دن رات کوششیں کر رہے ہیں تاہم اب تک کوئی ایسی ویکسین ایجاد نہ ہوسکی جس سے وائرس مکمل طور پر ختم ہو سکے۔

کورونا وائرس کی علامات سے متعلق بھی آئے روز تحقیق کی جا رہی ہیں، عالمی وبا کی عام علامات تو کھانسی، نزلہ اور بخار ہیں لیکن سائنسدانوں کی جانب سےمزید تحقیق کر کے نئے نئے انکشافات کیے جارہے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق کورونا وائرس انسان کے دیگر جسمانی اعضاء کی نسبت آنکھ میں طویل عرصے تک زندہ رہ سکتا ہے۔

کورونا وائرس سے متاثرہ خاتون میں وائرس کی علامت ظاہر ہونے کے بعد 21 دن تک اس کی آنکھوں میں وائرس موجود تھا۔ محققین نے بتایا کہ چین کی 65 سالہ خاتون میں کووڈ-19 کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں لیکن ان میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی اور متاثرہ خاتون کی آنکھوں میں 21 دن تک وائرس موجود تھا۔

اینلز آف انٹرنل میڈیسن میں شائع ہونےوالی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس انسان کی آنکھوں میں دیر تک زندہ رہ سکتا ہے جس سے اس بات کی اہمیت کا انداز ہوتا ہے کہ وائرس آنکھ میں ہاتھ لگانے سے بھی پھیل سکتا ہے

جامعہ این ای ڈی کے تحت  192ویں سنڈیکیٹ اجلاس کا انعقاد وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کی صدارت ہوا، جس میں گزشتہ اجلاس کی سفارشات کی منظوری سمیت تعلیمی اورانتظامی اُمورکا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

سنڈیکیٹ اجلاس میں نئی داخلہ پالیسی کی منظوری دی گئی جس کے تحت میرٹ لسٹ کی تیاری میں پچاس فی صد حصہ ٹیسٹ کے نمبرز کا ہوگا، بقیہ پچاس فی صد فرسٹ ائیر کا میرٹ ہوگا جب کہ طالبِ علم کا سیکنڈ ائیر میں پاس ہونا اور کم سے کم 60 فی صد مارکس حاصل کرنا بھی لازمی ہے۔

اسی طرح اے لیول کے طالب علموں کے لیے بھی پچاس فی صد ٹیسٹ کے مارکس اور پچاس فی صد او لیول کا میرٹ ہوگا۔ اس اجلاس میں نئی داخلہ پالیسی کے تحت ضیاء الدین بورڈ کی 18 سیٹیں مختص کی گئی ہیں۔

جامعہ ترجمان کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر مشاہد حسین کو آٹو موٹو انجینئرنگ، پروفیسر ڈاکٹرعلی رضا جعفری کو بائیو میڈیکل انجینئرنگ، پروفیسر ڈاکٹر عدنان قادر کواربن اینڈانفرااسٹکچر انجینئرنگ جب کہ پروفیسر ڈاکٹر مقصود احمد خان کو شعبہ انڈسٹریل مینوفیکچرنگ کے چیئرمین کی حیثیت سے اپائمنٹ کیا گیاسنڈیکیٹ اجلاس میں صاحبزادہ فاروق احمد رفیقی کو پروفیسر آف اماریٹس کر عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔

دوسری جانب اسپیشل سلیکشن بورڈ فار میریٹوریس پروفیسر کے لیے دو ناموں پروفیسر ڈاکٹر محمد طفیل اور پروفیسر ڈاکٹر سعد قاضی کی منظوری دی گئی۔ اس اجلاس میں سالانہ کارکردگی رپورٹ اور بجٹ تجاویزسینٹ کی منظوری کے لیے سفارش کی گئی۔ فنانس پلاننگ کمیٹی کے لیے ڈاکٹر رضا علی خان کو مقررکیا گیا جب کہ طارق حسین، ایگزیکٹو ڈائریکٹر /ایچ اوڈی ڈیمسل کنسلٹنٹ پرسن آف ایمننس فار فنانس پلاننگ کمیٹی نامزد کیا گیا۔

اجلاس میں پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد طفیل، سیکریٹری سنڈیکیٹ او رجسٹرارسید غضنفر حسین،چیئرمین چارٹر انسپکشن اینڈ ایولیشن کمیٹی ڈاکٹر عبدالقدیر خان راجپوت،ایچ ای سی سندھ سے پروفیسر ڈاکٹر اے کیو مغل،یونی ورسیٹز اینڈ بورڈزڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ آف سندھ کے سیکریٹری ڈاکٹر محمد ریاض الدین،نمائندہ چیف منسٹر فرحت عادل اورڈپٹی رجسٹرارخالد مخدوم ہاشمی موجود تھے جب کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد رضا مہدی پرنسپل تھر انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، نمائندہ چیف منسٹر مس ایوا کاؤسجی، پنجوانی فاؤنڈیشن اینڈ ٹرسٹ کی چیئر پرسن مسز نادرہ پنجوانی، نمائندہ چیف منسٹرمسز نائلہ ملک، چیف ایگزیکٹو آفیسر کراچی ٹول ڈائس اینڈ مولڈز سینٹرزمنصور احمد،ڈائریکٹر ایڈیشنل سکریٹری انفارمیشن، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ نیاز احمد لغاری،گورنمنٹ آف سندھ،ڈین فیکلٹی آف آرکیٹکچر اینڈ مینجمنٹ سائنسز پرفیسر ڈاکٹر نعمان احمد، ڈائریکٹر کیو ای سی پروفیسر ڈاکٹر آصف احمد شیخ،چیئرمین ڈیپارٹمنٹ الیکٹرونک انجینئرنگ پروفیسر ڈاکٹر محمد عثمان علی شاہ، شعبہ مکینکل کے پروفیسرڈاکٹر مبشر علی صدیقی، چیئرمین شعبہ اکنامکس اینڈمینجمنٹ سائنسز،کنٹرولرایگزامینیشن اسٹنٹ پروفیسرصفی احمد ذکائی، ڈائریکٹر آئی ٹی محمد اسد عارفین نے آن لائن شرکت کی۔

 

 

حکومت سندھ نے جامعہ کراچی میں کورونا وائرس ٹیسٹ کے لیے  لیبارٹری قائم کردی ہے۔

حکومت سندھ کے ترجمان بیرسٹر مرتضی وہاب نے  ٹوئٹ کے ذریعے بتایا کہ سندھ حکومت نے جامعہ کراچی کے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیوجیکل ریسرچ سینٹر میں کووڈ 19 لیبارٹری قائم کردی ہے۔

مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ اس لیبارٹری میں ایک دن میں 800 کورونا ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت موجود ہے جو آج سے ہی فعال ہوچکی ہے۔

واضح رہے کہ ملک میں کورونا کیسز کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، اب تک متاثرین کی مجموعی تعداد 10 ہزار 513 ہوچکی ہے، جس میں سے 3373 کا تعلق سندھ سے ہے جب کہ صوبے میں اب تک 69 مریض بھی انتقال کر چکے ہیں۔

 

 

دنیا بھر کی جامعات کی درجہ بندی کرنے والے ٹائمز ہائیر ایجوکیشن نے بدھ کو جامعات کی عالمی امپیکٹ درجہ بندی جاری کردی ہے جس میں پاکستان کی 23 جامعات جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

جن میں کراچی کی پانچ جامعات بھی شامل ہیں ان میں جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی پہلی مرتبہ شامل کی گئی ہے ۔ ٹائمز ہائیر ایجوکیشن سپلیمنٹ نے سال 2020 کی درجہ بندی جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ جامعات کو اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف سے منسلک کردار ادا کرنے پر جانچا گیا۔

اس درجہ بندی میں سندھ کی جو جامعات شامل ہوئی ہیں ان میں اقراء یونیورسٹی، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی، ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی، این ای ڈی یونیورسٹی اور داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان بھر سے 18اور جامعات بھی اس سال امپیکٹ درجہ بندی کا حصہ بنی ہیں۔

جامعات کی درجہ بندی میں اس مرتبہ نیوزی لینڈ اور اسٹریلیا کی جامعات نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کے مطابق پہلے نمبر پر آک لینڈ یونیورسٹی، دوسرے پر سڈنی یونیورسٹی، تیسرے پر ویسٹرن سڈنی یونیورسٹی، چوتھے پر لا ٹروب یونیورسٹی، پانچویں پر ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی جبکہ برٹش کولمبیا یونیورسٹی، مانچسٹر یونیورسٹی اور کنگز کالج لندن بھی ٹاپ دس میں شامل ہیں۔

پاکستان کو جو جامعات امپیکٹ درجہ بندی میں شامل ہوئی ہیں ان میں یونیورسٹی اوف ویٹرینری اور اینیمل سائنسز لاہور، کومسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد، نسٹ، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی، غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ اوف انجینئرنگ،کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی، لاہور یونیورسٹی، مالاکنڈ یونیورسٹی، یونیورسٹی اف مینیجمینٹ اینڈ ٹیکنالوجی، پشاور یونیورسٹی، پی ایم اے ایس اور ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی راولپنڈی، سیکوز یونیورسٹی اوف آئ ٹی اینڈ ایمرجنگ سائنسز، داود انجینئرنگ یونیورسٹی، ڈاو میڈیکل یونیورسٹی، یونیورسٹی اف ایجوکیشن لاہور، یونیورسٹی اف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، اقراء یونیورسٹی، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی، قائد اعظم یونیورسٹی، سرگودھا یونیورسٹی اور خواتین یونیورسٹی ملتان شامل ہیں۔

 جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر طارق رفیع نے کہا ہے کہ ٹائمز کی درجہ بندی میں شامل ہونا جامعہ کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے جس سے فیکلٹی اور اسٹاف کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔

انہوں نے کہا کہ یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جامعہ کی کارکردگی صحیح رخ پر ہے اور اپنی ترقی کو دستاویزی شکل میں محفوظ کر رہی ہے۔ آئندہ آنے والے سالوں میں یونیورسٹی اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنائے گی۔

انہوں نے کیو ای سی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر واحد عثمانی اور ثریا خاتون کویہ سنگ میل عبور کرنے پر مبارکباد پیش کی اور ان کی محنت اور لگن کو سراہا۔

وائس چانسلر داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی ڈاکٹر فیض اللہ عباسی نے کہا کہ داؤد یونیورسٹی ایک خاندان پر مشتمل ہے جہاں انتظامیہ ، فیکلٹی اور طلباء سب مل کر یونیورسٹی کی ترقی کیلئے کام کررہے ہیں۔ انتھک جدوجہد اور بہترین پالیسیوں کی بدولت ہم نے اہم سنگ میل عبور کرلیا ہے۔

2013ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے بعد ہم نے اپنے سفر کا آغاز اس عزم کے ساتھ کیا تھا کہ ہم مل کر سب کچھ کرسکتے ہیں اور اب 2020ء میں ہم فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے کردکھایا اور یہ ترقی کا محض آغاز ہے ۔ انہوں نے جامعہ کے تمام افراد کو مبارکبار پیش کرتے ہوئے کوالٹی انہاسمنٹ سیل کی کارکردگی کو سراہا۔

 

 

میٹرک اور انٹر امتحانات کیلئے جامع اور یکساں ایس او پیز وضع کی جائیں، آن لائن تعلیم نےعدم مساوات کو فروغ دیا ہے اور امیر و غریب طلباء کے مابین تعلیمی خلاء کو وسیع کردیا ہے۔ یہ تجاویز سندھ کے ایک تعلیمی بورڈ کے چیئرمین نے تیار کیں جو وہ وزیر تعلیم کو بھیجنا جارہے تھے۔

انہوں نے کورونا وائرس کی تباہ کاری اور پاکستان میں مئی اور جون میں اس کے ممکنہ پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر تجاویز دی ہیں کہ میٹرک اور انٹر کے سالانہ امتحانات کیلئے جامع اور یکساں ایس او پی وضع کی جائے کیوں کہ ملک بھر میں 50 لاکھ سے زائد طلبہ میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں شریک ہوں گے جس کیلئے ضروری ہوگا کہ50 لاکھ بچوں ساتھ آنے والے والدین کی اضافی نقل و حرکت سے بھی بچا جا سکے، اس کیلئے امتحانی مراکز قریبی یا اسی اسکول / کالج / انسٹیٹیوٹ یا کھلی جگہ میں قائم کئے جائیں اور ایک ادارے کے اساتذہ کو دوسرے قریبی ادارے میں امتحان لینے کی زمہ داری دی جائے اس طرح تین لاکھ سے کم اساتذہ امتحانی امور انجام دے سکیں گے۔

امتحانی مرکز میں اور امیدواروں کے درمیان اور آس پاس امتحان ہال / کلاس روم کے اندر اور کم از کم 4 فٹ فاصلہ برقرار رکھا جائے جب کہ ہر امیدوار کا درجہ حرارت امتحانی مرکز کے داخلے والے مقام پر ناپا جائے اور انویجلیٹرزکی ایک ٹیم انٹری پوائنٹ پر امیدواروں کی نگرانی کرے۔

امیدواروں کو کھانسی ، گلے کی سوزش ، فلو ، درجہ حرارت یا کورونا کی علامت ظاہر کرنے والے دیگر عام امیدواروں سے الگ تھلگ کیا جائے ۔ اور ایسے مشکوک امیدواروں کے لئے الگ الگ نشست کا انتظام کیا جائے گا۔ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں آن لائن تعلیم ایک بہترین حل ہے ، تاہم اب بھی برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں تعلیم یافتہ یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ کورونا وائرس کے دوران آن لائن تعلیم نے امیر اور غریب طلباء کے مابین تعلیمی فاصلہ بڑھا دیا ہے۔

اس سال کے امتحانات اور تعلیمی سیشن خصوصا اسکول و کالج کورونا وائرس کی وجہ سے بہت بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

آن لائن تعلیم نے عدم مساوات کو فروغ دیا ہے اور امیر اور غریب طلباء کے مابین تعلیمی خلاء کو وسیع کردیا ہے۔ اس طرح تمام نوجوانوں کو یکساں مواقع فراہم کرنے کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ امتحان 2020ء کے انعقاد اور ملک میں اگلے اعلیٰ درجے کے امیدواروں کو فروغ دینے کے لئے یکساں ایس او پی تیار کی جائے۔

تجاویز میں کہا گیا ہے کہ دوران امتحانات ہر امیدوار خود ماسک اور پانی کی بوتل لے کر آئے گا جبکہ امتحانی سینٹر میں ہینڈ سینی ٹائزر کا اہتمام امتحانی بورڈ کے ذریعہ کیا جائے گا ۔

امتحان کی مدت 3 گھنٹے سے کم کرکےڈیڑھ گھنٹے کی جائے۔ کاغذی ڈھانچے کو تبدیل کیا جائے اور 100 ایم ایس کیو کا سوال ہر ایم سی کیو کے لئے 01نمبر کے ساتھ اور 10 مختصر جوابی سوال کے ساتھ ہر مختصر جوابی سوال کے لئے 05 نمبر کے ساتھ تیار کیا جائے ۔

تمام امتحانی بورڈ تک رسائی کے ساتھ ایم سی کیو کا ایک سینٹرلائزڈ سوالیہ بینک تیار کیا جائے اور ہر امتحان بورڈ اپنے کاغذ تیار کرنے کیلئے سوالات نکال سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تیز رفتار تشخیص اور ہر نتیجہ اور ہر امتحان بورڈ کو حکومت کے ذریعہ او ایم آر اور او سی آر تشخیصی سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر مہیا کیا جائے۔ چیئرمین بورڈ نے درجہ اول تا درجہ ہشتم کےبھی طلباء کو ترقی دینے، امتحانات لینے اور نتائج کے حوالے سے بھی تجاویز دیں ہیں۔

 

 کورونا کے باعث واٹس ایپ کے استعمال میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی ضمن میں فیس بک کی زیرِ ملکیت ایپ واٹس ایپ نے بھی اپنے ویڈیو کالنگ فیچر میں صارفین کی گنجائش بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔

اب واٹس ایپ کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ ویڈیو کالنگ کے دوران اب 8 لوگ ایک ساتھ بات کر سکیں گے۔

اس سے قبل واٹس ایپ پر صرف 4 صارفین ویڈیو کالنگ کے ذریعے ایک ساتھ جڑ سکتے تھے لیکن اب حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے واٹس ایپ نے صارفین کی گنجائش بڑھا کر 8 کردی ہے۔

واٹس ایپ کا یہ فیچر فی الحال بیٹا ورژن میں ہے جب کہ تمام تر صارفین تک اس فیچرکی رسائی میں کچھ وقت درکار ہے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں دفاتر اور تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے تمام تر لوگ آن لائن کلاسز اور گھروں میں رہ کر ہی دفاتر کا کام کر رہے ہیں۔

اپنے اپنے گھر میں رہ کر کام کرنے سے ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے کے لیے ویڈیو کالنگ کی ایپس اسکائپ اور زوم کے استعمال میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا کیونکہ ان ایپ کو استعمال کرکے متعدد صارفین ایک ساتھ ویڈیو کالنگ کر سکتے ہیں۔

ایک عرصے سے سائنسی تنظیموں اور اداروں نے بہت بڑی کمپیوٹیشنل قوت کے لیے پیرالل کمپیوٹنگ کی ایپ بنارکھی ہے جو ہزاروں یا لاکھوں کمپیوٹروں کے فالتو وقت میں اپنا کام کرتی ہیں اور یوں مجازی طور پر ایک وسیع کمپیوٹر نیٹ ورک وجود میں آتا ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ چند دنوں قبل پیش آیا جب طبی تحقیق کی ایک ایپ "فولڈنگ ایٹ ہوم" نے دنیا کے سب سے بڑے سپرکمپیوٹر کو جنم دیا۔
فولڈنگ ایٹ ہوم ایپ دنیا بھر کے لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ، کمپیوٹراوراسمارٹ فون میں انسٹال ہوکر اس وقت کام کرتی ہے جب ڈیوائس کچھ نہیں کررہا ہوتا۔ اس طرح لاکھوں کمپیوٹر جڑ کر ایک بڑی قوت بن جاتے ہیں اور حال ہی میں سات لاکھ نئی ایپ انسٹال ہونے کے بعد یہ دنیا کا سب سے قوت والا سپرکمپیوٹر بن گیا ہے جو لاکھوں ڈیوائسز میں تقسیم ہے۔
اس ایپ کے سربراہ گریگ بومین نے کہا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں ایپ کی انسٹالیش میں سات لاکھ لوگوں کا اضافہ ہوا ہے اور اس طرح ایک وقت میں 30 ہزار افراد یا ڈیوائس اس ایپ کو چلارہے ہیں۔ اس طرح کمپیوٹنگ قوت بڑھتے بڑھتے 2.4 ایکسا فلاپ تک جاپہنچی ہے جو مجموعی طور پر دنیا کے 500 طاقتور ترین سپر کمپیوٹر سے بھی زیادہ ہے۔
فولڈنگ ایٹ ہوم منصوبہ کئی برس قبل شروع کیا گیا تھا۔ اس میں انسانی جسم کے پیچیدہ پروٹین کی ترتیب، برتاؤ اور ان کے جڑنے اور الگ ہونے کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں اتنا زیادہ ڈیٹا استعمال ہوتا ہے کہ عام کمپیوٹر کے بس سے باہر ہے اور یوں تھوڑی تھوڑی کمپیوٹنگ قوت دنیا بھر کے کمپیوٹروں سے کشید کرکے کام لیا جارہا ہے۔
اس ایپ کو کورونا وائرس کی تحقیق کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے جس میں اے سی ای ٹو پروٹین کا مشاہدہ کیا جارہا ہے۔

Page 8 of 457