پیر, 07 اکتوبر 2024
Reporter SS

Reporter SS

کراچی: انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن( آئی بی اے) کراچی کو ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ماسٹر آف سائنس ان جرنلزم میں داخلوں سے روک دیا ہے۔
 
ذرائع کےمطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن نے آئی بی اے کے سینٹر فار ایکسیلنس ان جرنلزم(سی ای جے) کو پی ایچ ڈی اساتذہ نہ ہونے کے باعث ماسٹر آف سائنس انجرنلزم میں داخلے سے روک دیا ہے اور انھیں ہدایت کی ہے کہ وہ پی ایچ ڈی فیکلٹی ہونے تک داخلے نہ دیں جس کے بعد آئ بی اے نے جرنلزم میں داخلوں کا عمل روک دیا ہے۔
 
میڈیا نے آئی بی اے کراچی کی ترجمان نے تصدیق کی کہ آئ بی اے کراچی کے سینٹر فار ایکسیلنس ان جرنلزم(سی ای جے) نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایت پر پی ایچ ڈی اساتذہ نہ ہونے کے باعث ماسٹرز میں داخلوں کا عمل روک دیا ہے تاہم ایک پی ایچ ڈی استاد کی خدمت حاصل کی جاچکی ہے جب کہ دوسرے پی ایچ ڈی استاد کی خدمت ایک سے دو ماہ میں حاصل کرلی جائے گی جس کے بعد ایچ ای سی کی شرط پوری ہوجائے گی اور ہمیں داخلوں کی اجازت مل جائے گی انھوں نے کہا کہ ماسٹرز میں پہلے سے داخل شدہ طلبہ کے لئے تدریسی عمل جاری رہے گا۔
 
واضح رہے کہ سینٹر فار ایکسیلنس ان جرنلزم(سی ای جے) سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر عشرت حسین کے دور میں امریکی گرانٹ سے قائم ہوا تھا جس کا مقصد پاکستانیوں صحافیوں کو پیشہ وارانہ تربیت فراہم کرنا تھی تاہم تین سال قبل سی ای جے نے ماسٹرز پروگرام شروع کیا تھا۔
کراچی : ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جامعہ کراچی کے 4اور سندھ یونیورسٹی کے8تحقیقی جرنلز کو وائی (y) معیار کی درجہ بندی میں شامل کرلیا ہے جو سندھ کی دونوں بڑی سرکاری جامعات کے لئے اعزاز ہے، جامعہ کراچی نے یہ اعزاز ڈاکٹر خالد عراقی اور سندھ یونیورسٹی نے یہ اعزاز ڈاکٹر فتح برفت کی زیر قیادت حاصل کیا ہے
 
شیخ الجامعہ کاکہناہےکہ کامیابی مشترکہ محنت و تعاون کا نتیجہ ہے۔تفصیلات کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد کی جانب سے مختلف اداروں سے شائع ہونے والے تحقیقی جرنلز کی جاری کی گئی نئی فہرست میں جامعہ کراچی اور جامعہ سندھ کی آرٹس فیکلٹی، فیکلٹی آف اسلامک لرننگ، سوشل سائنسز فیکلٹی اور انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی فیکلٹی کے مختلف شعبوں سے جاری ہونے والے 4اور8تحقیقی جرنلز کو وائی درجہ بندی میں شامل کیا گیا ہے۔
 
جامعہ کراچی میں ڈین سوشل سائنسز اینڈ آرٹس پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کی زیر نگرانی شائع ہونے والے تحقیقی جرنلز میں شامل ہونے والے جرنلز میں پاکستان جرنل آف اپلائیڈ سوشل سائنسز، جرنل آف سوشل سائنسز اینڈ ہیومنٹیز جبکہ اسلامک لرننگ کی ڈین شہناز غازی کی زیر نگرانی احیاء العلوم اور جنرل آف اصول الدین وائی معیار میں شامل ہوئے ہیں۔
 
جامعہ سندھ میں ایریا اسٹڈی سینٹر فارایسٹ اینڈ ساؤتھ ایسٹ ایشیا سے شائع ہونے والا تحقیقی جرنل ’ایشیا پیسفک‘ (ایڈیٹر : ڈاکٹر مکیش کھٹوانی) فیکلٹی آف آرٹس کا تحقیقی جرنل’ارجا‘ (ایڈیٹر: ڈاکٹر غلام علی برڑو)پاکستان اسٹڈی سینٹر سے شائع ہونے والا تحقیقی جرنل ’گراس روٹس‘(ایڈیٹر: ڈاکٹر شجاع احمد مہیسر) فزیکل ایجوکیشن اینڈ اسپورٹس سائنسز سے شائع ہونے والا تحقیقی جرنل’دی شیلڈ‘ (ایڈیٹر: ڈاکٹر سونیہا اسلم) شعبہ سندھی سے شائع ہونے والا تحقیقی جرنل’کینجھر‘ (ایڈیٹر: ڈاکٹر اسحاق سمیجو) جینڈر اسٹڈیز سے شائع ہونے والاتحقیقی جرنل ’دی ومن‘(ایڈیٹر: ڈاکٹر مصباح بیبی قریشی) آئی آئی سی ٹی سے شائع ہونے والا تحقیقی جرنل’ یونیورسٹی آف سندھ جرنل آف انفارمیشن اینڈ کمیونیکشن ٹیکنالوجی‘ (ایڈیٹر: ڈاکٹر ذیشان بھٹی) اور پولیٹیکل سائنس سے شائع ہونے والا تحقیقی جرنل ’دی گورنمنٹ‘ (ایڈیٹر: ڈاکٹر کرن سمیع) شامل ہیں۔
 
شیخ الجامعہ سندھ پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد برفت اور جامعہ کراچی کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر خالد عراقی نے اپنی جامعات کے Uتحقیقی جرنلز کا Y کیٹیگری میں شامل ہونا اہم کامیابی قرار دیتے ہوئے فیکلٹیز کے ڈینز اور تحقیقی جرنلز کے ایڈیٹرز سمیت تمام ٹیم ممبران کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کامیابی مشترکہ محنت و تعاون کا نتیجہ ہے، یونیورسٹی کے تحقیقی معیار میں اضافہ ہوا ہے۔ وائس چانسلرز نے کہا ہے کہ اسی جذبے سے کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا اور مزید اہم کامیابیاں حاصل کی جائیں گی۔

 ملتان: نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مصطفیٰ کمال پاشا کورونا کے باعث انتقال کر گئے۔

ذرائع کے مطابق ملتان کی نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مصطفیٰ کمال پاشا گزشتہ ماہ کورونا کا شکار ہوئے تھے اور اسپتال میں زیر علاج تھے۔

طبی حکام کا کہنا ہے کہ 3 روز قبل ڈاکٹر مصطفیٰ کمال پاشا کو دوران علاج ہی سانس لینے میں شدید تکلیف ہوئی جس پر انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا۔ اس دوران ان کے پھیپھڑوں سے خون بہنا شروع ہوا اور بدھ کی علی الصبح خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 

وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے ڈاکٹر مصطفی کمال کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر مصطفی کمال پاشا کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں صفحہ اول کے سپاہی تھے، حکومت مصطفی کمال پاشا کی کورونا کے خلاف جنگ میں نمایاں خدمات کو سراہتی ہے، اللہ پاک مرحوم کے درجات بلند کرے اور اُن کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔

کراچی: پرائیویٹ اسکولز مینجمنٹ ایسو سی ایشن (پسما) کے وائس چیئرمین اسلام الحق ملک نے کہا ہے کہ اگر تعلیمی ادارے اسی طرح بند رہے تو اس کی وجہ سے ناخواندگی میں زبر دست اضافہ ہو جائےگا۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ ہر قسم کا کاروبار اور ادارے کھولے جا چکے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ اپنی ہٹ دھرمی ختم کرے اوراسکولوں کو ایس او پیز کے تحت کھولنے کی اجازت دے ۔

خطرہ ہے بچے حصول تعلیم سے مزید دور رہے تو کہیں جرائم پیشہ نہ بن جائیں۔ گزشتہ 5 ماہ سے اسکول بند ہیں، جس کی وجہ سے تعلیمی عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے ۔
اساتذہ اور عملے کے دیگر ارکان بے روزگاری کی وجہ سے انتہائی کسمپرسی کا شکار ہو گئے ہیں، کیوں کہ 30 فیصد سے زائد نجی اسکول مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔

اسلام الحق ملک نے کہا کہ سب سے زیادہ نواحی بستیوں میں قائم کم فیس لینے والے اسکول تباہی کا شکار ہو گئے ہیں۔

کورونا وائرس کی آڑ میں ملک کے اندر جہالت کے اندھیروں کو پھیلا دیا گیا ہے، معلوم نہیں کہ حکمرانوں نے تعلیم کی بربادی کے لیے کیا سوچ رکھا ہے۔

حکومتی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں ملک میں مزید ابتری آ جائے گی۔ نجی تعلیمی ادارے طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے علاوہ معیار تعلیم کو بلند کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

کراچی : انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈ منسٹریشن (آئی بی اے) کراچی نے کوویڈ 19 کے پھیلاؤ کے باعث انڈر گریجویٹ و پوسٹ گریجویٹ پروگراموں کے داخلوں کیلئے ٹیسٹ کا شیڈول متبادل معیار کے مطابق تبدیل کر دیا ہے۔

داخلہ ٹیسٹ 19اور 26جولائی2020کو ہوں گے ۔امیدواروں کو داخلہ کمیٹی کے ذریعے بیان کردہ معیارات کی بنیاد پر انٹرویو کے لئے شارٹ لسٹ کیا جائے گا ۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس اکبر زیدی نے بتایا کہ آئی بی اے کراچی نے کوویڈ19کے باعث درپیش چیلنجز سے کامیابی کے ساتھ نمٹا ہے ۔

کراچی: وفاقی اردو یونیورسٹی نے مالی بحران کے پیش نظر پنشن اور گریجویٹی کے کیسز کو روک دیا ہے جبکہ گزشتہ وائس چانسلرز کے ادوار میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا آڈٹ کرانے کیلئے صدر مملکت اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو خط بھی لکھ دیا گیا ہے۔

دوسری جانب جامعہ اردو نے جاب اورینٹڈ ڈپارٹمنٹ قائم کرنے پر غور شروع کر دیا ہے اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کے تحفظات کو دور کرتے ہوئے آئندہ 3ماہ میں جامعہ اردو کے اسلام آباد کیمپس کو نئی عمارت میں منتقل کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

جامعہ انتظامیہ نے کسی بڑی ڈاؤن سائزنگ کی نفی کرتے ہوئے کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے نوجوان ملازمین کو فارغ نہ کرنے کا اشارہ دیا ہے۔

وفاقی اردو یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر عارف زبیر نے گزشتہ وائس چانسلرز کے ادوار میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ادوار میں اتنی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں کہ بتائی نہیں جا سکتیں، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ،آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو خط لکھ کر آڈٹ کرانے کی درخواست کر دی گئی ہے ۔

جامعہ اردو کو درپیش مالی بحران کے پیش نظر پنشن ،گریجویٹی کے کیسز کو روک دیا گیا ہے، گزشتہ تین سال کے میڈیکل بلز کے 54لاکھ روپے التواکا شکار تھے ، ان بلز کو ہم فی الوقت جاری نہیں کر سکتے کیوں کہ اس سے تنخواہوں کی ادائیگی کا نظام متاثر ہونے کا اندیشہ ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ زائد العمر ملازمین کے مقابلے میں نوجوان ملازمین کو ترجیح دی جائے گی۔

کراچی : وفاقی اردو یونیورسٹی کے ترجمان نے یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر سے متعلق شائع ہونے والی خبروں کو حقائق کے منافی اور گمراہ کن قرار دےدیا۔ انکا کہنا ہے کہ وائس چانسلر سینیٹ کی ہدایات کی روشنی میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ یہ پروپیگنڈا ایسے افراد پھیلا رہے ہیں جوجامعہ میں گز شتہ کئی عرصے اقربا پروری، مالی بے ضابطگیوں سے  ناجائز ذرائع سے ترقیاں کرانے اور ناقابل فہم الاؤنسز کی مد میں خطیر رقم کی خورد برد میں ملوث رہے ہیں اور ان کے خلاف آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ میں متعدد پیرا تحریر کیے گئے ہیں جبکہ ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

 ترجمان نے مزید کہا کہ موجودہ انتظامیہ یونیورسٹی میں مالی و تعلیمی نظم و ضبط قائم کرنے کیلئے کسی بھی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے گی اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں نشاندہی کیے جانے والے افراد کے خلاف ضابطے کے مطابق کارر وائیاں جاری رکھے گی۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں تعلیمی، تحقیقی اور مالی استحکام پیدا کرنے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے مشکل اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ ترجمان نے کہا کہ یونیورسٹی میں مستقل شیخ الجامعہ کی تقرری کے لیے صدر مملکت اور یونیورسٹی کے چانسلر کی جانب سے سینیٹ کے 42 ویں اجلاس کی روداد کی منظوری دیے جانے کے بعد تلاش کمیٹی قائم ہو چکی ہے۔

مانیٹرنگ ڈیسک : حال ہی میں میوزک سننے کے شوقین افراد کی جانب سے ایک نئی مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس میں انکا مطالبہ ہے کہ 'اسپوٹیفائے' کو پاکستان میں جلد لانچ کیا جائے۔
 
جنوبی کوریائی گروپ (بی ٹی ایس) کے پرستاروں نےسوشل میڈیا پر اس مہم کا آغاز کیا ہے جنہیں 'اے آر ایم وائی' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
 
مائیکروبلاگنگ سائٹ ٹوئٹر کے پاکستان پینل پر  SpotifyInPakistan# ٹرینڈ کر رہا ہے۔
 
'اسپوٹیفائے (Spotify)' کیا ہے؟
 
اسپوٹیفائے ایک ڈیجیٹل میوزک اسٹریمنگ سروس ہے جو صارفین کو پوری دنیا کے فنکاروں کے لاکھوں گانوں، پوڈکاسٹ اور ویڈیوز تک رسائی فراہم کرتی ہے۔
 
میوزک اسٹریمنگ سروس اسپوٹیفائے اس وقت دنیا کے 70 سے زائد ممالک کے لوگ استعمال کر رہے ہیں جس میں بھارت سمیت متعدد ایشیائی ممالک بھی شامل ہیں تاہم یہ سروس اس وقت پاکستان میں دستیاب نہیں ہے۔
 
پاکستان میں 'اسپوٹیفائے' لانچ کرنے کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟
 
سوشل میڈیا پر اس وقت ہزاروں صارفین کی جانب سے پاکستان میں اسپوٹیفائے کو لانچ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
 
صارفین کا کہناہے کہ پاکستانی عوام موسیقی کے شعبے میں بہت ترقی کر رہی ہے اور اس طرح کا پلیٹ فارم موسیقی سے وابستہ لوگوں کے لیے بھی مددگار ثابت ہوگا۔
 
پاکستان میں 'اسپوٹیفائے' لانچ کرنے کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟
 
سوشل میڈیا پر اس وقت ہزاروں صارفین کی جانب سے پاکستان میں اسپوٹیفائے کو لانچ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
 
صارفین کا کہناہے کہ پاکستانی عوام موسیقی کے شعبے میں بہت ترقی کر رہی ہے اور اس طرح کا پلیٹ فارم موسیقی سے وابستہ لوگوں کے لیے بھی مددگار ثابت ہوگا۔
مانیٹرنگ ڈیسک: امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایمازون نے اپنے ملازمین کو موبائل سے ٹک ٹاک ایپ ہٹانے سے متعلق ای میل پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ای میل غلطی سے ہوگئ تھی۔
 
ایمازون نے ایک روز قبل اپنے ملازمین کو ای میل بھیجی دی تھی جس میں کہا گیا کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے وہ اپنے ان موبائل ڈیوائسز سے ویڈیو شیئرنگ چینی ایپ 'ٹک ٹاک' کو 10 جولائی تک ہٹا دیں جن پر وہ کمپنی کا ای میل اکاؤنٹ استعمال کرتے ہیں تاہم ٹک ٹاک کو بدستور ڈیسک ٹاپ پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
 
تاہم ایمازون نے ایک روز بعد ہی اپنا بیان بدلتے ہوئے اسے غلطی سے بھیجی گئی ای میل قرار دیا ہے۔
 
برطانوی نشریاتی اداے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایمازون کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ملازمین کو یہ ای میل غلطی سے بھیج دی گئی، ہماری پالیسی میں ٹک ٹاک کو لے کر فی الحال کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے‘۔
واضح رہے کہ ٹک ٹاک چینی ایپ پوری دنیا میں نوجوانوں میں مقبول ہے تاہم امریکا اور چین کے درمیان ہانگ کانگ اور کورونا وائرس کے حوالے سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث ٹک ٹاک پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
 
چینی ایپ سے متعلق کہا گیا تھا کہ یہ چین کو خفیہ ڈیٹا فراہم کرتی ہے۔
 
اس کے علاوہ گزشتہ ماہ چینی ایپ ٹک ٹاک سمیت 53 ایپس آئی فون صارفین کی حساس معلومات کی جاسوسی کر نے کا بھی انکشاف ہوا تھا۔
 
مذکورہ ایپس کی جانب سے جاسوسی کی جانے والی حساس معلومات میں صارفین کے پاسورڈز، کرپٹو کرنسی والٹ ایڈریس، اکاؤنٹ ری سیٹ لنکس اور ذاتی پیغامات شامل ہیں۔
 
اس صورتحال میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا ہم ٹک ٹاک سمیت دیگر چینی سوشل میڈیا ایپس پر پابندی لگانے پر غور کررہے ہیں۔
مانیٹرنگ ڈیسک : ٹک ٹاک دنیا کی مقبول ترین سوشل میڈیا ایپس میں سے ایک ہے جس میں روزانہ ہی لاتعداد ویڈیو اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔
 
اب کمپنی نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ وہ کس طرح اپنے صارفین کے مواد کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔
 
گزشتہ دنوں کمپنی کی جانب سے ٹرانسپیرنسی رپورٹ جاری کی گئی جس کے مطابق جولائی سے دسمبر 2019 کے دوران اس نے دنیا بھر میں 4 کروڑ 90 لاکھ سے زائد ویڈیو کو پالیسیوں کی خلاف ورزی پر ڈیلیٹ کیا۔
 
کمپنی کی جانب سے سب سے زیادہ ویڈیو بھارت میں ڈیلیٹ کی گئی جن کی تعداد ایک کروڑ 60 لاکھ سے زائد تھی، جس کے بعد امریکا دوسرے نمبر پر ہے جہاں یہ تعداد 46 لاکھ رہی۔
 
حیران کن طور پر پاکستان اس فہرست میں تیسرے نمبر پر موجود ہے جہاں ٹک ٹاک نے 37 لاکھ 28 ہزار سے زائد ویڈیوز ڈیلیٹ ہوئیں جبکہ برطانیہ میں 20 لاکھ اور روس میں 12 لاکھ ے زائد ویڈیوز کو صاف کیا گیا۔
 
کمپنی کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے اختتام پر مواد کے حوالے سے نیا نظام متعارف کرایا گیا تھا تاکہ اسے زیادہ شفاف اور رپورٹ ہونے والی ویڈیوز کو ڈیلیٹ کرنے کی وجوہات آسان بنائی جاسکیں۔
 
جب کوئی ویڈیو کمنی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اس پر پالیسی کی خلاف ورزی کا لیبل لگایا جاتا ہے اور پھر ہٹا دی جاتی ہے۔
 
صرف دسمبر کے مہینے میں 25 فیصد ے زائد ایسی ویڈیوز کو پلیٹ فارم سے ہٹایا گیا جو نامناسب مواد پر مبنی تھیں، 25 فیصد کے قریب ویڈیوز بچوں کے تحفظ کی پالیسیوں کی خلاف ورزی پر ہٹائی گئیں، جن میں نقصان دہ، خطرناک یا غیرقانونی مواد جیے منشیات یا الکحل کے استعمال کو دکھایا گیا تھا۔
 
غیرقانونی سرگرمیوں پر مبنی 21.5 فیصد مواد کو صاف کیا گیا جبکہ خودکشی، خود کو نقصان پہنچانے یا خطرناک والی 15.6 فیصد ویڈیوز کو ہٹایا گیا۔
 
8 فیصد ویڈیوز کو پرتشدد مواد کی وجہ سے ڈیلیٹ کیا گیا جبکہ 3 فیصد ہراساں اور بدزبانی پر مبنی مواد کی وجہ سے ہٹائی گئیں، ایک فیصد ویڈیوز نفرت انگیز مواد کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کا نتیجہ تھیں۔
 
گزشتہ سال کی آخری ششماہی کے دوران 26 ممالک کی جانب سے ٹک ٹاک کے صارفین کے ڈیٹا سے متعلق درخواستیں کی گئی جن میں سے ایک پاکستان کی جانب سے بھی کی گئی تھی۔
 
ویڈیوز ہٹانے کے لیے ٹک ٹاک کو 45 درخواستیں 10 ممالک سے موصول ہوئیں۔
 
کمپنی کا کہنا تھا 'آج کی ٹیکنالوجی اتنی ایڈوانسڈ نہیں کہ ہم پالیسیوں کے نفاذ کے لیے خود پر انحصار کرسکیں'۔
 
یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی جب بھارت میں قومی سلامتی کو جواز بناکر ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی جاچکی ہے جبکہ امریکا کی جانب سے بھی اس مقبول ایپ پر پابندی کا عندیہ دیا جارہا ہے۔