جمعرات, 10 اکتوبر 2024
Reporter SS

Reporter SS

کراچی: سی این جی ایسوسی ایشن نے سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے از خود فلنگ اسٹیشن کھول دیے۔

تفصیلات کے مطابق سی این جی ایسوسی ایشن،ایس ایس جی سی کے درمیان اسٹیشن کھولنےکاتنازع شدت اختیار کرگیا، ایس ایس جی کی نےگیس پریشر میں کمی کو جواز بناتے ہوئے سی این جی اسٹیشنز کی بندش کا دورانیہ ایک روز مزید بڑھا دیا تھا۔

ایس ایس جی سی کے ترجمان کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ گھریلو صارفین کو گیس کی مکمل فراہمی کے پیش نظر سندھ بھر کے سی این جی اسٹیشنز پر بدھ کی رات 8 بجے تک گیس کی فراہمی بند رہے گی۔ بعد ازاں اس بندش کو مزید  بڑھا دیا گیا تھا۔ جسے سی این جی ایسوسی ایشن نے مسترد کر کے اسٹیشن ازخود کھول دیے۔

ترجمان سی این جی ایسوسی ایشن کے مطابق ایس ایس جی سی نےآج اسٹیشن کھولنےکی ہدایت کی تھی، اسٹیشنز بند کرنے کے فیصلے سے بروقت آگاہ نہیں کیا گیا، اسٹیشن بند کرنے کے لیے ایس ایس جی سی نے 8بجکر20منٹ پرای امیل کی مگر اُس وقت تک اسٹیشنوں کے باہر سیکڑوں گاڑیاں لگ چکی تھیں۔

سی این جی ایسو سی ایشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کوسی این جی دیےبغیراسٹیشن بندکرنا ممکن نہیں ہے۔

سی این جی کی بندش کی وجہ سے شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی قلت کا سامنا ہے، شہر کی سڑکیں سرشام ہی خالی ہوگئیں جبکہ شاہراؤں پر اکا دکا عوامی ٹرانسپورٹ نظر آئی جن کی چھتوں پر بھی مسافر سوار تھے۔

لاہور: جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے والے باکمال شاعر "منیر نیازی" کی آج 13 ویں برسی منائی جارہی ہے منیر نیازی کے انتقال کو 13 برس بیت گئے مگر آج بھی وہ اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ و تابندہ ہیں۔
 
منیر نیازی 9 اپریل 1928 کو ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اردو اور پنجابی میں بہت خوبصورت شاعری کی، منیر نیازی کی شاعری اُن کے مشاہدے کی عکاس تھی، منیر نیازی کی شاعری جہاں روایتوں سے بغاوت کی عکاس ہے وہیں وہ حسنِ کائنات ، گھنیری زُلفوں اور جھیل جیسی آنکھوں کی تعریف میں بھی رطب اللسان رہے ۔اُنھوں نے بے شمار گیت، غزلیں اور نظمیں لکھیں۔
 
منیر نیازی بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے، منیر کا کلام کبھی کسی نظریہ کے زیرِ اثر نہیں رہا وہ خود نئی راہیں تلاشنے کے عادی تھے۔
 
پاکستان ٹیلی ویزن سے بھی اُن کا طویل تعلق رہا، ہجر و وصال کی ترجمانی کرتی اُن کی غزلوں کو بہت سے مایہ ناز گلوکاروں سے خوبصورت انداز میں پیش کیا۔
منیر نیازی کا تخلیقی سرمایہ 3پنجابی اور 13 اُردو مجموعوں پر محیط ہے ، منیر نیازی کا کلام آج بھی ادب کے طالبعلموں پر سوچ کی نئی راہیں وا کرتا ہے۔
 
منیر نیازی کی ادبی خدمات پر 1992 میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے اُن کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی دیا گیا اور 2005 میں حکومتِ پاکستان نے اُنھیں ستارہ امتیاز سے نوازا ۔
26 دسمبر 2006 کو لاہور میں منیر ملکِ عدم سدھار گئے اور آسمانِ ادب ایک درخشاں ستارے سے محروم ہو گیا۔
 
یہ جبرِ مرگِ مسلسل ہی زندگی ہے منیر جہاں میں اس پہ مگر اختیار کس کا تھا
 

مانیٹرنگ ڈیسک : سورج کو گرہن لگنے کا نظارہ مشرق وسطیٰ اور ایشیائی ممالک میں مکمل سورج گرہن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تاہم اس قدرتی عمل سے جڑے غیرمعمولی اور دلچسپ تصورات آج بھی مذاہب اور سائنس کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔

سال 2019 کے آخری سورج گرہن کو کرسمس ڈے ایکلپس بھی کہا جارہا ہے، صدیوں سے اس فلکیاتی عمل کے حوالے سے طرح طرح کے تصورات گڑھے گئے ہیں۔

ہندو مذہب نے اسے ’راہو‘ دیوی کی بلی سے تعبیر کیا تو قدیم چین کے باسی اسے دیومالائی ڈریگن کی چال قراردیتے تھے۔

کچھ توہمات آج بھی باقی ہیں، جن میں حاملہ خواتین پر اس کے مضر اثرات کا ہونا، گرہن کے اوقات میں بنائے گئے کھانے کا زہریلا ہوجانا، یا پھر کسی بڑی قدرتی آفت کا پیش خیمہ ہونا شامل ہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کی ویب سائٹ پر موجود مواد کے مطابق سائنس ان تمام تصورات کی نفی کرتی ہے، لیکن ایک حقیقت کی تصدیق بھی کرتی ہے، اور وہ ہے انسانی آنکھ سے براہ راست سورج گرہن دیکھنے کی صورت میں بینائی متاثر ہونا۔

جب چاند، سورج اور زمین کے بیچ آکر نصف یا اس سے زائد سورج کو ڈھانپ لے تو باقی حصے سے نکلنے والی تیز شعاعیں آنکھ کی پتلی کو شدید متاثر کرتی ہیں جس سے بینائی مستقل بھی جاسکتی ہے۔

اسی لیے دنیا بھر میں اس نظارے کو دیکھنے کے شوقین افراد مخصوص حفاظتی چشموں سے ہی اسے دیکھتے ہیں۔

خیال رہے کہ آج پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں سال کا آخری سورج گرہن دیکھا جارہا ہے۔

 

 

کراچی :  وفاقی وزیر برائے تعلیم و فنی تربیت شفقت محمود نے مارچ تک ملک میں ایک نصان نافذ کرنے کا اعلان کردیا۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کا دورہ کیا اور تقریب میں بھی شرکت کی۔

تقریب سے خطاب میں شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ہمارے جیسے ملک میں سیاست میں دلچسپی نہ لینا مشکل بات ہے،جو حالات ہیں ان کو دیکھتے ہوئے سیاسی معاملات میں توجہ دینی پڑتی ہے، ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم ایک آزاد ماحول میں سانس لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فیصلہ کیا کہ پاکستان میں یکساں تعلیم نظام لے کر آئیں گے اور ہم یکساں نصاب پر کام کر رہے ہیں، مارچ تک نصاب ایک ہوجائے گا۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان متعدد بار ملک میں ایک نصاب کے حوالے سے کہہ چکے ہیں۔ 

گزشتہ دنوں بھی ایک تقریب سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ملک میں ایک نصاب ضروری ہے تاکہ ہم ایک قوم بن سکیں.

 لاہور:اسٹیج، ٹی وی اور فلم کے معروف اداکار اشرف راہی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے

خاندانی ذرائع کے مطابق اشرف راہی  کو دل کا دورہ پڑنے کے باعث لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکے۔

خاندانی ذرائع کے مطابق اداکار اشرف راہی کی نماز جنازہ لال پل پنج پیر کے قریبی گراؤنڈ میں نماز ظہر کے بعد ادا کی جائے گی۔ مرحوم نے سوگواران میں تین بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔

اسٹیج، ٹی وی اور فلم اداکار اشرف راہی نے درجنوں اسٹیج ڈراموں، ٹی وی اور فلموٕں میں کام کیا اور وہ مزاح میں اپنا منفرد مقام رکھتے تھے۔

اشرف راہی نے اسٹیج ڈراموں شرطیہ مٹھے، مس رانگ کال، منڈے نا سمجھو، ماہی مینوں چھلا پوا دے کے علاوہ پنڈ دی کڑی اور مجاجن جیسی فلموں میں سائیڈ رول ادا کیے۔

اسلام آباد:  نیپرا نے بجلی کی قیمت میں ایک روپے 56 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی۔

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین توصیف ایچ فاروق کی صدارت میں سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔

 سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ اکتوبر کے مہینے میں پانی سے 25.48 فیصد، مقامی گیس سے 12.17 فیصد اور درآمدی ایل این جی سے 25.41 فیصد بجلی پیدا کی گئی، اس دوران ہائی اسپیڈ ڈیزل سے بجلی پیدا نہیں کی گئی، پاور سیکٹر کو 300 ایم ایم سی ایف ڈی طلب کے برعکس 150 ایم ایم سی ایف ڈی فراہم کی جارہی ہے، گیس نہ ملنے کے باعث فرنس آئل والے پلانٹس چلا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے بجلی کی پیداواری لاگت میں ایک روپے 73 پیسے فی یونٹ اضافہ ہوا۔
 
 نیپرا نے بجلی کے نرخ ایک روپے 73 پیسے کے بجائے ایک روپے 56 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی۔ قیمتوں میں حالیہ اضافے سے صارفین پر 14 ارب 50 کروڑروپے کا بوجھ پڑے گا۔ اس کا اطلاق کے الیکٹرک صارفین پر نہیں ہوگا۔

نیپرا حکام نے کہا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نقصانات کے حوالے سے کارکردگی بہتر ہوئی ہے، کے الیکڑک پلانٹ لگا رہا ہے مگر این ٹی ڈی سی بجلی کی ترسیل کامعاہدہ کرنے کو تیار نہیں، ہم ہر طرح سے صارفین کو دبارہے ہیں کہ سانس ہی نہ لے سکیں۔ جس پر صارفین نے 960 میگاواٹ کے سولر پینل لگالیے ہیں

مانیٹرنگ ڈیسک : دنیا بھر میں کیڑے مکوڑوں سے متاثر ہو کر روبوٹ بنانے کی دوڑ جاری ہے اب فرانس کے ماہرین نے روبوٹ مکھی بنائی ہے جس کا وزن صرف ایک گرام ہے اور یہ اپنے وزن سے پانچ گنا زائد وزن اٹھاسکتی ہے۔

اب اگر اسے آپ مکھی مارنے والی چھڑی سے کئی دفعہ پچکانے کی کوشش کریں تب بھی یہ دب کر دوبارہ کھڑی ہوجاتی ہے اور چلنے لگتی ہے۔ اسے ڈینسیکٹ DEAnsect کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں مصنوعی پٹھوں کی مدد سے تین ٹانگیں بنائی گئی ہیں جو ایک سیکنڈ میں 400 مرتبہ حرکت کرتی ہیں۔

DE-Ansect درحقیقت ’ڈائی الیکٹرک ایلاسٹومر ایکچوایٹرز‘ کا مخفف ہے جس پر بال سے باریک مصنوعی پٹھے لگے ہوئے ہیں جو ارتعاش سے مکھی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ روبوٹ مکھی اڑتی نہیں بلکہ یہ اونچے نیچے راستوں پر چلتی رہتی ہے۔ حیرت انگیز روبوٹ مکھی کا وزن ایک گرام سے بھی کم ہے لیکن یہ اپنے وزن سے پانچ گنا زائد بوجھ اٹھاسکتی ہے۔

کراچی: کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں سورج گرہن کا آغازہوگیا۔ کراچی میں سورج گرہن کے موقع پر شہر کی مساجد میں نماز کسوف کا اہتمام کیا گیا ہے، نماز کسوف کے دوران استغفار اورخصوصی دعائیں بھی کی جارہی ہیں۔

ملک بھرکی طرح راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی سورج گرہن کا آغاز ہوچکا ہے، اسلام آباد میں سورج کو 49 فیصد گرہن لگے گا۔ سورج گرہن 10 بج کر43 منٹ تک دیکھا جاسکے گا۔ اسلام آباد میں دھند کی وجہ سے شہری سورج گرہن کو دیکھ نہیں سکتے۔

اسلام آباد کے اکثرعلاقے شدید دھند کی لپیٹ میں ہیں دھند کی وجہ سے حدنگاہ متاثر ہورہی ہے جبکہ سردی کی شدت میں بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ پڈعیدن اور گردونواح میں بھی سورج گرہن کا اغاز ہوگیا جو ایک بجے تک جاری رہے گا۔

کراچی:جامعہ کراچی نے ایوننگ پروگرام میں داخلوں کے لئے فارم جمع کرانے کی تاریخ میں ایک دن کی توسیع کردی۔
 
انچارج ڈائریکٹوریٹ آف ایڈمیشنز جامعہ کراچی ڈاکٹر صائمہ اختر کے مطابق ایوننگ پروگرام میں بیچلرز/ ماسٹرز/ پوسٹ گریجویٹ پروگرامز، سرٹیفیکیٹ کورسز اورڈپلومہ پروگرام کے داخلے برائے سال 2020 ءکے لئے داخلہ فارم جمع کرانے کی تاریخ میں ایک دن کی توسیع کردی گئی ہے۔
 
خواہشمند طلبہ بروزجمعرات 26 دسمبر 2019 ءکواپنے داخلہ جمع کراسکتے ہیں۔ طلبہ تمام معلومات بمعہ آن لائن داخلہ فارم اور پراسپیکٹس کے حصول کے لئے www.uokadmission.edu.pk  پررابطہ کرسکتے ہیں،جہاں تمام معلومات موجودہیں

اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی عظیم شاعرہ پروین شاکر 14 نومبر1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔آپ نے انگلش لٹریچر اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1991 میں ہاورڈ یونیوسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی-

پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔انھوں نے بہت چھوٹی سی عمر میں شعر وشاعری کا آغاز کیا۔ بینا کے نام سے پہچانی جانی والی شاعرہ کی۔ محبت، درد، تنہائی اور فراق و وصال سے لبریز جذبات  کی حامل پہلی کتاب خوشبو  1976  میں جب منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔–اور صرف چھ ماہ کے اندراس کا پہلاایڈیشن ختم ہوگیا، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں پروین شاکر کو ادب میں بہترین خدمات پر پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈسے بھی نوازا گیا

پروین  شاکر سے پہلے کسی شاعرہ نے نسوانی جذبات کو اتنی نزاکت سے بیان نہیں کیا۔ ان کی شاعری میں روایت سے انکار اور بغاوت بھی نظر آتی ہے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نویسی بھی کی ان کا کالم گوشہ چشم کے نام سے شائع ہوتا تھا۔، ۔پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، کف آئینہ، ماہ تمام کو بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔ ان کی زندگی میں ہی ان کی شاعری کے انگلش، جاپانی و سنسکرت زبانوں میں ترجمے شروع ہوچکے تھے

اردو زبان کی یہ عظیم شاعرہ 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد کے نزدیک ایک ٹریفک حادثے میں صرف  42 برس کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں، پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ان کو ہم سے بچھڑے متعدد برس ہوچکے ہیں، مگر آج بھی ان کا نام دنیاے ادب و شعرمیں روشن و تاب ناک ہے خودپروین کوبھی اس کا ادراک ہوگا، سوانھوں نے پہلے ہی کہہ دیاتھاکہ:

مربھی جاؤں توکہاں لوگ بھلا ہی دیں گے

لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے