پیر, 13 جنوری 2025

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے پاناما کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے چیئرمین ایف بی آر سے استفسار کیا کہ ایف بی آر نے پاناما پر وزارت خارجہ سے کب رابطہ کیا تھا ، پاناما لیکس پر آف شور کمپنیوں کے مالکان کو کب نوٹس جاری کئے تھے۔ جس پر ڈاکٹر ارشاد نے بتایا کہ 2 ستمبر 2016 کو 343 افراد کو نوٹسز جاری کئے گئے تھے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ 200 گز کا فاصلہ 6 ماہ میں طے کرنے پر آپ کو مبارک ہو، چیرمین ایف بی آر نے جواب میں کہا کہ آف شور کمپنیوں پر صرف ڈائریکٹرز کا نام ہونا کافی نہیں ہوتا اس کے اور بھی تقاضے ہوتے ہیں، 49 کمپنیاں ایسی ہیں جن کے ڈائریکٹرز کا تعلق پاکستان سے نہیں جبکہ 52 افراد ایسے ہیں جنہوں نے کمپنیوں کی ملکیت سے انکار کر دیا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ شریف فیملی کو نوٹس جاری کرنے پر کن کا جواب آیا۔ جس پر چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ حسن،حسین اور مریم نواز نے آف شور کمپنیوں پر جواب دیا، مریم نواز نے کہا ان کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں اوروہ کسی آف شور کمپنی کی بھی مالک نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا مریم نواز نے ٹرسٹی ہونے کا ذکر کیا۔ چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ مریم نے اپنے جواب میں ٹرسٹی ہونے سے متعلق کچھ نہیں کہا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ جواب موصول ہونے کے بعد آپ نے کیا اقدامات کیے، چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ ہم تمام معلومات کی تصدیق کر رہے ہیں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ 7 گھنٹوں کےکام میں چیرمین ایف بی آر نے ایک سال لگا دیا، جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے آپ کوتصدیق کےلیے 30 سال درکارہیں، چیرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ٹیکس بچانے کے معاملات کے لیے پاناما جنت ہے۔ پاکستان اور پاناما کے درمیان ٹیکس معلومات کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آر جو کر رہا ہے سب کے سامنے ہے، کون کب سے بیرون ملک ہے ایک گھنٹے میں پتا چل سکتا ہے، ریکارڈ دکھائیں کہ ٹریول ہسٹری کے لیے کس ادارے کو کب لکھا گیا، جس پر وکیل ایف بی آر کا کہنا تھا کہ عدالت کو دکھانے کےلیے ریکارڈ موجود نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو تحقیقات بڑھانے کے لیے عدالت کی مداخلت درکار ہے۔ ایف بی آر کے وکیل نے کہا کہ تسلیم کرتے ہیں کہ ادارے کی جانب سے فوری اقدامات نہیں کیے گئے لیکن ایک ایشو یہ بھی تھا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ دوسرے الفاظ میں آپ کا مطلب ہے ایف بی آر نے منی لانڈرنگ پر کچھ نہیں کیا۔ وکیل ایف بی آر نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے لیے الگ قوانین اور ادارے موجود ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے وکیل ایف بی آر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جہاں کارروائی کرنا ہوتی ہے ایف بی آر فوری کارروائی کرتا ہے، آپ کو فوری طور پر ایکشن لینا چاہیے تھا، جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی ادارہ کام کرتا تو کیس عدالت میں نہ آتا۔
عدالت نے چیر مین نیب کو روسٹرم پر بلایا جہاں چیر مین نیب کا کہنا تھا کہ نیب اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے، ستمبر 2016 میں معاملہ پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی میں آیا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کمیٹی میں نیب کا موقف تھا کہ ہمارا دائرہ اختیار نہیں، چیئرمین نیب نے جواب دیا کہ نیب کا موقف ہے کہ متعلقہ ادارے کے بعد ہی کارروائی کر سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ کیا نیب آرڈی نینس میں کسی ریگولیٹر کا ذکر ہے، ریگولیٹر نیب کے کام میں رکاوٹ کیسے بن گیا جب کہ جسٹس گلزار نے چیر مین نیب سے استفسار کیا کہ کیا نیب کو بھی کوئی ریگولیٹ کرتا ہے جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کو اس کے قوانین ریگولیٹ کرتے ہیں۔
جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ نیب قانون چیئرمین کو کارروائی کا اختیار دیتا ہے، ریگولیٹر کا لفظ آخر کہاں سے آیا جب کہ قطری خط میں بھی ریگولیٹر آف پاکستان کا ذکر تھا لہذا پاکستان میں آخر ریگولیٹر ہے کون، کیا ریگولیٹر وہ ہے جو چیئرمین کو تعینات کرتا ہے، اوگرا اور نیپرا کا تو بطور ریگولیٹر سنا تھا لیکن نیب کا ریگولیٹر کون ہے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آج پتہ چل گیا کہ نیب کا ریگولیٹر کون ہے، جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ نیب کی ٹیم کو سن کر افسوس ہوا، پراسیکیوٹر جنرل صاحب اب بس کر دیں، آپ نے معاونت کے بجائے عدالت کو گمراہ کرنا شروع کر دیا۔
جسٹس کھوسہ نے کہاکہ باپ سے پوچھو تو کہتا ہے بچوں سے پوچھو،بچے کہتے ہیں ہمیں دادا سے جائیداد ملی جب کہ نیب کہتا ہے کہ ہمیں ریگولیٹر کی اجازت کا انتظار ہے، سمجھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی ادارے کو دائرہ اختیار ہی نہیں، نیب کو تحقیقات کا اختیار نہیں تو آخر کس کے پاس ہے، سوال یہ ہے کہ آخر تحقیقات کرے گا کون اگر ادارے کام کرتے تو آج اتنا وقت اس کیس پر نہ لگتا۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کو کوئی ریگولیٹ نہیں کرتا، میری تعیناتی شفاف اور قانون کے مطابق ہے جس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو کہانیاں نہ سنائیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ چیئرمین نیب کو تعینات کرنے والے بھی نہیں ہٹا سکتے، اللہ نے آپ کو ایسا عہدہ دیا ہے کہ آپ عوام کی خدمت کر سکیں، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ایک سال گزر گیا لیکن نیب نے کچھ نہیں کیا۔
جسٹس شیخ عظمت نے چیر مین نیب سے استفسار کیا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس آتا تو نیب انکوائری کرتا، جن کے نام پانامہ پیپرز میں آئے انہیں بلا کر پوچھتے تو سہی، کسی ایک بندے سے پوچھا کہ سرمایہ کہاں سے آیا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ نیب کے لیے یہ اطلاعات نئی نہیں تھیں، ہائی کورٹ نے ریفرنس خارج کردیا تو پھر بھی مواد موجود تھا، نیب نے بینک اکاؤنٹس اور ٹرانزیکشنز پر کیا کارروائی کی جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ ہم کارروائی ضرور کریں گے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ لوگوں کو امید تھی کہ آپ آف شور کمپنی والوں سے پوچھیں گے، سوال پوچھتے ہوئے نیب کا کیا جاتا تھا لہذا چیئرمین صاحب سوال تو پوچھ ہی لیا ہوتا جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ تاخیر ہوئی لیکن اپنا کام ضرور کروں گا، عدالت کو کارروائی کا یقین دلاتا ہوں جس پر جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ کیا کارروائی کریں گے آپ چیئرمین صاحب، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا آپ کے کام نہ کرنے کی وجہ وہ شخص ہے جس نے آپ کو تعینات کیا، نیب غیر سنجیدہ مقدمات میں بھی اپیل دائر کرتا ہے اور نیب وکلاء کہتے ہیں حکام بالا کو مطمئن کرنے کے لیے اپیل کرتے ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے 1.2 ارب روپے کا ریفرنس خارج کردیا، ہائیکورٹ کے فیصلے پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ہائیکورٹ کے ریفری جج نے اس معاملے پر فیصلہ دیا جو ان کو بھجوایا ہی نہیں گیا، سوال یہ ہے کہ ریفری جج کو اپنی آبزرویشن دینا چاہیے تھی۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ نیب نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی زحمت نہیں کی، کیا ہم نیب کو اپیل دائر کرنے کا حکم دے سکتے ہیں، انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں لہذا عدالت آپ سے معاونت چاہتی ہے، قطری کہتا ہے کہ 8 ملین ڈالرز التوفیق کیس میں اس نے ادا کیے جب کہ نیب کہتا ہے 8 ملین ڈالرز حدیبیہ پیپز ملز نے ادا کیے جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ مقدمہ ایف آئی اے نے تیار کیا تھا۔
جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ عدالت نے تکنیکی بنیاد پر فیصلہ کیا تھا، عدالت نے کیس کو بے بنیاد قرار نہیں دیا تھا جب کہ اپیل دائر نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی، 4 سو روپے کے ملزم کی ضمانت ہو جائے تو نیب عدالت کا دروازہ توڑ دیتا ہے، چھوٹے ملزمان کے خلاف اپیل فوری دائر کر دی جاتی ہے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل سے مشاورت کر کے ہی اپیل دائر کرتے ہیں جس پر جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ جہاں اپیل کا فیصلہ نہ کرنا ہو وہاں بات ہی نہیں سے شروع ہوتی ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ نیب نے نہیں لکھا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے جس پر چیئر مین نیب نے جواب دیا کہ میں اپیل دائر نہ کرنے کے فیصلے کا حصہ تھا، اپیل تیار کرنے والوں نے ہی کہہ دیا کہ فائدہ نہیں ہو گا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اس وقت کے پراسیکیوٹر نے دوبارہ تحقیقات کی حد تک اپیل کرنے کا کہا تھا جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ اپیل دائر نہ کرنے سے متعلق قانونی رائے پر قائم ہوں، جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ عدالت کے دائرہ اختیار پر قانونی معاونت فراہم کروں گا، درخواستوں میں وزیر اعظم کی نااہلی مانگی گئی ہے اور نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلوں کی مثالیں موجود ہیں، حنیف عباسی نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کی درخواستیں دائر کیں لیکن حنیف عباسی کی درخواستوں کو پانامہ کیس سے منسلک نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک منفرد کیس ہے، اس کیس کے لیے منتخب کیا گیا فورم اسے دوسرے مقدمات سے منفرد بناتا ہے جب کہ درخواستیں کو وانٹو اور الیکشن پٹیشنرز کی نوعیت کی ہیں لہذا ایسی درخواستوں کی سماعت کرنا عدالت کا معمول نہیں، ایسے مقدمات کی سماعت عدالت کا دائرہ اختیار نہیں جب کہ ماضی میں بھی عدالت نے ایسی درخواستوں کو پذیرائی نہیں بخشی، عدالت کا وضع کردہ قانون تمام ارکان پارلے منٹ پر لاگو ہو گا۔
اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو آرٹیکل 184 تین کے تحت عوامی مفاد کی درخواستیں سننے کا اختیار ہے،قانونی مثال دیں کہ عدالت نے اختیار ہوتے ہوئے استعمال نہ کیے ہوں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت ان کی آواز بنی ہے جو اپنی آواز خود نہیں اٹھا سکتے،عدالت نے ہمیشہ بنیادی حقوق کے مقدمات میں اپنا اختیار استعمال کیا۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کر چکے ہیں جب کہ اختیارات کا استعمال کیس کے حقائق کے مطابق کیا جاتا ہے اور اچھے جج کبھی اپنے اختیارات پر قدغن نہیں لگاتے، جسٹس گلزار نے کہا کہ عدالت کا دائرہ اختیار محدود نہیں ہوتا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ دائرہ اختیار قانون کے مطابق ہی استعمال ہوتا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دیکھنا ہو گا عدالت کے پاس دستیاب ریکارڈ کیا ہے اور پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا بنیادی حقوق متاثر ہوئے، کیا عدالت نے اس مقدمہ میں کسی کو سننے سے انکار کیا جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فریقین کا متفق ہونا بھی عدالت کو اختیار نہیں دیتا اور عدالت نے شفاف ٹرائل کو بھی دیکھنا ہے اور بات مقدمہ سننے کی نہیں فیصلے کی ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا کسی کی غلط بیانی پر اس کو نا اہل کر سکتے ہیں جب کہ کونسا آدمی ہو گا جس نے بیوی سے جھوٹ نہیں بولا، بیوی فون کرے تو خاوند کہتا ہے راستے میں ہوں جب کہ خاوند دفتر میں بیٹھا کام کر رہا ہوتا ہے، صرف وہ شخص جو شادی شدہ نہیں وہ بیوی سے جھوٹ نہیں بولتا ہے۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ مسئلہ یہی ہے کہ ہر پہلو کے دوررس نتائج ہوں گے، کیس میں دلائل مکمل ہونے کے بعد ہزاروں دستاویزات جمع کروا دی گئیں لہذا جمع کرائی گئی غیر ضروری دستاویزات کو ہم نہیں پڑھیں گے جب کہ کیا 1.2ارب روپے ایسے ہی جانے دیں، ممکن ہے حدیبیہ پیپرز کیس کے الزامات درست ثابت نہ ہوں اور کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ عدالت کو نیب کو ہدایات نہیں دینی چاہیے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی بالکل عدالت کو نیب کے معاملے میں ہدایات نہیں دینی چاہیے کیونکہ اگر عدالت نے نیب کو ہدایات دیں تو بری مثال قائم ہو گی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو کل اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد نعیم بخاری جوابی دلائل دیں گے، جسٹس کھوسہ نے کہا اگر لکھ دیا کہ نیب نے قانون کی خلاف ورزی کی توچیئرمین عہدے پر نہیں رہ سکیں گے جب کہ صرف جواب الجواب کا موقع دیا جائے گا، مزید دستاویزات وصول نہیں کی جائیں گی۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ٹیکس چوری کا معاملہ ہے، عوام جاننا چاہتی ہے کس نے کتنا ٹیکس دیا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے آپ کل تک دلائل مکمل کرلیں گے، کوشش کریں گے پرسوں تک کیس کی سماعت مکمل ہوجائے، ایک دن درخواست گزاروں کے جواب الجواب کے لئے کافی ہوگا جب کہ کیس میں دلائل مکمل ہونے کے بعد غیر ضروری صفحات جمع کرائے گئے ہیں جس پر نعیم بخاری نے پوچھا کہ کیا آپ میری طرف اشارہ کررہے ہیں، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ غیر ضروری صفحات کا لفظ دونوں فریقین کے لیے استعمال کیا ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی ہے۔

 

ایمز ٹی وی(لاہور) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عابد حسین قریشی نے ڈی آئی جی آپریشز ڈاکٹر حیدر اشرف سمیت لاہور کے تمام تھانوں کے ایس ایچ او زکو حکم دیا ہے کہ تھانوں میں درج ہونے والی ایف آئی آر کی نقل فوری علاقہ مجسٹریٹ کو بھجوائی جائے۔ سیشن جج لاہور کے علم میں لایا گیا تھا کہ پولیس کے تفتیشی افسران مقدمہ درج کرنے کے بعد ایف آئی آر کی نقل علاقہ مجسٹریٹ کے پاس بروقت نہیں بھجواتے جس کی وجہ سے متعلقہ مجسٹریٹ کو علم ہی نہیں ہوتا کہ اس کے علاقے میں کتنی ایف آئی آر زدرج کی گئی ہیں جس پر سیشن جج نے ڈی آئی جی آپریشنز،ایس ایس پی آپریشنزاور تمام تھانوں کے ایس ایچ او کو مذکورہ بالا حکم جاری کردیا ہے ۔علاوہ ازیںسیشن جج لاہور نے تمام ایس ایچ او زکو حکم دیا ہے کہ مقدمہ درج ہونے کے 14روز کے اندر چالان عدالتوں میں پیش کئے جائیں تاکہ مقدمات کی جلد سماعت کی جا سکے،سیشن جج نے یہ بھی حکم جاری کیاہے کہ جو مقدمات نمٹائے جا چکے ہیں ان کا مال مقدمہ جس کی ضرورت نہیں اس کو فوری طور پر نیلام کرنے کی کارروائی کی جائے 

ایمز ٹی وی(لاہور) لاہورہائیکورٹ نے نیشنل ایکشن پلان پرمکمل عمل درآمد نہ ہونے کے خلاف دائرمتفرق درخواست پروفاقی اورپنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے یکم مارچ کو جواب طلب کرلیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے سول سوسائٹی نیٹ ورک اورمنیراحمد کی جانب سے دائرمتفرق درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزاروں کی جانب سے موقف اختیارکیا گیا کہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکاتی ایجنڈاپرمکمل عمل درآمد نہیں کیا۔ درخواست گزارکا کہناتھا کہ عدالتی نظام میں اصلاحات ، دینی مدرسوں کی رجسٹریشن سمیت نیشنل ایکشن پلان کے دیگر نکات پردوسال سے عمل درآمدنہیں کیا جارہا جس کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی کہ حکومت کو نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پرمکمل عمل درآمد کرنے کاحکم دیا جائے

 ایمز ٹی وی(لاہور) انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ڈکیتی کے مقدمہ میں ملوث ملزمان کی پشت پناہی کرنے کے الزام میں گرفتار خاتون ام فروا کے جوڈیشل ریمانڈ میں مزید5روز کی توسیع کرتے ہوئے اسے پولیس کے حوالے کردیا ہے ۔ ملزمہ ام فروا کو ملت پارک پولیس نے ڈکیتی کے ملزمان کی پشت پناہی کرنے کے الزام میں گرفتار کرکے جیل بھجوا رکھا ہے۔ عدالت میں پولیس نے ریمانڈ ختم ہونے پر ملزمہ کو جیل سے لا کر عدالت میں پیش کیا عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمہ کا ریمانڈ ختم ہو گیا ہے اس میں توسیع کی جائے اس پر عدالت نے ملزمہ کا مزید 5روز کا ریمانڈ دے دیا ہے۔ عدالت نے ملت پارک پولیس کو حکم دیا کہ ملزمہ کا چالان عدالت میں پیش کیا جائے،ملزمہ پر الزام ہے کہ وہ واردات کے دوران ملزمان کی رہنمائی کرتی تھی، ملزمان جو اسلحہ استعمال کرتے وہ واردات کے بعد خاتون کے حوالے کردیتے جس کو لے کر وہ خاموشی سے لے کرفرار ہوجاتی تھی جبکہ ملزمان راستے میں اپنی تلاشی دیتے تو ان کے پاس سے کوئی اسلحہ برآمد نہیں ہوتا تھا 

 ایمز ٹی وی(کراچی) شاہ لطیف ٹاون میں پاکستان رینجرز سندھ کے آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے 7 دہشت گردوں میں سے 5 کی شناخت ہوگئی ہے۔ رینجرز کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق ہلاک شدہ دہشت گردوں کے جرائم کی تصدیق قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس موجود کریمنل ریکارڈ سے ہوئی ہے جبکہ 2 کی شناخت کے لئے معلومات اکھٹی کی جا رہی ہیں۔ مارے جانے والے انتہائی خطرناک دہشت گرد تھے جن کا تعلق لشکر جھنگوی سے تھا جو کراچی میں مل کر دہشت گردی کی وارداتوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ رینجرز ترجمان کے مطابق ہلاک دہشت گردوں کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔ عمر حیات عرف قاری ملزم دہشت گردی کے ؓحملوں، سہولت کاری اور مالی معاونت کرنے میں انتہائی مطلوب تھا، ملزم نے 2010ءمیں محرم کے جلوسوں پر حملے کئے جس کے نتیجے میں 20 افراد لقمہ اجل بن گئے، ملزم 2014ءمیں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملے میں ملوث تھا، ملزم 2011ءمین مہران بیس حملوں میں بھی ملوث تھا، لشکر جھنگوی کے امیر آصف چھوٹو کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرتا تھا۔ عامر علی چوہدری ملزم 2014ءمیں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ حملے میں ملوث تھا اور بارودی مواد بنانے کا ماہر تھا، ملزم کراچی میں جیل توڑنے کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا، ملزم اینٹی ڈرون ٹیکنالوجی جس میں ڈرون گرانا شامل ہے کا بھی ماہر تھا۔ اجتباءاحمد فیروز عرف سلمان عرف سلمان جاوید ملزم فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا۔ محمد شکیل عرف برمی ملزم مذہبی اور لسانی قتل و غارت، فرقہ وارانہ فسادات اور سیاسی ورکرز کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث رہا ہے، ملزم نے 2013ءمیں میران شاہ سے اسلحہ اور بارود کے استعمال کی ٹریننگ حاصل کی۔ عاقب یوسف ملزم پاکستان آرمی پر حملوں میں ملوث رہا ہے اور دہشت گردی میں سہولت کار کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ پاکستان رینجرز سندھ اور دہشت گردوں کے درمیان 40 منٹ تک مقابلہ جاری رہا جس میں ملزمان کی طرف سے بھاری اور جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ مقابلے میں پاکستان رینجرز سندھ کا ایک جوان بھی زخمی ہوا

 

ایمزٹی وی(کوئٹہ)ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیر کوہ میں بارودی سرنگ کا دھماکہ ہونے سے 2 افراد جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہوگیا ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق لیویز ذرائع نے بتایا کہ بارودی سرنگ کا دھماکہ اس وقت ہوا جب 3 راہگیر وہاں سے گذر رہے تھے جس کے نتیجے میں ایک زخمی راہگیر کو ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں ڈاکٹرز اس کا علاج کرنے میں مصروف ہیں جبکہ 2 جاں بحق افراد کی لاشوں کو ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
دھماکے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لیکر سرچ آپریشن شروع کردیا ہے۔ قبل ازیں چارسدہ تنگی کچہری دھماکے کے نیتجے میں 6 افراد جاں بحق جبکہ 20 زخمی ہوگئے تھے۔چار سدہ پر دھماکے کی ذمہ داری جماعت الحرار نے قبول کرلی۔
 

 

ایمز ٹی وی(ریاض) سعودی پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے غیر ملکیوں کو خبردار کر دیا گیا ہے کہ گمشدہ پاسپورٹ اور مقیم کارڈز (غیرملکیوں کیلئے) کی اطلاع 24 گھنٹے کے دوران متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کو دیں، ورنہ 1000 ریال (تقریباً 28000 پاکستانی روپے)سے 3000 ریال (تقریباً 84000 پاکستانی روپے) جرمانے کے لئے تیار رہیں۔ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے غیر ملکیوں کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ اپنے مقیم آئی ڈی کے ایکسپائر ہونے سے قبل وزارت داخلہ کی ویب سائٹ سے اس کی تجدید کروائیں۔ ایکسپائر مقیم کارڈ رکھنے والے کو ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے خدمات کی فراہمی بند کردی جائے گی۔ اس حکم کی پہلی بار خلاف ورزی کے مرتکب ہونے پر 500 ریال جرمانہ کیا جائے گا جبکہ بعدازاں یہ جرمانہ بڑھ جائے گا۔ مقیم کارڈ اقامتی لائسنس کا جدید متبادل ہے جس کا اطلاق دو سال قبل کیا گیا۔ یہ آئی ڈی پانچ سال کیلئے کارآمد ہوتا ہے اور اسے تجدید کے بعد بذریعہ ڈاک پہنچایاجاتا ہے۔ مقیم آئی ڈی رکھنے والوں کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ دوران سفر اسے خود پر آویزاں رکھیں

ایمز ٹی وی(لاہور)ایمز ٹی وی(لاہور) آئی ایس پی آر نے کہاہے کہ خیبر پختون خواہ کے ضلع ٹانک میں پاک فوج نے انٹیلی جنس معلومات پر تحریک طالبان پاکستان کے عصمت اللہ شاہین ویٹنی گروپ کیخلا ف آپریشن کیا جس دوران کالعدم جماعت کے 4کمانڈرز کو ہلاک کر دیا گیاہے ۔ پاک فوج کے ادارہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر )کے مطابق ٹانک کے علاقے پنگ ایریا میں عصمت اللہ شاہین ویٹنی گروپ کیخلا ف انٹیلی جنس بنیادوں پر آپریشن کیا گیا جس دوران انتہائی مطلوب چار دہشتگردوں کو ہلاک کر دیاگیاہے، نائب کمانڈر عمر ولد عصمت اللہ شاہین بھی مارا گیا ہے۔مارے جانے والوں میں کمانڈروصی اللہ اورکمانڈرزولام الدین عرف ظلمت بھی شامل ہیں۔آئی ایس پی آر کا کہناتھا کہ دہشتگردگروپ ٹارگٹ کلنگ،بھتااور اغوا برائے تاوان میں ملوث تھا،مارے گئے دہشت گردوں کے قبضے سے اسلحہ اور بارود بھی برآمد کر لیا گیاہے۔آئی ایس پی آر کا کہناتھا کہ عصت اللہ شاہین 2014 میں آپس کی لڑائی میں مارا گیا تھا۔ پاک فوج کے ادارہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر )کے مطابق ٹانک کے علاقے پنگ ایریا میں عصمت اللہ شاہین ویٹنی گروپ کیخلا ف انٹیلی جنس بنیادوں پر آپریشن کیا گیا جس دوران انتہائی مطلوب چار دہشتگردوں کو ہلاک کر دیاگیاہے، نائب کمانڈر عمر ولد عصمت اللہ شاہین بھی مارا گیا ہے۔مارے جانے والوں میں کمانڈروصی اللہ اورکمانڈرزولام الدین عرف ظلمت بھی شامل ہیں۔آئی ایس پی آر کا کہناتھا کہ دہشتگردگروپ ٹارگٹ کلنگ،بھتااور اغوا برائے تاوان میں ملوث تھا،مارے گئے دہشت گردوں کے قبضے سے اسلحہ اور بارود بھی برآمد کر لیا گیاہے۔آئی ایس پی آر کا کہناتھا کہ عصت اللہ شاہین 2014 میں آپس کی لڑائی میں مارا گیا تھا

 

ہ
ایمزٹی وی(راولپنڈی)چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چارسدہ میں خود کش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چارسدہ میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی قابل تعریف ہے ۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چارسدہ دھماکے اور دہشت گردوں کے حملے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس کیا ہے ۔
ان کاکہنا ہے کہ پولیس کے بروقت رسپانس سے قیمتی جانیں بچائی گئیں ،چارسدہ میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی قابل تعریف ہے ۔
 
واضح رہے کہ چارسدہ میں تنگی کچہری پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تو ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جبکہ دو دہشت گرد کچہری کے اندر داخل ہو گئے تھے جو مزید لوگوں کو نشانہ بنانا چاہتے تھے لیکن پولیس اہلکاروں نے کارروائی کر کے دونوں دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ۔