اتوار, 28 اپریل 2024

Displaying items by tag: Health

نیویارک: سائنس و ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کے باوجود نہ صرف دمے کے مرض کو اچھی طرح سمجھا نہیں گیا بلکہ دمے کے دوران سینے اور پھیھپڑوں میں درد کے دورے بھی پڑتے ہیں اور اس کی وجہ بھی درست انداز سے نہیں سمجھی گئی ہے لیکن اب ایک بہت چھوٹے آلے سے یہ راز فاش کرنے میں مدد ملے گی۔
 
یہ بہت چھوٹا سا آلہ ہے جو عین انسانی سانس کی نالیوں کی نقل کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ ’برونکو اسپیسم‘ یا سانس کی نالیوں میں تکلیف کےدوران آخر کس طرح پٹھے سکڑتے اور پھیلتے ہیں۔ یہ اہم کام رٹگرز یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ فار ٹرانسلیشنل میڈیسن اینڈ سائنس کے پروفیسر رینلڈ پینٹائری اور ان کے ساتھیوں نے انجام دیا ہے۔
 
اس طریقے سے سانس کے امراض کے علاج کے نئے طریقے دریافت ہوں گے۔ برونکو اسپیسم صحت مند افراد اور دمے کے مریضوں کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہے۔
علاوہ ازیں کرونک آبسٹرکٹوو پلمونری ڈیزیز(سی او پی ڈی) کے مرض میں اور دمے وغیرہ میں ایسا ہوتا ہے کہ سانس کی نالیوں میں کوئی سوزش نہیں ہوتی اور وہ نارمل ہوتی ہیں لیکن اچانک ہموار پٹھے اس شدت سے سکڑتے ہیں کہ سانس لینا دوبھر ہوجاتاہے۔ اس اہم معاملے کو سمجھنا ضروری ہے اور اسی لیے اب تک کسی جانور پر بھی اس مرض کا ماڈل نہیں بنایا گیا ہے۔
 
اس آلے کو ’برونکائی آن چِپ‘ کا نام دیا گیا ہے جو انسانی بال سے بھی ایک ہزار گنا چھوٹا ہے۔ اس پر صحت مند اور دمے کے شکار افراد کے پھیپھڑوں کے خلیات (سیلز) لگائے گئے ہیں۔ یعنی خلوی سطح پر یہ پھیپھڑوں کا ایک حقیقی مگر مائیکرو ماڈل ہے۔
 
ماہرین نے جب آلے میں پھیپھڑوں کی دمے والی تکلیف یا برونکو اسپیسم متعارف کروائے تو انہوں نے دیکھا کہ پہلے خلیات سکڑے اور ان سے ہارمون جسی کوئی شے خارج ہوئی جس نے یا تو مزید سکڑاؤ پیدا کیا یا پھر وہ آرام کی وجہ بنی۔ پھر ماہرین نے دیکھا کہ جب خلیات میں دمے کا دوسرا دورہ متعارف کرایا گیا تو تمام خلوی پٹھے سکون میں آگئے اور ظاہری طور پر ان کا درد دور ہونے لگا۔
 
اس طرح معلوم ہوا کہ خلیات کی سطح پر کس طرح سکڑاؤ اور پھیلاؤ پیدا ہوتا ہے اور اس طرح کئی اقسام کے امراض کو سمجھنا ممکن ہوگا۔
واشنگٹن: ناسا کےماہرین نے 7 اگست سے شروع ہونے والی ایمیزون جنگلات میں آتشزدگی کے بعد کاربن مونو آکسائیڈ گیس کا خوفناک اخراج دیکھا گیا ہے۔
 
امریکی خلائی ادارے نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ ایمیزون جنگلات کی آگ ایب ایک چیلنج بن چکی ہے اور ناسا نے ایٹماسفیئرک انفراریڈ ساؤنڈر (اے آئی آر ایس) کے ذریعے یہ ڈیٹا حاصل کیا ہے ۔ یہ حساس آلات ناسا نے ایکو سیٹلائٹ پر لگائے گئے ہیں۔ یہ سیٹلائٹ فضائی آلودگی، فضائی درجہ حرارت اور دیگر اہم معلومات جمع کرتا ہے۔
 
ناسا کے مطابق 8 سے 22 اگست کے درمیان 18 ہزار میٹر یا 5500 میٹر بلندی تک کاربن مونو آکسائیڈ کےآثار ملے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگل کی آگ نے فضا میں غیرمعمولی طور پر کاربن مونو آکسائیڈ خارج کی ہے جو تصویر میں سبز، پلیے اور گہرے سرخ رنگ میں نمایاں ہے۔ ہر رنگ فی ارب حصے کاربن مونو آکسائیڈ کو ظاہر کرتا ہے۔
 
 
’ سبز رنگ کا مطلب ہے کہ فضا میں ایک ارب میں سے ایک سو حصے کاربن ڈائی آکسائیڈ موجد ہے ۔ پیلا رنگ 120 حصے صے کاربن مونو آکسائیڈ کو ظاہر کرتا ہے۔
 
’ سبز رنگ کا مطلب ہے کہ فضا میں ایک ارب میں سے ایک سو حصے کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہے ۔ پیلا رنگ 120 حصے ارب بالحاظ حجم اور سرخ رنگت 160 حصے فی ارب کو ظاہر کررہا ہے۔ جبکہ دیگر مقامات پر کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار اس سے بھی ذیادہ ہوسکتی ہے۔‘ پریس ریلیز کے متن میں لکھا گیا۔
 
ہم جانتےہیں کہ کاربن مونو آکسائیڈ عالمی تپش اور کلائمٹ چینج میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور ایمیزون جنگلات کی ہولناک تباہی سے خارج ہونے والی یہ گیسی کئ ماہ تک فضا میں برقرار رہے گی۔ پھر تیزرفتار ہواؤں سے یہ زمین کے قریب پہنچ کر مزید نقصان کی وجہ بن سکتی ہیں۔
ماہرین نے جلد سے چپکنے والا ایک ایسا لچک دار سینسر بھرا اسٹیکر بنایا ہے جو ایک جانب تو غصے میں جلد پر آنے والی سرخی جیسے فعلیاتی عوامل پر نظر رکھتا ہے تو دوسری جانب دل کی دھڑکن کی تفصیلات کسی تار کے بغیر ڈاکٹر یا کپڑوں پر لگے ریسیور تک پہنچاتا ہے۔
 
یہ اہم ایجاد اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر زینان باؤ کی ہے جو کیمیائی انجینئرنگ کے ماہرہیں۔ اس کی افادیت جانچنے کے لیے انہوں ںے ایک مریض کی کلائی پر برقی اسٹیکر لگایا جس نے محض جلد کے سکڑنے، پھیلنے اور دیگر جسمانی اتار چڑھاؤ کی بنا پر نبض، سانس کی رفتار اور دل کی دھڑکن کو درست انداز میں نوٹ کیا۔
 
اسی طرح اگر اسے گھٹنے اور کہنی پر لگایا جائے تو یہ اطراف کے پٹھوں کے سکڑنے اور پھیلنے یا چلنے پھرنے کےدوران دیگر تبدیلیوں کو بھی نوٹ کرسکتا ہے۔ پروفیسر زینان کے مطابق اگرچہ طبی برقی اسٹیکر کو بہت سے کاموں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن سب سے پہلے اسے صحت کے شعبے میں آزمایا جائے گا اور ایسے مریضوں میں لگایا جائے گا جو نیند کی کمی کی شکایت کرتے ہیں یا پھر امراضِ قلب کے شکار افراد جو دل کی دھڑکن سے پریشان رہتے ہیں۔
پروفیسر زینان باؤ پہلے ہی ایک ایسے طبی اسٹیکر پر کام کررہے ہیں جو پسینے کو دیکھتے ہوئے جسمانی درجہ حرارت اور ذہنی تناؤ کا پتا لگاسکتا ہے لیکن یہ ان کی منزل نہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ ایسے کئی اسٹیکر بنائے جائیں جو جسم سے لگ کر کئی ایک جسمانی کیفیات کا اندازہ لگاسکیں اور اس کا ڈیٹا لباس پر حاصل کیا جاسکے جس کے بعد اسے اسمارٹ واچ اور فون پر بھی محفوظ رکھا جاسکے۔ انہیں یقین ہے کہ وہ ایک روز پورے بدن کے لیے سینسر والے پیوند بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔
 
زینان کی ٹیم گزشتہ تین برس سے اس پر دن رات کام کررہی ہے اور اس کے لیے کسی بیٹری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ ہی سرکٹ اتنا سخت ہے کہ وہ جلد سے منسلک ہوکر بے آرامی یا تکلیف کی وجہ بنتا ہے اور نہ ہی اتنا نرم کہ وہ اپنی جگہ چھوڑدے۔
 
اس پورے نظام کو باڈی نیٹ اسٹیکر کا نام دیا گیا ہے اس میں ایک چھوٹا سا اینٹینا نصب ہے جو لباس میں لگے ریسیور سے وائرلیس سگنلوں کے ذریعے بجلی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح یہ عین آر ایف آئی ڈی ٹیگز کی طرح کام کرتا ہے۔ اس پر بنا سرکٹ دھاتی روشنائی کے ذریعے کاڑھا گیا ہے۔
 
پھر اس میں چھوٹے چھوٹے سینسر لگے ہیں جو حرکت اور اتار چڑھاؤ کو محسوس کرتے ہیں۔ دوسری جانب پسینے کی پیمائش کرنے والی مائیکرو سینسر بھی نصب ہیں تاہم یہ ٹیکنالوجی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور اسے ہمارے ہاتھوں تک پہنچنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ساڑھے تین لاکھ سے زائد لوگ فالج کے حملے کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 70 فیصد سے زیادہ لوگ فالج کی وجہ سے کسی نے کسی مستقل معذور ی کا شکار ہو جاتے ہیں، 10 سے 20 فیصد لوگ فالج کے حملے کی وجہ سے موت کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں۔
 
اگر آپ کی عمر 50 اور 60 سال سے زیادہ ہے اور آپ کا بلڈ پریشر بھی زیادہ ہے اور شوگر لیولز بھی زیادہ ہیں۔ اگر بلڈ پریشر اور شوگر کو دواؤں اور غذائی احتیاط کے ذریعے کنٹرول نہ کیا جائے تو آپ کسی بھی وقت اچانک بلڈ پریشر اور شوگر لیولز زیادہ ہونے کی وجہ سے فالج کے حملے کا شکار ہو سکتے ہیں۔
مرغن غذاؤں کے شوقین موٹے لوگوں میں فالج کا حملہ کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ جو لوگ زیادہ تر بیٹھتے رہتے ہیں اور کسی قسم کی ورزش نہیں کرتے ان میں فالج کا حملہ ہونے کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں۔ فالج کے حملے کے فوری بعد کسی ہسپتال یا مستند ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ فالج کے مریض کو فوری طور پر ہسپتال پہنچا کر اس کو ابتدائی طبی امداد فراہم کر کے اس کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ فالج کا حملہ ہونے کی صورت میں مریض کو سیدھا لٹا دیا جائے۔ تازہ ہوا کی فراہمی کو مستقل بنایا جائے۔
 
فالج کی مختلف اقسام ہیں:
 
فالج کے حملے میں Speech ایریا متاثر ہو تو آدمی بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ GB سنڈروم میں آدمی چلنے پھرنے سے عاری ہو جاتا ہے۔ مگر علاج سے مکمل بحالی ممکن ہے۔ فالج کی مختلف اقسام کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے۔
 
فالج کا اچانک حملہ:
 
’’دادی اماں بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھیں۔ اچانک ان کے سر میں داہنی طرف شدید درد ہوا اور وہ تکلیف سے گر پڑیں۔ اگرچہ ہوش و حواس قائم تھے مگر وہ اپنا بایاں بازو اور پاؤں ہلانے سے قاصر تھیں اور بولنے میں بھی دشواری پیش آ رہی تھی۔ فالج کے حملے نے دماغ کے داہنی حصے کو متاثر کر دیا تھا جس سے بائیں طرف کی حرکات متاثر ہوتی ہیں۔‘‘
 
وجوہات:
 
-1 فالج کا حملہ زیادہ تر 40 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ مردوں میں اس کا حملہ 40 سال سے کم عمر میں ہو سکتا ہے لیکن عورتیں زیادہ تر 40 سال کے بعد متاثر ہوتی ہیں۔
 
-2 ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، دل کی بیماری وغیرہ میں فالج کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔
 
-3 خون کی بیماریوں، انفیکشن، موٹاپے اور کینسر وغیرہ میں بھی فالج ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
 
علامات:
 
فالج کے حملے کے بعد جسم کا ایک طرف کا یا دونوں طرف کے حصے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ شدید حملے میں آدمی بولنے سے بھی قاصر ہو جاتا ہے اور مستقل بے ہوشی طاری ہو سکتی ہے۔ بلڈ پریشر بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور کوئی چیز کھانا پینا یا نگلنا دشوار ہو جاتا ہے۔
 
علاج اور بچاؤ:
 
-1 فالج کے حملے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بھی بیماری ہونے کی صورت میں مکمل علاج کروایا جائے۔
 
-2 ہائی بلڈپریشر، ذیابیطس اور فالج کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر ان دو بیماریوں کا علاج نہ کیا جائے تو پھر فالج کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان بیماریوں کا مکمل علاج کروایا جائے۔
 
-3 موٹاپے پہ کنٹرول کیا جائے کیونکہ موٹا ہونے سے بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
 
-4 فالج سے بچنے کے لیے روزانہ ورزش کی بہت اہمیت ہے کیونکہ ورزش سے خون کی گردش صحیح رہتی ہے اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ کا خطرہ نہیں رہتا۔
 
-5 فالج کا حملہ ہونے کی صورت میں مریض کی چوبیس گھنٹے نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کا دھیان رکھیں:
 
ژ مریض کا کمرہ بالکل صاف ہونا چاہیے۔ روزانہ بستر کی چادریں تبدیل کی جائیں۔
 
ژ حملے کے فوراً بعد ہر آدھ گھنٹے بعد مریض کی نبض، سانس کی رفتار، بلڈپریشر کا ریکارڈ رکھا جائے۔
 
ژ خوراک کی نالی کے ذریعے غذا پہنچانے کا بندوبست کریں۔
 
ژ وقفے وقفے سے کروٹ بدل دینا چاہیے تاکہ Bed Sores نہ ہوں۔
 
جب ساری حرکات اچانک بند ہو جاتی ہیں …
 
فالج کا عارضی حملہ:
 
13 سالہ صادق رات کو ٹھیک ٹھاک سویا۔ صبح سویرے اٹھ کر اس نے اپنا کام شروع کیا۔ 12 بجے کے قریب اچانک اسے کمر کے نچلے حصے میں درد اٹھا۔ کھڑا ہونا دشوار ہو گیا اور چند لمحوں میں وہ نیچے گر گیا اور ہاتھ پاؤں بالکل جامد ہو گئے۔
 
فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں اس کی ریڑھ کی ہڈی سے پانی جیسا مائع نکال کر Cerebro Spinal Fluid کا معائنہ کیا گیا جس میں پروٹین کی زیادتی تھی۔ اس سے پتہ چلا کہ Guillian Barre Syndrome کا شکار ہے جو اعصابی نظام میں وائرس انفیکشن وغیرہ کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔
 
اس بیماری میں CSF میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس میں زیادہ تر پٹھوں کی نسیں متاثر ہوتی ہیں۔ جس سے مریض ہلنے جلنے کے بالکل قابل نہیں رہتا۔
 
علامات:
 
بیماری کے ابتدائی حملے کے بعد مریض ہاتھ پاؤں بالکل ہلا نہیں سکتا۔ گمان ہوتا ہے کہ اب حرکت کرنا مشکل ہوگا۔ مریض بستر تک محدود ہو جاتا ہے۔ اگر صحیح علاج نہ کیا جائے تو پھر کوئی حرکت ممکن نہیں رہتی۔ سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔
 
علاج اور بچاؤ:
 
صحیح اور بروقت علاج سے اس بیماری پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے کیونکہ بیماری سے متاثرہ 90 فیصد مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ بیماری کے صحیح علاج کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کا دھیان رکھیں:
 
-1 مریض کو فوری طور پر ہسپتال پہنچائیں۔
 
-2 اگر ڈاکٹر کمر سے Fluid نکالنے کا کہیں تو اس سے گھبرانا بالکل نہیں چاہیے۔ کیونکہ CSF کے معائنے سے ہی بیماری کے ہونے یا نہ ہونے کا پتہ چلتا ہے۔
 
-3 اس بیماری میں سٹیرائیڈ دوائیں واقعی جادو اثر ثابت ہوتی ہیں مگر ان کا استعمال ہمیشہ ڈاکٹر کے مشورہ سے کرنا چاہیے۔
 
-4 بستر میں مریض کا مکمل خیال رکھا جائے اس کو بار بار کروٹ دلاتے رہنا چاہیے۔
 
-5 مریض جب صحت یاب ہونا شروع ہو جائے تو اسے ہلکی پھلکی ورزش کروانا چاہیے تاکہ جلد سے جلد نارمل طریقے سے دوبارہ اپنا کام شروع کر سکے۔
 
جب بولنے کی صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں:
 
’’بھلا چنگا رات کو سویا۔ صبح اٹھ کر نماز پڑھی۔ دفتر جانے کی تیاری تھی۔ سر میں عجیب سی سنسناہٹ اور درد محسوس ہوئی۔ ایسا لگا کوئی چیز رک سی گئی ہو۔ کچھ دیر بعد طبیعت سنبھلی تو بولنے کی کوشش کی۔ الفاظ منہ سے نہ نکلے۔ بیوی دیکھ کر گھبرا گئی۔ چائے پینے کو دل کیا مگر ذریعہ اظہار کوئی نہ تھا۔ بیوی کو باورچی خانہ لے جا کر چائے کی پتی اور دودھ کی طرف اشارے کر کے سمجھایا۔‘‘
 
یہ علامات فالج کے اس حملے میں ہو سکتی ہیں جو دماغ میں Speech Area کو متاثر کرے۔ Speech Area کے ذریعے ہی ہماری بولنے، لکھنے اور یاد کرنے کی صلاحیتیں کنٹرول ہوتی ہیں۔ زیادہ تر لوگ دائیں ہاتھ سے لکھتے اور کام کرتے ہیں۔ ان کا Speech Area دماغ کے بائیں حصے میں ہوتا ہے اور جو لوگ بائیں ہاتھ سے زیادہ کام لینے والے ہوں ان کا Speech Area دماغ کے دائیں حصے میں ہوتا ہے۔
 
دماغ میں مندرجہ ذیل دو طرح کے Speech Area ہیں:
 
-1 Broca’s Area
 
اس حصے میں آدمی کے بولنے یا تقریر کرنے کا آغاز ہونا کنٹرول ہوتا ہے۔ اگر یہ متاثر ہو جائے تو الفاظ منہ سے نہیں نکلتے۔
 
-2 Wernickes Area
 
اس حصہ سے سمجھنے اور بولنے کی صلاحیتیں کنٹرول ہوتی ہیں۔ فالج کے حملے سے اس کے متاثر ہونے کی صورت میں کسی بات کی بالکل سمجھ نہیں آتی۔
 
بولنے کی صلاحیت کا متاثر ہونا:
 
-1 بعض بچوں میں پیدائشی تھتھلاہٹ پن ہوتا ہے۔
 
-2 ذہنی طور پر معذور لوگوں میں Lalling Speech ہوتی ہے یعنی وہ چھوٹے بچوں کی مانند بولتے ہیں۔
 
-3 بعض اوقات دماغ کے پچھلے حصے میں خرابی سے بولنا عجیب سا لگتا ہے۔ ایک لفظ ادا کرنے کے لیے منہ سے دو تین لفظ نکلتے ہیں۔
 
-4 بعض اوقات دماغ کے انفیکشن کی صورت میں منہ سے الفاظ صحیح نہیں نکلتے مثلاً British Constitution منہ سے Brishish Conshsishun نکلتا ہے۔
 
-5 بعض بچوں میں موروثی بیماری ہونے کی صورت میں بولنا بہت مشکل لگتا ہے۔ بچے بڑی دیر سے بولنا شروع کرتے ہیں اور اکثر اٹک اٹک کر مشکل سے الفاظ منہ سے نکالتے ہیں۔
 
فالج کا علاج اور احتیاط:
 
-1 اگر کسی کو اس طرح کا فالج کا حملہ ہو جائے تو فوری طور پر مریض کو ہسپتال پہنچانا چاہیے۔
 
-2 اس طرح کے مریض کا ہر طرح سے خیال رکھنا چاہیے اور اسے کھانے کے لیے نرم غذا دی جائے کیونکہ نگلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ اگر کسی بیماری کی کوئی اور علامت ہو تو اس کا مناسب علاج کیا جائے۔
 
-3 اس طرح کے مریض کو علاج کے بعد Speech Therapy کے ذریعے دوبارہ نارمل زندگی گزارنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ اس طریقہ کار میں مختلف طریقوں سے بولنے اور سمجھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔
 
-4 جن بچوں میں Speech Problems ہوں، انہیں مکمل توجہ اور دھیان کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اگر انہیں صحیح توجہ نہ دی جائے تو پھر اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ وہ بالکل بولنا نہ سیکھیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ کا بچہ Left Handed ہے تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں، اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کریں۔ وہ اسی طرح بھی بہت سے اچھے کام کر سکے گا۔
 
فالج میں دواؤں کا استعمال، احتیاط اور علاج:
 
فالج ایک بہت خطرناک مرض ہے اور اس کا علاج بھی خاصا مشکل ہے۔ فالج کا حملہ ہو جائے تو سب سے ضروری امر یہ ہوتا ہے کہ مریض کی دیکھ بھال اچھے ڈاکٹر، محنتی نرس اور قابل اعتماد ہسپتال سٹاف کے زیر نگرانی ہو۔ اس صورتحال میں 24گھنٹے نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ لمحہ بہ لمحہ مریض کی حالت بدلتی اور بگڑتی ہے۔ سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ مریض کا بلڈ پریشر مانیٹر کیا جائے اور اس کا بے ہوشی کا لیول چیک کیا جائے۔
 
بلڈپریشر کے ساتھ اگر شوگر ہو تو اس کو کنٹرول کرنا بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ مریض کی نبض، بلڈ پریشر، بلڈ شوگر وغیرہ کو اگر کنٹرول کرلیا جائے تو بڑی حد تک بہتری کی امید ہوتی ہے۔ فالج کے علاج کے لیے خاص طور پر استعمال ہونے والی دوائیں حقیقتاً کوئی خاص اثر نہیں کرتیں۔ ان کے فوری اور لمبے استعمال کا مریض کی صحت پر بالکل کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مگر یہ مہنگی بھی بہت ہوتی ہیں۔ ان دواؤں کی بجائے بہتر ہے کہ مریض کی دوسری علامات کا علاج کیا جائے تاکہ فالج کی وجہ سے ہونے والی دوسری پیچیدگیوں کو کنٹرول کیا جا سکے۔
 
فالج کے علاج میں سب سے اہم بات مریض کے بلڈپریشر کو کنٹرول کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اگر شوگر ہو تو اس کا علاج بھی ضروری ہے۔ فالج کے علاج کے لیے مندرجہ ذیل آسان ہدایات پر عمل کریں:
 
مریض کی جسمانی صفائی کا خیال رکھیں۔ خاص طور پر کمر کی حفاظت بہت ضروری ہے کیونکہ جان لیوا Bedsores بہت خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ مریض کو کروٹ دلاتے رہیں اور روزانہ کمر کو صاف کر کے پاؤڈر لگائیں۔
 
مریض کو پوری تسلی دیں کہ اللہ کے حکم سے وہ جلد ہی نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے گا۔ اس سے مریض ذہنی طور پر بیماری سے مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
 
مریض کی طبیعت بحال ہو جائے تو ہلکی پھلکی ورزش کی طرف مائل کریں۔ اسے چلانے کی کوشش کریں۔ نیورولوجی وارڈ میوہسپتال میں ایک مریض جو کچھ عرصہ سے فالج کے حملہ کا شکار تھا۔ اس کی بیوی اسے روزانہ چلاتی ا ور نماز کے وقت اسے ہمارے ساتھ کھڑا کر دیتی تھی۔ نماز کی برکت سے وہ چند دنوں میں ٹھیک ٹھاک چلنے لگا۔
 
مریض کا بلڈپریشر اور شوگر کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے بلڈپریشر اور شوگر کے ضمن میں دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔
 
بے ہوش مریض کا بستر صاف رکھیں اور روزانہ بستر کی چادر کو تبدیل کریں۔ خوراک کی نالی کو روزانہ چیک کریں اور پیشاب کی نالی کو بھی دیکھتے رہیں تاکہ انفیکشن کی صورت میں اس کا علاج کیا جا سکے۔
 
سونے سے قبل آیۃ الکرسی (اول و آخر درود پاک) کی تلاوت کر کے سوئیں، رات کو فالج کے حملے سے محفوظ رہیں گے۔
 
فالج کے حملہ کی صورت میں لہسن کی دس عدد پوتھیاں Cloves گرم دیسی گھی میں ملا کر مریض کو دیں۔
 
پچاس گرام ارہر کی دال بیس گرام سونٹھ میں ابال کر فالج زدہ مریض کو دیں۔
 
سیب، انگور اور ناشپاتی کا رس فالج میں مجرب غذا ہے۔
اسٹاک ہوم: برطانیہ اور سویڈن کے طبی ماہرین نے وسیع تحقیق کے بعد کہا ہے کہ مسلسل بے خوابی کے شکار افراد، خصوصاً خواتین میں دل کے امراض اور فالج کا خطرہ بڑھ سکتا ہے کیونکہ تحقیق سے انسومنیا (بے خوابی) اور شریانوں کی تنگی کے درمیان ایک گہرا 
 
تاہم سائنسدانوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ہم حتمی طور پر نہیں کہہ سکتے ہیں کہ بےخوابی ہی امراضِ قلب کی مرکزی وجہ ہے یا پھر ان دونوں کیفیات کا باہمی کوئی تعلق ہے۔ یہ تحقیق اسٹاک ہوم میں واقع کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ کی ماہر سوسینا لارسن کی سربراہی میں کی گئی ہے۔
 
اپنی نوعیت کے اس پہلے سروے میں سوسینا اور ان کے ساتھیوں نے گریگر مینڈل سے منسوب ’’مینڈیلیئن طریقہ کار‘‘ کو اپنی تحقیق میں استعمال کیا ہے۔ اس تکنیک میں کسی علامت سے وابستہ جینیاتی عوامل کو بھی شامل کیا جاتا ہے تاکہ نتائج میں کسی بھی تعصب اور جانب داری کو کم کیا جاسکے۔ اب یہ جان لیجیے کہ آخر کتنے افراد پر یہ سروے کیا گیا۔ تو جناب لگ بھگ 13 لاکھ افراد کا ایک طویل عرصے تک مطالعہ کیا گیا ہے اور اس ضمن میں چار بڑے مطالعات کو شامل کیا گیا۔
سائنس دانوں نے دیکھا کہ نیند کی کمی کی وجہ بننے والے جینیاتی عوامل ہی امراضِ قلب اور ایک قسم کے (اسکیمک) فالج سے وابستہ تھے۔ یعنی معلوم ہوا کہ جو جین آپ کو سونے نہیں دیتے، عین وہی جین دل کے بھی دشمن ہیں اور بڑی شریان کے فالج کی وجہ بھی بنتے ہیں۔
 
سوسینا نے کہا کہ اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ زندگی کےلیے نیند کتنی ضروری ہے اور بے خوابی کو نفسیاتی اور دیگر طریقوں سے دور کرکے دل کو ایک بڑے خطرے سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ تاہم اس تحقیق کی بعض حدود اور خامیاں بھی ہیں۔ ماہرین نے اب بھی نیند کی کمی کی اصل وجہ نہیں بتائی ہے بلکہ اس کی جینیاتی وجوہ پر بحث کی ہے۔ اس تناظر پر مزید تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔
جنیوا: مشرقی تہذیب میں چوٹ اور درد دور کرنے میں ہلدی کو کثرت سے استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن اب سائنس بھی اس کی معترف ہوگئی ہے اور سویٹزر لینڈ کے ماہرین نے ہلدی سے بنی پٹی (ڈریسنگ) بنائی ہے جو زخموں کو تیزی سے مندمل کرسکتی ہے۔
 
ہلدی باورچی خانے کے علاوہ دیگر کئی کاموں کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ اس کے کئی استعمال ہیں مثلاً درد دور کرنے، چہرے کی تازگی، اور دیگر کاموں کے لیے بھی ہلدی ایک بہترین شے ہے۔ اب سویٹزر لینڈ کے ماہرین نے ہلدی سے بنی ایک پٹی بنائی ہے جو بہت تیزی سے زخموں کو ٹھیک کرسکتی ہے۔
 
ایمپا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے ایک ایسا فوم تیار کیا ہے جو کہنے کو تو ایک قسم کا پالیمر ہے لیکن وہ ازخود حیاتیاتی طور پر گھل کر ختم ہوجاتا ہے۔ ماہرین نے اس پر تھری ڈائمینشنل خردبینی ساختیں بنائی ہیں اور اس پر ہلدی میں پائے جانے والے ایک اہم مرکب ’سرکیومِن‘ کو شامل کیا ہے۔
جب سرکیومن سے بھرے اس فوم کا ایک ٹکڑا زخم کے اندر رکھا گیا تو ماہرین نے ایک حیرت انگیز بات نوٹ کی۔ زخم کے اندر جگہ کو بھرنے والے خلیات تیزی سے آگے بڑھے اور جلد اور گوشت کی بافتوں یعنی ٹشوز کو جوڑنے لگے۔
 
دوسری جانب زخم کی تکلیف اور جلن میں کمی واقع ہوئی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ زخم بھرنے کے بعد اس کا نشان بھی بہت ہلکا ہی رہ گیا۔ اس دوران خراش کی وجہ بننے والے کیمیکل بھی کم دیکھے گئے۔ دھیرے دھیرے پالیمر گھل کر ختم ہوگیا اور سرکیومن نے تیزی سے زخموں کو مندمل کردیا۔
 
سائنسدانوں کے مطابق اس طرح کی پٹیوں اور ڈریسنگ سے ذیابیطس کے ایسے زخم اور ناسوروں کا علاج کیا جاسکتا ہے جو بہت مشکل سے ٹھیک ہوتے ہیں۔
پنسلوانیا: ایک دلچسپ لیکن اہم طبی کامیابی حاصل کرتے ہوئے سائنسدانوں نے چپ پر ایک ایسی مصنوعی آنکھ تیار کرلی ہے جس میں پلکیں ہیں اور وہ جھپکنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ لیکن یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ اس کا مقصد انسانی آنکھوں کےلیے تیار کردہ نئی دواؤں کو حقیقت سے قریب تر ماحول میں آزمانا ہے کیونکہ اس مصنوعی آنکھ میں انسانی آنکھ کے خلیات شامل کیے گئے ہیں۔
 
واضح رہے کہ کسی بھی نئی دوا کے طور پر استعداد رکھنے والے کسی مرکب (کیمیکل) کی دریافت سے لے کر اس کے بطور دوا منظور ہونے تک میں کم از کم دس سال لگ جاتے ہیں کیونکہ اسے مختلف مراحل سے لازماً گزارا جاتا ہے جن میں وہ پیٹری ڈش میں رکھے زندہ خلیات سے لے کر جانوروں پر، اور سب سے آخر میں انسانوں پر آزمائی جاتی ہے۔ اگر کسی نئی دوا کو آزمانے کے یہ درمیانی مراحل مختصر ہوجائیں اور براہِ راست انسانی آزمائش تک پہنچا جاسکے تو اس میں نہ صرف وقت کی بڑی بچت ہوگی بلکہ کسی نئی دوا کی تیاری پر آنے والی خطیر لاگت بھی خاصی کم کی جاسکے گی، جو فی الحال 80 کروڑ ڈالر سے ایک ارب ڈالر کے درمیان ہوسکتی ہے۔
 
 
’’چپ پر تجربہ گاہ‘‘ (لیب آن چپ) کے عنوان سے شہرت رکھنے والے تحقیقی شعبے کو آج چالیس سال ہوچکے ہیں جبکہ اس میدان میں پیش رفت کی بدولت طبّی تشخیص و تحقیق کے کئی آلات ایجاد ہوچکے ہیں جو بہت مختصر بھی ہیں۔ حالیہ پیش رفت کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھنا چاہیے۔
 
’’نیچر میڈیسن‘‘ کے تازہ شمارے میں تفصیلات کے مطابق، یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے ماہرین نے کئی سال کی محنت کے بعد چپ پر مصنوعی آنکھ تیار کرلی ہے جس میں انسانی آنکھ کے زندہ خلیات موجود ہیں جبکہ یہ پلکوں سے بھی لیس ہے۔ فی الحال اس پر خشک آنکھوں کی بیماری کے علاج کےلیے تیار کردہ ایک نئی دوا کے تجربات کیے گئے ہیں؛ اور اس کے نتائج بالکل وہی ہیں جیسے اصلی آنکھ پر یہ دوا استعمال کرنے پر رونما ہوسکتے ہیں۔
 
دوا ڈالنے پر ان مصنوعی پلکوں کے جھپکنے کا انداز بالکل ویسا ہوتا ہے جیسا حقیقی انسانی آنکھ کا ہوتا ہے۔ اس طرح یہ دوا جانوروں پر آزمانے کی ضرورت تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ اگلے مرحلے میں اسے آنکھ کی دیگر بیماریوں کےلیے تیار کی گئی نئی دوائیں آزمانے میں استعمال کیا جائے گا۔
 
 
خیبرپختونخواہ: خیبرپختونخوا کے تین اضلاع میں 5 نئے پولیو کیسز سامنے آئے جن میں 3 بچیوں اور 2 بچون میں پولیو وائرس پایا گیا۔
 
ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے مطابق بنوں میں پولیو کے تین کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ چارسدہ اور شمالی وزیرستان میں ایک ایک کیس رپورٹ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق پولیو وائرس کا شکار ہونے والوں میں 3 بچیاں اور 2 بچے شامل ہیں۔
 
ایمرجنسی آپریشن سینٹر کی رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں پولیو کیسز کی تعداد 41 ہوگئی ہے۔

واشنگٹن:  

قدرت کے خزانوں میں چیری ایک لاجواب پھل ہے۔ اب ٹماٹر جیسی سرخ رنگت والی کھٹی چیری میں ایسے مرکبات کا انکشاف ہوا ہے جو خصوصاً بزرگ افراد میں دماغی و ذہنی صلاحیت کو بہتر بناسکتے ہیں۔

اسی بنا پر محققین عمرسیدہ افراد کو ٹارٹ چیری کا رس پینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اس میں موجود حیاتیاتی مرکبات یادداشت، ردِ عمل اور دیگر اعصابی امور کو تقویت دیتے ہیں۔

امریکہ میں یونیورسٹی آف ڈیلاور کے سائنسدانوں نے چیری کی افادیت جانچنے کے لیے 65 سے 73 سال کے 34 افراد کو بھرتی کیا جو بظاہر تندرست تھے۔ ان افراد کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے گروہ کو روزانہ صبح اور شام 480 ملی لیٹر ٹارٹ چیری کا جوس دیا گیا اور یہ عمل 12 ہفتوں تک جاری رکھا گیا۔ دوسرے گروہ کو ایک فرضی مشروب دیا جاتا رہا۔

اس دوران مطالعے میں شریک افراد میں سے کسی نے بھی دماغی قوت بڑھانے والی دوائیں نہیں کھائی اور شرکا پورے عرصے میں اپنی معمول کی غذائیں کھاتے رہے اور معمولاتِ زندگی انجام دیتے رہے۔ ان میں سے کسی کو بھی نہیں بتایا گیا کہ کسے چیری کا رس دیا گیا ہے اور کسے عام مشروب پلایا جارہا ہے۔

12 ہفتے بعد تمام شرکا کے ٹٰیسٹ لیے گئے تو دلچسپ نتائج سامنے آئے۔ جن افراد نے چیری کا رس استعمال کیا انہوں نے بصری یادداشت کے ایک ٹیسٹ میں 23 فیصد کم غلطیاں کیں۔ جبکہ عام مشروب پینے والے افراد کی عین اسی ٹیسٹ میں بہت معمولی بہتری دیکھی گئی۔ اس وژول ٹیسٹ کا مقصد بصری یادداشت اور نئی باتیں سیکھنے کی صلاحیت کو چانچنا تھا۔

چیری کا جوس پینے والے افراد نے یہ بھی کہا کہ انہیں اپنی یادداشت پر اعتماد میں 5 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے بعد وہ چیزوں کو اچھی طرح یاد کرنے لگے ہیں۔ ان بزرگوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں چلنے پھرنے میں 4 فیصد بہتری ہوئی جسے ایک خاص ٹیسٹ سےبھی ناپا گیا۔ بصری معلومات کو سمجھنے میں تین فیصد اضافہ ہوا۔ تمام شرکا نے یادداشت کے مجموعی ٹیسٹ، جگہوں کے تعین اور حکمتِ عملی کے استعمال میں بھی 18 فیصد اضافے کا اعتراف کیا۔

یہ بہت حوصلہ افزا نتائج ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹماٹر جیسی سرخ رنگت والی چیری میں پولی فینولز، میلانِن اور اینتھوسائنِن پائے جاتے ہیں۔ یہ سب انسانی دماغی صلاحیت کو بڑھاتے ہیں اور اسی بنا پر ماہرین عمررسیدہ افراد کو چیری کا جوس پینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

مانیٹرنگ ڈیسک : سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر تاریخ کے سب سے بڑے ڈیٹا اسکینڈل میں 5 بلین ڈالر جرمانہ عائد کردیا گیا۔
 
امریکی فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے فیس بک پر87 ملین صارفین کے ڈیٹا کواستعمال کرنے سے متعلق تاریخ کے سب سے بڑے جرمانے 5 بلین ڈالرز کی منظوری دے دی۔
 
امریکی میڈیا کے مطابق فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) نے مارچ 2018 میں فیس بک کے خلاف تحقیقات شروع کی تھیں جس میں یہ بات سامنے آئی کہ کیمبرج تجزیاتی ڈیٹا نے فیس بک کے صارفین کے ڈیٹا کی رسائی حاصل کی ہے۔
 
تحقیقات میں بات واضح کی گئی کہ فیس بک نے 2011 کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جس کے تحت اسے صارفین کا ڈیٹا حاصل کرنے سے پہلے ان کی رضا مندی اور انہیں اس حوالے سے مطلع کرنا ضروری تھا۔
 
گزشتہ سال فیس بک نے اعتراف کیا کہ انہوں نے صارفین کے ڈیٹا کا استعمال کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ صارفین کو اس حوالے سے مطلع کریں گے ۔
 
جرمانے کی رقم پر بہت سے سیاست دان اور لوگوں نے تنقید کی ہے کہ یہ صارفین کے ڈیٹا چوری کرنے کے لحاظ سے بہت کم ہے۔
 
فیس بک پر عائد کیے گئے جرمانے کی رقم 5 بلین ڈالر ہے یہ فیس بک کے منافع کا ایک چوتھائی حصہ ہے جب کہ اس قیمت میں سے 45 کروڑ ڈالر کی نقد رقم ہے۔
Page 2 of 36